بُک شیلف

افسانہ نگار، نقاد، مدیر اور ناشر کی حیثیت سے ادبی دنیا میں نمایاں پہچان رکھنے والے مبین مرزا کی ایک جہت شاعری بھی ہے

افسانہ نگار، نقاد، مدیر اور ناشر کی حیثیت سے ادبی دنیا میں نمایاں پہچان رکھنے والے مبین مرزا کی ایک جہت شاعری بھی ہے: فوٹو:فائل

رفاقتیں کیا کیا
مصنف: خالد معین،ناشر: دنیائے ادب، کراچی
صفحات:448،قیمت: 350روپے


ہم جن لوگوں میں زندگی کرتے ہیں وہ صرف جسم اور نام نہیں ہوتے، ان میں سے ہر ایک کی کوئی انفرادیت لیے ہوتا ہے، ہنر، ادا، انداز، اطوار اور اوصاف اس ایسی خاصیت عطا کرتے ہیں کہ وہ ہمارے لیے ایک الگ پہچان رکھتا ہے، سو وقت اور زمین کے فاصلے درمیان آجائیں تو دور ہوجانے والوں کے نام اور چہرے ہی ہماری آنکھوں میں نہیں بھر آتے، ان کے سارے حوالے، پہلو اور ان سے جُڑی کہانیاں محفل سجادیتی ہیں۔

بہ کمال شاعر اور لکھاری خالدمعین کی کتاب بھی صفحہ درصفحہ اور سطردرسطر ایسی ہی محفلوں سے آباد ہے۔ مصنف اس کتاب کے بارے میں ''ملال اور طرح کا'' کے زیرعنوان باب میں لکھتے ہیں،''یہ کچھ یادیں ہیں، کچھ باتیں ہیں، کچھ واقعات ہیں، کچھ ملے جلے کرداروں اور شخصیات کے پورے ادھورے عکس ہیں۔

تاہم اس کتاب میں جتنے بھی عکس ہیں وہ سب کے سب ناسٹیجک کیفیت میں میرے ساتھ ساتھ رہے ہیں۔'' مصنف کا کہنا ہے کہ یہ''کوئی مربوط، منظم، سوچی سمجھی کتاب نہیں۔ یو تو ناسٹلجیا کے زیراثر لکھی جانے والی کچھ غیرمربوط، غیرمنظم اور یونہی سی تحریریں ہیں۔'' ان تحریروں کو ''یوں ہی سی'' کہنا بلندقامت خالد معین کی منکسرالمزاجی ہے، البتہ یہ خوب صورت تحریریں خود بتاتی ہیں کہ ان کے پیچھے کوئی منظم کوشش نہیں، بل کہ خودرو سوچیں صفحات پر اُگتی چلی گئی ہیں، یاد کی ایک کرن جاگتی ہے اور اس سے کئی اور شعاعیں پھوٹ پڑتی ہیں۔

خالدمعین جو جاننے والے ان کی تہذیب، اخلاص، اخلاق اور شرافت میں گندھی شخصیت سے واقف ہیں، یہ تحریریں بھی ان کی شخصیت کا پرتو ہیں، جن میں کسی پر کیچڑ اچھالا گیا ہے، نہ عیب جوئی کی گئی ہے، انھوں نے اپنے احباب میں سے ہر ایک کا تذکرہ بڑی محبت سے کیا ہے۔ کتاب کا پہلا باب ''ملال اور طرح کا'' مصنف کے عزیزوں کے تذکرے پر مبنی ہے، جس میں ان کے والد مرحوم اور اہلیہ مرحومہ کا خصوصیت کا ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔

دیگر ابواب میں ان افراد کے تذکرہ ملتا ہے جن سے کسی نہ کسی دور میں مصنف کی رفاقت رہی۔ یہ کتاب ہمیں شعرادب اور میڈیا سے متعلق مختلف شخصیات اور افراد ہی کی زندگی اور شخصیت کے مختلف گوشوں سے آشنائی فراہم نہیں کرتی بل کہ اس میں ماضی اور حال کراچی کی سماجی اور ادبی زندگی کی جھلکیاں بھی جابہ جا نظر آتی ہیں۔ سادہ اور دل کش سرورق سے مزین اس کتاب کی کتابت بھی معیاری ہے۔

میلان کنڈیرا
مؤلف: آصف حسن،ناشر، سٹی بُک پوائنٹ، کراچی
صفحات:128،قیمت:250روپے


میلان کنڈیرا کا شمار ان ادیبوں میں ہوتا ہے جن کے تحریر کردہ الفاظ دنیا کی لاتعداد زبانوں کا چولا پہن کر ملکوں ملکوں سفر کرتے ہیں۔ چناں چہ چیک قوم سے تعلق رکھنے والا یہ قلم کار پوری دنیا میں جانا اور مانا جاتا ہے۔ میلان کنڈیرا کا تعلق قرطاس وقلم سے رشتہ جوڑنے والے ان افراد سے ہے جنہوں نے اپنی سوچ کی صورت گری لفظوں سے کرنے کے ساتھ اپنے افکارواعتقادات کے لیے عملی جدوجہد بھی کی۔ میلان کنڈیرا سابق چیکوسلوواکیہ کی کمیونسٹ پارٹی کا رکن رہے اور پھر اپنے رجحانات اور خیالات کی بنا پر پارٹی سے نکال دیے گئے۔

ساتھ ہی انھیں اپنے خیالات اور افکار کی پاداش میں صعوبتوں کا سامنا کرنا پڑا اور انھیں فرانس ہجرت کرنا پڑی۔ یہ مختصر سا خاکہ یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ میلان کنڈیرا کی زندگی ان کی تحریروں کی طرح دل ودماغ کو اسیر کردینے والی کہانی ہے۔ زیرتبصرہ کتاب ایم خالد فیاض کی زیرادارت شایع ہونے والے ادبی جریدے ''تناظر'' میں میلان کنڈیرا پر چھپنے والے گوشے کی کتابی شکل ہے، جس میں خالدجاوید کا مضمون ''میلان کنڈیرا: شخصی وتنقیدی تعارف''،''افسانے کا فن'' (میلان کنڈیرا سے انٹرویو، ترجمہ: نجم الدین احمد)، ''یروشلم میں تقریر: ناول اور یورپ (ترجمہ: ڈاکٹر ارشد وحید)،''جشن'' (ناول کا ایک باب)،''پُرانے مُردوں کو نئے مُردوں کے لیے جگہ بنانی چاہیے'' (کہانی، ترجمہ: محمود احمد قاضی)،''کوئی نہیں ہنسے گا'' (کہانی، ترجمہ: نجم الدین احمد)، ''میلان کنڈیرا کا فکشن''(محمود احمد قاضی) شامل ہیں۔ عالمی ادب پڑھنے والوں خصوصاً میلان کنڈیرا کے پرستاروں کے لیے یہ کتاب اس روشن دماغ قلم کار اور اس کے فن سے متعلق جاننے کے لیے نہایت سودمند ثابت ہوسکتی ہے۔
فکر کاہش (شاعری)
شاعر: فیض عالم بابر، صفحات: 208، قیمت: 300 روپے، ناشر: ظفر اکیڈمی، کراچی



کیا بتاؤں حال دل کا اور بتا بھی دوں تو کیا
کون سنتا ہے کسی کی، میں سنا بھی دوں تو کیا

زیرتبصرہ کتاب نئی نسل کی باصلاحیت شاعر، فیض عالم بابر کا دوسرا شعری مجموعہ ہے۔ اُنھیں دشت سخن کی خاک چھانتے دو عشرے ہوچکے۔ اس عرصے میں کئی تجربات سے گزرے ہوں گے، منازل طے کی ہوں گے۔ پیشہ ان کا صحافت۔ اِس نے عصری شعور سے جوڑے رکھا۔ یہ شعور ان کے شاعری میں بھی نظر آتا ہے۔ عالم گیریت اور تیز رفتار زندگی کی عطا کردہ تنہائی خاص موضوع۔ کہتے ہیں:

