تحفظ اقدار کے لیے…ریفرنڈم…
نام نہاد مذہبی انتہا پسندوں نے دین کی غلط تشریح اختیارکرکے ملک کو خاک اور خون میں نہلا دیا۔
وطن عزیز تاریخ کے انتہائی نازک ترین دور سے گزر رہا ہے اور یہ وقت فیصلہ کن ہے ۔
قوم کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ ہمیں اپنے شاندارماضی کی اقدار کا تحفظ کرنا ہے یا ملک کو تاریکیوں کی نذرکرنا ہے۔ 15اپریل 2007 کو متحدہ قومی موومنٹ نے ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ مذہبی انتہا پسندی کے خلاف ایک مؤثر آواز بلند کرتے ہوئے کراچی کے تبت سینٹر سے تاریخی ملین مارچ منعقدکیا۔ یہ مارچ اس جدوجہد کا نقطہ آغاز تھا جو ملک کے عوام، نوجوان نسل اور آنے والی نسل کو بچانے کے لیے شروع کی گئی تھی۔ ہماری مساجد،امام بارگاہیں،سماجی اور مذہبی مسائل کے حل کے لیے شاندار کردار ادا کر رہی تھیں، لیکن نام نہاد مذہبی انتہا پسندوں نے دین کی غلط تشریح اختیارکرکے ملک کو خاک اور خون میں نہلا دیا۔ ترقی کی راہیں ہر گزرتے دن کے ساتھ مسدود ہو رہی ہیں۔
ملک کے طول وعرض میں خوف اور بربریت کا ماحول نئی نسل کو متاثر کررہا ہے۔آج مساجد اور امام بارگاہوں میں داخلے سے پہلے تلاشی لی جاتی ہے کہ کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما نہ ہوجائے۔ سوال یہ اُٹھتا ہے کہ اس تلاشی کے اثرات معصوم بچوں پر کس طرح سے مرتب ہوتے ہوں گے؟ وہ مذہب اور دین کے بارے میں کیا سوچتے ہوں گے؟ یہ فیصلہ پاکستان کے عوام کو کرنا ہے۔ دین ہمیں علوم حاصل کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ کائنات کی تسخیر کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ جدیدعلوم کے بغیر ہم اس کائنات کو کیسے مسخر کرسکتے ہیں؟ تعلیم، علم کے دشمن آج اس ملک کی تباہی کے درپے ہیں۔ آج پاکستان کے عوام اس بات کا فیصلہ کرچکے ہیں کہ انھیں ایک ایسا پاکستان چاہیے جہاں وہ تمام مذہبی و سماجی آزادی کے ساتھ اپنی زندگی بسرکرسکیں۔
اس کے لیے ضروری ہے کہ اس عسکریت پسند گروہ کے خلاف آواز بلند کی جائے جس نے ملک میں دہشت اور خوف کے سائے فگن کر رکھے ہیں۔
برصغیر اور براعظم ایشیاء کی تاریخ پر اگر نظر ڈالی جائے تو یہ انتہائی آسودہ حال خطہ رہا ہے۔ پوری دنیا سے رزق اور سکون کی تلاش میں قافلے یہاں آکر آباد ہوئے اور انھوں نے اپنی نسلوں کی بقاء اور سلامتی کے لیے اس خطے میں بودوباش اختیار کی۔ یہ خطہ شاندار روایات کا امین ہے۔ بزرگان دین کی یہ سرزمین جہاں پر انھوں نے اپنے کردار و عمل سے دین اسلام کا پرچم سربلند کیا، آج نام نہاد مذہبی ، جہادی اس پرچم کو سرنگوں کرنا چاہتے ہیں۔ لہٰذا اس امر کو مدنظر رکھتے ہوئے 98فیصد مظلوم عوام کے قائد نے اپنے اس عزم صمیم کا اعادہ کرتے ہوئے کہ وہ ملک کو مذہبی منافرت، لسانی و نسلی تعصب سے آزاد کروا کر ہی دم لے گا، ملک کی تاریخ میں پہلے عوامی ریفرنڈم کا اعلان کیا جو سرکاری سطح پر نہیں ہوگا، بلکہ ایک مستحکم ڈھانچے کی حامل سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ منعقد کرے گی۔
