آرمی چیف کا بیان
وہ دن گئے جب ملکی استحکام اور سلامتی کا انحصار اسلحے کے بل پر ہوتا تھا۔
میں نے پیر کی صبح فوج کے بارے اپنے اضطراب کے اظہار کے لیے ایک کالم لکھا، اسی شام مجھے اطلاع ملی کہ آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کا بھی ایک بیان جاری کیا گیا ہے اور یہ آئی ایس پی آر کی ویب سائٹ پر دستیاب ہے۔
اسمارٹ فونز کی برکت سے میں نے یہ بیان فوری طورپر پڑھ لیا اور اس کے اندر بھی اسی اضطراب کو محسوس کیا جس کا میں خود شکار تھا۔ بعد میں مجھے پتہ چلا کہ چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری کی طرف سے بھی ایک بیان جاری کیا گیا ہے جس میں زیادہ تر عمومی باتیں تھیں مگر وہ دن گئے جب ملکی استحکام اور سلامتی کا انحصار اسلحے کے بل پر ہوتا تھا والے الفاظ سے تاثر ملتا تھا کہ اس کی مخاطب فوج ہے،میں نے زیادہ تحقیق کی تو پتہ چلا کہ چیف جسٹس کا بیان چار بجے سہ پہر سامنے آیا جب کہ آرمی چیف کا بیان پونے پانچ بجے کے لگ بھگ تیار ہوا۔ ساری رات الیکٹرانک میڈیا اور اگلی صبح پرنٹ میڈیا نے ان دونوں بیانات کو اس طرح پیش کیا جیسے آرمی چیف کے جواب میں چیف جسٹس بولے ہوں حالا نکہ امر واقعہ یہ نہیں تھا۔اس لحاظ سے میڈیا نے دیانت کا مظاہرہ نہیں کیا۔مگر اس سے عام آدمی اس خدشے کا شکار ہو گیا کہ دو طاقتور ادارے آپس میں ٹکرانے کے موڈ میں ہیں۔
عدلیہ کی طرف سے ریمارکس تو سننے میں آتے ہی رہتے ہیں ، کئی ایک ایسے مقدمات ہیں جن میں فوج یا فوجیوں کے کردار کو زیر بحث لایا جاتا ہے، مگر اصغر خاں کے کیس کے فیصلے میں شاید یہ الفاظ لکھ دیے گئے کہ قانونی حکم کومانا جائے، عدالت کے ذہن میں یہ ہو گا کہ صدر اسحاق کے احکامات کی آنکھیں بند کر کے تعمیل نہیں کرنا چاہیے تھی یا جنرل اسلم بیگ اور جنرل اسد درانی کی طرف سے سول سوسائٹی میں بھاری رقوم کی تقسیم کے حکم کو قانون کی نظر میں دیکھ کر اس پر عمل کیا جاتا یا نہ کیا جاتا۔مگر قانونی حکم کی تعمیل کے الفاظ عمومی نوعیت کے تھے اور ان کی کوئی بھی شخص کوئی بھی توجیہہ کر سکتا تھا، اس طرح فوج کی چین آف کمانڈ ٹوٹنے کا خدشہ لاحق ہو سکتا ہے۔
اب تک عدلیہ میں کوئی چین آف کمانڈ نہیں ہوا کرتی تھی مگر یہ ادارہ بھی کم و بیش ایک چین آف کمانڈ کے تحت کام کرتا دکھائی دیتا ہے۔میں نے تو ایک باریک نکتے کی طرف اشارہ کیا ہے مگرمیڈیا میں سابق جرنیلوں کو سزا یافتہ مجرم کے طور پر زیر بحث لایا گیا جب کہ وہ ابھی تک ملزم ہی ہیں اور یہ تحقیقات ابھی ہونا ہیں کہ آیا انھوں نے کسی جرم کا ارتکاب کیا بھی یا نہیں،نیب بھی ریلوے کی زمین کی صرف انکوائری کر رہا ہے مگر اس کی تحقیقات کے لیے پیش ہونے والے جرنیلوں کا پاپارازی قسم کے صحافیوں نے تعاقب کیا، ان کے منہ کے سامنے مائیک ٹھونسے گئے، ایسی کوئی حرکت لاہور میں بیکری کیس کے مبینہ ملزم کے ساتھ میڈیا نے نہیں کی، اور نہ کرنی چاہیے تھی۔ لیکن یہ حرکت جرنیلوں کے ساتھ بھی زیب نہیں دیتی تھی مگر ہوئی اور یہ تاثر ملا کہ جرنیلوں کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے، انھیں ملزم کے بجائے مجرم بنا کر پیش کیا جارہا ہے، اس ماحول میں میرے جیسا آدمی جو کنارے پر بیٹھا ہے۔
مضطرب ہوئے بغیر نہ رہ سکا، اندازہ لگایئے کہ فوج کے اند ر کیا حالت ہو گی، فوجی ہائی کمان کے اجلاس میں چیف کو کیا گلے شکوے سننے پڑتے ہوں گے اور فوج کے عام جوان اور افسر کیا محسوس کر رہوں گے، یہ ٹھیک ہے کہ مارشل لا لگتا رہا اور فوجی جرنیل ہی نہیں ، پوری فوج اس میں ملوث ہوئی مگر اس جرم میں فوج تنہا نہ تھی، ہر مارشل لا میں عدلیہ نے فوجی آمر کا بھر پور ساتھ دیا، سیاستدان بھی اچھل کر مارشل لا کی گود میں بیٹھے اور عام آدمی نے بھی مارشل لالگنے پر اپنی خوشی کے اظہار کے لیے حلوے اور مٹھائیاں تقسیم کیں اورآتش بازی کے ذریعے اپنی سرخوشی کا کھل کر اظہار کیا۔ سول بیوروکریسی بھی مارشل لا کی ہمنوا بنی رہی ۔جب قصور وار سبھی تھے تو میڈیا ٹرائل صرف فوج اور جرنیلوں کا کیوں، یہی سوال اضطراب اور پریشانی کا باعث بنا اور شاید اسی پس منظر میں جنرل کیانی نے ایک نہات ہی متوازن بیان جاری کیا جس میں تسلیم کیا گیا کہ ماضی میں قصور وار تو کئی تھے،مگر فوج کو سنگل آئوٹ کیوں کیا جارہا ہے۔
انھوں نے نہایت متانت اور خلوص کے ساتھ یہ مشورہ بھی دیا کہ کوئی ادارہ باقی اداروں پر حاوی ہونے کی کوشش نہ کرے اور ہر ایک کی حدود اور دائرہ کار کے تعین کے لیے قومی مشاورت کے ذریعے فیصلہ کیا جائے۔اس مشورے میں کوئی سیاست نہیں کی گئی۔یہ ایک دل درد مند کی پکار تھی، اداروں نے کام کرنا ہے اور انھیں اچھے تعلقات کار استوار کر کے کام کرنا چاہیے ، ایک دوسرے کے دو بدو نہیں آنا چاہیے، ایک دوسرے پر حاوی نہیں ہونا چاہیے، کوئی ادارہ کسی دوسرے کو فتح نہیں کر سکتا۔ البتہ باہمی احترام کے جذبات سے دلوں کو مسخر کر سکتا ہے۔ کوئی ادارہ خدائی درجہ اور طاقت نہیں رکھتا، اٹھارہ کروڑ عوام کو بھیڑ بکریوں کو طرح نہیں ہانک سکتا۔فوج کے سیاست میں حصہ لینے پر بنیادی اعتراض ہے اور فوج سیاست میں حصہ نہ لینے کی اپنے حلف کی رو سے بھی پابند ہے مگر اس حلف کے باوجود جنرل کیانی نے چیف جسٹس کی بحالی کے فیصلے میں کردار ادا کیا، ن لیگ کے سربراہ جنرل کیانی کے فون پر ہی لانگ مارچ ختم کرکے لاہور واپس آئے۔اس وقت کسی نے نہیں کہا کہ جنرل کیانی اپنے حلف کی پاسداری نہیں کر رہے۔ہر ایک نے ملکی مفاد کے پیش نظر ان کے کردار کو سراہا۔ کئی موا قعے پر فوج کو سیاست میں گھسیٹا جاتا ہے۔