میرے اندر بھی خلا ہے تیرے اند بھی خلا
اس خلا سے اُس خلا تک، ہے فضا تنہائی کی

اُن کے ہاں روایات سے انحراف نہیں، مگر انھیں جوں کا توں تسلیم بھی نہیں کرتے۔ باغیانہ خو، مگر یہ تخریب نہیں، ترتیب کی سمت جاتی ہے۔ یہاں نعرہ نہیں، نشان دہی ہے۔

قافلہ سالار گم صم، قافلہ خاموش ہے
سرد موسم، گھپ اندھیرا، راستہ خاموش ہے

کتاب میں تین شخصیات کی فیض عالم بابر سے متعلق رائے موجود۔ رفیع الدین راز کے بہ قول،''خود کلامی کو تنہائی کی دوا سمجھنے والا بابر روح کے اضطراب میں زندگی کی رعنائیاں ڈھونڈتا ہے۔۔۔ وہ زندگی کی آگ اور اس کی انتہائی حرارت کو محض چھو کر نہیں، بلکہ اس انگارے کو پوری قوت سے اپنی مٹھی میں دبا کر دیکھنا چاہتا ہے۔۔۔ اس میں وہ تمام علامتیں موجود ہیں، جو کسی بھی تخلیق کار کو آنے والے کل میں نمایاں بناتی ہیں۔''

نثری نظم کے معروف شاعر احسن سلیم لکھتے ہیں،''اس جواں سال شاعر نے زبان و بیان کے موجودہ اسٹرکچر میں کئی نئے خیالات اور روایت سے پیوستہ کئی نئے جذبات و تصورات کو داخل کر دیا ہے۔۔۔ بابر نے اپنے اندر اپنی شاعری کے بہت سے قاری پیدا کر لیے ہیں۔'' عظیم راہی کے مطابق اس مجموعے میں بابر جا بجا اپنے تخلیقی جوبن پر دکھائی دیتا ہے۔ شاعر علی شاعر نے بھی فلیپ لکھا ہے۔

آج ان دونوں میں کوئی فیصلہ ہونے کو ہے
ایک بولے جارہا ہے دوسرا خاموش ہے

کہیں کہیں داخلیت بھی ہے، جس میں یاس بھی اور تذبذب بھی۔ تذبذب شعوری انتخاب، جس کے طفیل ہمارا سامنا ایک نئی جہت سے ہوتا ہے۔

کیا پتا میرے لیے بہتر ہے یا بہتر نہیں
ایسا منظر ہوں کہ جس کا کوئی پس منظر نہیں

فیض نوجوان نسل کے ان شعرا میں ہیں، جن سے امیدیں وابستہ کی جاسکتی ہیں۔ ایک عرصے سے غزل کی موت کا اعلان ہورہا ہے، مگر یہ بڑی سخت جان ہے، مرتی ہی نہیں۔ یہی غزل ان کا میدان۔ البتہ ان کے ہاں روانی اور سلاست۔ موضوعات بھی اہم۔ ہمارے نزدیک انھیں نظم کا بھی تجربہ کرنا چاہیے۔ ان کی کام یابی کے لیے نیک تمنائیں۔ کتاب اچھے ڈھب پر شایع کی گئی ہے۔

پاؤں (افسانے)
افسانہ نگار: عرفان احمد عرفی، صفحات: 159، قیمت: 350، ناشر، سانجھ، لاہور