یہ ریفرنڈم اس عنوان کے تحت منعقد کیاجائے گاکہ ''پاکستان کے عوام کو بانی پاکستان ، قائد اعظم محمد علی جناح کا پاکستان چاہیے یا نام نہاد انتہا پسندوں جو اپنے آپ کو طالبان کے نام سے متعارف کرواتے ہیں، ان کا پاکستان؟''۔ یقینا یہ ریفرنڈم ایک رسمی کارروائی ہوگا۔ پاکستان کا روشن خیال معاشرہ ایک ایسے ملک کی تشکیل چاہتا ہے جو نہ صرف فلاحی ریاست ہو بلکہ وہاں پر مذہب، زبان، نسل کی بنیاد پرکوئی تفریق موجود نہ ہو۔
پاکستان کی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ پاکستان کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ مذہبی منافرت ہے جو کبھی فرقہ واریت کی شکل میں ملک کو اپنی لپیٹ میں لیتی ہے تو کبھی اشتراکیت کے خاتمے کے لیے نوجوان نسل کو جنگ کی آگ میں دھکیل دیتی ہے اور آج یہی عناصر جو کل تک اشتراکیت کے خاتمے کے لیے سب کے ساتھ چلنے کو تیار تھے، انھی کے خلاف جہاد پر آمادہ ہیں، جن کی تنخواہ پرکل تک کام کرتے تھے، آج انھی سے برسرپیکار ہیں۔ اس کا نتیجہ پاکستان کے عوام بھگت رہے ہیں، خواہ یہ خودکش دھماکوں کی شکل میں ہو یا ڈرون حملوں کی شکل میں، اس کا نقصان پاکستان کے عوام کو ہوتا ہے۔
بچوں کے اسکول بموں سے اڑانا، فروعی اختلافات کی بنیاد پر مساجد کو دھماکوں سے اڑا دینا، فوجی تنصیبات پر مسلح حملے کرکے قبضہ کرنا اپنا وطیرہ بنائے ہوئے ہیں، دین کی خود ساختہ تشریح کی بنیاد پر انسانوں کو ذبح کررہے ہیں اب تک معصوم بچوں کے اسکولوں کو تباہ کررہے تھے اب ان معصوم بچوں پر بزدلانہ حملے کر کے اپنی شکست کا اعتراف کررہے ہیں ۔14نومبر2012 کی تاریخ اس بات کا فیصلہ کردے گی کہ پاکستان کے عوام ایک خوشحال پاکستان کے خواہاں ہیں وہ علم کے دشمنوں کے خلاف ہیں پاکستان کے عوام اپنی تابناک روایات کے امین ہیں ۔ دہشت گردی، انتہا پسندی اور بربریت سے وہ لاتعلقی کا اعلان کرتے ہیں۔
یہ ریفرنڈم ملک کی تاریخ کے دھارے کو تبدیل کرے گا ۔ درپردہ انتہا پسندوں کی حمایت کرنے والوں کے تابوت میں یہ ریفرنڈم آخری کیل ثابت ہوگا اس ریفرنڈم کے انعقاد کی غرض سے ملک کے طول وعرض میں ہزاروں پولنگ اسٹیشن قائم کیے جارہے ہیں عوام کی سہولت کے لیے www.mqm.org پر آن لائن ووٹنگ کا سلسلہ صبح نو بجے سے شام پانچ بجے تک جاری رہے گا، دور دراز علاقوں کے عوام بذریعہ ڈاک اپنی رائے اظہار کرسکیں گے ٹیلی فون کال اور ایس ایم ایس سے بھی عوام استعفادہ کرسکیں گے۔ یہ ریفرنڈم اس بات کی بھی ترغیب دے گا کہ آج ہم اپنے مؤقف کو دوٹوک انداز میں سامنے رکھیں کہ ہم طالبان کے حمایتی ہیں یا قائد اعظم محمد علی جناح کے۔ اگر نئی نسل کو ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن کرنا ہے تو ہمیں جناح کے تصورات کے مطابق پاکستان کی تشکیل کرنا ہوگی۔ اس ضمن میں قائد تحریک الطاف حسین کا دوٹوک مؤقف ایک قابل تقلید مثال ہے۔
