پ سے پڑھائی نہیں پ سے پیسہ

ملک میں علم کے نام پر پیسہ بٹورنے والے اداروں نے تعلیمی ڈھانچہ کو انتہائی تباہ کن حالات تک پہنچا دیا ہے۔

اب اِس موقع پر والدین کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ ان تعلیمی اداروں کے مالکان کے خلاف حکومت کے اقدامات کا ساتھ دیں کہ ایک یہی طریقہ ہے ظلم سے بچنے کا۔

گزشتہ روز ملک بھر کے نجی تعلیمی اداروں کے مالکان کی جانب سے تعلیمی اداروں کو احتجاجاََ بند کردیا گیا، جس کی وجہ پنجاب ایجوکیشن اتھارٹی بل کی منظوری بتائی گئی۔ گزشتہ سال بھی نجی تعلیمی اداروں نے ٹیکس میں اضافے کا بہانہ بنا کر اپنے اداروں کی فیسوں میں بے تحاشہ اضافہ کیا۔ ملک بھر میں والدین سڑکوں پر آگئے، مگر حکومت کے اعلان کے باوجود والدین کی شنوائی نہیں ہوئی۔





آئینِ پاکستان کی رو سے تعلیم ہر شہری کا حق ہے اور سرکار اس کی پابند ہے کہ شہریوں کو تعلیم کی مفت سہولیات پہنچائے مگر آئین کی باقی تمام شقوں کی طرح یہ شق بھی بس کاغذ کے پلندوں میں دفن ہے۔ نجی تعلیمی ادارے ملک کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے ہیں، ہر گلی میں آپ کو ایک تعلیمی ادارہ مل جائے گا۔ یہی نہیں ایک فرد کئی کئی تعلیمی اداروں کا مالک ہے، یہ نجی تعلیمی ادارے عام شہریوں کی جیبوں پر قینچیاں چلا رہے ہیں۔ سرکاری تعلیمی اداروں کی خراب کارکردگی کی وجہ سے شہری اپنے بچوں کو نجی تعلیمی اداروں میں بھیجنے پر مجبور ہیں، جس کا یہ کاروباری افراد بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔



اس مسئلے پر مزید بات کرنے سے پہلے اس بل پر چند شقیں آپ کے سامنے پیش کر رہا ہوں، یکم فروری کو پنجاب اسمبلی میں پرائیویٹ ایجوکیشن بل پیش کیا گیا۔ جس کے مطابق 17 ممبران پر مشتمل کمیشن بنایا جائے گا جو لاہور اور پنجاب کے تمام نجی تعلیمی اداروں میں فیسیں بڑھائے جانے اور طلبہ کو فراہم کی جانے والی سہولیات اور دیگر معاملات کا جائزہ لے کر ایک نیا فیس اسٹرکچر بنائے گا۔ یہ بل اسمبلی میں پیش ہونے کے بعد 26 فروری کومنظور کرلیا۔ اس بل کے مطابق

  • نجی تعلیمی ادارے از خود فیسوں میں اضافہ نہیں کرسکیں گے۔

  • فیسوں میں معقول اضافہ کے لئے تعلیمی سال کے آغاز سے کم از کم 3 ماہ قبل رجسٹریشن اتھارٹی کو درخواست دی جائے گی۔

  • تعلیمی ادارے والدین کو کسی بھی خاص مقام سے یونیفارم، نصابی کتب اور دیگر مواد خریدنے کا پابند نہیں کرسکیں گے۔

  • رجسٹریشن اتھارٹی نجی تعلیمی ادارے کو فیس میں معقول اضافہ کی اجازت دینے کی مجاز ہوگی۔

  • نجی تعلیمی ادارے سابقہ تعلیمی سال کے دوران وصول کردہ فیس کے پانچ فیصد سے زائد اضافہ نہیں کرسکیں گے۔

  • فیس اسٹرکچر 2016ء میں بھی وہی ہوگا جو 2015ء میں تھا۔


  • رجسٹریشن کے قواعد کی خلاف ورزی کرنے والے اداروں کو20 ہزار یومیہ جرمانہ ہوگا۔

  • اگر 30 روز تک اس امر پر عمل نہیں کیا جائے گا تو تعلیمی ادارے پر 20 لاکھ کا جرمانہ عائد کیا جائےگا۔


