جمہوریت کے نام پر چیف جسٹس کی آواز
درحقیقت عملی طور پر تو مشرقی پاکستان کی بنگالیوں سے تو 1960 کی دہائی میں ہی علیحدگی کی خو بو آنے لگی تھی
بمشکل ایک ہفتہ گزرا ہوگا کہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس انور ظہیر جمالی سندھ مدرسۃ الاسلام کی ایک پروقار تقریب سے خطاب کر رہے تھے، انھوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ ملک قیام پاکستان کے کچھ عرصے بعد ہی سچی سیاسی قیادت سے محروم ہوگیا، جمہوریت اور بنیادی جمہوریت جیسی پرفریب قیادت نے قدم جمائے آج جو کچھ آپ دیکھ رہے ہیں۔ بقول چیف جسٹس جمہوریت کے نام پر کچھ ملکی گروہ ملکی وسائل پر قابض ہوگئے۔
یہاں غور طلب جملہ یہ ہے کہ چیف جسٹس صاحب نے لفظ سیاسی پارٹی نہیں کہا بلکہ انھوں نے لفظ گروہ استعمال کیا ہے کیونکہ نسبتاً گروہ چھوٹا سا حلقہ ہوتا ہے جو یس سر Yes Sir! کہنے کا عادی ہوتا ہے۔ جیسے فاؤنڈیشن، گدی نشین، ٹرسٹ لیکن بظاہر پارٹی کی شکل ہوتی ہے، یہ مفاد پرست لوگوں کی ٹولی ہوتی ہے چیف جسٹس نے مشرقی پاکستان کے درد کو بڑی شدت سے محسوس کیا۔
درحقیقت عملی طور پر تو مشرقی پاکستان کی بنگالیوں سے تو 1960 کی دہائی میں ہی علیحدگی کی خو بو آنے لگی تھی جب کراچی سے دارالحکومت اسلام آباد منتقل ہونے کا پروگرام طے ہونے لگا تھا کیونکہ یہ قائداعظم کے ایک اصول کی بنیاد شکنی تھی، میں نے گیارہویں جماعت میں قدم رکھا تھا تو کلاس میں جو ہم جماعت بنگالی بچے تھے وہ گھر والوں کی باتوں کو اکثر دہراتے تھے، کیونکہ وہ مرکزی ملازمتوں میں ہوتے تھے تو بنگال سے کراچی نوکری کرنے آتے اور کراچی سے بنگال کا فاصلہ 3000 میل کے قریب ہے اور مزید 1000 میل دور جانا پڑے گا پھر یہاں سے بحری جہاز کا آسان راستہ تھا تو اس سے مراد بنگالیوں نے نوکری سے مستعفیٰ ہونا لیا تھا۔
قائداعظم نہایت زیرک انسان تھے، انھوں نے 50 پہلوؤں سے کراچی کا جائزہ لیا تھا، جب کراچی کو چنا تھا مگر اب تو یہ ایک لاحاصل بحث موجودہ تناظر میں ہوگی، لیکن بنگالیوں کی ناراضگی کا یہ بھی ایک پہلو تھا۔ چیف جسٹس جمالی نے اپنی گفتگو میں قیام پاکستان کے محرک نظریے کو نہایت خوبصورتی سے اٹھایا۔ ظاہر ہے قیام پاکستان کا محرک نظریہ مادی نہ تھا کیونکہ موسم نہیں بدلا سورج کے اوقات طلوع وغروب نہ بدلے برسات کا رخ وہی رہا، بحر عرب اور بحر ہند وہیں ہیں، بدلنا کیا چاہیے تھا اوقات کار زندگی، رہائش، زندگی کی بودوباش، 68 سال گزرنے کے بعد بھی ملک کو صاف پانی نہ ملا چہ جائے کہ فلاحی اسلامی ریاست بنائی جاتی۔اب تو صورتحال بد سے بدتر ہے ملک کا محرک بہتر نہ رہا بلکہ مادہ پرستی میں کھوگیا، ہر طرف فائدے اور نقصان کی دوڑ ہے۔
