وادیٔ مہران کے پولیس افسرانہُنر میلہ اور شہرِ قائدؒ کی رونقیں

کراچی میں بلاشبہ سیاسی سرپرستی میں ہونے والے جرائم کا خاتمہ ہوا ہے

zulfiqarcheema55@gmail.com

کراچی میں بلاشبہ سیاسی سرپرستی میں ہونے والے جرائم کا خاتمہ ہوا ہے اور یہ خاتمہ رینجرز یعنی فوج نے کیا ہے ۔ پولیس کی کمانڈ اگر ایماندار اور پُر عزم ہوتی تو یہ کام پولیس بخوبی کرسکتی تھی مگر نہ کرسکی اس لیے جولائی 2013میں وزیرِ اعظم نے رینجرز کو میدان میں اُتارا ۔کراچی میں جرائم بڑھنے کا خدشہ اب اس لیے ہے کہ اہم عہدوں پر مشکوک کردار کے افسر لگادیے گئے ہیں۔

قبلہ زرداری صاحب کی اقتدار پرستی اتنی قوی ہے کہ وہ ایماندار پولیس افسروں کو نہ پسند کرتے ہیں اور نہ ان پر اعتماد کرتے ہیں۔ورنہ اچھے افسروں کی کوئی کمی نہیں۔ ایک سے ایک بڑھ کر ہے۔ شاید دوسرے صوبوں سے زیادہ ۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ بیسویں صدی کا سب سے باکردار سیاستدان پیدا کرنے والی دھرتی بانجھ ہوجائے اور وہاں سے دیانتدار اور باضمیر افراد پیدا ہونے بند ہوجائیں۔

مرزاقلیچ بیگ جنھیں ان کی تعلیمی خدمات کی بناء پر سندھ کا سرسیّد کہا جاتا ہے کا پڑپوتا ڈاکٹر نجف قلی مرزا بھی تو وہیں کا ہے۔ شبنم کی طرح اُجلے کردار کے اس پولیس افسر کے ہاں جھوٹ ، ریاکاری، سیاست بازی ، انصاف سے ہٹ کر سوچنے یا کسی کا دباؤقبول کرنے کی کوئی گنجائش نہیں۔ فرشتہ سیرت اورہر قسم سے تعصبات سے بالاترایسا فقیر مَنش کہ ؎ ہو جسکی فقیری میں بوئے اسداللّہیٰ۔ گورنر معین حیدر نے جیلوں کا انتظام نیک نام پولیس افسروں کے سپرد کرنے کی سفارشات پر عمل شروع کیا توڈاکٹر نجف کو سینٹرل جیل کراچی کا سپرنٹنڈنٹ مقرّر کیا گیاجہاں محترمہ بینظیر بھٹو کے شوہرِ نامدار قیدی تھے۔

ڈاکٹر نجف نے ایک دو مہینوں میں ہی جیل کا بگڑا ہوا نظام درست کردیا، قیدیوں کا کھانا بہتر ہوگیا، سپرنٹنڈنٹ کی منتھلیاں ختم ہوگئیں۔ قبلہ زرداری صاحب کے بھی سپرنٹنڈنٹ جیل کے تعلقّات خوشگوار تھے اورموصوف کو جیل میں وہ تمام سہولتیں میسّر تھیں جو کسی ہوٹل میں مل سکتی ہیں۔ اسی جیل میں مرتضٰی بھٹوقتل کیس میں اے ایس پی شاہد حیات اور رائے طاہر بھی قید تھے ( وہ دونوں بے گناہ تھے اور میں ان سے ملنے کے لیے بارہا وہاں جاتا رہا اور ان کی ضمانت کی کوششوں میں شامل رہا) دونوں پولیس افسروں اور جیل کے ڈاکٹر قیوم سومرو کی وہیں زرداری صاحب سے دوستی ہوئی ،اقتدار میں آنے کے بعد زرداری صاحب جیل کے ساتھیوں سے دوستی نبھاتے رہے اور انھیں خوب نوازتے رہے۔

