ملک میں دہشت گردی کی نئی لہر
دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے ٹھوس اقدامات کرنا ممکن نہیں ہے۔
گزشتہ چند روز کے دوران ملک کے مختلف علاقوں میں دہشت گردی کی ایک کے بعد ایک کئی وارداتوں سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ انتہا پسند ایک بار پھر متحد' مسلح اور منظم ہو چکے ہیں' اپنے مذموم عزائم کی تکمیل میں مصروف ہیں اور یہ سلسلہ ڈیورنڈ لائن کے پار سے بھی تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔
بدھ کو بھی چترال کے سرحدی علاقے لنگور بٹ اور گھمبیر کے علاوہ کراچی اور لوئر اورکزئی ایجنسی میں دہشت گردی کی وارداتیں ہوئیں۔ چترال کے سرحدی علاقے لنگور بٹ اور گھمبیر کے علاقے میں افغان دہشتگردوں نے پاکستانی فوجی چوکیوں پر بھاری ہتھیاروں سے حملہ کر دیا۔ جوابی کارروائی میں 9 حملہ آور مارے گئے، سوات میڈیا سینٹر کے مطابق دہشت گردوں نے دراندازی کی کوشش کی تاہم جوابی کارروائی پر ساتھیوں کی لاشیں چھوڑ کر بھاگ گئے' کوئی سیکیورٹی اہلکار شہید یا زخمی نہیں ہوا۔
دوسری جانب تحریک طالبان مالاکنڈ ڈویژن کے ترجمان سراج الدین نے میڈیا سے فون پر گفتگو کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ فورسز کے 15 اہلکار شہید ہوئے۔ ایسے حملے اس سے پہلے کئی بار کیے جا چکے ہیں تاہم بدھ کو کیا گیا حملہ اپنے اندر مخصوص معنی رکھتا ہے۔
چونکہ یہ حملہ وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کے دورہ افغانستان سے ایک دن پہلے کیا گیا اس لیے اس کا مقصد پاکستان کو ڈرانا ہو سکتا ہے تاکہ اس کی قیادت دہشت گردی کے خلاف اپنے عزائم سے باز آ جائے، بتایا گیا تھا کہ وزیراعظم پاکستان افغانستان حکومت اور نیٹو افواج کے ساتھ تحریک طالبان مالاکنڈ ڈویژن کے خلاف کارروائی کے سلسلے میں افغانستان گئے تھے' یہ حملہ اس کا ردعمل بھی ہو سکتا ہے تاکہ انھیں روکا جا سکے تاہم یہ بات بڑی حوصلہ افزا ہے کہ ہماری قیادت نے اس کا اثر قبول نہیں کیا اور دہشت گردی کے خلاف اپنے عزم و ارادے پر قائم ہے۔
اسی طرح لوئر اورکزئی ایجنسی میں کوہاٹ کی سرحد کے قریب مسافر پک اپ ریموٹ کنٹرول بم دھماکے میں تباہ ہو گئی جس کے نتیجے میں ایک ہی خاندان کے 3 بچوں اور 3 خواتین سمیت 14 افراد جاں بحق اور ایک بچے سمیت 2 زخمی ہو گئے۔ سرکاری ذرائع کے مطابق بدھ کی صبح لوئر اورکزئی سے کوہاٹ جانے والی پک اپ جونہی سپائے گائوں پہنچی سڑک کے درمیان میں نصب بم ریموٹ کنٹرول کے ذریعے اڑا دیا گیا۔
