قومی سلامتی پر فیصلہ کن موڑ

’’ فدائیوں کا دس رکنی گروہ بھارتی گجرات پہنچ گیا۔ دہشتگردی کے متعدد حملے کر سکتا ہے۔

'' فدائیوں کا دس رکنی گروہ بھارتی گجرات پہنچ گیا۔ دہشتگردی کے متعدد حملے کر سکتا ہے۔ پاکستانی قومی سلامتی کے مشیر ناصر خان جنجوعہ نے بھارتی ہم منصب اجیت دوول کو پیشگی خبردار کر دیا۔''

پاک و ہند دو طرفہ تعلقات میں ایسا پہلی بار ہوا ہے جب پاکستان نے پہل کرتے ہوئے بھارت کے ساتھ خفیہ معلومات کا تبادلہ کیا ہے۔ پاکستانی حساس اداروں کو ملنے والی اطلاعات کے مطابق بھارتی گجرات میں داخل ہونے والے ان دہشتگردوں کا تعلق کالعدم تنظیموں سے ہے، جو بنیادی طور پر پاکستانی ہیں تاہم جس طرح معلومات میں ان تنظیموں کا ذکر پیش کیا گیا ہے اس سے پاکستان نے بھارت سمیت دنیا بھر کو یہ بات باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ دہشتگرد تنظیمیں کوئی سی بھی ہوں وہ غیر ریاستی عناصر ہی تصور کیے جاتے ہیں جنھیں پاکستان دنیا کے کسی بھی امن پسند ملک کی طرح کھبی اپنانے کی کوشش نہیں کرتا۔ یہ اطلاعات ہنگامی طور پر بھارت کے ساتھ شیئر کی جا چکی ہیں جس کے بعد بھارت کے اس شہر میں تمام پبلک مقامات اور حساس اداروں پر سیکیورٹی کے اقدامات کر لیے گئے ہیں۔

پولیس کے افسران اور اہلکاروں کی چھٹیاں معطل کر کے انھیں ڈیوٹیوں پر واپس بلا لیا گیا ہے۔ ان اقدامات کے باوجود بھارتی پولیس اور دیگر اداروں کے ہنگامی اجلاسوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا ہے جو ممکنہ دہشتگردی کے خطرے کو مٹانے اور گجرات میں داخل ہونے والے دس دہشتگردوں کی تلاش کی تیزی سے منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ بھارت کی جانب سے اس معلومات کو بے انتہا سنجیدگی سے لیا گیا ہے اور اس کی بنیاد پر نئی دہلی میں پاکستان کی جانب سے اس اچانک یکطرفہ عمل اور اولین قدم پر حفاظتی اقدامات پر تو بحث شروع ہو ہی چکی ہے تاہم اطلاعات کے مطابق پاکستانی خارجہ پالیسی میں ایسی ڈرامائی تبدیلی کی وجوہات کو بہ نظر غائر سمجھنے کی کوششیں بھی شروع ہو گئی ہیں۔

گزشتہ کئی عشروں کے بعد جس طرح پاکستانی حساس ادارے کی معلومات کے بھارت کے ساتھ تبادلے، بھارت میں دہشت گردی کی وارداتوں پر بغیر کوئی موقع ضایع کیے پاکستان میں کارروائی اور گرفتاریاں عمل میں لائی جا رہی ہیں، اس سے کئی پہلو نکلتے ہیں اور جس کے دور رس نتائج خطے کے حالات، باہمی تعلقات اور کشمیر ایشو پر بھی مرتب ہونگے تاہم ان اثرات کو منفی اور مثبت بنانے میں پاکستان کے حساس اداروں کو بے انتہا فعال اور چوکنا کردار ادا کرنا ہو گا کیونکہ ہمیں صرف دنیا کے دیگر ممالک کے تحفظات اور خدشات کا ہی سامنا نہیں بلکہ انتہائی شاطرانہ چالوں اور سازشوں سے بھی نمٹنا ہے۔

بعض حلقوں میں شاید یہ خبر معمولی یا درمیانے درجے کی تصور کی جائے مگر حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی خارجہ پالیسی کی یہ کروٹ ایک انتہائی تاریخی موڑ کا موجب بن سکتی ہے۔ زمینی حقائق اس وقت پاکستانی خارجہ پالیسی کے لیے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں اور خطرناک چیلنجز سے کم نہیں ہیں۔ ان چیلنجز نے گزشتہ تین عشروں میں اپنی چال ڈھال اور شکل سب کو اتنا تبدیل کر لیا ہے کہ اب خارجہ پالیسی کو اس سے کامیابی کے ساتھ نمٹنے کے لیے خود اپنے اصولوں میں فیصلہ کن تبدیلی لانی ہو گی۔

ایک ایسی تبدیلی جس میں پاکستان مستقبل میں خوشحالی اور ترقی کے تمام اہداف بغیر کسی رکاوٹ اور خطرے کے حاصل کر سکے ۔نکتہ یہ ہے کہ پاکستان کو تصورات، حقائق اور ساکھ کے مسائل درپیش ہیں۔ ابھی ہم نے دنیا کو اس بات پر قائل کرنا ہے کہ انھیں ہم سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ جب تک یہ تبدیلی نہیں لائی جاتی، تب تک یہ پاکستانی خارجہ پالیسی کے ہر پہلو کو متاثر کرے گی۔ امریکا کو ایک اور نائن الیون کا خوف ہے اور اس بار تو وہ اس کے پیچھے قبائلی علاقوں تک پہنچ گیا۔ برطانیہ کو ایک اور سیون / سیون جیسے اْن حملوں کا خطرہ ہے جس کے ڈانڈے پاکستان سے ملے تھے۔