قوم کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ ہمیں اپنے شاندارماضی کی اقدار کا تحفظ کرنا ہے یا ملک کو تاریکیوں کی نذرکرنا ہے۔ 15اپریل 2007 کو متحدہ قومی موومنٹ نے ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ مذہبی انتہا پسندی کے خلاف ایک مؤثر آواز بلند کرتے ہوئے کراچی کے تبت سینٹر سے تاریخی ملین مارچ منعقدکیا۔ یہ مارچ اس جدوجہد کا نقطہ آغاز تھا جو ملک کے عوام، نوجوان نسل اور آنے والی نسل کو بچانے کے لیے شروع کی گئی تھی۔ ہماری مساجد،امام بارگاہیں،سماجی اور مذہبی مسائل کے حل کے لیے شاندار کردار ادا کر رہی تھیں، لیکن نام نہاد مذہبی انتہا پسندوں نے دین کی غلط تشریح اختیارکرکے ملک کو خاک اور خون میں نہلا دیا۔ ترقی کی راہیں ہر گزرتے دن کے ساتھ مسدود ہو رہی ہیں۔
ملک کے طول وعرض میں خوف اور بربریت کا ماحول نئی نسل کو متاثر کررہا ہے۔آج مساجد اور امام بارگاہوں میں داخلے سے پہلے تلاشی لی جاتی ہے کہ کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما نہ ہوجائے۔ سوال یہ اُٹھتا ہے کہ اس تلاشی کے اثرات معصوم بچوں پر کس طرح سے مرتب ہوتے ہوں گے؟ وہ مذہب اور دین کے بارے میں کیا سوچتے ہوں گے؟ یہ فیصلہ پاکستان کے عوام کو کرنا ہے۔ دین ہمیں علوم حاصل کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ کائنات کی تسخیر کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ جدیدعلوم کے بغیر ہم اس کائنات کو کیسے مسخر کرسکتے ہیں؟ تعلیم، علم کے دشمن آج اس ملک کی تباہی کے درپے ہیں۔ آج پاکستان کے عوام اس بات کا فیصلہ کرچکے ہیں کہ انھیں ایک ایسا پاکستان چاہیے جہاں وہ تمام مذہبی و سماجی آزادی کے ساتھ اپنی زندگی بسرکرسکیں۔
اس کے لیے ضروری ہے کہ اس عسکریت پسند گروہ کے خلاف آواز بلند کی جائے جس نے ملک میں دہشت اور خوف کے سائے فگن کر رکھے ہیں۔
برصغیر اور براعظم ایشیاء کی تاریخ پر اگر نظر ڈالی جائے تو یہ انتہائی آسودہ حال خطہ رہا ہے۔ پوری دنیا سے رزق اور سکون کی تلاش میں قافلے یہاں آکر آباد ہوئے اور انھوں نے اپنی نسلوں کی بقاء اور سلامتی کے لیے اس خطے میں بودوباش اختیار کی۔ یہ خطہ شاندار روایات کا امین ہے۔ بزرگان دین کی یہ سرزمین جہاں پر انھوں نے اپنے کردار و عمل سے دین اسلام کا پرچم سربلند کیا، آج نام نہاد مذہبی ، جہادی اس پرچم کو سرنگوں کرنا چاہتے ہیں۔ لہٰذا اس امر کو مدنظر رکھتے ہوئے 98فیصد مظلوم عوام کے قائد نے اپنے اس عزم صمیم کا اعادہ کرتے ہوئے کہ وہ ملک کو مذہبی منافرت، لسانی و نسلی تعصب سے آزاد کروا کر ہی دم لے گا، ملک کی تاریخ میں پہلے عوامی ریفرنڈم کا اعلان کیا جو سرکاری سطح پر نہیں ہوگا، بلکہ ایک مستحکم ڈھانچے کی حامل سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ منعقد کرے گی۔
