عالمی یوم خواتین اور حقیقی مسائل
مغربی ممالک، بلکہ ایشیائی اور افریقی ملکوں میں خواتین کے حوالے سے مختلف تقریبات کا اہتمام ہوتا ہے
اکتالیس سال پہلے اقوام متحدہ نے 1975کو خواتین کا عالمی سال قراردیا، تودنیا بھرکی خواتین نے رنگ، نسل، مذہب اور وطن کا امتیازکیے بغیر اپنے اتحاد کا مظاہرہ کیا، خواتین خواہ کسی ملک و قوم سے تعلق رکھتی ہوں، ان میں اپنے مسائل کا بھرپور ادراک قدر مشترک کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس وقت سے 8مارچ خواتین کے عالمی دن کے طور پر منایا جارہا ہے۔
اس دن نہ صرف مغربی ممالک، بلکہ ایشیائی اور افریقی ملکوں میں خواتین کے حوالے سے مختلف تقریبات کا اہتمام ہوتا ہے، خواتین کو درپیش مسائل کا جائزہ لے کر ان کے حل کے لیے مختلف تجاویز اور ان پر عملدرآمد کی کوششوں کے بارے میں غورکیا جاتا ہے، ان اقدامات کا ہی نتیجہ ہے کہ عورت آج دنیا کے ہر خطے میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواتی نظر آرہی ہے اور ان اولوالعزم، باہمت و باحوصلہ خواتین کی فہرست میں کئی پاکستانی خواتین بھی شامل ہیں۔
اب وہ بھی کسی سے کم نہیں، محدود وسائل اور لاتعداد مشکلات کے باوجود آج پاکستانی عورت نے بھی ملکی و بین الاقوامی سطح پر اپنی قابلیت کا سکہ جمالیا ہے، وہ آئی ٹی کا شعبہ ہو یا فلم کی دنیا، انسانی حقوق کے حوالے سے خدمات ہوں یا ادب کا وسیع میدان، خلا میں جانے کی بات ہو یا پہاڑوں کی تسخیر کا جنون، ہر ہر میدان میں پاکستانی خواتین کارہائے نمایاں انجام دیتی نظر آرہی ہیں مگر ان سب باتوں کے باوجود خواتین کے حقیقی مسائل جوں کے توں ہیں۔ فرق اگر آیا ہے تو صرف اتنا کہ گھر کی چار دیواری سے نکل کر ملازمت کرنے والی خواتین کی تعداد کئی گنا بڑھ گئی ہے۔
مغرب تو مغرب ہے مگر مشرق میں حوا کی بیٹی کا حال زیادہ برا ہے، زمانے کی ترقی کے باوجود سماج میں خواتین کو اپنی حیثیت اور مرتبے کے مطابق جائز مقام حاصل نہیں، وہ سب کچھ ہوتی ہے مگر اسے کچھ نہیں سمجھا جاتا، بیوی ہونے کے باوجود وہ شوہر سے اپنا حق نہیں منواسکتی، ماں ہونے کے باوجود وہ اپنی اولاد کو اس کے فرائض یاد نہیں دلاسکتی، وہ گھر جو قدم قدم پر اس کے دم سے آباد ہوتا ہے جس کوبنانے اور سنوارنے میں وہ اپنی زندگی کا ایک ایک پل صرف کردیتی ہے۔
اس گھر پر اس کا کوئی حق تسلیم نہیں کیا جاتا، اگر وہ بیوی ہے تو شوہر کے پیر کی جوتی، ماں ہے تو اولاد کی ناقدری کا شکار، ان کے کرتوتوں سے تنگ اور نالاں، بیٹی ہے تو والدین پر بوجھ، بہن ہے تو رویوں اور روایات کی قیدی، مشرقی عورت کے مقابلے میں مغربی معاشرے کی عورت بظاہر آزاد ہے، اپنے سماجی و قانونی حقوق سے آگاہ اور بھرپور اختیار کی مالک، مردوں کے ساتھ مساوی حقوق اور حیثیت کی حامل، لیکن اس آزادی نے ان کے لیے نت نئے مسائل پیدا کردیے ہیں، پہلی بات تو یہ ہے کہ اس آزادی نے انھیں بے راہ روی کی دلدل میں دھکیل دیا ہے، آزادی کا سبز باغ دکھاکر ان کی نسوانیت چھین لی گئی ہے۔