نئے جیلر نے قانون کی حکمرانی قائم کی جس سے حضورِ والاناراض ہوگئے اور حکمران بنے تو اُس وقت کے جیلر اور ایک با اصول پولیس افسر کو تنگ کرنا شروع کر دیا' نہ صرف پورے پانچ سال نجف کو کوئی پوسٹنگ نہ لینے دی بلکہ اسے اس مقدمے میں نامزد کردیا جس میں موصوف نے بلیڈ سے خود زبان پر زخم کرلیا تھا۔ نجف مرزاکے بعد آنے والے سپرنٹنڈنٹ جیل ظفربخاری نے زرداری صاحب کی تمام سابقہ مراعات بحال کردیں' وہ کراچی میں اہم عہدوں پر تعینات رہے۔

زرداری صاحب کی فراغت کے بعد ہی نجف کی فراغت ختم ہوئی اور اسے ڈائریکٹر ایف آئی اے کراچی تعینات کیا گیا۔ یہاں بھی اس نے کسی ڈر خوف یا رُو رعایت کے بغیر کرپٹ لوگوں پر ہاتھ ڈالا تو بڑے بڑے با اثر افراد کی چیخیں نکل گئیں۔ اسلام آباد میں ایف آئی اے اور وزارتِ داخلہ کے اعلیٰ حکّام کا پالا کسی باضمیر پولیس افسر سے پڑا تو وہ یقیناً یہ دیکھ کر حیران ہو ئے ہوں گے کہ ایسے پولیس افسر بھی ہیں جو بڑے دفتروں سے آنے والے فون پر نہیں قانون پر عمل کرتے ہیں اور جو ہدایات وزیر سے نہیں ضمیر سے لیتے ہیں۔ چند مہینوں بعد اسلام آباد سے سرد مہری کا مظاہرہ ہونے لگا تو نجف ٹریننگ کورس پر چلا گیا اب وہ پورٹس اینڈ شپنگ کے محکمے میں بابری کرتوتوںکی دھول صاف کررہا ہے مگر سندھ حکومت اس کی صلاحیتّوں سے فائدہ اُٹھانے کے لیے ہرگز تیار نہیں۔

آئی جی رینک کا افسر بشیرمیمن پورے سندھ میں اپنی ایمانداری اور انصاف پسندی کے باعث معروف ہے۔ وہ حیدرآباد میں ڈی آئی جی تھاکہ اسلام آباد سے سندھ کے اصل حکمران کا فون آیا کہ فلاں فلاںشخص کو قتل کے مقدمے میں گرفتار کرکے چالان کرو۔ مگر اُس نے ایمان اور ضمیر کا حکم ماننے کا فیصلہ کیا اور ڈٹ کر کھڑا ہوگیا۔ جمہوریّت کے ذریعے اقتدار میں آنے والے اپنے لیے شہنشاہوں جیسے اختیارات مانگتے ہیں اوراختلافِ رائے کو جمہوریت کا حسن قرار دینے والے اپنی رائے یا خواہش کے برعکس نقطہء نظر سنتے ہی آگ بگولا ہو جاتے ہیں۔ لہٰذا شہنشاہِ معظّم نے ناراض ہوکر باضمیر افسر کو سندھ سے نکال دیا۔ اس کے بعد وہ مختلف اداروں میں پناہ لیتا رہا مگر سندھ حکومت کو اس کی ضرورت کبھی محسوس نہ ہوئی۔