انسان کو انسان سمجھنے میں کوئی دلچسپی نہیں، تمام لیڈران جہلا کا ٹولہ ہیں۔ ان کی نظر اور عملی صلاحیت ایک کلرک سے بھی کمتر ہے نہ اردو زبان پر عبور ہے اور نہ انگریزی زبان پر۔ کسی قسم کی دسترس اور جب سے کالجوں میں انتخابات سے یہ حکومت گریزاں ہوئی ہے اب تو ٹیلی فون آپریٹر، انکم ٹیکس میں فائلیں اٹھانے والے اور ایسی ہی حیثیت کے مالک آج کل لیڈران ہیں۔
فکری، عملی، دیدنی شنیدنی تو دور کی بات ہے اکثر لیڈروں کا ماضی ٹٹول کر دیکھیں ان کی ابتدائی تعلیم ان کے خاندانی سیاسی اور فکری سفر اس میں کچھ نہیں۔ ظاہر ہے ایسے طلبا جن کا تعلیمی سفر کوتاہ ہے تو وہ قوم کو کیا دے سکتے ہیں، نہ پرائیویٹ ملازمت میں کوئی اعلیٰ پوزیشن اور نہ ہی سول سروس میں جانے کی پوزیشن۔ مجھے معلوم ہے 70/68 کے اکثر گریجویٹس سول سروسز میں جا کے واپس آگئے اور ابھی کچھ ریٹائرمنٹ کے سفر میں ہیں، ظاہر ہے ایسے لوگ جب کسی مقام پر پہنچتے ہیں تو وہ زمین کے کاروبار میں لگ جاتے ہیں اور یہ ایک بہت منافع بخش کاروبار ہے۔ زمین کا کاروبار لیڈروں کا بڑا مرغوب مشغلہ ہے کیونکہ یہ بغیر پیسہ لگائے پیسہ کمانے کا ذریعہ ہے۔
مجھے یاد ہے کہ مجھے ملیر میں رفاہی پلاٹ کئی ایکڑ کا الاٹ ہوا تھا یہ 80 کی دہائی تھی مگر لوگوں نے یاد دلایا خاص طور پر جو زمانہ طالب علمی کے ساتھی تھے کہ یار انیس! اب تم بھی اس دھندے میں شریک کار بن گئے۔ لہٰذا اس پلاٹ کو لینے نہ گیا صرف ایک بار پٹواری کے دفتر گیا دوسری بار نہیں گیا۔ اب تو حد گزر گئی چائنا کٹنگ اب تو رشین کٹنگ اس سے اگلی اصطلاح ہی سامنے آئے گی اور آ رہی ہے۔
بس عارضی طور پر آپ کو زمین مل جائے آپ پلاٹ کاٹیے اشتہاری ایجنسی کو 90 دن کے ادھار پر بکنگ کا اشتہار چلوائیے اور بنا پیسہ لگائے 60 روز میں دوسروں کا پیسہ اپنے پاس رکھیے اور کئی سال میں پلاٹ یا مکان لوگوں کو دے دیجیے یہ تو رہی ایمانداری کا انداز کاروبار۔ دوسرا طریقہ یہ کہ آپ لوگوں کا پیسہ لے کر کسی اور کو پلاٹ ٹرانسفر کریں، یہاں پر یہی ایمانداری ہوگی کہ ریاضی کے اعتبار سے اس کی ملکیت مالک کو دے دیں اور منافع کماتے کماتے تمام اچھی زمینوں کے مالک بن جائیں یا اہل اقتدار کے ساتھ مل کر ایک مکمل کام شروع کردیں یہی وہ راستہ ہے جو ایک نیا فربہ بزنس، گورنمنٹ کے محکموں کو کرپشن کے ذریعہ فیل کرکے نیلام عام کیا جائے۔
اسی طرح پاکستان کی وہ اسٹیل مل ہے جس کے بلاسٹ فرنس بھارتی سوداگر مٹل کی نظر ہے، چیف جسٹس نے اس پہلو پر نگاہ ڈالی ہے کہ امت منافع خوری میں کھو گئی حکمرانوں نے رعایا کو نان شبینہ کا محتاج کردیا، پانی کی خرید وفروخت ملک کا ایک بہت بڑا کاروبار بن گیا۔ ملکی وسائل پر قابض رہنماؤں نے جمہوریت کے نام پر لوگوں کو لوٹنا شروع کردیا۔ تھرکا حال دیکھیے ۔کئی برس سے یہ شورکہ ترقی ، ترقی... جمہوریت، جمہوریت کی رٹ جب کہ صرف تھر میں انڈرنیوٹریشن، خوراک کی کمی سے کم ازکم 3 برس سے 100 بچے ہر ماہ فوت ہو رہے ہیں اور بڑے بڑے ریاضی داں اپنی گنتی سناتے ہیں اور ملک کے حکمراں ان کی مدح سرائی میں مصروف ہیں۔