انھیں اخلاقی پستیوں میں گرادیا گیا ہے، وہ آزاد ہے، خود مختار ہے، تمام قانونی حقوق رکھتی ہے، مگر اس کی حیثیت کھلونے سے زیادہ نہیں، روشنی کے نام پر اسے تاریکی ملی ہے، جس سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں، اگر وہ کسی طرح اس تاریکی سے باہربھی آجائے تو روشنی اس کا ساتھ دینے کی پابند نہیں ہے۔ خدا نہ کرے، ایسی آزادی اور مساوی حیثیت مشرقی عورت کو نصیب ہو، نہ ہی مشرقی عورت ایسی آزادی کی طلبگار ہے ۔
اگر دیکھا جائے تو مشرق کی عورت خاص طور پر پاکستان کی خواتین کو اپنے ساتھ ہونیوالے اس امتیازی سلوک کی شکایت ہے، جو معاشرے میں قدم قدم پر ان کے ساتھ روا رکھا جاتا ہے اور یہ سلوک مرد کی ذہنیت اور رویے سے وابستہ ہے، درحقیقت اس ذہنیت اور رویے کو تبدیل ہونا چاہیے۔
پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں فیوڈل نظام مضبوطی کے ساتھ قائم ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ یہ مضبوط تر ہوتا جارہا ہے۔ بلاشبہ تہذیب کا سفر رکا نہیں، لیکن فیوڈل لارڈز کی زیر قیادت یہاں جو تہذیب رل رہی ہے اس میں عورتیں اور بچے فرعون جیسی خدائی کے حالات سے دوچارہیں۔ جنوبی پنجاب، بلوچستان اور سندھ میں عورت کو مویشی کی طرح خریدنا، فروخت کرنا یا ذبح کرکے اس مظلوم کی لاش دریا میں بہادینا یا جنگلی درندوں کی غذا بنادینا بہت آسان کام ہے۔
جنوبی پنجاب میں مظفر گڑھ سے لے کر راجن پور کے آخری نشان تک، بہاولپور سے سندھ کی سرحد تک مضبوط جاگیردارانہ نظام قائم ہے جب کہ پورا سندھ وڈیروں کے شکنجے میں مضبوطی کے ساتھ پھنسا ہوا ہے۔ اسی طرح بلوچستان سرداروں کے جابرانہ نظام میں سسک رہا ہے یہ وہ سرزمین ہے جہاں کالا، کالی کی خوں آشام قبیح رسم پوری طاقت کے ساتھ عورت کو نگلتی جارہی ہے۔
گزشتہ چند برسوں کے دوران خواتین سے متعلق جرائم کی شرح میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوا ہے، یہ واقعات خواتین کو درپیش عدم تحفظ کی بھرپور نشاندہی کرتے ہیں اور یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ معاشرے کی تمام تر ترقی، روشن خیالی کے باوجود خواتین کی حیثیت، مقام کو دل سے قبول نہیں کیا گیا، انھیں بدستور ایک کمزور ہستی کے طور پر دیکھا اور سمجھا جارہا ہے۔