یا سیاست میں آنے کے لیے فوج کی مدد مانگی جاتی ہے، میاں نواز شریف اس وقت بہت بڑے جمہوری لیڈر ہیں لیکن ان کی سیاسی تربیت مارشل لا ایڈمناسٹریٹر جنرل ضیاء الحق نے کی،بعد میں آئی جے آئی کی سیڑھی سے انھیںآسمان پر چڑھا دیا گیا۔صدر اسحاق سے ان کا جھگڑا ہوا تو خود میاں نواز شریف نے آرمی چیف سے کہا کہ صدر اسحاق سے استعفیٰ لے لیں تو میں بھی مستعفی ہو جاتا ہوں۔میں یہ قصہ نہیں چھیڑتا کہ جنرل ضیاالدین کو کس طرح آرمی چیف بنانے کی کوشش کی گئی۔اسی طرح عدلیہ نے ہر مارشل لا کے وقت نظریہ ضرورت کے تحت فوجی آمر کو سند جواز عطا کی، مشرف نے تو عدلیہ سے صرف تین سال مانگے تھے مگر عدلیہ نے انھیں آئین میں ترامیم کا لا محدود اختیار بھی دے دیا۔
یہ سارے گڑے مردے ہیں، انھیں نہ ہی اکھاڑا جائے تو بہتر ہو گا، جنرل کیانی نے بھی یہی مشورہ دیا ہے کہ ماضی کے قصوں کو رفت گزشت سمجھا جائے ا ور ایک نئے دور کی ابتدا کی جائے۔ آیندہ کے لیے اصول و ضوابط مل بیٹھ کر طے کر لیے جائیں ، یہی تجویز ایک مرتبہ میاں نواز شریف بھی پیش کر چکے ہیں ، ان کا کہنا تھا کہ اب ایک نئے میثاق پاکستان کی ضرورت ہے جس میں فوج کو بھی شامل کیا جائے۔جنرل کیانی کا بیان ایک لحاظ سے میاں صاحب کی تائید کے مترادف ہے۔ سو ،بسم اللہ کی جائے۔ماضی کا کوئی کردار خود فرشتہ نہ بنے اور دوسروں کو شیطان ثابت نہ کرے تو کیا ہی اچھا ہو اور میری یہ درخواست سب سے پہلے اپنے میڈیا کے بھائیوں سے ہے۔
اسمارٹ فونز کی برکت سے میں نے یہ بیان فوری طورپر پڑھ لیا اور اس کے اندر بھی اسی اضطراب کو محسوس کیا جس کا میں خود شکار تھا۔ بعد میں مجھے پتہ چلا کہ چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری کی طرف سے بھی ایک بیان جاری کیا گیا ہے جس میں زیادہ تر عمومی باتیں تھیں مگر وہ دن گئے جب ملکی استحکام اور سلامتی کا انحصار اسلحے کے بل پر ہوتا تھا والے الفاظ سے تاثر ملتا تھا کہ اس کی مخاطب فوج ہے،میں نے زیادہ تحقیق کی تو پتہ چلا کہ چیف جسٹس کا بیان چار بجے سہ پہر سامنے آیا جب کہ آرمی چیف کا بیان پونے پانچ بجے کے لگ بھگ تیار ہوا۔ ساری رات الیکٹرانک میڈیا اور اگلی صبح پرنٹ میڈیا نے ان دونوں بیانات کو اس طرح پیش کیا جیسے آرمی چیف کے جواب میں چیف جسٹس بولے ہوں حالا نکہ امر واقعہ یہ نہیں تھا۔اس لحاظ سے میڈیا نے دیانت کا مظاہرہ نہیں کیا۔مگر اس سے عام آدمی اس خدشے کا شکار ہو گیا کہ دو طاقتور ادارے آپس میں ٹکرانے کے موڈ میں ہیں۔
