78 کھرب روپے ایک ہاتھ میں

حساس انسان اپنے اردگرد اور دنیا کے منظر نامے پر نظر ڈالتے ہیں تو انھیں ایک پل قرار نہیں آتا

zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

حساس انسان اپنے اردگرد اور دنیا کے منظر نامے پر نظر ڈالتے ہیں تو انھیں ایک پل قرار نہیں آتا کیونکہ وہ اس تباہ حال دنیا کو بہتر بنانے کا اختیار تو نہیں رکھتے لیکن دنیا میں ہونے والی ناانصافیوں سے دنیا کے مظلوم عوام کو احساس دلانے اور انھیں اس ظالمانہ نظام کے خلاف متحد ہونے اور علم بغاوت بلند کرنے کی تلقین ضرور فراہم کر سکتے ہیں۔

میڈیا میں مختلف پسماندہ ملکوں کے حوالے سے یہ خبریں آتی رہتی ہیں کہ کئی پسماندہ ملکوں میں 50 فیصد سے زیادہ عوام غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ اس کے علاوہ میڈیا میں بھوک اور غربت سے تنگ آ کر خودکشیاں کرنے والوں کی خبریں بھی آتی رہتی ہیں پچھلے ہفتے ایسے ہی ایک بھوکے کے حوالے سے اخباروں میں یہ چھوٹی سی خبر چھپی تھی کہ اس نے اپنے تین بچوں کو جو بھوک سہتے سہتے نڈھال ہو گئے تھے زہر دے کر ہلاک کر دیا اور خود بھی اسی زہر سے خودکشی کر لی۔ مجھے نہیں معلوم کہ قوم کو ترقی اور معیشت کی بحالی کے مژدے سنانے والے بے حسوں کی نظروں سے ایسی خبریں گزرتی ہیں یا نہیں لیکن ایسی خبروں کی میڈیا میں تشہیر ان مہربانوں کے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہوتی ہے۔

دنیا کے 7 ارب انسانوں میں سے لگ بھگ 80 فیصد عوام نسلوں سے بھوک اور افلاس کی زندگی گزار رہے ہیں۔ پاکستان کی آبادی کا بھی 80 فیصد حصہ غربت کا شکار ہے جنھیں زندہ رہنے کے لیے دو وقت کی روٹی بھی نصیب نہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 80 فیصد سے زیادہ انسان غربت میں کیوں مبتلا ہیں؟ اس کا ایک سیدھا سادہ سا جواب یہ ہے کہ دنیا کی دولت کا 80 فیصد سے زیادہ حصہ چند گنے چنے لوگوں کے ہاتھوں میں جمع ہو گیا ہے۔

فی الوقت ہم اس کے اسباب کا احاطہ نہیں کریں گے کیونکہ اس حوالے سے صرف سرمایہ دارانہ نظام کا ذکر کرنا کافی ہے جو امراء دنیا کی 80 فیصد دولت پر قبضہ جمائے بیٹھے ہیں ان میں سے ایک سب سے بڑے دولت مند کا نام بل گیٹس ہے۔ آج کے اخبار کی ایک خبر کے مطابق اس دنیا کے سب سے بڑے قبضہ گیر کے قبضے میں اس وقت 78 کھرب 54 ارب روپے ہیں۔ گزشتہ برس بل گیٹس کی دولت 83 کھرب روپے تھی' وہ 22 برس کے دوران 17 برس مالداروں کی فہرست میں سرفہرست رہے۔

بل گیٹس جیسے چند قبضہ گیروں نے دنیا کی 80 فیصد دولت پر قبضہ کر کے دنیا کے 80 فیصد لوگوں کو دو وقت کی روٹی سے محتاج کر رکھا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بعض اہل قلم بل گیٹس کے خیراتی کاموں کی تعریف میں مسلسل اپنا قلم گھساتے رہتے ہیں کیونکہ انھیں اس حقیقت کا شاید علم نہیں ہوتا کہ سرمائے کے اس ارتکاز سے کروڑوں اربوں انسان مسلسل غربت کا شکار رہتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کے سرپرستوں اور رکھوالوں نے ہر ملک کے آئین میں لامحدود حق ملکیت کو تحفظ دے کر دنیا بھر میں معاشی ناانصافی کو جائز بنا دیا ہے۔


جس طرح جمہوریت کو عوام کی حکومت بتا کر دنیا بھر کے عوام کو دھوکا دیا جا رہا ہے اسی طرح نجی ملکیت کے حق کو سارے عوام کا حق بتا کر 7 ارب انسانوں کو دھوکا دیا جا رہا ہے کیونکہ جمہوریت میں جس طرح ووٹر صرف ووٹ کا مالک ہوتا ہے اور اس کا ووٹ کسی نہ کسی طرح آخرکار اپنے معاشی قاتلوں اور ان کے دلالوں کے حق میں چلا جاتا ہے اسی طرح غریب کا نجی ملکیت کا حق اس کے دو ہاتھوں تک محدود ہو کر رہ جاتا ہے۔

