کوئی کام تو دلجمعی سے کرلیجیے
حکومت اور ماحولیات سے وابستہ اداروں کیلئے یہ انتہائی اہم ہے کہ وہ مستقبل کیلئے کیا منصوبہ بندی کر رہے ہیں؟
ISLAMABAD:
چند نوعمر لڑکے ایک چھوٹے سے باغیچہ میں بیٹھے کرکٹ، ہاکی و فٹ بال کے بڑے میدانوں کی کمی پر اپنے دُکھ کا اظہار کچھ یوں کررہے تھے کہ میدان ختم ہوتے جارہے ہیں۔ لہذا اب وہ کہاں کھیلا کریں گے؟ ایک کے مطابق میدانوں پر رہائشی اسکیمیں بنتی جارہی ہیں تو دوسرے نے کہا کہ اُن رہائشی اسکیموں میں یہ سہولت ہے ہی نہیں اور جن چند میں ہے وہاں پر سیکیورٹی کی وجہ سے صرف رہائشی لڑکوں کو کھیلنے کی اجازت ہے ۔
ایک دوست کہنے لگا کہ ٹی وی پر کسی کھیل میں شکست کا موازنہ ماضی کے مقابلوں و کھلاڑیوں سے کرکے یہ تبصرہ تو کردیا جاتا ہے کہ نئے ٹیلنٹ میں سیکھنے کا شوق نہیں ہے لیکن حکومتی ایوانوں و کاروباری حضرات پر کھیل کے میدان مہیا کرنے پر کوئی زور نہیں ڈالتا۔ ایک اور نے کہا یہ تو سچ ہے اگر آج یہاں ایک میدان ہوتا تو ہم اِن گپوں کی بجائے میدان میں اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کر رہے ہوتے جو شاید ہمارے ملک کے بھی کام آجاتا۔
ابھی ان کی یہ گفتگو جاری تھی کہ اُن کا دھیان درخت کی شاخوں پر بیٹھے ہوئے چند پرندوں کی آوازں کی طرف گیا۔ نوعمری فنکارانہ صلاحیتوں کو تلا ش کرنے کا دور ہوتا ہے، بس اُن میں سے بھی ایک خیالی کہانیاں بنانے کا ماہر تھا۔ لہذا اُس کی طرف اشارہ ہوا تو اُس نے ڈرامے کے انداز میں انتہائی غور سے اُن پرندوں کی آوازوں سے اندازہ لگانے کی کوشش کی کہ وہ عادتاً ایسا کر رہے ہیں یا اُن کو کوئی مسئلہ درپیش ہے۔
چند لمحوں بعد اُس نے بیان کرنا شروع کیا، دوستو! یہ تو تم بھی دیکھ رہے ہو کہ شاخوں پر بیٹھے ہوئے پرندوں میں چڑیا، کبوتر اور کوا شامل ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ وہ ہم سے بھی زیادہ دُکھی ہیں۔ اُن کے مطابق بڑے باغ اور اُن میں لگے بے شمار درخت و پودے انسانی ناقدریوں کی نذر ہوچکے ہیں۔ آج ہم صرف 3 یہاں رہ گئے ہیں اور گھونسلے بنانے کیلئے ماحول بھی سازگار نہیں رہا، گرد و غبار، دھواں اور آئے دن درختوں و پودوں کو کاٹنے کا سلسلہ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ یاد کرو وہ دن جب ہم سب صبح کہیں دور کسی کے گھر سے آنے والی مُرغ کی بانگ پر بیدار ہوتے تھے، پھر سورج کی پہلی کرن کے ساتھ کوئل کی خوبصورت آواز سے ایک سُرور سے چھا جاتا تھا، بُلبل بھی درختوں کی ٹہنیوں پر بیٹھتی اُڑتی پھرتی تھی۔ ایسے لگا تھا جیسے ان سب نے ایک آہ بھری ہو، لڑکے نے پرندوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، کہ اتنی دیر میں میرا دھیان بٹ گیا۔