اس کوکہتے ہیں کہ قوم سچے رہنماؤں سے محروم۔ بنگلہ دیش کے قیام میں صرف پیپلزپارٹی اور اس وقت کی مغربی پاکستان کی قیادت ہی شریک نہیں بلکہ کراچی سے کیپیٹل لے جانے پر بنگالی لیڈروں کا ردعمل بھی شامل ہے۔ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کے انداز تخاطب کو جن لوگوں نے سنا اور دیکھا وہ اس کرب کو محسوس کرسکتے ہیں۔ بقول ان کے ''مشرقی پاکستان اور بنگالی بھائیوں کو کھودیا'' یہ نہیں کہ زمین چاہیے انسان نہیں۔ ایسا کہنے والوں کو کچھ لوگ آج بھی ہیرو کہتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم اس معاشرے کا حصہ ہیں جہاں سچ اور جھوٹ، حرام و حلال کے حصے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ جب حرام سے دولت کمانے والے کو حقیر سمجھا جاتا تھا مگر اب ایک ایسا دورآگیا ہے کہ اب نشستوں کی ترتیب بھی روپے کے اعتبار سے رکھی جاتی ہے خصوصاً تجارتی پروگراموں میں جو جتنا پیسہ دیتا ہے یا اسپانسر ہے وہ اگلی نشستوں پر فرسٹ کم فرسٹ کی بنیاد پر نہیں بلکہ پرچیاں چپکا دی جاتی ہیں۔ خواہ اس نے یہ پیسے منی لانڈرنگ، اغوا برائے تاوان، نقلی ڈگری، چور بازاری، عورتوں کی اسمگلنگ سے یا حشیش سے کیوں نہ کمائی ہوں۔ صورتحال یہ ہے کہ عدلیہ کے چیف کو ان تمام بداعمالیوں کا علم ہے مگر جمہوریت کے نام پر یہ سب روا ہیں اور ان جرائم پر پردہ ڈالنے کے لیے ایک نئے آئینی پردے کی تیاری ہے۔
غریبوں کی مشقت کی کمائی لانچوں کے ذریعے دبئی منتقل ہو رہی ہے اور جب ان جمہوری لیڈروں پر آہنی نہیں بلکہ کوئی آئینی ہاتھ پڑنے کو تھا تو یہ لوگ مفرورہوگئے۔ ہاں ابھی یہ آئینی تحفظ میں کامیاب نہیں ہوئے ہیں مگر وہ وقت بھی اگر اسی ریل کو ان پٹریوں پر چلنے دیا گیا تو ڈنکے کی چوٹ پر یہ چیزیں عام ہوجائیں گی اور جس طرف یہ سیاست رواں دواں ہے ان کو چلنے دیا جائے گا۔ 6 ماہ سے زائد ہوچکا طلبا یونین بحال نہیں کی گئی افسوس کا مقام ہے طلبا اپنے مقاصد سے غافل ہیں۔
پنجاب یونیورسٹی میں تصادم بھی ہوا تو کس پرکہ ویلنٹائن ڈے ہونا چاہیے یا نہیں جب کہ طلبا مطالبات سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ طلبا کو فیسوں کی زیادتی، عوامی مسائل، پرائمری اسکولوں کی فیسوں کی زیادتی اور مشکلات نظر نہیں آتیں۔ یہ سب محض فروعی باتیں اس لیے چل رہی ہیں کہ اسٹوڈنٹس یونین کے انتخابات نہیں ہوتے ورنہ طلبا مطالبات سرفہرست ہوتے کیونکہ اگلے برس ان کو مسائل پر ووٹ لینے ہوتے لیکن یونین نہ ہونے پر طلبا اپنی راہ سے بھٹک گئے اور وہ قدامت پرستی اور جدت پسندی کا فرق بھی سمجھ نہ پاتے،ان کی فکری اساس بھی زبوں حالی کا شکار ہوچکی ہے۔