کراچی میں بھی رینجرز کی گاڑی کو ایک بار پھر بم سے نشانہ بنایا گیا، فائرنگ اور تشدد کے مختلف واقعات میں بدھ کو بھی 13 افراد کو قتل کر دیا گیا۔ بتایا گیا ہے کہ رینجرز کی گاڑی کو بفر زون کے علاقے میں نشانہ بنایا گیا، جس سے موٹر سائیکل سوار 30 سالہ زبیر جاں بحق ہو گیا رینجرز کے 2 اہلکار اور ایک باپ بیٹی سمیت 6 افراد زخمی ہو گئے۔ دھماکے کے نتیجے میں رینجرز کی موبائل، ایک موٹر سائیکل اور رکشا تباہ ہو گیا۔
اس بات کا پتہ چلانے کی ضرورت ہے کہ ان واقعات کے پس منظر میں ایک ہی قوت کارفرما ہے یا یہ وارداتیں مختلف النوع عوامل کا شاخسانہ یا ردعمل ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ حالیہ دنوں میں دہشت گردی کی وارداتیں دراصل حال ہی میں نیٹو سپلائی لائن بحال کرنے کا نتیجہ ہے۔
خیال کیا جاتا تھا کہ حکومت نیٹو سپلائی کی بحالی کے بدلے میں ڈرون حملے بند کرانے میں کامیاب ہو جائے گی لیکن چونکہ یہ سپلائی ڈرون حملوں کے سلسلے میں کسی نوعیت کی یقین دہانی حاصل کیے بغیر ہی بحال کر دی گئی ہے اس لیے پاک امریکا تعلقات اور نیٹو سپلائی کی بحالی کے حوالے سے حکومت کی طرف دیکھنے والی قوتیں ممکن ہے اس فیصلے سے مشتعل ہو گئی ہوں اور ردعمل ظاہر کر رہی ہوں۔
بہرحال وجوہ کچھ بھی ہوں یہ واضح ہے کہ ٹھوس حکمت عملی اختیار کیے بغیر دہشت گردی کے واقعات پر قابو پانا ممکن نہیں ہے۔ ہمارے خیال میں سرحد پار سے ہونے والے حملوں کے سلسلے میں افغان اور امریکی انتظامیہ سے دوٹوک بات کی جانی چاہیے اور ان پر یہ واضح کیا جانا چاہیے کہ جب تک پاکستانی علاقوں میں یہ مداخلت بند نہیں ہوتی اس وقت تک ہمارے لیے بھی دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے ٹھوس اقدامات کرنا ممکن نہیں ہے۔ افغانستان کے حکام اپنے علاقے میں ہونے والی دہشت گردی کی کسی بھی واردات کا ملبہ پاکستان پر ڈال کر اپنے تئیں سبک دوش ہو جاتے ہیں تاہم انھیں سوچنا چاہیے کہ یہ سلسلہ کب تک چلتا رہے گا۔
ایسے الزامات عائد کر کے وہ دراصل ان دہشت گردوں کے ہاتھ مضبوط کرنے کے مرتکب ہو رہے ہیں جس کا نقصان پاکستان کو تو پہنچے گا ہی' وہ بھی اس کے اثرات سے محفوظ نہیں رہ سکیں گے۔ صدر حامد کرزئی کو یہ باور کرایا جانا چاہیے کہ جب تک وہ ان حملوں کو روکنے کے لیے ٹھوس کارروائی نہیں کریں گے اس وقت تک ڈیورنڈ لائن کو مکمل طور پر محفوظ نہیں بنایا جا سکتا۔ پاکستان کے ساتھ افغان انتظامیہ کو بھی یہ سوچنا چاہیے کہ ہم کب تک اپنے لوگوں اور اپنی املاک کی قربانیاں دیتے رہیں گے۔
ڈیورنڈ لائن پر ہونے والے ان حملوں کے بارے میں یہ تحقیق بھی کی جانی چاہیے کہ یہ حملے پاکستان اور افغانستان کو ایک دوسرے کے ساتھ الجھانے کی کوئی سازش تو نہیں ہے جس کا دونوں ملک لاعلمی میں شکار بن رہے ہوں۔ یہ سوچ اس لیے پیدا ہوتی ہے کہ خود کرزئی انتظامیہ میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو پاکستان مخالف سوچ رکھتے ہیں۔ دراصل یہی لوگ اپنی ہر ناکامی کا ذمے دار پاکستان کو قرار دیتے ہیں۔ ہمارے خیال میں دونوں ملکوں کی قیادت کو ان کا یرغمال نہیں بننا چاہیے ۔