ایڈیشنل آئی جی اے ڈی خواجہ اپنی دیانتداری اور قابلیّت کی بناء پر پورے سندھ میں نامورہے وہ اور ایڈیشنل آئی جی ثناء اﷲعباسی دیانتداری کے ساتھ میرٹ کے مطابق کام کرنے کی بناء پر بہت نیک نام ہیں۔ اسی طرح ڈی آئی جی ڈاکٹر ولی اﷲ نیکی اور پارسائی میں اسمِ با مسمّع ہے۔ ڈی آئی جی غلام نبی میمن انتہائی ایماندار اور باکردار افسر ہیںمگر وہ آئی بی میںہیںسندھ حکومت نے کبھی انھیںفیلڈ میں لگانے کی خواہش ظاہر نہیں کی۔ ڈی آئی جی عبدالخالق شیخ ایمانداری اور پیشہ ورانہ قابلیّت میں اعلیٰ درجے کا افسرہے، مگر سندھ حکومت اسے چندماہ سے زیادہ برداشت نہ کرسکی۔


اسی طرح ڈی آئی جی امیر شیخ، مشتاق مہر، سلطان خواجہ ، جاوید اوڈو، منیر شیخ، آفتاب پٹھان، شرجیل کھرل اور کئی اور بہت اچھے افسر موجود ہیں مگر ان کی صلاحیتّوں سے پوری طرح فائدہ نہیں اٹھایا جارہا۔ بلاشبہ غیر معمولی نتائج صرف وہی افسر دے سکتے ہیں جنکا دامن مالی اور اخلاقی دونوں لحاظ سے بے داغ ہو۔ شاہد حیا ت اگر اپنی کچھ کمزوریوں پر قابو پا لے تو بہت اچھا اور موثّر افسر بن سکتا ہے۔ ان لوگوں سے جونیئر رینک میں بھی بڑے اچھے افسر موجود ہیں جاوید اکبر، عمر شاہد، عرفان بلوچ، جاوید مہر، تنویر تنیو، پیر محمد شاہ ، اور ان جیسے کئی اچھے افسر ہیں۔ بہت سوں نے میرے ساتھ بھی کام کیا ہے انھی افسروں نے اندورنِ سندھ جرائم کو بہت اچھا کنٹرول کیا ہے۔سندھ میں ایک سے ایک اچھا افسر موجود ہے مگر انھیں استعمال کرنے والوں میں نیک نیتّی بھی تو ہو۔ کراچی کو کیوں وارداتیوں کے سپرد کردیا گیاہے ؟ مشتاق کے سواکون ہے جسکا دامن صاف ہو؟

٭٭٭٭٭

نیشنل ووکیشنل اینڈ ٹیکنیکل ٹریننگ کمیشن کے زیرِاہتمام دو مارچ کو کراچی ایکسپو میں ایک میگا سکل شو منعقّد کیا گیا جس میں ہنرمندی کے مقابلے بھی کرائے گئے۔ دوپہر کو جب میں ایکسپو کے ہال نمبر 6میں پہنچا تو ہال ہزاروں طالبِ علموں اور نوجوانوں سے کچھا کھچ بھرا ہوا تھا۔ مقابلے زور شور سے جاری تھے۔

ہال میں مختلف اسٹالز بھی لگے ہوئے تھے۔ جہاںزیرِ تربیّت نوجوانوں کے تیار کردہ ماڈل رکھے گئے تھے، بڑی بڑی صنعتوں کے اسٹال بھی تھے، نیوٹیک کے اسٹال پر بلال، سلمٰی اور فرید شام تک ہزاروں نوجوانوں کیCareer Counselling کرتے رہے ۔ معروف ڈرامہ نگار اور دانشور جناب انور مقصود اور معروف کالم نگار زاہدہ حنا صاحبہ کی شرکت سے تقریب کی رونق اور حسن میں اوراضافہ ہوا۔ انور مقصود صاحب، زاہدہ حنا صاحبہ، سندھ ٹیوٹا کے ایم ڈی مکّی صاحب اور راقم مقابلوں میں اوّل دوم اور سوم آنے والے بچّوں اور بچیوں کے نام پکارتے رہے۔ جیتنے والوں کی خوشی دیدنی تھی۔