روس کو وسط ایشیا کے اپنے زیرِ اثر علاقوں میں اسلام پسندوں کے داخلے کی فکر لاحق ہے اور یہ فہرست یہیں پر ختم نہیں ہوتی۔ پاکستان کے اہم ترین پڑوسی چین، افغانستان اور ہندوستان ہیں۔ جس طرح دنیا کے دیگر ممالک کو پاکستان سے کچھ تحفظات ہیں اور جو ہماری خارجہ پالیسی کے لیے چیلنج کی صورت میں ابھر کر سامنے آتے ہیں وہیں مذکورہ یہ تین ممالک بھی تذبذب کا شکار رہتے ہیں۔ مفاہمتی عمل میں افغانستان اس لیے پاکستان کا کردار دیکھتا ہے کہ اس کی بڑی شکایت یہی رہی ہے کہ افغان طالبان کے ٹھکانے ملحق پاکستانی سرحدی علاقوں میں واقع ہیں۔ چین، پاکستان کا سدا بہار دوست ہے۔

دیگر تمام تعلقات کی گرمجوشی ایک طرف لیکن کبھی کبھار وہ ہمیشہ اس مسئلے پر پلٹتا ہے کہ پاکستان سے اسلامی شدت پسند خنجراب ہائی وے کے راستے در اندازی کر کے مغربی چین میں داخل ہو رہے ہیں، جہاں تیزی سے بڑھتی مسلمان آبادی موجود ہے۔ اور پھر سب سے اہم بات یہ کہ سلامتی کے لحاظ سے پاکستان کی مرکزی نگاہ کشمیر کے معاملے پر اصلی حریف ہندوستان پر رہتی ہے لیکن خود ہندوستان ایک اور ممبئی سانحے کے اندیشوں میں مبتلا ہے۔

کشمیر کے مسئلے کے حل کے ساتھ پاکستان کو پراکسی وار اور اس کے آلہ کار ریاستی عناصر اور دہشت گردوں سے نہ صرف اپنا موثر طریقے سے دفاع کرنا ہے بلکہ ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے سانپوں کے سروں کو پیروں تلے کچلنا بھی ہے اور اپنے بارے میں پڑوسی ممالک کی نظروں میں اپنے تشخص کو صاف کرنا اور اسے منوانا بھی ہے۔

کیونکہ اب اس کے بغیر آیندہ صدی میں ترقی اور خوشحالی کی دوڑ میں وقت ضایع نہیں کیا جا سکتا اور اس قدم کو اٹھانے کی طاقت معاشی طور پر ایک طاقتور پاکستان کی صورت میں ہی ممکن ہے اور موجودہ پاکستانی خارجہ پالیسی کے تحت جس طرح پٹھان کوٹ حملوں کا مقدمہ پاکستان میں درج کر کے گرفتاریاں کی گئیں وہ ایک انتہائی قابل ذکر واقعہ ہے۔

اس کے بعد اب جس طرح بھارت کو پہل کرتے ہوئے حساس نوعیت کی معلومات فراہم کی گئیں ہیں اس کے اتنے زبردست نتائج حاصل ہونگے کہ پاکستان کو بغیر کسی رکاوٹ اور خطرے کے اقتصادی راہداری جیسے تاریخی بڑے معاشی منصوبے کو مکمل کرنے میں کامیابی حاصل ہو جائے گی۔ بھارت کو پاکستان کی جانب سے پیشگی خطرے کی معلومات کا مقصد یہ بھی ہے کہ کسی طرح بھارت کو اس کے ملک میں ہونے والی دہشت گردی کے واقعے پر پاکستان پر دباؤ ڈالنے اور اس کے خلاف گھیرا تنگ کرنے کے جواز کو حاصل کرنے میں ناکام بنایا جائے اور دوسرا دشمن نے وطن عزیز میں جس طرح امن کی فضا کو مکدر کیا ہے۔

اسی فضا کو اس کے ملک میں بھی منتقل کر دیا جائے تا کہ وہ اندرونی گتھیوں کو سلجھانے میں مصروف ہو جائے جس کا فائدہ لامحالہ پاکستان کو ہو گا۔ اپنے زمینی اہداف کو حاصل کرنے کے لیے وہ ممالک جو سفارتی سطح پر اور علاقائی سطح پر پاکستان سے معاندانہ رویہ رکھتے ہیں یا دوسرے لفظوں میں بغل میں چھر ی رکھتے ہیں انھیں ان کے ہی گھروں میں انھیں ڈرا سہما کر مصروف رکھنا ضروری ہے۔

اس مصروفیت سے نہ صرف پاکستان کے خلاف ہونے والی سازشوں میں کمی لائی جا سکے گی بلکہ اپنا دفاع مستحکم بنانے کے ساتھ ساتھ سب سے اہم اقتصادی راہداری کو پایہ تکمیل تک پہنچانے اور اسے مستحکم بنانے کا خاطر خواہ موقع مل سکے گا۔ اس تناظر میں پاکستانی حساس اداروں کی مدد سے خارجہ پالیسی میں نئے علاقائی اصول باالخصوص بھارت کے ساتھ پالیسی اصولوں میں نئی تبدیلی کو جتنا سراہا جائے کم ہے اس کے باوجود یہ کہنا بھی ضروری ہو گا کہ ایسی پالیسی کے نتیجے میں مستقبل میں پاکستان پر پڑنے والے اثرات کو منفی بننے سے روکا جائے اور انھیں اپنے حق میں بنانے کے لیے ملک کے اہم ترین حساس ادارے کو حد سے زیادہ چوکنا ہو کر فعال کردار ادا کرنا ہو گا اور وزارت خارجہ اور دفاع کو کوئی فیصلہ کرتے وقت ایسے اداروں کی رائے اور تجزیوں کو مقدم رکھنا ہو گا۔
Load Next Story