بدھ کو بھی چترال کے سرحدی علاقے لنگور بٹ اور گھمبیر کے علاوہ کراچی اور لوئر اورکزئی ایجنسی میں دہشت گردی کی وارداتیں ہوئیں۔ چترال کے سرحدی علاقے لنگور بٹ اور گھمبیر کے علاقے میں افغان دہشتگردوں نے پاکستانی فوجی چوکیوں پر بھاری ہتھیاروں سے حملہ کر دیا۔ جوابی کارروائی میں 9 حملہ آور مارے گئے، سوات میڈیا سینٹر کے مطابق دہشت گردوں نے دراندازی کی کوشش کی تاہم جوابی کارروائی پر ساتھیوں کی لاشیں چھوڑ کر بھاگ گئے' کوئی سیکیورٹی اہلکار شہید یا زخمی نہیں ہوا۔
دوسری جانب تحریک طالبان مالاکنڈ ڈویژن کے ترجمان سراج الدین نے میڈیا سے فون پر گفتگو کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ فورسز کے 15 اہلکار شہید ہوئے۔ ایسے حملے اس سے پہلے کئی بار کیے جا چکے ہیں تاہم بدھ کو کیا گیا حملہ اپنے اندر مخصوص معنی رکھتا ہے۔
چونکہ یہ حملہ وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کے دورہ افغانستان سے ایک دن پہلے کیا گیا اس لیے اس کا مقصد پاکستان کو ڈرانا ہو سکتا ہے تاکہ اس کی قیادت دہشت گردی کے خلاف اپنے عزائم سے باز آ جائے، بتایا گیا تھا کہ وزیراعظم پاکستان افغانستان حکومت اور نیٹو افواج کے ساتھ تحریک طالبان مالاکنڈ ڈویژن کے خلاف کارروائی کے سلسلے میں افغانستان گئے تھے' یہ حملہ اس کا ردعمل بھی ہو سکتا ہے تاکہ انھیں روکا جا سکے تاہم یہ بات بڑی حوصلہ افزا ہے کہ ہماری قیادت نے اس کا اثر قبول نہیں کیا اور دہشت گردی کے خلاف اپنے عزم و ارادے پر قائم ہے۔
اسی طرح لوئر اورکزئی ایجنسی میں کوہاٹ کی سرحد کے قریب مسافر پک اپ ریموٹ کنٹرول بم دھماکے میں تباہ ہو گئی جس کے نتیجے میں ایک ہی خاندان کے 3 بچوں اور 3 خواتین سمیت 14 افراد جاں بحق اور ایک بچے سمیت 2 زخمی ہو گئے۔ سرکاری ذرائع کے مطابق بدھ کی صبح لوئر اورکزئی سے کوہاٹ جانے والی پک اپ جونہی سپائے گائوں پہنچی سڑک کے درمیان میں نصب بم ریموٹ کنٹرول کے ذریعے اڑا دیا گیا۔
کراچی میں بھی رینجرز کی گاڑی کو ایک بار پھر بم سے نشانہ بنایا گیا، فائرنگ اور تشدد کے مختلف واقعات میں بدھ کو بھی 13 افراد کو قتل کر دیا گیا۔ بتایا گیا ہے کہ رینجرز کی گاڑی کو بفر زون کے علاقے میں نشانہ بنایا گیا، جس سے موٹر سائیکل سوار 30 سالہ زبیر جاں بحق ہو گیا رینجرز کے 2 اہلکار اور ایک باپ بیٹی سمیت 6 افراد زخمی ہو گئے۔ دھماکے کے نتیجے میں رینجرز کی موبائل، ایک موٹر سائیکل اور رکشا تباہ ہو گیا۔