غور کیا جائے تو عورت کو کمزور ہستی بنانے کے ذمے دار ہم خود ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ ہماری بہن یا بیٹی اعلیٰ تعلیم حاصل کرے، اچھے عہدے پر فائز ہو، اس کی وجہ سے گھر میں خوشحالی آئے لیکن ان خواہشات کے باوجود والدین کی طرف سے بیٹے اور بیٹیوں کی تعلیم و تربیت امتیازی خطوط پر کی جاتی ہے، بیٹوں کو تو دنیا کی اونچ نیچ سے آگاہ کیا جاتا ہے لیکن بیٹیوں کو دنیاوی معاملات سے علیحدہ اور لاتعلق رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ایک ہی گھر میں پرورش پانیوالے گریجویٹ بہن بھائی کی سوچ میں زمین آسمان کا فرق ملے گا، لڑکا اگر چالاک، تیز و طرار اور معاملہ فہم ہوگا تو لڑکی سیدھی سادھی، جیسے اللہ میاں کی گائے، جسے نہ راستوں کا علم ہوگا اور نہ وہ یہ جانتی ہوگی کہ شہر کے مشہور مقامات، دفاتر کہاں واقع ہیں، ان تک پہنچنے کا راستہ کیا ہے اور کون سے روٹ کی بس کہاں جاتی ہے، مگر والدین کسی مناسب رہنمائی کے بغیر اپنی اس بیٹی کو بھی بخوشی ملازمت کرنے کی اجازت دیدیں گے اب یہ بیٹی سڑکوں پر بھٹکتی پھرے، لوگوں سے پتا پوچھ پوچھ کر اپنی منزل مقصود پر پہنچے یا غلط ہاتھوں میں پڑ جائے۔
یہ اس کا نصیب۔ غریب گھرانوں کی سولہ سترہ سال کی ناسمجھ لڑکیاں معاشی مشکلات کے سبب ملازمت کے لیے گھرانوں سے نکلنے پر مجبور ہیں، اکثر گھرانے ایسے ہیں، جہاں بھائی کوئی نہیں، یا باپ کا سایہ سر سے اٹھ چکا ہے اورگھر کی ساری ذمے داری لڑکیوں پر آن پڑی ہے، معاشرے میں جابجا پھیلے ہوئے خونخوار انسان نما وحشی درندوں کے لیے ایسی لڑکیاں آسان شکار ثابت ہوتی ہے۔
ایک زمانہ تھا، جب لڑکیوں کو چھوئی موئی بناکر گھروں میں رکھا جاتا تھا اور یہی ان کے کردار کی خوبی سمجھی جاتی تھی کہ انھیں دنیا کی اونچ نیچ اور زمانے کی چالاکیوں کا کوئی علم نہ ہو، ایسے گھرانوں کی اب بھی کوئی کمی نہیں ہے مگر یہ اکیسویں صدی ہے، آج کے زمانے میں ایسی لڑکیوں کی کوئی گنجائش نہیں جو باہر کی دنیا دیکھ کر گھبرا جائیں بلکہ آج کے دور کے تقاضوں کے مطابق لڑکیوں کو ایسی تعلیم و تربیت سے آراستہ کرنا چاہیے جو ان میں اعتماد اور حوصلہ پیدا کرسکے، اگر وہ ہزار مردوں کے درمیان رہ کر بھی کام کریں تو ان کا کردار اور حوصلہ اتنا مضبوط ہو کہ کوئی ان کی طرف آنکھ اٹھاکر دیکھنے کی جرات نہ کرسکے، نہ کہ ان کی سادہ لوحی سے انھیں بے وقوف بنانے کی ترغیب ملے۔
زمانے کے طور طریقوں کو سمجھنے کے لیے لڑکیوں کوبھی اپنے روایتی کردار کو خیرباد کہہ کر دنیاوی معاملات کو سمجھنے کی کوششوں میں حصہ لینا ہوگا، آج کا دور معلومات کا دور ہے، لہذا لڑکیوں کو بھی اپنی معلومات میں اضافے پر توجہ دینی چاہیے،کم از کم انھیں شہر کے تمام مشہور مقامات کے راستوں کا علم ہو، ورنہ دیکھا گیا ہے کہ اچھی بھلی ملازمت کرنیوالی لڑکیاں، ہنگاموں یا سڑکوں کی بندش کے دوران متبادل راستوں سے ناواقف ہونے کے سبب گھر واپسی میں مشکلات اٹھاتی ہیں۔