عدلیہ کی طرف سے ریمارکس تو سننے میں آتے ہی رہتے ہیں ، کئی ایک ایسے مقدمات ہیں جن میں فوج یا فوجیوں کے کردار کو زیر بحث لایا جاتا ہے، مگر اصغر خاں کے کیس کے فیصلے میں شاید یہ الفاظ لکھ دیے گئے کہ قانونی حکم کومانا جائے، عدالت کے ذہن میں یہ ہو گا کہ صدر اسحاق کے احکامات کی آنکھیں بند کر کے تعمیل نہیں کرنا چاہیے تھی یا جنرل اسلم بیگ اور جنرل اسد درانی کی طرف سے سول سوسائٹی میں بھاری رقوم کی تقسیم کے حکم کو قانون کی نظر میں دیکھ کر اس پر عمل کیا جاتا یا نہ کیا جاتا۔مگر قانونی حکم کی تعمیل کے الفاظ عمومی نوعیت کے تھے اور ان کی کوئی بھی شخص کوئی بھی توجیہہ کر سکتا تھا، اس طرح فوج کی چین آف کمانڈ ٹوٹنے کا خدشہ لاحق ہو سکتا ہے۔
اب تک عدلیہ میں کوئی چین آف کمانڈ نہیں ہوا کرتی تھی مگر یہ ادارہ بھی کم و بیش ایک چین آف کمانڈ کے تحت کام کرتا دکھائی دیتا ہے۔میں نے تو ایک باریک نکتے کی طرف اشارہ کیا ہے مگرمیڈیا میں سابق جرنیلوں کو سزا یافتہ مجرم کے طور پر زیر بحث لایا گیا جب کہ وہ ابھی تک ملزم ہی ہیں اور یہ تحقیقات ابھی ہونا ہیں کہ آیا انھوں نے کسی جرم کا ارتکاب کیا بھی یا نہیں،نیب بھی ریلوے کی زمین کی صرف انکوائری کر رہا ہے مگر اس کی تحقیقات کے لیے پیش ہونے والے جرنیلوں کا پاپارازی قسم کے صحافیوں نے تعاقب کیا، ان کے منہ کے سامنے مائیک ٹھونسے گئے، ایسی کوئی حرکت لاہور میں بیکری کیس کے مبینہ ملزم کے ساتھ میڈیا نے نہیں کی، اور نہ کرنی چاہیے تھی۔ لیکن یہ حرکت جرنیلوں کے ساتھ بھی زیب نہیں دیتی تھی مگر ہوئی اور یہ تاثر ملا کہ جرنیلوں کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے، انھیں ملزم کے بجائے مجرم بنا کر پیش کیا جارہا ہے، اس ماحول میں میرے جیسا آدمی جو کنارے پر بیٹھا ہے۔
مضطرب ہوئے بغیر نہ رہ سکا، اندازہ لگایئے کہ فوج کے اند ر کیا حالت ہو گی، فوجی ہائی کمان کے اجلاس میں چیف کو کیا گلے شکوے سننے پڑتے ہوں گے اور فوج کے عام جوان اور افسر کیا محسوس کر رہوں گے، یہ ٹھیک ہے کہ مارشل لا لگتا رہا اور فوجی جرنیل ہی نہیں ، پوری فوج اس میں ملوث ہوئی مگر اس جرم میں فوج تنہا نہ تھی، ہر مارشل لا میں عدلیہ نے فوجی آمر کا بھر پور ساتھ دیا، سیاستدان بھی اچھل کر مارشل لا کی گود میں بیٹھے اور عام آدمی نے بھی مارشل لالگنے پر اپنی خوشی کے اظہار کے لیے حلوے اور مٹھائیاں تقسیم کیں اورآتش بازی کے ذریعے اپنی سرخوشی کا کھل کر اظہار کیا۔ سول بیوروکریسی بھی مارشل لا کی ہمنوا بنی رہی ۔جب قصور وار سبھی تھے تو میڈیا ٹرائل صرف فوج اور جرنیلوں کا کیوں، یہی سوال اضطراب اور پریشانی کا باعث بنا اور شاید اسی پس منظر میں جنرل کیانی نے ایک نہات ہی متوازن بیان جاری کیا جس میں تسلیم کیا گیا کہ ماضی میں قصور وار تو کئی تھے،مگر فوج کو سنگل آئوٹ کیوں کیا جارہا ہے۔
