سپریم کورٹ فوج سے پیسے لینے والوں سے رقم سود سمیت واپس لینے کا حکم
صدر کا عہدہ غیرسیاسی ہے،الیکشن شفاف اور ایوان صدر کو اثرانداز نہیں ہونا چاہیے،اصغر خان کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری
سپریم کورٹ نے اصغرخان کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا جس میں قرار دیا گیا ہے کہ سابق آرمی چیف مرزا اسلم بیگ اور ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل(ر) اسد درانی رقوم تقسیم کرکے فوج کی بدنامی کا باعث بنے۔
141صفحات پر مشتمل فیصلہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے لکھا ہے جس میں 19اکتوبرکو سنائے گئے مختصر حکم کو حقائق اور قانون کی کسوٹی پر پرکھا گیا۔ رجسٹرار سپریم کورٹ ڈاکٹر فقیرحسین نے پریس کانفرنس میں یہ تفصیلی فیصلہ جاری کیا، عدالت نے درخواست گزار ایئر مارشل(ر) اصغر خان کے اس دعوے کو درست قرار دیا کہ 1990کے الیکشن میں دھاندلی ہوئی اور پیپلز پارٹی کو ہرانے کیلئے اسلامی جمہوری اتحاد میں شامل سیاسی رہنمائوں اور دیگر افراد میں رقوم تقسیم کی گئیں جو یونس حبیب نے حبیب بنک سے نکال کر آئی ایس آئی کے بینک اکائونٹ میں جمع کی تھیں۔
فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ صدر غلام اسحاق خان،آرمی چیف مرزا اسلم بیگ اور اسد درانی آئین کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے اور انھوں نے اپنے عہدوں کا غلط استعمال کیا، اسلم بیگ اور اسد درانی کا یہ اقدام فوج کی بدنامی کا باعث بنا، فیصلے میں دونوں کیخلاف کارروائی کیلیے کہا گیا جبکہ یہ قرار دیا گیا ہے کہ غلام اسحاق خان نے اپنے منصب کے منافی عمل کیا جو ان کو زیب نہیں دے رہا تھا اور نہ ہی آئین ان کو سیاست میں مداخلت کی اجازت دے رہا تھا، انتخابی نتائج پر اثر انداز ہونے کے اس عمل کو غیر آئینی قرار دیا گیا ہے اور تقسیم کی گئی۔
تمام رقم سود سمیت واپس وصول کرنے کے لیے کارروائی کی ہدایت کی گئی ہے۔ تفصیلی فیصلے میں سابق آرمی چیف مرزا اسلم بیگ، ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننیٹ جنرل(ر) اسد درانی، یونس حبیب کی طرف سے پیش کیے گئے بیان حلفی کے علاوہ ملٹری انٹیلی جنس کے سنیئر افسر بریگیڈیئر (ر) حامد سعید کا بیان حلفی بھی شامل کیا گیا ہے جبکہ قومی اسمبلی میں اس سکینڈل سے متعلق وزیر داخلہ نصیراللہ بابر کی تقریر کو بھی فیصلے کا حصہ بنایا گیا ہے جس میں رقوم کے اہتمام اور تقسیم کی تصدیق کی گئی ہے۔ اسد درانی کے بیان حلفی کے مطابق انھیں آرمی چیف نے سیاستدانوں کے ساتھ رابطے اور رقم دینے کے لیے کہا تھا، رقم کا اہتمام یونس حبیب نے کیا تھاجس کی مالیت 14کروڑ تھی، 6کروڑآرمی چیف کی ہدایت کے مطابق تقسیم ہوئے اور باقی رقم خصوصی فنڈ میں جمع کی گئی۔