جسٹس جمالی صاحب نے کہا کہ ملت خرافات میں کھوگئی، بٹ گئی کا تذکرہ نہایت خوبصورتی سے کیا کہ فرقہ بندی، نفرت، عصبیت، نسل پرستی دیہی اور شہری کی تقسیم کوٹہ سسٹم خود کئی جماعتوں کے ارتقا کا محرک ہے اور مزید محرکات زیر زمین پروان چڑھ رہے ہیں۔
یہاں غور طلب جملہ یہ ہے کہ چیف جسٹس صاحب نے لفظ سیاسی پارٹی نہیں کہا بلکہ انھوں نے لفظ گروہ استعمال کیا ہے کیونکہ نسبتاً گروہ چھوٹا سا حلقہ ہوتا ہے جو یس سر Yes Sir! کہنے کا عادی ہوتا ہے۔ جیسے فاؤنڈیشن، گدی نشین، ٹرسٹ لیکن بظاہر پارٹی کی شکل ہوتی ہے، یہ مفاد پرست لوگوں کی ٹولی ہوتی ہے چیف جسٹس نے مشرقی پاکستان کے درد کو بڑی شدت سے محسوس کیا۔
درحقیقت عملی طور پر تو مشرقی پاکستان کی بنگالیوں سے تو 1960 کی دہائی میں ہی علیحدگی کی خو بو آنے لگی تھی جب کراچی سے دارالحکومت اسلام آباد منتقل ہونے کا پروگرام طے ہونے لگا تھا کیونکہ یہ قائداعظم کے ایک اصول کی بنیاد شکنی تھی، میں نے گیارہویں جماعت میں قدم رکھا تھا تو کلاس میں جو ہم جماعت بنگالی بچے تھے وہ گھر والوں کی باتوں کو اکثر دہراتے تھے، کیونکہ وہ مرکزی ملازمتوں میں ہوتے تھے تو بنگال سے کراچی نوکری کرنے آتے اور کراچی سے بنگال کا فاصلہ 3000 میل کے قریب ہے اور مزید 1000 میل دور جانا پڑے گا پھر یہاں سے بحری جہاز کا آسان راستہ تھا تو اس سے مراد بنگالیوں نے نوکری سے مستعفیٰ ہونا لیا تھا۔
قائداعظم نہایت زیرک انسان تھے، انھوں نے 50 پہلوؤں سے کراچی کا جائزہ لیا تھا، جب کراچی کو چنا تھا مگر اب تو یہ ایک لاحاصل بحث موجودہ تناظر میں ہوگی، لیکن بنگالیوں کی ناراضگی کا یہ بھی ایک پہلو تھا۔ چیف جسٹس جمالی نے اپنی گفتگو میں قیام پاکستان کے محرک نظریے کو نہایت خوبصورتی سے اٹھایا۔ ظاہر ہے قیام پاکستان کا محرک نظریہ مادی نہ تھا کیونکہ موسم نہیں بدلا سورج کے اوقات طلوع وغروب نہ بدلے برسات کا رخ وہی رہا، بحر عرب اور بحر ہند وہیں ہیں، بدلنا کیا چاہیے تھا اوقات کار زندگی، رہائش، زندگی کی بودوباش، 68 سال گزرنے کے بعد بھی ملک کو صاف پانی نہ ملا چہ جائے کہ فلاحی اسلامی ریاست بنائی جاتی۔اب تو صورتحال بد سے بدتر ہے ملک کا محرک بہتر نہ رہا بلکہ مادہ پرستی میں کھوگیا، ہر طرف فائدے اور نقصان کی دوڑ ہے۔
انسان کو انسان سمجھنے میں کوئی دلچسپی نہیں، تمام لیڈران جہلا کا ٹولہ ہیں۔ ان کی نظر اور عملی صلاحیت ایک کلرک سے بھی کمتر ہے نہ اردو زبان پر عبور ہے اور نہ انگریزی زبان پر۔ کسی قسم کی دسترس اور جب سے کالجوں میں انتخابات سے یہ حکومت گریزاں ہوئی ہے اب تو ٹیلی فون آپریٹر، انکم ٹیکس میں فائلیں اٹھانے والے اور ایسی ہی حیثیت کے مالک آج کل لیڈران ہیں۔
