مہاجر یا متحدہ
سو مہاجر کے لفظ کو ’’متحدہ‘‘ سے تبدیل کر دیا گیا جو ایک بہت اچھا اور بروقت فیصلہ تھا
ایم کیو ایم کے بطور ایک سیاسی پارٹی قیام کو اب 32 برس ہو چلے ہیں اس دوران میں دو مارشل ڈکٹیٹرز کے ادوار کے ساتھ ساتھ کم از کم چھ بار باقاعدہ جمہوری حکومتیں برسراقتدار رہی ہیں لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک صوبے تک محدود ہونے کے باوجود ہر دور میں ایم کیو ایم خبروں میں ہمیشہ آگے رہی ہے اور اس کا ووٹ بینک واحد ووٹ بینک ہے (پی ٹی آئی کی جزوی کامیابیوں سمیت) جو ہر دور میں قائم اور مستحکم رہا ہے اور یہ بھی ایک امر واقعہ ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد اپنے پیروکاروں کی ایسی مضبوط' مسلسل اور دیرپا حمایت سوائے الطاف حسین کے کسی لیڈر کے حصے میں نہیں آئی ۔
جس کی بنیادی وجہ غالباً یہی نکلے گی کہ دونوں نے اپنے اپنے ووٹرز کے اصل مسائل اور ان کے دلوں کی بات کو اپنا نعرہ بنایا اور ایک ایسی عوامی محبت سے بہرہ ور ہوئے جسے مثالی کہا جائے تو غلط نہ ہو گا یہ اور بات ہے کہ آگے چل کر (اور بالخصوص اقتدار میں آنے کے بعد) آہستہ آہستہ اس محبت میں خوف کا عنصر بھی شامل ہوتا چلا گیا کہ ہر دو حضرات کے ارد گرد سے نظریاتی اور صائب الرائے لوگ یا تو خود پیچھے ہٹ گئے یا ان کی جگہ ایسے لوگوں کو لے آیا گیا ۔
جن میں اختلافی رائے دینے کی ہمت اور صلاحیت کم تھی، فرق صرف یہ پڑا کہ بھٹو صاحب کا اپنا ایک مخصوص طبقہ تھا جس کے پاس طاقت بھی تھی اور کسی بھی مفادات کے لیے بنیادی سانچے میں ڈھل جانے کی صلاحیت اور روایت بھی جب کہ الطاف بھائی کے ابتدائی دور کے تمام ساتھی انھی کی طرح نچلے متوسط طبقے سے تعلق رکھتے تھے اور یہ لوگ دل و جان سے سندھ بالخصوص کراچی اور حیدر آباد میں مقیم مہاجر اکثریت کو درپیش مختلف النوع مسائل کو حل کرنے کا جذبہ رکھتے تھے۔
سو ان کی آواز پر وہ نسل جو قیام پاکستان کے بعد پیدا یا جوان ہوئی تھی پروانوں کی طرح ان کے گرد گھومنے لگی ان میں سے بیشتر نوجوان پڑھے لکھے اور باشعور بھی تھے اور اپنے جائز حقوق کے لیے لڑنے کا حوصلہ بھی رکھتے تھے سو جلد ہی انھیں یہ احساس بھی ہو گیا کہ قیام پاکستان کے 20 برس بعد ہی اپنے آپ کو مہاجر کہہ کر نہ صرف وہ قومی دھارے سے الگ ہو جائیں گے بلکہ اس اصطلاح کا استعمال انھیں فائدے سے زیادہ نقصان پہنچائے گا کہ یوں وہ اپنے دیگر انصاف پسند اور محب وطن پاکستانیوں کی بھرپور حمایت کو لازمی کے بجائے مشروط بنا دیں گے۔
