پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی

اس طرح پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بھی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی تھیں۔

khealdaskohistani@hotmail.com

موجودہ حکومت کو توانائی کا بحران، دہشتگردی، زوال پذیر معیشت اور مہنگائی جیسے مسائل گزشتہ حکومت سے ورثے میں ملے ہیں، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اگر گزشتہ حکومت نے ان مسائل کے حل کے لیے کوئی کوشش نہیں کی تو موجودہ حکومت گزشتہ حکومت کی ناقص کارکردگی کو جواز بنا کر کوئی قابل ذکر اقدام بھی نہ کرے۔ حکومت نے اپنے موجودہ دور میں کئی اشیاء کی قیمتیں کم کر کے بلاشبہ عوام کو خاطر خواہ ریلیف بھی دیا ہے۔

اس طرح پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بھی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی تھیں۔ جس سے پوری معیشت بری طرح متاثر ہوئی کیونکہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بلند ترین سطح پر ہوں تو اس کی وجہ سے گرانی کے ضمنی اور ذیلی اثرات کئی دیگر اشیائے خورونوش کی قیمتوں پر ہوش ربا اضافے کی صورت میں مرتب ہوتے ہیں، یہ گرانی صارفین اور مارکیٹ کو بھی بری طرح متاثر کرتی ہے۔ اس لیے پٹرول کی گرانی کو گرانی کی ماں بھی کہا جا سکتا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ عالمی مارکیٹ میں پٹرول کی قیمتیں بھی تیزی سے کم ہوئی ہیں۔ اس صورتحال میں اپوزیشن کا شدت کے ساتھ یہ مطالبہ تھا کہ پاکستان میں پٹرول کی قیمتیں کم کی جانی چاہئیں۔ نواز حکومت نے عوامی مفاد میں اس سے پہلے بھی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم کی تھیں اور اب ایک بار پھر وزیر اعظم محمد نوازشریف نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی نافذ العمل کر دی ہے۔ پٹرول کی قیمت 8 روپے 48 پیسے فی لیٹر کم کی گئی ہے جس کے بعد پٹرول کے نرخ 62.77 روپے فی لیٹر ہو گئے۔ اس طرح ہائی اسپیڈ ڈیزل، ہائی اوکٹین اور مٹی کے تیل کے نرخوں میں بھی کمی کی گئی ہے۔ سی این جی کے نرخ بھی کم کر دیے گئے۔

وزیر اعظم نے بجلی کے نرخوں میں بھی چار روپے فی یونٹ کمی کا فیصلہ کیا ہے جو یقیناً خوش آیند ہے۔ اس موقعے پر وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان خطے میں واحد ملک ہے جہاں پیٹرولیم مصنوعات میں کمی کا فائدہ عوام کو پہنچایا گیا ہے۔ ان کے مطابق پاکستان کے ریونیو خسارے کے باوجود حکومت عوام کے مفاد کو ترجیح دیتی ہے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ ہم عوام تک ہر قسم کا ریلیف پہنچانے کے خواہش مند ہیں۔ ہم ٹیکسوں اور ڈیوٹیوں میں بھی کمی کرنا چاہتے ہیں جب کہ ہم اپنے دور حکومت میں ہی توانائی کا بحران بھی ختم کر دیں گے۔ انھوں نے بتایا کہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ میں مسلسل کمی آ رہی ہے اور بجلی کے نرخوں میں بھی کمی کی جا رہی ہے۔ ہمیں عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ کم کر کے خوشی ہوتی ہے۔

بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں پیٹرول کی قیمتیں خطے میں سب سے کم ہیں۔ جنوری 2016ء میں جب حکومت نے قیمتیں 5 روپے فی لیٹر کم کی تھیں تو اپوزیشن جماعتوں نے عالمی مارکیٹ میں تیل کے نرخوں میں کمی کے تناسب سے اس کمی کو ناکافی قرار دیا تھا اور مطالبہ کیا تھا کہ قیمتوں میں خاطر خواہ کمی کی جائے۔ لیکن موجودہ کمی کے باوجود اپوزیشن کا اصرار ہے کہ پٹرول کی قیمتیں مزید کم کی جائیں۔ یہ بات عیاں ہے کہ حکومت نے سال رواں میں دوسری بار پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں خاطر خواہ کمی کی ہے۔