فکری، عملی، دیدنی شنیدنی تو دور کی بات ہے اکثر لیڈروں کا ماضی ٹٹول کر دیکھیں ان کی ابتدائی تعلیم ان کے خاندانی سیاسی اور فکری سفر اس میں کچھ نہیں۔ ظاہر ہے ایسے طلبا جن کا تعلیمی سفر کوتاہ ہے تو وہ قوم کو کیا دے سکتے ہیں، نہ پرائیویٹ ملازمت میں کوئی اعلیٰ پوزیشن اور نہ ہی سول سروس میں جانے کی پوزیشن۔ مجھے معلوم ہے 70/68 کے اکثر گریجویٹس سول سروسز میں جا کے واپس آگئے اور ابھی کچھ ریٹائرمنٹ کے سفر میں ہیں، ظاہر ہے ایسے لوگ جب کسی مقام پر پہنچتے ہیں تو وہ زمین کے کاروبار میں لگ جاتے ہیں اور یہ ایک بہت منافع بخش کاروبار ہے۔ زمین کا کاروبار لیڈروں کا بڑا مرغوب مشغلہ ہے کیونکہ یہ بغیر پیسہ لگائے پیسہ کمانے کا ذریعہ ہے۔
مجھے یاد ہے کہ مجھے ملیر میں رفاہی پلاٹ کئی ایکڑ کا الاٹ ہوا تھا یہ 80 کی دہائی تھی مگر لوگوں نے یاد دلایا خاص طور پر جو زمانہ طالب علمی کے ساتھی تھے کہ یار انیس! اب تم بھی اس دھندے میں شریک کار بن گئے۔ لہٰذا اس پلاٹ کو لینے نہ گیا صرف ایک بار پٹواری کے دفتر گیا دوسری بار نہیں گیا۔ اب تو حد گزر گئی چائنا کٹنگ اب تو رشین کٹنگ اس سے اگلی اصطلاح ہی سامنے آئے گی اور آ رہی ہے۔
بس عارضی طور پر آپ کو زمین مل جائے آپ پلاٹ کاٹیے اشتہاری ایجنسی کو 90 دن کے ادھار پر بکنگ کا اشتہار چلوائیے اور بنا پیسہ لگائے 60 روز میں دوسروں کا پیسہ اپنے پاس رکھیے اور کئی سال میں پلاٹ یا مکان لوگوں کو دے دیجیے یہ تو رہی ایمانداری کا انداز کاروبار۔ دوسرا طریقہ یہ کہ آپ لوگوں کا پیسہ لے کر کسی اور کو پلاٹ ٹرانسفر کریں، یہاں پر یہی ایمانداری ہوگی کہ ریاضی کے اعتبار سے اس کی ملکیت مالک کو دے دیں اور منافع کماتے کماتے تمام اچھی زمینوں کے مالک بن جائیں یا اہل اقتدار کے ساتھ مل کر ایک مکمل کام شروع کردیں یہی وہ راستہ ہے جو ایک نیا فربہ بزنس، گورنمنٹ کے محکموں کو کرپشن کے ذریعہ فیل کرکے نیلام عام کیا جائے۔
اسی طرح پاکستان کی وہ اسٹیل مل ہے جس کے بلاسٹ فرنس بھارتی سوداگر مٹل کی نظر ہے، چیف جسٹس نے اس پہلو پر نگاہ ڈالی ہے کہ امت منافع خوری میں کھو گئی حکمرانوں نے رعایا کو نان شبینہ کا محتاج کردیا، پانی کی خرید وفروخت ملک کا ایک بہت بڑا کاروبار بن گیا۔ ملکی وسائل پر قابض رہنماؤں نے جمہوریت کے نام پر لوگوں کو لوٹنا شروع کردیا۔ تھرکا حال دیکھیے ۔کئی برس سے یہ شورکہ ترقی ، ترقی... جمہوریت، جمہوریت کی رٹ جب کہ صرف تھر میں انڈرنیوٹریشن، خوراک کی کمی سے کم ازکم 3 برس سے 100 بچے ہر ماہ فوت ہو رہے ہیں اور بڑے بڑے ریاضی داں اپنی گنتی سناتے ہیں اور ملک کے حکمراں ان کی مدح سرائی میں مصروف ہیں۔