بس اِس بل کا اسمبلی سے منظور ہونا تھا اور نجی اسکولوں کے مالکان ہتھے سے ہی اکھڑ گئے۔ میڈیا رپورٹس اور پاکستان پرائیویٹ اسکولز فیڈریشن کے مطابق ایک لاکھ سے زائد نجی اسکول دو دن تک بند رہے ہیں۔ تعلیمی اداروں کی بندش کا فیصلہ ایک ایسے موقع پر کیا گیا جب تعلیمی اداروں میں بچوں کے امتحانات ہو رہے ہیں، جبکہ میٹرک اور مڈل بورڈز کے امتحانات بھی جاری ہیں۔

اِس بندش سے لاکھوں بچوں اور ان کے والدین کو ذہنی اذیت میں مبتلا رکھا گیا۔ ایک لاکھ تعلیمی ادارے جن میں اے کلاس نجی تعلیمی ادارے بھی شامل ہیں جو پہلے ہی طرح طرح کے بہانوں کے ذریعے فیسیں وصول کرکے والدین کو لوٹ رہے رہے ہیں، جبکہ ایسے تعلیمی ادارے بھی ہیں جو تین کمروں کے گھر میں اپنی دکان سجائے بیٹھے ہیں۔ حکومت کی جانب سے آرڈیننس آنے کے بعد والدین میں خوشی کی ایک لہر دوڑی تھی مگر، تعلیمی اداروں کے مالکان کی جانب سے احتجاج نے ساری خوشیوں اور امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ ہمارے ملک میں علم کے نام پر پیسہ بٹورنے والے اداروں نے تعلیمی ڈھانچہ کو انتہائی تباہ کن حالات تک پہنچا دیا ہے۔



ان میں سے اکثریت نے ایک مافیا کا روپ دھار لیا ہے یہ وہ لوگ ہیں جن کے اپنے بچے تو اعلیٰ تعلیمی اداروں میں پڑھتے ہیں، اور یہ خود دوسروں کے بچوں کے مستقبل کو تابناک بنانے کی چال میں مگن ہیں۔ آج تک ان لوگوں کا احتساب کرنے کے لئے کسی ادارے کے قیام کو عمل میں نہیں لایا گیا۔ یہ لوگ عوام سے ان کے منہ سے نوالہ بھی چھیننے کو تیار ہیں۔ ان پرائیویٹ اسکولوں کی حالت یہ ہے کہ یہ کم تنخواہ پر نااہل اساتذہ بھرتی کرتے ہیں جو بچوں کے بنیادی تصورات کو اچھی طرح سمجھا نہیں پاتے، جس کی وجہ سے بچے امتحانات میں ناکام ہوجاتے ہیں۔

ان حالات میں اپنے اسکولوں کی ناکامی کو منظرِعام پر آنے سے بچانے کے لئے یہ ناکام ہونے والے طلباء کو مختلف حیلوں، بہانوں سے تنگ کرکے اپنے اسکولوں سے فارغ کردیتے ہیں۔ تعلیم کے نام پر ایک ایسا زرق برق کاروبار شروع ہوگیا ہے کہ ہر اسکول اپنے آپ کو دوسرے سے بہتر ثابت کرنے کے لئے مارکیٹینگ کر رہا ہے اور اس دوڑ میں تعلیم برائے مشن کے دعویدار کئی نامی گرامی اسکول شامل ہوگئے ہیں۔ اونچی دکان پھیکا پکوان کے مصداق بھاری فیسیں وصول کی جارہی ہیں، حتیٰ کہ سی سی ٹی وی کیمروں، خاردار تار، اضافی سیکورٹی اور دیگر متفرق اخراجات بھی طلباء کے والدین سے وصول کئے جاتے ہیں اور حال یہ ہے کہ شام کو اکیڈیمیز کے بغیر بچے پاس نہیں ہوسکتے۔

اب دو دن اسکول بند رکھنے کے بعد ایک ہفتے کے لیے اسکول کھولنے کا اعلان کردیا گیا ہے، لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر اِس بل کو واپس نہیں لیا گیا تو اسکولوں کو غیر معینہ مدت کے لیے بند کردیا جائے گا۔ اِس لیے اب والدین کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ان نجی تعلیمی اداروں کے مالکان کے خلاف حکومت کے اقدامات کا ساتھ دیں، کیوںکہ کاروباری افراد تعلیم کے نام پر اپنے کاروبار کو بڑھانے میں مصروف عمل ہیں۔

[poll id="1003"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگرجامع تعارف کےساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
Load Next Story