میر افضل خان کو ایک کروڑ، نوازشریف کو35لاکھ، لیفٹیننٹ جنرل(ر)رفاقت56لاکھ، جماعت اسلامی50لاکھ، عابدہ حسین10لاکھ، الطاف حسن قریشی اور مصطفٰی صادق کو مشترکہ طور پر5لاکھ، پنجاب کی چھوٹی جماعتوں کو33لاکھ 39ہزار، غلام مصطفٰی جتوئی کو50لاکھ، جام صادق50لاکھ، پیر پگاڑا25لاکھ، محمدخان جونیجو25لاکھ، صلاح الدین کو 3 لاکھ اور سندھ کی چھوٹی جماعتوں کو54لاکھ دیے گئے، ہمایوں مری کو15لاکھ، جمالی کو40لاکھ، کاکڑ 10لاکھ، جام یوسف ساڑھے7لاکھ، کے بلوچ 5 لاکھ، بزنجو50 لاکھ، ندیم مینگل کو ایک لاکھ روپے دیے گئے۔
وزیر اعظم بینظیر بھٹو کے نام اسد درانی کے خط کے مطابق انھوں نے غلام مصطفٰی کھر کو 20لاکھ، حفیظ پیرزادہ کو30لاکھ، سرورچیمہ کو5لاکھ اورمعراج خالد کو2لاکھ روپے دیے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ایوان صدر نے سیاسی عمل کو آلودہ کیا، صدر مملکت کا عہدہ غیرسیاسی، ریاست کے اتحاد کی علامت اور غیر جانبداری کا متقاضی ہے، صدر کو ہر قسم کی سیاست سے دور رہنا چاہیے، اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو اس عہدے کی غیر جانبداری جو آئین نے مہیا کی ہے، ختم ہو جائے گی اور اس کی توقیر باقی نہیں رہے گی۔ فیصلے میں عدالت نے سیاست میں صدر کے کردارکے بارے میں اٹارنی جنرل کے دلائل مسترد کیے اور قرار دیا کہ صدر مملکت ایوان صدر میں داخل ہونے سے پہلے حلف اٹھاتے ہیں کہ وہ غیر جانبدار رہیں گے، ان کا عہدہ علامتی ہے، وہ ریاست کے سربراہ ہیں حکومت کے نہیں۔
اس ضمن میں 1973کا آئین لاگو ہونے کے بعد ملک کے پہلے صدر فضل الٰہی کاحوالہ دیا گیا ہے کہ وہ پیپلز پارٹی کے رکن تھے لیکن صدر بننے کے بعد سیاست سے الگ ہوئے، عام انتخابات شفاف ہونے چاہیئںاور ایوان صدر کو اس پر اثرانداز نہیں ہونا چاہیے، ایوان صدر میں کوئی سیاسی سیل نہیں ہونا چاہیے اور افسران کو غیر قانونی حکم نہیں ماننا چاہیے۔ خفیہ اداروں کا کام الیکشن سیل بنانا نہیں، تفصیلی فیصلے میں شامل بیانات حلفی کے مطابق اسلم بیگ نے تمام ذمہ داری صدر غلام اسحاق خان اور اسد درانی نے اسلم بیگ پر ڈالی ہے۔ سپریم کورٹ نے 2008-09 میں پنجاب حکومت گرانے کیلیے انٹیلی جنس بیورو کے فنڈز استعمال کرنے کا معاملہ الگ سے سننے کا فیصلہ کیا ہے اور اس کیلئے دو ہفتے کے اندر بنچ تشکیل دینے کی ہدایت کی گئی ہے۔
تفصیلی فیصلے کا اختتام اس نوٹ کے ساتھ کیا گیا ہے کہ اس ضمن میں ایکسپریس ٹربیون کی رپورٹ کو متفرق درخواست میں تبدیل کرکے رپورٹر ،پرنٹر اور پبلشر کو نوٹس جاری کر دیا ہے جبکہ ڈائریکٹر جنرل آئی بی اور اٹارنی جنرل کو بھی نوٹس جاری کر دیا گیا ہے، اس کیس کو دو ہفتے بعد سنا جائے گا۔ دریں اثنا سپریم کورٹ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی مقدمے کا تفصیلی فیصلہ رجسٹرار نے پریس کانفرنس میں جاری کیا۔ انھوں نے بتایا کہ چونکہ یہ ایک اہم کیس ہے اور اس کے ملکی مستقبل پر دوررس اثرات ہوں گے، اس لیے اس پریس کانفرنس کا اہتمام کیا گیا تاکہ رپورٹنگ میں کوئی غلطی یا ابہام نہ رہے۔انھوں نے کہا کہ پاکستان میں اسمبلیوں کی تحلیل، انتخابات کے تاریخی پس منظر کیساتھ فیصلے میں تمام بیان حلفی، سیاست میں صدر کی مداخلت اور اٹارنی جنرل کے دلائل کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔
141صفحات پر مشتمل فیصلہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے لکھا ہے جس میں 19اکتوبرکو سنائے گئے مختصر حکم کو حقائق اور قانون کی کسوٹی پر پرکھا گیا۔ رجسٹرار سپریم کورٹ ڈاکٹر فقیرحسین نے پریس کانفرنس میں یہ تفصیلی فیصلہ جاری کیا، عدالت نے درخواست گزار ایئر مارشل(ر) اصغر خان کے اس دعوے کو درست قرار دیا کہ 1990کے الیکشن میں دھاندلی ہوئی اور پیپلز پارٹی کو ہرانے کیلئے اسلامی جمہوری اتحاد میں شامل سیاسی رہنمائوں اور دیگر افراد میں رقوم تقسیم کی گئیں جو یونس حبیب نے حبیب بنک سے نکال کر آئی ایس آئی کے بینک اکائونٹ میں جمع کی تھیں۔
فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ صدر غلام اسحاق خان،آرمی چیف مرزا اسلم بیگ اور اسد درانی آئین کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے اور انھوں نے اپنے عہدوں کا غلط استعمال کیا، اسلم بیگ اور اسد درانی کا یہ اقدام فوج کی بدنامی کا باعث بنا، فیصلے میں دونوں کیخلاف کارروائی کیلیے کہا گیا جبکہ یہ قرار دیا گیا ہے کہ غلام اسحاق خان نے اپنے منصب کے منافی عمل کیا جو ان کو زیب نہیں دے رہا تھا اور نہ ہی آئین ان کو سیاست میں مداخلت کی اجازت دے رہا تھا، انتخابی نتائج پر اثر انداز ہونے کے اس عمل کو غیر آئینی قرار دیا گیا ہے اور تقسیم کی گئی۔
تمام رقم سود سمیت واپس وصول کرنے کے لیے کارروائی کی ہدایت کی گئی ہے۔ تفصیلی فیصلے میں سابق آرمی چیف مرزا اسلم بیگ، ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننیٹ جنرل(ر) اسد درانی، یونس حبیب کی طرف سے پیش کیے گئے بیان حلفی کے علاوہ ملٹری انٹیلی جنس کے سنیئر افسر بریگیڈیئر (ر) حامد سعید کا بیان حلفی بھی شامل کیا گیا ہے جبکہ قومی اسمبلی میں اس سکینڈل سے متعلق وزیر داخلہ نصیراللہ بابر کی تقریر کو بھی فیصلے کا حصہ بنایا گیا ہے جس میں رقوم کے اہتمام اور تقسیم کی تصدیق کی گئی ہے۔ اسد درانی کے بیان حلفی کے مطابق انھیں آرمی چیف نے سیاستدانوں کے ساتھ رابطے اور رقم دینے کے لیے کہا تھا، رقم کا اہتمام یونس حبیب نے کیا تھاجس کی مالیت 14کروڑ تھی، 6کروڑآرمی چیف کی ہدایت کے مطابق تقسیم ہوئے اور باقی رقم خصوصی فنڈ میں جمع کی گئی۔
میر افضل خان کو ایک کروڑ، نوازشریف کو35لاکھ، لیفٹیننٹ جنرل(ر)رفاقت56لاکھ، جماعت اسلامی50لاکھ، عابدہ حسین10لاکھ، الطاف حسن قریشی اور مصطفٰی صادق کو مشترکہ طور پر5لاکھ، پنجاب کی چھوٹی جماعتوں کو33لاکھ 39ہزار، غلام مصطفٰی جتوئی کو50لاکھ، جام صادق50لاکھ، پیر پگاڑا25لاکھ، محمدخان جونیجو25لاکھ، صلاح الدین کو 3 لاکھ اور سندھ کی چھوٹی جماعتوں کو54لاکھ دیے گئے، ہمایوں مری کو15لاکھ، جمالی کو40لاکھ، کاکڑ 10لاکھ، جام یوسف ساڑھے7لاکھ، کے بلوچ 5 لاکھ، بزنجو50 لاکھ، ندیم مینگل کو ایک لاکھ روپے دیے گئے۔