اس بات کا پتہ چلانے کی ضرورت ہے کہ ان واقعات کے پس منظر میں ایک ہی قوت کارفرما ہے یا یہ وارداتیں مختلف النوع عوامل کا شاخسانہ یا ردعمل ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ حالیہ دنوں میں دہشت گردی کی وارداتیں دراصل حال ہی میں نیٹو سپلائی لائن بحال کرنے کا نتیجہ ہے۔
خیال کیا جاتا تھا کہ حکومت نیٹو سپلائی کی بحالی کے بدلے میں ڈرون حملے بند کرانے میں کامیاب ہو جائے گی لیکن چونکہ یہ سپلائی ڈرون حملوں کے سلسلے میں کسی نوعیت کی یقین دہانی حاصل کیے بغیر ہی بحال کر دی گئی ہے اس لیے پاک امریکا تعلقات اور نیٹو سپلائی کی بحالی کے حوالے سے حکومت کی طرف دیکھنے والی قوتیں ممکن ہے اس فیصلے سے مشتعل ہو گئی ہوں اور ردعمل ظاہر کر رہی ہوں۔
بہرحال وجوہ کچھ بھی ہوں یہ واضح ہے کہ ٹھوس حکمت عملی اختیار کیے بغیر دہشت گردی کے واقعات پر قابو پانا ممکن نہیں ہے۔ ہمارے خیال میں سرحد پار سے ہونے والے حملوں کے سلسلے میں افغان اور امریکی انتظامیہ سے دوٹوک بات کی جانی چاہیے اور ان پر یہ واضح کیا جانا چاہیے کہ جب تک پاکستانی علاقوں میں یہ مداخلت بند نہیں ہوتی اس وقت تک ہمارے لیے بھی دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے ٹھوس اقدامات کرنا ممکن نہیں ہے۔ افغانستان کے حکام اپنے علاقے میں ہونے والی دہشت گردی کی کسی بھی واردات کا ملبہ پاکستان پر ڈال کر اپنے تئیں سبک دوش ہو جاتے ہیں تاہم انھیں سوچنا چاہیے کہ یہ سلسلہ کب تک چلتا رہے گا۔
ایسے الزامات عائد کر کے وہ دراصل ان دہشت گردوں کے ہاتھ مضبوط کرنے کے مرتکب ہو رہے ہیں جس کا نقصان پاکستان کو تو پہنچے گا ہی' وہ بھی اس کے اثرات سے محفوظ نہیں رہ سکیں گے۔ صدر حامد کرزئی کو یہ باور کرایا جانا چاہیے کہ جب تک وہ ان حملوں کو روکنے کے لیے ٹھوس کارروائی نہیں کریں گے اس وقت تک ڈیورنڈ لائن کو مکمل طور پر محفوظ نہیں بنایا جا سکتا۔ پاکستان کے ساتھ افغان انتظامیہ کو بھی یہ سوچنا چاہیے کہ ہم کب تک اپنے لوگوں اور اپنی املاک کی قربانیاں دیتے رہیں گے۔
ڈیورنڈ لائن پر ہونے والے ان حملوں کے بارے میں یہ تحقیق بھی کی جانی چاہیے کہ یہ حملے پاکستان اور افغانستان کو ایک دوسرے کے ساتھ الجھانے کی کوئی سازش تو نہیں ہے جس کا دونوں ملک لاعلمی میں شکار بن رہے ہوں۔ یہ سوچ اس لیے پیدا ہوتی ہے کہ خود کرزئی انتظامیہ میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو پاکستان مخالف سوچ رکھتے ہیں۔ دراصل یہی لوگ اپنی ہر ناکامی کا ذمے دار پاکستان کو قرار دیتے ہیں۔ ہمارے خیال میں دونوں ملکوں کی قیادت کو ان کا یرغمال نہیں بننا چاہیے ۔