یہ ریفرنڈم اس عنوان کے تحت منعقد کیاجائے گاکہ ''پاکستان کے عوام کو بانی پاکستان ، قائد اعظم محمد علی جناح کا پاکستان چاہیے یا نام نہاد انتہا پسندوں جو اپنے آپ کو طالبان کے نام سے متعارف کرواتے ہیں، ان کا پاکستان؟''۔ یقینا یہ ریفرنڈم ایک رسمی کارروائی ہوگا۔ پاکستان کا روشن خیال معاشرہ ایک ایسے ملک کی تشکیل چاہتا ہے جو نہ صرف فلاحی ریاست ہو بلکہ وہاں پر مذہب، زبان، نسل کی بنیاد پرکوئی تفریق موجود نہ ہو۔
پاکستان کی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ پاکستان کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ مذہبی منافرت ہے جو کبھی فرقہ واریت کی شکل میں ملک کو اپنی لپیٹ میں لیتی ہے تو کبھی اشتراکیت کے خاتمے کے لیے نوجوان نسل کو جنگ کی آگ میں دھکیل دیتی ہے اور آج یہی عناصر جو کل تک اشتراکیت کے خاتمے کے لیے سب کے ساتھ چلنے کو تیار تھے، انھی کے خلاف جہاد پر آمادہ ہیں، جن کی تنخواہ پرکل تک کام کرتے تھے، آج انھی سے برسرپیکار ہیں۔ اس کا نتیجہ پاکستان کے عوام بھگت رہے ہیں، خواہ یہ خودکش دھماکوں کی شکل میں ہو یا ڈرون حملوں کی شکل میں، اس کا نقصان پاکستان کے عوام کو ہوتا ہے۔
بچوں کے اسکول بموں سے اڑانا، فروعی اختلافات کی بنیاد پر مساجد کو دھماکوں سے اڑا دینا، فوجی تنصیبات پر مسلح حملے کرکے قبضہ کرنا اپنا وطیرہ بنائے ہوئے ہیں، دین کی خود ساختہ تشریح کی بنیاد پر انسانوں کو ذبح کررہے ہیں اب تک معصوم بچوں کے اسکولوں کو تباہ کررہے تھے اب ان معصوم بچوں پر بزدلانہ حملے کر کے اپنی شکست کا اعتراف کررہے ہیں ۔14نومبر2012 کی تاریخ اس بات کا فیصلہ کردے گی کہ پاکستان کے عوام ایک خوشحال پاکستان کے خواہاں ہیں وہ علم کے دشمنوں کے خلاف ہیں پاکستان کے عوام اپنی تابناک روایات کے امین ہیں ۔ دہشت گردی، انتہا پسندی اور بربریت سے وہ لاتعلقی کا اعلان کرتے ہیں۔
یہ ریفرنڈم ملک کی تاریخ کے دھارے کو تبدیل کرے گا ۔ درپردہ انتہا پسندوں کی حمایت کرنے والوں کے تابوت میں یہ ریفرنڈم آخری کیل ثابت ہوگا اس ریفرنڈم کے انعقاد کی غرض سے ملک کے طول وعرض میں ہزاروں پولنگ اسٹیشن قائم کیے جارہے ہیں عوام کی سہولت کے لیے www.mqm.org پر آن لائن ووٹنگ کا سلسلہ صبح نو بجے سے شام پانچ بجے تک جاری رہے گا، دور دراز علاقوں کے عوام بذریعہ ڈاک اپنی رائے اظہار کرسکیں گے ٹیلی فون کال اور ایس ایم ایس سے بھی عوام استعفادہ کرسکیں گے۔ یہ ریفرنڈم اس بات کی بھی ترغیب دے گا کہ آج ہم اپنے مؤقف کو دوٹوک انداز میں سامنے رکھیں کہ ہم طالبان کے حمایتی ہیں یا قائد اعظم محمد علی جناح کے۔ اگر نئی نسل کو ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن کرنا ہے تو ہمیں جناح کے تصورات کے مطابق پاکستان کی تشکیل کرنا ہوگی۔ اس ضمن میں قائد تحریک الطاف حسین کا دوٹوک مؤقف ایک قابل تقلید مثال ہے۔