''شاہ راہ کے تاریک سناٹے پر لمحہ بہ لمحہ منفی کی جانب گرتے درجۂ حرات کا پڑاؤ جمتا جارہا تھا۔ سردی کی وجہ سے شہر سر شام ہی بجھ چکا تھا، اور ڈاؤن ٹاؤن کی ٹمٹماتی گلیاں خاصی دیر سے ویران ہوچکی تھیں۔''

کچھ یوں عرفان احمد عرفی کی ایک متاثر کن گھڑنت، ایک ان چھوئے موضوع پر لکھے پُرتجسس افسانے ''بھاپ'' کا آغاز ہوتا ہے، جو عہد حاضر میں، یک ساں زمان و مکان میں موجود دو مختلف دنیاؤں کی عکاسی کرتا ہے۔

80 کی دہائی میں ممتاز مفتی نے اُنھیں افسانے نگاری کو کل وقتی مصروفیات بنانے کا مشورہ دیا۔ ان ہی برسوں میں منشا یاد کو ان میں ایک بڑا افسانہ نگار نظر آیا۔ ''فنون'' میں افسانے بھیجے، تو قاسمی صاحب کی شفقت میسر آئی۔ زیرتبصرہ مجموعے میں شامل پہلا افسانہ ''پَیر'' جب 89ء میں ڈاکٹر وزیر آغا نے پڑھا، تو کہنے لگے،''بڑی تازگی کا احساس ہوا۔ اپنے اندر عجیب فنی حسن رکھتا ہے۔''

''پَیر'' ایک بدلے ہوئے پیرایے میں، غیرروایتی احساسات کے ساتھ بیان کردہ کہانی ہے۔ ابتدائیہ ملاحظہ فرمائیں: ''اس شام عجلت میں وہ جوتے پہن کر چلا تو گیا، مگر پیر میرے کمرے میں ہی بھول گیا۔ رات بھر سینے میں دل نہیں پیر دھڑکتا رہا۔''

افسانہ ''نوٹنکی'' بھی ان کی گرفت اور مشاہدے کا عکاسی۔ یہی معاملہ ''لاپتا'' کا۔ مجموعے میں شامل افسانے ''کہانی آخر میں ہے'' قابل ذکر، جس کا موضوع بولڈ۔ تکنیک متاثر کن۔ اختتامیہ چونکا دینے والا۔

یہ کتاب گیارہ افسانوں پر مشتمل۔ ذرا معروضی تنقید کے اوزاروں سے جائزہ لے لیں۔ پہلا مرحلہ موضوعات کا۔ سیانے کہتے ہیں؛ کہانی کے بنیادی موضوعات وہی رہتے ہیں، مثلاً نفرت، محبت، حسد، انتقام اور جنس وغیرہ۔ ٹھیک ہے جناب، مگر ضروری یہ کہ کہانی کار ان موضوعات میں نئے پہلو کھوجے۔ اور یہ کام عرفان احمد کرنا جانتے ہیں۔ نئی جھلکیاں ہیں۔ دوسرا معاملہ تیکنیک کا۔ وہ جدید افسانے کے آدمی، بیانیہ اگر ہے بھی، تو تہ دار۔ کہیں علامتی، کہیں کہیں تجرید۔ تو تیکنیک کے اچھے تجربے ملتے ہیں۔ تیسرا اوزار زبان۔ زبان فکشن میں کردار کا درجہ رکھتی ہے۔