سرمایہ دارانہ نظام میں دولت میں اضافے کا ایک مرحلہ ایسا آتا ہے کہ سرمایہ دار کو اپنی دولت میں اضافے کے لیے کچھ کرنا نہیں پڑتا بلکہ دولت میں بے تحاشا اضافہ ایک آٹو میٹک سسٹم کے تحت ہوتا رہتا ہے۔ بل گیٹس اپنی 83 یا 78 کھرب کی دولت میں سے چند ارب روپے خیراتی کاموں میں لگاتا ہے تو اس کی اس سخاوت اور رحم دلی کی تعریف کرتے ہوئے ہماری زبان نہیں تھکتی کیونکہ ہمیں اس حقیقت بلکہ تلخ حقیقت کا ادراک ہی نہیں رہتا کہ بل گیٹس اور اس کے چند طبقاتی بھائیوں نے دنیا کی 80 فیصد دولت پر قبضہ کر کے دنیا کے 80 فیصد انسانوں کو دو وقت کی روٹی سے بھی محروم کر دیا ہے۔

سرمایہ دارانہ نظام کی حامی جمہوریتوں میں جہاں لامحدود حق ملکیت کو تحفظ دے کر دنیا کی مجموعی دولت کا 80 فیصد حصہ چند ہاتھوں میں جمع کر دیا ہے، اسی طرح پسماندہ ملکوں میں اشرافیائی جمہوریت کو رواج دے کر اشرافیہ کو لوٹ مار کے ایسے مواقعے فراہم کر دیے ہیں کہ ہر جمہوری فنکار ارب پتی بنا ہوا ہے اور غریب طبقات بھوک بیماری تعلیم سے محرومی کے ساتھ عذاب کی زندگی گزار رہے ہیں۔

دنیا بھر کے جمہوری ملکوں میں عوام کے منتخب نمایندوں میں سے کسی ایک کو بھی یہ ترغیب نہیں ہوتی کہ وہ دنیا کی 80 فیصد دولت کو چند ہاتھوں میں مرکوز کرنے اور 80 فیصد انسانوں کو غربت کے جہنم میں دھکیلنے والے اس جمہوری میکنزم یعنی ارتکاز دولت پر پابندی لگانے اور نجی ملکیت کو محدود کرنے کا مطالبہ کرے؟ ہمارے جمہوری دانشور اور قلم کار سرمایہ دارانہ جمہوریت کے تحفظ میں مرے جاتے ہیں لیکن اس جمہوریت کی وبا سے مرنے والے ہزاروں غریب ان کی نظروں سے اوجھل ہوتے ہیں کیونکہ جمہوریت کی کان نمک میں جا کر عوام کی حمایت اور رہنمائی کرنے والا مڈل کلاس بھی نمک بن جاتا ہے۔

سرمایہ دارانہ نظام ڈھائی تین سو سالوں سے دنیا پر مسلط ہے اس طویل استحصالی دور میں ایک شخص مارکس اور اس کے ایک دوست نے اس لوٹ مار کے نظام کے منہ میں لگام دینے کے لیے ایک معاشی نظام پیش کیا۔ دنیا کا کوئی نظام بھی حرف آخر نہیں ہوتا اور اس میں وقت اور حالات کے مطابق تبدیلیاں لائی جاتی ہیں لیکن ہر نظام کے کچھ رہنما اور کلیدی اصول ہوتے ہیں اگر یہ کلیدی اصول عوام کے اجتماعی مفادات کے مطابق ہوں تو پھر وقت ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ لیکن وہ طبقات جنھیں ان کلیدی عوامی بھلائی کے اصولوں سے نقصان پہنچتا ہے وہ ان کے خلاف آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں۔

یہی مارکسزم کے ساتھ ہوا۔ سرمایہ دارانہ نظام کی پوری مشینری اور میڈیا مارکسزم میں ایسے ایسے کیڑے تلاش کر کے عوام کے سامنے پیش کرتا رہا کہ عوام خود اپنے دشمن ہو گئے۔ اب مارکسزم نہیں ہے۔ ہر جگہ سرمایہ دارانہ نظام ہی کی جے جے کار ہے ہر طرف لوٹ مار کی بھرمار ہے اس ظلم کے خلاف نہ کوئی پنڈت آواز اٹھاتا ہے نہ پوپ نہ مولوی۔ ہم سرمایہ دارانہ نظام کے اس حریف نظام کی حمایت سے دست بردار ہوتے ہوئے جمہوری ملکوں اور جمہوریت پسندوں سے صرف دو مطالبے کرتے ہیں کہ نجی ملکیت کے لامحدود حق کو ختم کرو اور ارتکاز دولت کو چند ہاتھوں سے نکال کر ملکی دولت کو عوام کے تصرف میں لانے کی راہ ہموار کرو۔ کیا یہ مطالبے بھی دین میں مداخلت ہیں؟
Load Next Story