لڑکیوں کے والدین بھی لڑکیوں میں یہ شعور پیدا کریں کہ ان کی طرف بڑھنے والا شخص دوست نہیں بلکہ غرض مند ہوتا ہے ان کی طرف اٹھنے والی نظر باپ، بھائی کی نہیں، ایک مرد کی نگاہ ہے جس پر اعتماد کرنا خود کو دھوکا دینا ہے، چاہنے اور چاہے جانے کی خواہش سے زیادہ زندگی کے تلخ حقائق کو سمجھنا ضروری ہے۔
اس دن نہ صرف مغربی ممالک، بلکہ ایشیائی اور افریقی ملکوں میں خواتین کے حوالے سے مختلف تقریبات کا اہتمام ہوتا ہے، خواتین کو درپیش مسائل کا جائزہ لے کر ان کے حل کے لیے مختلف تجاویز اور ان پر عملدرآمد کی کوششوں کے بارے میں غورکیا جاتا ہے، ان اقدامات کا ہی نتیجہ ہے کہ عورت آج دنیا کے ہر خطے میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواتی نظر آرہی ہے اور ان اولوالعزم، باہمت و باحوصلہ خواتین کی فہرست میں کئی پاکستانی خواتین بھی شامل ہیں۔
اب وہ بھی کسی سے کم نہیں، محدود وسائل اور لاتعداد مشکلات کے باوجود آج پاکستانی عورت نے بھی ملکی و بین الاقوامی سطح پر اپنی قابلیت کا سکہ جمالیا ہے، وہ آئی ٹی کا شعبہ ہو یا فلم کی دنیا، انسانی حقوق کے حوالے سے خدمات ہوں یا ادب کا وسیع میدان، خلا میں جانے کی بات ہو یا پہاڑوں کی تسخیر کا جنون، ہر ہر میدان میں پاکستانی خواتین کارہائے نمایاں انجام دیتی نظر آرہی ہیں مگر ان سب باتوں کے باوجود خواتین کے حقیقی مسائل جوں کے توں ہیں۔ فرق اگر آیا ہے تو صرف اتنا کہ گھر کی چار دیواری سے نکل کر ملازمت کرنے والی خواتین کی تعداد کئی گنا بڑھ گئی ہے۔
مغرب تو مغرب ہے مگر مشرق میں حوا کی بیٹی کا حال زیادہ برا ہے، زمانے کی ترقی کے باوجود سماج میں خواتین کو اپنی حیثیت اور مرتبے کے مطابق جائز مقام حاصل نہیں، وہ سب کچھ ہوتی ہے مگر اسے کچھ نہیں سمجھا جاتا، بیوی ہونے کے باوجود وہ شوہر سے اپنا حق نہیں منواسکتی، ماں ہونے کے باوجود وہ اپنی اولاد کو اس کے فرائض یاد نہیں دلاسکتی، وہ گھر جو قدم قدم پر اس کے دم سے آباد ہوتا ہے جس کوبنانے اور سنوارنے میں وہ اپنی زندگی کا ایک ایک پل صرف کردیتی ہے۔
اس گھر پر اس کا کوئی حق تسلیم نہیں کیا جاتا، اگر وہ بیوی ہے تو شوہر کے پیر کی جوتی، ماں ہے تو اولاد کی ناقدری کا شکار، ان کے کرتوتوں سے تنگ اور نالاں، بیٹی ہے تو والدین پر بوجھ، بہن ہے تو رویوں اور روایات کی قیدی، مشرقی عورت کے مقابلے میں مغربی معاشرے کی عورت بظاہر آزاد ہے، اپنے سماجی و قانونی حقوق سے آگاہ اور بھرپور اختیار کی مالک، مردوں کے ساتھ مساوی حقوق اور حیثیت کی حامل، لیکن اس آزادی نے ان کے لیے نت نئے مسائل پیدا کردیے ہیں، پہلی بات تو یہ ہے کہ اس آزادی نے انھیں بے راہ روی کی دلدل میں دھکیل دیا ہے، آزادی کا سبز باغ دکھاکر ان کی نسوانیت چھین لی گئی ہے۔