وزیر اعظم بینظیر بھٹو کے نام اسد درانی کے خط کے مطابق انھوں نے غلام مصطفٰی کھر کو 20لاکھ، حفیظ پیرزادہ کو30لاکھ، سرورچیمہ کو5لاکھ اورمعراج خالد کو2لاکھ روپے دیے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ایوان صدر نے سیاسی عمل کو آلودہ کیا، صدر مملکت کا عہدہ غیرسیاسی، ریاست کے اتحاد کی علامت اور غیر جانبداری کا متقاضی ہے، صدر کو ہر قسم کی سیاست سے دور رہنا چاہیے، اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو اس عہدے کی غیر جانبداری جو آئین نے مہیا کی ہے، ختم ہو جائے گی اور اس کی توقیر باقی نہیں رہے گی۔ فیصلے میں عدالت نے سیاست میں صدر کے کردارکے بارے میں اٹارنی جنرل کے دلائل مسترد کیے اور قرار دیا کہ صدر مملکت ایوان صدر میں داخل ہونے سے پہلے حلف اٹھاتے ہیں کہ وہ غیر جانبدار رہیں گے، ان کا عہدہ علامتی ہے، وہ ریاست کے سربراہ ہیں حکومت کے نہیں۔
اس ضمن میں 1973کا آئین لاگو ہونے کے بعد ملک کے پہلے صدر فضل الٰہی کاحوالہ دیا گیا ہے کہ وہ پیپلز پارٹی کے رکن تھے لیکن صدر بننے کے بعد سیاست سے الگ ہوئے، عام انتخابات شفاف ہونے چاہیئںاور ایوان صدر کو اس پر اثرانداز نہیں ہونا چاہیے، ایوان صدر میں کوئی سیاسی سیل نہیں ہونا چاہیے اور افسران کو غیر قانونی حکم نہیں ماننا چاہیے۔ خفیہ اداروں کا کام الیکشن سیل بنانا نہیں، تفصیلی فیصلے میں شامل بیانات حلفی کے مطابق اسلم بیگ نے تمام ذمہ داری صدر غلام اسحاق خان اور اسد درانی نے اسلم بیگ پر ڈالی ہے۔ سپریم کورٹ نے 2008-09 میں پنجاب حکومت گرانے کیلیے انٹیلی جنس بیورو کے فنڈز استعمال کرنے کا معاملہ الگ سے سننے کا فیصلہ کیا ہے اور اس کیلئے دو ہفتے کے اندر بنچ تشکیل دینے کی ہدایت کی گئی ہے۔
تفصیلی فیصلے کا اختتام اس نوٹ کے ساتھ کیا گیا ہے کہ اس ضمن میں ایکسپریس ٹربیون کی رپورٹ کو متفرق درخواست میں تبدیل کرکے رپورٹر ،پرنٹر اور پبلشر کو نوٹس جاری کر دیا ہے جبکہ ڈائریکٹر جنرل آئی بی اور اٹارنی جنرل کو بھی نوٹس جاری کر دیا گیا ہے، اس کیس کو دو ہفتے بعد سنا جائے گا۔ دریں اثنا سپریم کورٹ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی مقدمے کا تفصیلی فیصلہ رجسٹرار نے پریس کانفرنس میں جاری کیا۔ انھوں نے بتایا کہ چونکہ یہ ایک اہم کیس ہے اور اس کے ملکی مستقبل پر دوررس اثرات ہوں گے، اس لیے اس پریس کانفرنس کا اہتمام کیا گیا تاکہ رپورٹنگ میں کوئی غلطی یا ابہام نہ رہے۔انھوں نے کہا کہ پاکستان میں اسمبلیوں کی تحلیل، انتخابات کے تاریخی پس منظر کیساتھ فیصلے میں تمام بیان حلفی، سیاست میں صدر کی مداخلت اور اٹارنی جنرل کے دلائل کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