پچاس ہزار ر وپے انعام لینے والی کوئی بچی کراچی کی تھی تو کوئی ٹنڈوالہیار کی، کوئی بچہ سکھر کا تھا تو کوئی میرپور خاص کا۔ ہال میں لگے ہوئے مختلف بینروں پر لکھا ہوا تھا " ہنر مند نوجوان، پاکستان کی شان " "ہنرمندی کا راستہ ہی مستحکم اور خوشحال پاکستان کی منزل تک جاتا ہے"۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم اس چیز کا ادراک کرلیں کہ یہ صرف بینر پر لکھی ہوئی تحریر نہیں دیوار پر بھی یہی لکھا ہوا ہے۔

رات کے کھانے کا کچھ دوستوں نے سمندر کے کنارے ایک معروف ریستوران میں اہتمام کیا تھا۔ سندھ کے ذہین اورروشن ضمیر سول سرونٹس کی باتوں، خوشگوار ہوا اور ریستوران کے پررونق ماحول نے لمحات کو یادگار بنادیا ۔کراچی میں زندگی کی گہما گہمی اور رونقیں لوٹ آئی ہیں ۔کسی نے دیکھنا ہو تو رات کو کلفٹن کے کلاچی ریستوران کا ایک چکّرلگالے۔ لکڑی کے تحتوں سے مختلف منزلیں اور چھتیں بنائی گئی ہیںجہاں ایک وقت میں ہزاروں لوگ اپنے اہل و عیال کے ساتھ کھانے کے لیے آتے ہیں۔ ایسا پر رونق ریستوران مجھے پورے ایشیا میں کہیں نظر نہیں آیا۔ کائناتو ں کے خالق اور مالک سے دعا ہے کہ شہرِ قائدؒ کی یہ رونقیں قائم و دائم رکھے۔

نوٹ:ہر جگہ بلدیاتی انتخابات مکمل ہوگئے ہیں اور اب میئر بننے جارہے ہیں۔ پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ کراچی کے عوام کی اکثریّت نے ایم کیو ایم کو مینڈیٹ دیا ہے لہٰذا میئر انھی کا ہوناچاہیے مگر شہرِ قائدؒ کا میئر وہ شخص ہرگز نہیں بننا چاہیے جس کا دامن سنگین الزامات سے آلودہ ہو۔ جس پر الزام ہو کہ 12مئی 2007 کو پچاس بے گناہ لوگ مروانے میں اس کا بھی ہاتھ ہے۔ کراچی پورے ملک میں سب سے زیادہ پڑھے لکھے لوگوں کا شہر ہے۔کیا ایم کیو ایم کے پاس کوئی ایسا پڑھا لکھا شخص نہیں ہے جس کے دامن پر قتل، بھَتّے یا دیگر جرائم کے الزامات کا کوئی داغ نہ ہو؟

بلدیہ ٹاؤن کے سانحے ( جس میں دوسو کے قریب بے گناہ افراد کو زندہ جلادیا گیا تھا) پرراقم نے سب سے پہلے اپنے کالم میں ایک سال قبل جے آئی ٹی بنانے کی تجویز دی تھی تاکہ انصاف کے تقاضے پورے ہوسکیں۔ اچھے افسروں پر مشتمل جے آئی ٹی بنائی گئی جسکی تفتیش میں ثابت ہوگیا ہے کہ یہ واقعہ حادثاتی نہیں تھا بلکہ فیکٹری کو آگ لگائی گئی تھی جس میں دو سو کے قریب لوگ جل کر ہلاک ہوگئے تھے۔ کراچی کے کور کمانڈر اور ڈی جی رینجرز کا فرض ہے کہ ملزم دنیا کے جس کونے میں بھی ہوں انھیں پکڑکر واپس لائیں اور انھیں اُنکے سرپرستوں سمیت نشانِ عبرت بنادیں۔
Load Next Story