انھیں اخلاقی پستیوں میں گرادیا گیا ہے، وہ آزاد ہے، خود مختار ہے، تمام قانونی حقوق رکھتی ہے، مگر اس کی حیثیت کھلونے سے زیادہ نہیں، روشنی کے نام پر اسے تاریکی ملی ہے، جس سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں، اگر وہ کسی طرح اس تاریکی سے باہربھی آجائے تو روشنی اس کا ساتھ دینے کی پابند نہیں ہے۔ خدا نہ کرے، ایسی آزادی اور مساوی حیثیت مشرقی عورت کو نصیب ہو، نہ ہی مشرقی عورت ایسی آزادی کی طلبگار ہے ۔
اگر دیکھا جائے تو مشرق کی عورت خاص طور پر پاکستان کی خواتین کو اپنے ساتھ ہونیوالے اس امتیازی سلوک کی شکایت ہے، جو معاشرے میں قدم قدم پر ان کے ساتھ روا رکھا جاتا ہے اور یہ سلوک مرد کی ذہنیت اور رویے سے وابستہ ہے، درحقیقت اس ذہنیت اور رویے کو تبدیل ہونا چاہیے۔
پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں فیوڈل نظام مضبوطی کے ساتھ قائم ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ یہ مضبوط تر ہوتا جارہا ہے۔ بلاشبہ تہذیب کا سفر رکا نہیں، لیکن فیوڈل لارڈز کی زیر قیادت یہاں جو تہذیب رل رہی ہے اس میں عورتیں اور بچے فرعون جیسی خدائی کے حالات سے دوچارہیں۔ جنوبی پنجاب، بلوچستان اور سندھ میں عورت کو مویشی کی طرح خریدنا، فروخت کرنا یا ذبح کرکے اس مظلوم کی لاش دریا میں بہادینا یا جنگلی درندوں کی غذا بنادینا بہت آسان کام ہے۔
جنوبی پنجاب میں مظفر گڑھ سے لے کر راجن پور کے آخری نشان تک، بہاولپور سے سندھ کی سرحد تک مضبوط جاگیردارانہ نظام قائم ہے جب کہ پورا سندھ وڈیروں کے شکنجے میں مضبوطی کے ساتھ پھنسا ہوا ہے۔ اسی طرح بلوچستان سرداروں کے جابرانہ نظام میں سسک رہا ہے یہ وہ سرزمین ہے جہاں کالا، کالی کی خوں آشام قبیح رسم پوری طاقت کے ساتھ عورت کو نگلتی جارہی ہے۔
گزشتہ چند برسوں کے دوران خواتین سے متعلق جرائم کی شرح میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوا ہے، یہ واقعات خواتین کو درپیش عدم تحفظ کی بھرپور نشاندہی کرتے ہیں اور یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ معاشرے کی تمام تر ترقی، روشن خیالی کے باوجود خواتین کی حیثیت، مقام کو دل سے قبول نہیں کیا گیا، انھیں بدستور ایک کمزور ہستی کے طور پر دیکھا اور سمجھا جارہا ہے۔
غور کیا جائے تو عورت کو کمزور ہستی بنانے کے ذمے دار ہم خود ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ ہماری بہن یا بیٹی اعلیٰ تعلیم حاصل کرے، اچھے عہدے پر فائز ہو، اس کی وجہ سے گھر میں خوشحالی آئے لیکن ان خواہشات کے باوجود والدین کی طرف سے بیٹے اور بیٹیوں کی تعلیم و تربیت امتیازی خطوط پر کی جاتی ہے، بیٹوں کو تو دنیا کی اونچ نیچ سے آگاہ کیا جاتا ہے لیکن بیٹیوں کو دنیاوی معاملات سے علیحدہ اور لاتعلق رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ایک