سو مہاجر کے لفظ کو ''متحدہ'' سے تبدیل کر دیا گیا جو ایک بہت اچھا اور بروقت فیصلہ تھا ۔اس جماعت کا دوسرا بڑا کارنامہ سیاست میں ایسے لوگوں کو اینٹری دینا تھا جو ملکی سیاست کے عام مزاج کے برعکس نہ تو جاگیردار تھے نہ سرمایہ دار اور نہ ہی مذہبی ساہو کار۔ ان لوگوں کی انتخابات میں زبردست کامیابی ایک طرح کے عوامی انقلاب کی آئینہ دار تھی کہ قیام پاکستان کے دنوں کی مسلم لیگ اور ستر کے انتخابات کی پیپلز پارٹی کے علاوہ افراد کے بجائے کسی پارٹی کو ووٹ ڈالے گئے لیکن یہ کامیابی اپنے ساتھ کئی ایسے مسائل بھی لائی جن کے بارے میں کوئی ہوم ورک نہیں کیا گیا تھا اور یوں نظریے کی اجتماعی طاقت پہلے چند افراد اور پھر ایک فرد واحد کی جھولی میں جاگری طاقت' دولت اور اقتدار سے متعلق معاملات نے ابتدا میں پڑھی لکھی اور منتخب قیادت پر تو زیادہ اثر نہیں ڈالا لیکن کم پڑھی لکھی اور بے روز گار نوجوان نسل اس سے بے طرح متاثر ہوئی۔
بدقسمتی سے قیادت نے ان کی تعلیم' روز گار اور تربیت کی طرف توجہ دینے کے بجائے ان سے بازوئے شمشیرزن کا کام لینا شروع کر دیا اور پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ ایک مخصوص طبقہ ہر طرح کے چیک اور بیلنس سے آزاد ہو گیا یہاں تک کہ پڑھے لکھے' دانش ور اور نظریاتی سطح پر ان کے اپنے کمٹڈ لوگ بھی ان سے خائف ہونا شروع ہوگئے کیونکہ انھی کے سرپرست اب الطاف بھائی کے قریبی لوگوں میں پیش پیش تھے۔ اس ساری صورت حال میں مزید خرابی اس وقت ہوئی جب قائد تحریک خود ایک طرح سے نقل وطن کر کے لندن میں مقیم ہو گئے، صائب الرائے اور مخلص دوستوں سے دوری اور مختلف النوع وجوہات سے تحریک پانے والی خوئے سلطانی نے حالات کو مزید بگاڑ دیا لیکن اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود الطاف بھائی کی مقبولیت میں بظاہر کوئی کمی نہیں آئی کہ اب بھی ان کی ایک آواز پر لاکھوں لوگ جمع ہو جاتے تھے اور وہ جب چاہتے کراچی شہر کو ایک گھنٹے کے نوٹس پر بند کروا سکتے تھے۔
میں اس تجزیے میں جان بوجھ کر ان کے چند قریبی ساتھیوں کی مشکوک اموات اور جلا وطنی کی بات نہیں کر رہا نہ ہی ان سے منسوب منی لانڈرنگ' کچھ بے موقع تقاریر' بیانات اور ان کی تردیدیں اور مصطفی کمال اور ان کے ساتھیوں کی واپسی میرا موضوع ہیں کہ یہ میرا چائے کا کپ نہیں ہیں، میں تو صرف اس عملی صورت حال کا تجزیہ پیش کرنا چاہتا ہوں جس سے یہ پر جوش اور تعمیری امکانات سے بھرپور جماعت گزری اور گزر رہی ہے بہت سے مسائل یقیناً وقت اور تدبر کے ساتھ حل ہو جائیں گی مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کے اہل فکر و نظر خود مل کر اس کو کوئی یوٹرن لینے سے روکیں تاکہ قومی سطح کی یہ جماعت کہیں دوبارہ متحدہ سے مہاجر نہ بن جائے۔