بلاشبہ صارفین اس فیصلے سے خوش ہیں کیونکہ اس طرح ان کے ماہانہ بجٹ پر خوش گوار اثرات مرتب ہوں گے ان کی قوت خرید بڑھے گی اور اس کمی سے انھیں جو بچت ہو گی اس سے وہ دیگر اشیائے ضرورت خرید سکیں گے۔ وزیر اعظم نے یہ ہدایت بھی کی ہے کہ ٹرانسپورٹ کے کرائے بھی اب کم کیے جائیں تا کہ عوام کو مزید ریلیف ملے۔ یہ بات واضح ہے کہ ذرایع نقل و حمل پر ہونے والے اخراجات میں کمی کی وجہ سے دوسری اشیائے ضرورت کی قیمتیں بھی کم ہوں گی۔

یہ بات کون نہیں جانتا کہ پیٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں کمی سے صنعت کی رننگ کاسٹ بھی کم ہو جاتی ہے جس کا نتیجہ یہ برآمد ہوتا ہے کہ مصنوعات کی قیمتیں بھی کم ہو جاتی ہیں۔ جو صارفین کے لیے خوشی اور اطمینان کا باعث ہوتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ صارفین کے لیے یہ امر اطمینان کا باعث ہو گا کہ ماضی کی روایات سے برعکس موجودہ حکومت نے عوامی فلاح و بہبود کو سامنے رکھتے ہوئے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں خاطر خواہ کمی کی ہے جو ایک ریکارڈ ہے۔ ملک میں پہلی بار ایک ہی دفعہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اتنی کمی کی گئی۔

میں سمجھتا ہوں کہ پیٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں کمی مستحسن اقدام ہے مگر اس کا حقیقی فائدہ اس وقت ہی ہو گا جب متعلقہ ادارے پبلک ٹرانسپورٹ کے کرائے بھی کم کرائیں۔ اس امر میں دو رائے نہیں ہو سکتیں کہ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں غربت، مہنگائی، بے روزگاری اور توانائی کے بحران میں اضافہ ہوا۔ اور عوام کو دو وقت کی روٹی کے بھی لالے پڑ گئے۔ اسی لیے عوام نے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کی حکومت کو رخصت کر دیا اور قیادت کا تاج مسلم لیگ ن کے سر پر سجا دیا۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ ماضی میں جب بھی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا اعلان کیا جاتا تھا تو مہنگائی کی ایک نئی لہر اٹھتی تھی۔

گندم اور پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے سے زرعی و صنعتی اشیاء کی پیداواری لاگت میں ایک فیصد اضافے کو بھی قیمتوں میں 10 فیصد سے 15 فیصد اضافے کا جواز بنا لیا جاتا تھا۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے مسلسل اعلانات کی وجہ سے تاجر کو مہنگائی بڑھانے کا جواز مل جاتا تھا۔

واضح رہے کہ صارفین پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کو معیشت پر خودکش حملہ قرار دیتے تھے۔ اس تناظر میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی عوام کے لیے ایک حقیقی ریلیف ہے اور یہ ہر شہری کا بنیادی آئینی حق بھی ہے یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت میں ہر 15 دن بعد پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا مشورہ کس نے دیا تھا کیونکہ بین الاقوامی مارکیٹ میں قیمتوں کا تعین ہر 3 ماہ بعد کیا جاتا ہے۔ ہر 15 دن کے بعد اضافے کے فیصلے سے ہماری معیشت ہل کر رہ گئی اور صارفین بدترین مہنگائی کی زد آ گئے۔

نوازشریف کی موجودہ حکومت نے اپنے تقریباً 3 سالہ دور میں معیشت کی بہتری، توانائی کے بحران اور مہنگائی کے جن پر قابو پانے کے لیے ایسے موثر اقدامات کیے ہیں جن کا اعتراف اب بین الاقوامی سطح پر بھی کیا جا رہا ہے۔ بڑے منصوبوں اور ترقیاتی پراجیکٹس کے ساتھ ساتھ مہنگائی کی شرح میں کمی کرنا بھی مسلم لیگ ن کے منشور کا حصہ ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات کی نئی قیمتیں اب پانی کی قیمتوں کے برابر ہو گئی ہیں یہ خوش آیند بات ہے میں اس موقعے پر عوامی مفاد کے فیصلے کرنے پر وزیر اعظم محمد نوازشریف کو مبارکباد پیش کرتا ہوں اور توقع رکھتا ہوں کہ وہ آیندہ بھی عوامی مفاد کے اہم فیصلے کرنے میں اسی جرأت کا مظاہرہ کریں گے۔
Load Next Story