ہم ہیں پہچان وطن کی
چند قابلِ ذکر پاکستانی خواتین جو دنیا بھر میں روشن حوالہ بنیں
ہمارے معاشرے میں عورت کے ساتھ صنفی بنیاد پر امتیاز برتنے اور ان کے ساتھ گھر اور گھر سے باہر بھی ناانصافی اور ناروا سلوک کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ عورت کو کسی شعبے میں آگے بڑھنے اور اپنی صلاحیتوں کے اظہار میں رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اس کے باوجود عورت نہ صرف اپنے گھر میں محبت، ایثار اور خلوص و وفا کا پیکر اور خدمت گزار نظر آتی ہے بلکہ گھر سے باہر عملی میدان میں بھی اپنا کردار بحسن و خوبی نبھارہی ہے۔ ایک ایسے معاشرے میں جہاں عورت فقط ایک 'جنس' ہو اور اسی بنیاد پر اپنائی اور ٹھکرائی جاتی ہو وہاں خواتین کی جانب سے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانا اور کسی شعبے میں نمایاں مقام حاصل کرنا یقیناً لائقِ تحسین ہے۔
یہ چند باہمت اور مختلف شعبوں میں کار ہائے نمایاں انجام دینے والی خواتین کا ذکر ہے جو نہ صرف پاکستانی عورتوں کے لیے روشن مثال ہیں بلکہ دنیا میں پاکستان کی پہچان بھی ہیں۔
شرمین عبید چنائے
شرمین عبید چنائے وہ پہلی پاکستانی خاتون جنہوں نے دستاویزی فلموں کے حوالے سے دو آسکر ایوارڈز حاصل کیے۔ کراچی سے تعلق رکھنے والی شرمین نے اپنے شعبے میں اپنی قابلیت اور تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار کر کے خود کو دنیا بھر میں منوایا اور پاکستان کا معتبر حوالہ ثابت ہوئیں۔ شرمین عبید چنائے نے ہمارے معاشرے میں خواتین پر ہونے والے مظالم اور اس کے ساتھ ناانصافی جیسے حساس موضوع کا چناؤ کرتے ہوئے دستاویزی فلم بنائی اور آسکر ایوارڈ کی حق دار بنیں۔
انہیں پہلا آسکر ایوارڈ ''سیونگ فیس Saving Face نامی دستاویزی فلم پر دیا گیا تھا، جو خواتین پر تیزاب پھینکنے کے واقعات اور اس کے نتیجے میں جنم لینے والی الم ناک داستان تھی۔
اس سال وہ پاکستان لوٹیں تو دوسرا آسکر ایوارڈ ان کے ہاتھوں میں تھا۔ یہ ایوارڈ انہیں اپنی دستاویزی فلم ''اے گرل ان دا ریور'' کے لیے ملا ہے جس کا موضوع پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل ہے۔ دنیا نے شرمین عبید چنائے کے کام کو سراہا اور ان کی تخلیقی صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہوئے مختلف تنظیموں اور انجمنوں کی جانب سے بھی انہیں متعدد ایوارڈز دیے گئے ہیں۔ حکومتِ پاکستان کی جانب سے شرمین عبید چنائے کو ہلال امتیاز سے نوازا گیا ہے۔
نرگس ماول والا
نرگس ماول والا بھی ایک پاکستانی خاتون ہیں جنہوں نے سائنس کے میدان میں ملک کا نام روشن کیا اور قوم کے لیے فخر کا باعث بنیں۔ کراچی میں پیدا ہونے والی نرگس ماول والا آسٹرو فزسٹ ہیں۔
خلا میں کشش ثقل کی لہروں سے متعلق ایک نئی تھیوری اور اس ضمن میں تحقیقی پیش رفت سامنے آئی جو ایک ٹیم ورک کا نتیجہ تھی۔ فلکیاتی طبیعیات سے متعلق اس تحقیق میں دنیا کے مختلف ماہرین نے حصہ لیا اور نرگس ماول والا بھی اسی ٹیم کا حصّہ تھیں۔ وہ میساچوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) کے شعبۂ طبیعیات سے وابستہ ہیں۔
اس سائنسی تحقیقی منصوبے سے جڑی نرگس ماول والا کی ابتدائی تحقیق کشش ثقل کی لہروں کی دریافت کے لیے آلات بنانے سے متعلق تھی۔ سائنس کے شعبے میں ان کی قابلیت کے اعتراف کے طور پر چند سال قبل انہیں ایک ایوارڈ بھی دیا گیا تھا۔