لیڈر سے محبت اور اس کی تابعداری یقیناً بہت مستحسن باتیں ہیں لیکن یہ بھی انھی اصحاب کا فرض اور ذمے داری ہے کہ وہ اپنے نظریات' مشن اور جدوجہد کی کامیابی کے لیے اپنے لیڈر کو خوف اور مصلحت سے اوپر اٹھ کر صحیح مشورے دیں اور اپنے انسانی اور شہری حقوق کی بحالی اور بازیابی کے لیے اسی جذبے سے آگے بڑھیں جو اس جماعت کی تخلیق کا موجب اور محرک بنا تھا کہ خلیفہ کے حکم کو ماننا اور اس کو صحیح مشورہ دینا دونوں ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔
جس کی بنیادی وجہ غالباً یہی نکلے گی کہ دونوں نے اپنے اپنے ووٹرز کے اصل مسائل اور ان کے دلوں کی بات کو اپنا نعرہ بنایا اور ایک ایسی عوامی محبت سے بہرہ ور ہوئے جسے مثالی کہا جائے تو غلط نہ ہو گا یہ اور بات ہے کہ آگے چل کر (اور بالخصوص اقتدار میں آنے کے بعد) آہستہ آہستہ اس محبت میں خوف کا عنصر بھی شامل ہوتا چلا گیا کہ ہر دو حضرات کے ارد گرد سے نظریاتی اور صائب الرائے لوگ یا تو خود پیچھے ہٹ گئے یا ان کی جگہ ایسے لوگوں کو لے آیا گیا ۔
جن میں اختلافی رائے دینے کی ہمت اور صلاحیت کم تھی، فرق صرف یہ پڑا کہ بھٹو صاحب کا اپنا ایک مخصوص طبقہ تھا جس کے پاس طاقت بھی تھی اور کسی بھی مفادات کے لیے بنیادی سانچے میں ڈھل جانے کی صلاحیت اور روایت بھی جب کہ الطاف بھائی کے ابتدائی دور کے تمام ساتھی انھی کی طرح نچلے متوسط طبقے سے تعلق رکھتے تھے اور یہ لوگ دل و جان سے سندھ بالخصوص کراچی اور حیدر آباد میں مقیم مہاجر اکثریت کو درپیش مختلف النوع مسائل کو حل کرنے کا جذبہ رکھتے تھے۔
سو ان کی آواز پر وہ نسل جو قیام پاکستان کے بعد پیدا یا جوان ہوئی تھی پروانوں کی طرح ان کے گرد گھومنے لگی ان میں سے بیشتر نوجوان پڑھے لکھے اور باشعور بھی تھے اور اپنے جائز حقوق کے لیے لڑنے کا حوصلہ بھی رکھتے تھے سو جلد ہی انھیں یہ احساس بھی ہو گیا کہ قیام پاکستان کے 20 برس بعد ہی اپنے آپ کو مہاجر کہہ کر نہ صرف وہ قومی دھارے سے الگ ہو جائیں گے بلکہ اس اصطلاح کا استعمال انھیں فائدے سے زیادہ نقصان پہنچائے گا کہ یوں وہ اپنے دیگر انصاف پسند اور محب وطن پاکستانیوں کی بھرپور حمایت کو لازمی کے بجائے مشروط بنا دیں گے۔
سو مہاجر کے لفظ کو ''متحدہ'' سے تبدیل کر دیا گیا جو ایک بہت اچھا اور بروقت فیصلہ تھا ۔اس جماعت کا دوسرا بڑا کارنامہ سیاست میں ایسے لوگوں کو اینٹری دینا تھا جو ملکی سیاست کے عام مزاج کے برعکس نہ تو جاگیردار تھے نہ سرمایہ دار اور نہ ہی مذہبی ساہو کار۔ ان لوگوں کی انتخابات میں زبردست کامیابی ایک طرح کے عوامی انقلاب کی آئینہ دار تھی کہ قیام پاکستان کے دنوں کی مسلم لیگ اور ستر کے انتخابات کی پیپلز پارٹی کے علاوہ افراد کے بجائے کسی پارٹی کو ووٹ ڈالے گئے لیکن یہ کامیابی اپنے ساتھ کئی ایسے مسائل بھی لائی جن کے بارے میں کوئی ہوم ورک نہیں کیا گیا تھا اور یوں نظریے کی اجتماعی طاقت پہلے چند افراد اور پھر ایک فرد واحد کی جھولی میں جاگری طاقت' دولت اور اقتدار سے متعلق معاملات نے ابتدا میں پڑھی لکھی اور منتخب قیادت پر تو زیادہ اثر نہیں ڈالا لیکن کم پڑھی لکھی اور بے روز گار نوجوان نسل اس سے بے طرح متاثر ہوئی۔