انھوں نے نہایت متانت اور خلوص کے ساتھ یہ مشورہ بھی دیا کہ کوئی ادارہ باقی اداروں پر حاوی ہونے کی کوشش نہ کرے اور ہر ایک کی حدود اور دائرہ کار کے تعین کے لیے قومی مشاورت کے ذریعے فیصلہ کیا جائے۔اس مشورے میں کوئی سیاست نہیں کی گئی۔یہ ایک دل درد مند کی پکار تھی، اداروں نے کام کرنا ہے اور انھیں اچھے تعلقات کار استوار کر کے کام کرنا چاہیے ، ایک دوسرے کے دو بدو نہیں آنا چاہیے، ایک دوسرے پر حاوی نہیں ہونا چاہیے، کوئی ادارہ کسی دوسرے کو فتح نہیں کر سکتا۔ البتہ باہمی احترام کے جذبات سے دلوں کو مسخر کر سکتا ہے۔ کوئی ادارہ خدائی درجہ اور طاقت نہیں رکھتا، اٹھارہ کروڑ عوام کو بھیڑ بکریوں کو طرح نہیں ہانک سکتا۔فوج کے سیاست میں حصہ لینے پر بنیادی اعتراض ہے اور فوج سیاست میں حصہ نہ لینے کی اپنے حلف کی رو سے بھی پابند ہے مگر اس حلف کے باوجود جنرل کیانی نے چیف جسٹس کی بحالی کے فیصلے میں کردار ادا کیا، ن لیگ کے سربراہ جنرل کیانی کے فون پر ہی لانگ مارچ ختم کرکے لاہور واپس آئے۔اس وقت کسی نے نہیں کہا کہ جنرل کیانی اپنے حلف کی پاسداری نہیں کر رہے۔ہر ایک نے ملکی مفاد کے پیش نظر ان کے کردار کو سراہا۔ کئی موا قعے پر فوج کو سیاست میں گھسیٹا جاتا ہے۔
یا سیاست میں آنے کے لیے فوج کی مدد مانگی جاتی ہے، میاں نواز شریف اس وقت بہت بڑے جمہوری لیڈر ہیں لیکن ان کی سیاسی تربیت مارشل لا ایڈمناسٹریٹر جنرل ضیاء الحق نے کی،بعد میں آئی جے آئی کی سیڑھی سے انھیںآسمان پر چڑھا دیا گیا۔صدر اسحاق سے ان کا جھگڑا ہوا تو خود میاں نواز شریف نے آرمی چیف سے کہا کہ صدر اسحاق سے استعفیٰ لے لیں تو میں بھی مستعفی ہو جاتا ہوں۔میں یہ قصہ نہیں چھیڑتا کہ جنرل ضیاالدین کو کس طرح آرمی چیف بنانے کی کوشش کی گئی۔اسی طرح عدلیہ نے ہر مارشل لا کے وقت نظریہ ضرورت کے تحت فوجی آمر کو سند جواز عطا کی، مشرف نے تو عدلیہ سے صرف تین سال مانگے تھے مگر عدلیہ نے انھیں آئین میں ترامیم کا لا محدود اختیار بھی دے دیا۔
یہ سارے گڑے مردے ہیں، انھیں نہ ہی اکھاڑا جائے تو بہتر ہو گا، جنرل کیانی نے بھی یہی مشورہ دیا ہے کہ ماضی کے قصوں کو رفت گزشت سمجھا جائے ا ور ایک نئے دور کی ابتدا کی جائے۔ آیندہ کے لیے اصول و ضوابط مل بیٹھ کر طے کر لیے جائیں ، یہی تجویز ایک مرتبہ میاں نواز شریف بھی پیش کر چکے ہیں ، ان کا کہنا تھا کہ اب ایک نئے میثاق پاکستان کی ضرورت ہے جس میں فوج کو بھی شامل کیا جائے۔جنرل کیانی کا بیان ایک لحاظ سے میاں صاحب کی تائید کے مترادف ہے۔ سو ،بسم اللہ کی جائے۔ماضی کا کوئی کردار خود فرشتہ نہ بنے اور دوسروں کو شیطان ثابت نہ کرے تو کیا ہی اچھا ہو اور میری یہ درخواست سب سے پہلے اپنے میڈیا کے بھائیوں سے ہے۔