بلقیس ایدھی
بلقیس ایدھی کا نام دنیا بھر میں پاکستان کا روشن اور معتبر حوالہ ہے۔ انسان دوست اور سماجی کارکن کے طور پر شہرت رکھنے والی بلقیس ایدھی کئی برسوں سے اپنے شوہر عبدالستار ایدھی کے شانہ بہ شانہ دکھی اور مجبور انسانوں کے لیے خدمات انجام دے رہی ہیں۔ ان کی غریب اور مظلوم عورتوں کے لیے بے لوث خدمات کے اعتراف میں متعدد ایوارڈز سے نوازا گیا ہے جس میں ہلال امتیاز بھی شامل ہے۔ گذشتہ سال ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے بھارت میں مدر ٹریسا ایوارڈ دیا گیا۔
عائشہ فاروق
جذبۂ حُب الوطنی سے مالا مال پاکستانی عائشہ فاروق کا تعلق پنجاب کے ضلع بہاول پور سے ہے۔ وطن کے دفاع کے لیے جنگجو لڑاکا پائلٹ بننے والی عائشہ فاروق کا تعلق بہاولپور سے ہے۔ پاک فضائیہ کی پائلٹ بننے والی عائشہ فاروق فلائٹ لیفٹننٹ کے عہدے پر فائز ہیں۔
فضائیہ کی فائٹر پائلٹ کے لیے امتحان میں کام یاب ہونے کے بعد وہ اپنے وطن کے دفاع کے لیے پُرعزم نظر آتی ہیں۔ عائشہ فاروق نے لڑاکا جیٹ طیارے میں اڑان بھرنے کی تربیت مکمل کرنے اور اس کا عملی مظاہرہ کر کے ثابت کیا کہ پاکستانی عورت باہمت ہے اور تعلیم حاصل کرکے کسی بھی شعبے میں اپنی صلاحیتوں کی بنیاد پر مقام و مرتبہ حاصل کر سکتی ہے۔
نمیرا سلیم
نمیرا سلیم پہلی پاکستان خلاباز خاتون ہیں۔ نمیرا سلیم خلا کا سفر کرنے والے ان سو افراد میں شامل تھیں جن کا ہزاروں خواہش مندوں میں سے چناؤ گیا تھا۔ نمیرا پہلی پاکستانی اور پہلی ایشیائی خاتون بھی ہیں جنہوں نے دنیا کی بلند پہاڑی چوٹیوں میں سے ایک ماؤنٹ ایورسٹ سے skydiveکیا۔ ان کا تعلق کراچی سے ہے۔ نمیرا سلیم کی صلاحیتوں کے اعتراف میں حکومتِ پاکستان کی جانب سے 2011 میں تمغۂ امتیاز سے نوازا گیا۔
اس کے باوجود عورت نہ صرف اپنے گھر میں محبت، ایثار اور خلوص و وفا کا پیکر اور خدمت گزار نظر آتی ہے بلکہ گھر سے باہر عملی میدان میں بھی اپنا کردار بحسن و خوبی نبھارہی ہے۔ ایک ایسے معاشرے میں جہاں عورت فقط ایک 'جنس' ہو اور اسی بنیاد پر اپنائی اور ٹھکرائی جاتی ہو وہاں خواتین کی جانب سے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانا اور کسی شعبے میں نمایاں مقام حاصل کرنا یقیناً لائقِ تحسین ہے۔
یہ چند باہمت اور مختلف شعبوں میں کار ہائے نمایاں انجام دینے والی خواتین کا ذکر ہے جو نہ صرف پاکستانی عورتوں کے لیے روشن مثال ہیں بلکہ دنیا میں پاکستان کی پہچان بھی ہیں۔
شرمین عبید چنائے
شرمین عبید چنائے وہ پہلی پاکستانی خاتون جنہوں نے دستاویزی فلموں کے حوالے سے دو آسکر ایوارڈز حاصل کیے۔ کراچی سے تعلق رکھنے والی شرمین نے اپنے شعبے میں اپنی قابلیت اور تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار کر کے خود کو دنیا بھر میں منوایا اور پاکستان کا معتبر حوالہ ثابت ہوئیں۔ شرمین عبید چنائے نے ہمارے معاشرے میں خواتین پر ہونے والے مظالم اور اس کے ساتھ ناانصافی جیسے حساس موضوع کا چناؤ کرتے ہوئے دستاویزی فلم بنائی اور آسکر ایوارڈ کی حق دار بنیں۔
انہیں پہلا آسکر ایوارڈ ''سیونگ فیس Saving Face نامی دستاویزی فلم پر دیا گیا تھا، جو خواتین پر تیزاب پھینکنے کے واقعات اور اس کے نتیجے میں جنم لینے والی الم ناک داستان تھی۔