اس کوکہتے ہیں کہ قوم سچے رہنماؤں سے محروم۔ بنگلہ دیش کے قیام میں صرف پیپلزپارٹی اور اس وقت کی مغربی پاکستان کی قیادت ہی شریک نہیں بلکہ کراچی سے کیپیٹل لے جانے پر بنگالی لیڈروں کا ردعمل بھی شامل ہے۔ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کے انداز تخاطب کو جن لوگوں نے سنا اور دیکھا وہ اس کرب کو محسوس کرسکتے ہیں۔ بقول ان کے ''مشرقی پاکستان اور بنگالی بھائیوں کو کھودیا'' یہ نہیں کہ زمین چاہیے انسان نہیں۔ ایسا کہنے والوں کو کچھ لوگ آج بھی ہیرو کہتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم اس معاشرے کا حصہ ہیں جہاں سچ اور جھوٹ، حرام و حلال کے حصے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ جب حرام سے دولت کمانے والے کو حقیر سمجھا جاتا تھا مگر اب ایک ایسا دورآگیا ہے کہ اب نشستوں کی ترتیب بھی روپے کے اعتبار سے رکھی جاتی ہے خصوصاً تجارتی پروگراموں میں جو جتنا پیسہ دیتا ہے یا اسپانسر ہے وہ اگلی نشستوں پر فرسٹ کم فرسٹ کی بنیاد پر نہیں بلکہ پرچیاں چپکا دی جاتی ہیں۔ خواہ اس نے یہ پیسے منی لانڈرنگ، اغوا برائے تاوان، نقلی ڈگری، چور بازاری، عورتوں کی اسمگلنگ سے یا حشیش سے کیوں نہ کمائی ہوں۔ صورتحال یہ ہے کہ عدلیہ کے چیف کو ان تمام بداعمالیوں کا علم ہے مگر جمہوریت کے نام پر یہ سب روا ہیں اور ان جرائم پر پردہ ڈالنے کے لیے ایک نئے آئینی پردے کی تیاری ہے۔
غریبوں کی مشقت کی کمائی لانچوں کے ذریعے دبئی منتقل ہو رہی ہے اور جب ان جمہوری لیڈروں پر آہنی نہیں بلکہ کوئی آئینی ہاتھ پڑنے کو تھا تو یہ لوگ مفرورہوگئے۔ ہاں ابھی یہ آئینی تحفظ میں کامیاب نہیں ہوئے ہیں مگر وہ وقت بھی اگر اسی ریل کو ان پٹریوں پر چلنے دیا گیا تو ڈنکے کی چوٹ پر یہ چیزیں عام ہوجائیں گی اور جس طرف یہ سیاست رواں دواں ہے ان کو چلنے دیا جائے گا۔ 6 ماہ سے زائد ہوچکا طلبا یونین بحال نہیں کی گئی افسوس کا مقام ہے طلبا اپنے مقاصد سے غافل ہیں۔
پنجاب یونیورسٹی میں تصادم بھی ہوا تو کس پرکہ ویلنٹائن ڈے ہونا چاہیے یا نہیں جب کہ طلبا مطالبات سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ طلبا کو فیسوں کی زیادتی، عوامی مسائل، پرائمری اسکولوں کی فیسوں کی زیادتی اور مشکلات نظر نہیں آتیں۔ یہ سب محض فروعی باتیں اس لیے چل رہی ہیں کہ اسٹوڈنٹس یونین کے انتخابات نہیں ہوتے ورنہ طلبا مطالبات سرفہرست ہوتے کیونکہ اگلے برس ان کو مسائل پر ووٹ لینے ہوتے لیکن یونین نہ ہونے پر طلبا اپنی راہ سے بھٹک گئے اور وہ قدامت پرستی اور جدت پسندی کا فرق بھی سمجھ نہ پاتے،ان کی فکری اساس بھی زبوں حالی کا شکار ہوچکی ہے۔
جسٹس جمالی صاحب نے کہا کہ ملت خرافات میں کھوگئی، بٹ گئی کا تذکرہ نہایت خوبصورتی سے کیا کہ فرقہ بندی، نفرت، عصبیت، نسل پرستی دیہی اور شہری کی تقسیم کوٹہ سسٹم خود کئی جماعتوں کے ارتقا کا محرک ہے اور مزید محرکات زیر زمین پروان چڑھ رہے ہیں۔