''عظیم تخلیقات سادہ زبان میں بیان کی جاتی ہیں!'' یہ ایک کلیشے ہے۔ انھوں نے الفاظ کو اپنے ڈھب پر کام یابی سے برتا۔ کہیں جملہ گنجلک بھی ہوا، مگر جو موضوعات، ان کی مناسبت سے الفاظ چنے گئے۔ کہیں کہیں چنگھاڑتے ہوئے، کہیں اداس، کہیں پریشان۔ چوتھا اوزار ہے خیال۔ یہ تفصیل کا متقاضی۔ البتہ یہ کہا جاسکتا ہے، ان کی کہانیاں انسان کے بلند و پست خیالات و احساسات دونوں ہی پہلوؤں کا احاطہ کرتی ہیں۔ کہیں کہیں داخلیت کا غلبہ، جس میں کوئی مضایقہ نہیں۔ جنس پر ان کی گرفت۔ تجسس ان کی کہانیوں کا اہم ترین پہلو۔ کتاب کا گیٹ اپ عمدہ۔ ٹائٹل بے حد خوب صورت۔
اردو ناول (کرداروں کا حیرت کدہ)
ڈاکٹر ممتاز احمدخاں،ناشر: فضلی سنز اردو بازار صدر، کراچی
کتاب ملنے کے پتے: فضلی بک سپرمارکیٹ، اردو بازار، کراچی/کتاب سرائے، فرسٹ فلور الحمدمارکیٹ، غزنی اسٹریٹ، اردو بازار، لاہور/کتاب گھر: کمیٹی چوک، راولپنڈی
صفحات:291، قیمت: 300روپے



ناول کی تنقید اور تحقیق کے ضمن میں بڑی بحثیں ہوچکی ہیں۔ کسی بھی ناول یا قصے میں کردار ایسی علامت ہوتا ہے جو ناول کو زندہ رکھنے کے لیے اہم ہوتا ہے،کیوں کہ انسان، انسان میں دل چسپی رکھتا ہے اس لیے سماجی جانور کہلاتا ہے۔ ڈاکٹر ممتاز احمدخاں نے ناول کے ان اہم کرداروں کو بڑی محنت سے یکجا کرنے کی کوشش کی ہے۔

یقیناً ناول کے کرداروں پر یہ ایک اہم کتاب ہے جسے پڑھنے کے بعد قاری کو کردار کی پرکھ میں آسانی ہوگی۔ ''اردو ناول کے ہمہ گیرسروکار'' کے بعد اب ڈاکٹر ممتاز احمدخاں نے مذکورہ کتاب پیش کی ہے جس میں اردو ناول کے بیشتر ایسے کردار میں جو ناول کو دل چسپی سے پڑھنے والوں کے حافظے میں زندہ ہیں۔ مثلاً 'فردوس بریں' کا شیخ علی وجودی، 'آگ کا دریا' کے گوتم، 'چمپا' کا کمال، 'آنگن' کے ذوالفقار علی خان، سنگم کا مسلم، عصمت چغتائی کی شمن، رسوا کی اُمراؤ جان ادا اور ڈپٹی نذیر احمد، نثار عزیزبٹ، ممتاز مفتی وغیرہ کے اہم کردار۔ ان کرداروں میں واقعات کی دل چسپ دنیا آباد ہے اور اس کی ممکنہ جہات پر روشنی ڈالی ہے۔ مغربی کرداروں کے حوالے بھی دیے گئے ہیں اور ناول میں کردار کی اہمیت وحیثیت پر بھی گفتگو ہوئی ہے۔

انھوں نے حیرت کدہ کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ اب قاری کا فرض ہے کہ ان کرداروں کی زندگی کے حیرت ناک واقعات تلاش کرے۔ کتاب کا پیش لفظ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ کتاب کی فہرست کچھ یوں ہے۔(۱) امراؤ جان ادا۔ ایک سدا بہار کردار (۲) وزیرخانم۔ ایک غیرمعمولی نسوانی کردار(۳) فردوسِ بریں کا شیخ علی وجودی(۴) گوتم۔ آگ کا دریا کا مثالی کردار (۵) ابوالمنصور کمال۔ ایک مضطرب روح، ایک شکست خوردہ انسان (۶)چمپا۔ آگ کا دریا کا ایک یادگار کردار (۷) آگ کا دریا، سرل ہارورڈ ایشلے اور برطانوی سام راجیت (۸) گردش رنگ چمن کے نوجوان پیر(۹) گردش رنگ چمن کے دلّن میاں