اس سال وہ پاکستان لوٹیں تو دوسرا آسکر ایوارڈ ان کے ہاتھوں میں تھا۔ یہ ایوارڈ انہیں اپنی دستاویزی فلم ''اے گرل ان دا ریور'' کے لیے ملا ہے جس کا موضوع پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل ہے۔ دنیا نے شرمین عبید چنائے کے کام کو سراہا اور ان کی تخلیقی صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہوئے مختلف تنظیموں اور انجمنوں کی جانب سے بھی انہیں متعدد ایوارڈز دیے گئے ہیں۔ حکومتِ پاکستان کی جانب سے شرمین عبید چنائے کو ہلال امتیاز سے نوازا گیا ہے۔
نرگس ماول والا
نرگس ماول والا بھی ایک پاکستانی خاتون ہیں جنہوں نے سائنس کے میدان میں ملک کا نام روشن کیا اور قوم کے لیے فخر کا باعث بنیں۔ کراچی میں پیدا ہونے والی نرگس ماول والا آسٹرو فزسٹ ہیں۔
خلا میں کشش ثقل کی لہروں سے متعلق ایک نئی تھیوری اور اس ضمن میں تحقیقی پیش رفت سامنے آئی جو ایک ٹیم ورک کا نتیجہ تھی۔ فلکیاتی طبیعیات سے متعلق اس تحقیق میں دنیا کے مختلف ماہرین نے حصہ لیا اور نرگس ماول والا بھی اسی ٹیم کا حصّہ تھیں۔ وہ میساچوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) کے شعبۂ طبیعیات سے وابستہ ہیں۔
اس سائنسی تحقیقی منصوبے سے جڑی نرگس ماول والا کی ابتدائی تحقیق کشش ثقل کی لہروں کی دریافت کے لیے آلات بنانے سے متعلق تھی۔ سائنس کے شعبے میں ان کی قابلیت کے اعتراف کے طور پر چند سال قبل انہیں ایک ایوارڈ بھی دیا گیا تھا۔
بلقیس ایدھی
بلقیس ایدھی کا نام دنیا بھر میں پاکستان کا روشن اور معتبر حوالہ ہے۔ انسان دوست اور سماجی کارکن کے طور پر شہرت رکھنے والی بلقیس ایدھی کئی برسوں سے اپنے شوہر عبدالستار ایدھی کے شانہ بہ شانہ دکھی اور مجبور انسانوں کے لیے خدمات انجام دے رہی ہیں۔ ان کی غریب اور مظلوم عورتوں کے لیے بے لوث خدمات کے اعتراف میں متعدد ایوارڈز سے نوازا گیا ہے جس میں ہلال امتیاز بھی شامل ہے۔ گذشتہ سال ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے بھارت میں مدر ٹریسا ایوارڈ دیا گیا۔
عائشہ فاروق
جذبۂ حُب الوطنی سے مالا مال پاکستانی عائشہ فاروق کا تعلق پنجاب کے ضلع بہاول پور سے ہے۔ وطن کے دفاع کے لیے جنگجو لڑاکا پائلٹ بننے والی عائشہ فاروق کا تعلق بہاولپور سے ہے۔ پاک فضائیہ کی پائلٹ بننے والی عائشہ فاروق فلائٹ لیفٹننٹ کے عہدے پر فائز ہیں۔
فضائیہ کی فائٹر پائلٹ کے لیے امتحان میں کام یاب ہونے کے بعد وہ اپنے وطن کے دفاع کے لیے پُرعزم نظر آتی ہیں۔ عائشہ فاروق نے لڑاکا جیٹ طیارے میں اڑان بھرنے کی تربیت مکمل کرنے اور اس کا عملی مظاہرہ کر کے ثابت کیا کہ پاکستانی عورت باہمت ہے اور تعلیم حاصل کرکے کسی بھی شعبے میں اپنی صلاحیتوں کی بنیاد پر مقام و مرتبہ حاصل کر سکتی ہے۔
نمیرا سلیم
نمیرا سلیم پہلی پاکستان خلاباز خاتون ہیں۔ نمیرا سلیم خلا کا سفر کرنے والے ان سو افراد میں شامل تھیں جن کا ہزاروں خواہش مندوں میں سے چناؤ گیا تھا۔ نمیرا پہلی پاکستانی اور پہلی ایشیائی خاتون بھی ہیں جنہوں نے دنیا کی بلند پہاڑی چوٹیوں میں سے ایک ماؤنٹ ایورسٹ سے skydiveکیا۔ ان کا تعلق کراچی سے ہے۔ نمیرا سلیم کی صلاحیتوں کے اعتراف میں حکومتِ پاکستان کی جانب سے 2011 میں تمغۂ امتیاز سے نوازا گیا۔