ہی گھر میں پرورش پانیوالے گریجویٹ بہن بھائی کی سوچ میں زمین آسمان کا فرق ملے گا، لڑکا اگر چالاک، تیز و طرار اور معاملہ فہم ہوگا تو لڑکی سیدھی سادھی، جیسے اللہ میاں کی گائے، جسے نہ راستوں کا علم ہوگا اور نہ وہ یہ جانتی ہوگی کہ شہر کے مشہور مقامات، دفاتر کہاں واقع ہیں، ان تک پہنچنے کا راستہ کیا ہے اور کون سے روٹ کی بس کہاں جاتی ہے، مگر والدین کسی مناسب رہنمائی کے بغیر اپنی اس بیٹی کو بھی بخوشی ملازمت کرنے کی اجازت دیدیں گے اب یہ بیٹی سڑکوں پر بھٹکتی پھرے، لوگوں سے پتا پوچھ پوچھ کر اپنی منزل مقصود پر پہنچے یا غلط ہاتھوں میں پڑ جائے۔
یہ اس کا نصیب۔ غریب گھرانوں کی سولہ سترہ سال کی ناسمجھ لڑکیاں معاشی مشکلات کے سبب ملازمت کے لیے گھرانوں سے نکلنے پر مجبور ہیں، اکثر گھرانے ایسے ہیں، جہاں بھائی کوئی نہیں، یا باپ کا سایہ سر سے اٹھ چکا ہے اورگھر کی ساری ذمے داری لڑکیوں پر آن پڑی ہے، معاشرے میں جابجا پھیلے ہوئے خونخوار انسان نما وحشی درندوں کے لیے ایسی لڑکیاں آسان شکار ثابت ہوتی ہے۔
ایک زمانہ تھا، جب لڑکیوں کو چھوئی موئی بناکر گھروں میں رکھا جاتا تھا اور یہی ان کے کردار کی خوبی سمجھی جاتی تھی کہ انھیں دنیا کی اونچ نیچ اور زمانے کی چالاکیوں کا کوئی علم نہ ہو، ایسے گھرانوں کی اب بھی کوئی کمی نہیں ہے مگر یہ اکیسویں صدی ہے، آج کے زمانے میں ایسی لڑکیوں کی کوئی گنجائش نہیں جو باہر کی دنیا دیکھ کر گھبرا جائیں بلکہ آج کے دور کے تقاضوں کے مطابق لڑکیوں کو ایسی تعلیم و تربیت سے آراستہ کرنا چاہیے جو ان میں اعتماد اور حوصلہ پیدا کرسکے، اگر وہ ہزار مردوں کے درمیان رہ کر بھی کام کریں تو ان کا کردار اور حوصلہ اتنا مضبوط ہو کہ کوئی ان کی طرف آنکھ اٹھاکر دیکھنے کی جرات نہ کرسکے، نہ کہ ان کی سادہ لوحی سے انھیں بے وقوف بنانے کی ترغیب ملے۔
زمانے کے طور طریقوں کو سمجھنے کے لیے لڑکیوں کوبھی اپنے روایتی کردار کو خیرباد کہہ کر دنیاوی معاملات کو سمجھنے کی کوششوں میں حصہ لینا ہوگا، آج کا دور معلومات کا دور ہے، لہذا لڑکیوں کو بھی اپنی معلومات میں اضافے پر توجہ دینی چاہیے،کم از کم انھیں شہر کے تمام مشہور مقامات کے راستوں کا علم ہو، ورنہ دیکھا گیا ہے کہ اچھی بھلی ملازمت کرنیوالی لڑکیاں، ہنگاموں یا سڑکوں کی بندش کے دوران متبادل راستوں سے ناواقف ہونے کے سبب گھر واپسی میں مشکلات اٹھاتی ہیں۔
لڑکیوں کے والدین بھی لڑکیوں میں یہ شعور پیدا کریں کہ ان کی طرف بڑھنے والا شخص دوست نہیں بلکہ غرض مند ہوتا ہے ان کی طرف اٹھنے والی نظر باپ، بھائی کی نہیں، ایک مرد کی نگاہ ہے جس پر اعتماد کرنا خود کو دھوکا دینا ہے، چاہنے اور چاہے جانے کی خواہش سے زیادہ زندگی کے تلخ حقائق کو سمجھنا ضروری ہے۔