(۱۰) آنگن کا ایک کردار۔ اسرار میاں (۱۱) شام اودھ کے نواب ذوالفقار علی خان (۱۲) سنگم کا کردار۔ مسلم(۱۳) عصمت چغتائی کی شمن پر ایک تازہ نظر (۱۴) نثار عزیز بٹ کے ناولوں کے کردار (۱۵) چاکیواڑہ میں وصال کے عجیب کردار (۱۶) علی پور کا ایلی بحوالہ تین کردار (۱۷) ڈپٹی نذیر احمد کے یادگار کرداروں پر ایک نظر۔

ناول کی تنقید پر ڈاکٹر ممتاز احمدخاں کی تصانیف 'اردو ناول ہیئت اسالیب اور رجحانات' (پی ایچ ڈی مقالہ)، 'اردو کے بدلتے تناظر' ، 'اردو ناول کے چند اہم زاویے' اور ''اردو ناول کے ہمہ گیرسروکار' اشاعت کی منزلوں سے گزرچکی ہیں۔ کتاب خوب صورت چھپی ہے۔ قیمت بھی مناسب ہے۔

زمینیں اور زمانے (افسانے)
افسانہ نگار: مبین مرزا، صفحات: 208، ناشر: اکادمی بازیافت، قیمت: 400 روپے



فکشن نگار، نقاد، ناشر اور مکالمہ کے مدیر، مبین مرزا کا یہ تازہ افسانوی مجموعہ دس فن پاروں پر مشتمل ہے۔ مبین مرزا سینیر ادیب ہیں اور ایک عرصے سے لکھ رہے ہیں، تنقیدی مباحث، تحاریک اور عصری تقاضوں پر بھی اُن کی گہری نظر ہے۔

اِس مجموعے میں شامل بیش تر افسانے انسانی رشتوں کے گرد گھومتے ہیں۔ ''بھولی بسری عورت'' میں ماضی کے بنتے بگڑتے، مکمل نامکمل رشتوں سے لمحۂ حال میں روبرو ہونے کا احساس قلم بند کیا گیا ہے، جو رائیگانی کا احساس بھی ہے۔ ''اجنبی موسم'' میں بھی بیت چکے تعلق کے پیڑ پر کچھ کونپلیں پھوٹتی ہیں، مگر یک دم جاڑا آجاتا ہے۔

طویل کہانی ''دُہری سزا'' خاندانی جاگیر اور وارثت کے تناظر میں چچا بھتیجے کے رشتے کو بیان کرتی ہے۔ ''مانوس'' میں دو کرداروں کی شہری زندگی سے دور، ایک ڈاک بنگلے میں ملاقات اور اُس سے جنم لیتے احساسات کو دل چسپ پیرائے میں منظر کیا گیا ہے۔ ''واٹس ایپ'' ایک پُرتجس کہانی ہے۔ ''یہی تو ہے زندگی'' میں امریکا میں مسلمانوں سے متعلق بدلتے رویوں اور خود مسلمانوں کے طرز زندگی میں بدلاؤ کو ایک شادی شدہ عورت کے کردار کی صورت منظر کیا گیا ہے۔

''یخ رات کا ایک ٹکڑا'' کا موضوع نیا نہیں، مگر اسے جس گرفت کے ساتھ بُنا گیا، وہ اسے تازگی عطا کرتا ہے، داستان گوئی کا ڈھب اور مافوق الفطرت عناصر اِسے ایک قابل مطالعہ افسانہ بناتے ہیں۔ ''پرچی اور داستان'' مجموعے کی نمایندہ تخلیق، عصری اور سیاسی شعور کے حامل اِس افسانے کی تکنیک، زبان اور موضوع، تینوں متاثر کن ہیں۔

انسانی رشتوں کا احاطہ کرتے اس مجموعے کے بیش تر افسانے واقعیت نگاری کی روایت پر لکھے گئے ہیں اور پُر اثر ہیں۔ کتاب کی طباعت عمدہ اور قیمت مناسب ہے۔