بدقسمتی سے قیادت نے ان کی تعلیم' روز گار اور تربیت کی طرف توجہ دینے کے بجائے ان سے بازوئے شمشیرزن کا کام لینا شروع کر دیا اور پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ ایک مخصوص طبقہ ہر طرح کے چیک اور بیلنس سے آزاد ہو گیا یہاں تک کہ پڑھے لکھے' دانش ور اور نظریاتی سطح پر ان کے اپنے کمٹڈ لوگ بھی ان سے خائف ہونا شروع ہوگئے کیونکہ انھی کے سرپرست اب الطاف بھائی کے قریبی لوگوں میں پیش پیش تھے۔ اس ساری صورت حال میں مزید خرابی اس وقت ہوئی جب قائد تحریک خود ایک طرح سے نقل وطن کر کے لندن میں مقیم ہو گئے، صائب الرائے اور مخلص دوستوں سے دوری اور مختلف النوع وجوہات سے تحریک پانے والی خوئے سلطانی نے حالات کو مزید بگاڑ دیا لیکن اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود الطاف بھائی کی مقبولیت میں بظاہر کوئی کمی نہیں آئی کہ اب بھی ان کی ایک آواز پر لاکھوں لوگ جمع ہو جاتے تھے اور وہ جب چاہتے کراچی شہر کو ایک گھنٹے کے نوٹس پر بند کروا سکتے تھے۔
میں اس تجزیے میں جان بوجھ کر ان کے چند قریبی ساتھیوں کی مشکوک اموات اور جلا وطنی کی بات نہیں کر رہا نہ ہی ان سے منسوب منی لانڈرنگ' کچھ بے موقع تقاریر' بیانات اور ان کی تردیدیں اور مصطفی کمال اور ان کے ساتھیوں کی واپسی میرا موضوع ہیں کہ یہ میرا چائے کا کپ نہیں ہیں، میں تو صرف اس عملی صورت حال کا تجزیہ پیش کرنا چاہتا ہوں جس سے یہ پر جوش اور تعمیری امکانات سے بھرپور جماعت گزری اور گزر رہی ہے بہت سے مسائل یقیناً وقت اور تدبر کے ساتھ حل ہو جائیں گی مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کے اہل فکر و نظر خود مل کر اس کو کوئی یوٹرن لینے سے روکیں تاکہ قومی سطح کی یہ جماعت کہیں دوبارہ متحدہ سے مہاجر نہ بن جائے۔
لیڈر سے محبت اور اس کی تابعداری یقیناً بہت مستحسن باتیں ہیں لیکن یہ بھی انھی اصحاب کا فرض اور ذمے داری ہے کہ وہ اپنے نظریات' مشن اور جدوجہد کی کامیابی کے لیے اپنے لیڈر کو خوف اور مصلحت سے اوپر اٹھ کر صحیح مشورے دیں اور اپنے انسانی اور شہری حقوق کی بحالی اور بازیابی کے لیے اسی جذبے سے آگے بڑھیں جو اس جماعت کی تخلیق کا موجب اور محرک بنا تھا کہ خلیفہ کے حکم کو ماننا اور اس کو صحیح مشورہ دینا دونوں ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