تابانی
شاعر: مبین مرزا،ناشر: اکادمی بازیافت، کتاب مارکیٹ، اردوبازار، کراچی
صفحات:248،قیمت:400 روپے



افسانہ نگار، نقاد، مدیر اور ناشر کی حیثیت سے ادبی دنیا میں نمایاں پہچان رکھنے والے مبین مرزا کی ایک جہت شاعری بھی ہے اور ''تابانی'' ان کی شخصیت کے اس پہلو کا بھرپور اظہار کرتی ہوئی نمودار ہوئی ہے۔ یہ شعری مجموعہ تخلیقی حسن کاری سے چھلکتی ایسی غزلوں اور نظموں پر مشتمل ہے، جن میں روایت اور جدیدیت کا ایک حسین امتزاج جھلکتا ہے۔

مبین مرزا کی شاعری آج کی دنیا کے مسائل اور اس میں سانس لیتے فرد کے روزوشب کے المیوں اور طربیوں سے پھوٹی ہے، جس کا پس منظر کتاب کے پیش لفظ میں پوری وضاحت سے بیان کیا گیا ہے۔ ''وقت کے چاک پر'' کے عنوان سے تحریر کردہ یہ پیش لفظ ان عوامل کو قاری کے سامنے لاتا ہے جن سے مبین مرزا کے افکار اور ان کی شعری تخلیقات کی تشکیل ہوئی۔

یوں قاری صاحب کلام کے ذہنی پس منظر اور ساخت سے آگاہی حاصل کرپاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں، ''شاعری نے مجھے اپنے رو بہ رو کیا، خود سے لا کے ملا دیا اور میں نے جانا کہ یہ میں ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔''جہاں تک مبین مرزا کی شاعری کے فنی اوصاف کا تعلق ہے اس بابت عصری اردو ادب کی کچھ نام ور شخصیات کے تبصرے قابل غور ہیں۔ شمیم حنفی کہتے ہیں،''مبین مرزا کی ان نظموں میں جدید اردو نظم کے دونوں شناسا رنگوں کی آہٹ محسوس کی جاسکتی ہے۔

ایک طرف عظمت اﷲ خان اور میراجی کے واسطے سے اردو کی نئی نظم میں سانولے سلونے پن کی لہر جگاتا ہوا، دوسری طرف اقبال اور راشد کے طرزِاحساس (اور اظہار) کی گونج پیدا کرتا ہوا۔ خوبی کی بات یہ ہے کہ مبین مرزا ان دونوں رنگوں کا مطالبہ ایک سی سہولت کے ساتھ پورا کرتے ہیں۔''

احمدندیم قاسمی رقم طراز ہیں کہ مبین مرزا نے اپنی شاعری میں معاشرے کے ''دردوکرب میں اپنی ذات کے حُسن اور مادّی اور روحانی خوب صورتیوں کی طلب کی شدت کو جس سلیقے سے آمیخت کیا ہے، وہ اس کے فنی مستقبل کا ایک گراں بہا سرمایہ ہے''، جب کہ پروفیسر سحرانصاری کی رائے میں،''مبین مرزا کی شاعری کی یہ کتاب تازہ کاری کی ایک عمدہ مثال ہے اور تخلیق کے کئی انوکھے زاویے رکھتی ہے۔''

یقینا،ً یہ مجموعہ مبین مرزا کی فکری پختہ کاری اور تخلیقی صلاحیتوں کا ایک دل کش نمونہ ہمارے سامنے پیش کرتا ہے۔ کتاب کا خوب صورت سرورق تجریدی آرٹ کے ایک نمونے سے مزین ہے، جو عصر حاضر کے انتشار کا پتا دیتا ہے۔ عمدہ طباعت نے ''تابانی'' کو مزید دل کشی عطا کردی ہے۔
Load Next Story