خیالی کہانی میں حقیقت کا ایسا رنگ! دوسرا گویا ہوا اور گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہنے لگا کہ جانداروں کیلئے نخلستان کا ذکر ہی زندگی کی بقا پڑھایا جاتا ہے۔ شجرکاری کا موسم ہے اور اس کی مہم بھی جاری ہے۔ تشہیر کیلئے ٹی وی، اخبارات میں اشتہارات پیش کئے جاتے ہیں کہ شجر کاری عبادت ہے، ماحول کیلئے ضروری ہے اور صحت کا تقاضہ شجرکاری وغیرہ، لیکن افسوس کہ اِس کام کو کرنے کے لیے جس اہتمام کی ضرورت تھی وہ اب تک کہیں بھی نظر نہیں آرہا۔
اس لئے آنے والے ماحولیاتی تغریرات اور موسم کی شدت سے بچنے کیلئے ماحولیات کے حق میں شور مچانی والی حکومتوں و اداروں کیلئے یہ انتہائی اہم معاملہ ہوگیا ہے کہ وہ مستقبل کیلئے کیا منصوبہ بندی کر رہے ہیں؟ ایسے کیا منصوبے پیش کرنے والے ہیں کہ جن کے تحت ماحول کو خوشگوار رکھنے اور آلودگی کے تدارک کے لئے شجرکاری کو بھرپور فروغ دیا جاسکے، اور اس کے ساتھ بچوں و نوجوانوں کی ذہنی و جسمانی صلاحیتوں کا بھرپور فائدہ اُٹھانے کیلئے میدانوں کی اہمیت کو مدِنظر رکھتے ہوئے اس کا بھی کوئی حل تلاش کیا جائے، کیونکہ شجر کاری اور نوجوان دونوں ہی توجہ کے متقاضی ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
چند نوعمر لڑکے ایک چھوٹے سے باغیچہ میں بیٹھے کرکٹ، ہاکی و فٹ بال کے بڑے میدانوں کی کمی پر اپنے دُکھ کا اظہار کچھ یوں کررہے تھے کہ میدان ختم ہوتے جارہے ہیں۔ لہذا اب وہ کہاں کھیلا کریں گے؟ ایک کے مطابق میدانوں پر رہائشی اسکیمیں بنتی جارہی ہیں تو دوسرے نے کہا کہ اُن رہائشی اسکیموں میں یہ سہولت ہے ہی نہیں اور جن چند میں ہے وہاں پر سیکیورٹی کی وجہ سے صرف رہائشی لڑکوں کو کھیلنے کی اجازت ہے ۔
ایک دوست کہنے لگا کہ ٹی وی پر کسی کھیل میں شکست کا موازنہ ماضی کے مقابلوں و کھلاڑیوں سے کرکے یہ تبصرہ تو کردیا جاتا ہے کہ نئے ٹیلنٹ میں سیکھنے کا شوق نہیں ہے لیکن حکومتی ایوانوں و کاروباری حضرات پر کھیل کے میدان مہیا کرنے پر کوئی زور نہیں ڈالتا۔ ایک اور نے کہا یہ تو سچ ہے اگر آج یہاں ایک میدان ہوتا تو ہم اِن گپوں کی بجائے میدان میں اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کر رہے ہوتے جو شاید ہمارے ملک کے بھی کام آجاتا۔
ابھی ان کی یہ گفتگو جاری تھی کہ اُن کا دھیان درخت کی شاخوں پر بیٹھے ہوئے چند پرندوں کی آوازں کی طرف گیا۔ نوعمری فنکارانہ صلاحیتوں کو تلا ش کرنے کا دور ہوتا ہے، بس اُن میں سے بھی ایک خیالی کہانیاں بنانے کا ماہر تھا۔ لہذا اُس کی طرف اشارہ ہوا تو اُس نے ڈرامے کے انداز میں انتہائی غور سے اُن پرندوں کی آوازوں سے اندازہ لگانے کی کوشش کی کہ وہ عادتاً ایسا کر رہے ہیں یا اُن کو کوئی مسئلہ درپیش ہے۔
چند لمحوں بعد اُس نے بیان کرنا شروع کیا، دوستو! یہ تو تم بھی دیکھ رہے ہو کہ شاخوں پر بیٹھے ہوئے پرندوں میں چڑیا، کبوتر اور کوا شامل ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ وہ ہم سے بھی زیادہ دُکھی ہیں۔ اُن کے مطابق بڑے باغ اور اُن میں لگے بے شمار درخت و پودے انسانی ناقدریوں کی نذر ہوچکے ہیں۔ آج ہم صرف 3 یہاں رہ گئے ہیں اور گھونسلے بنانے کیلئے ماحول بھی سازگار نہیں رہا، گرد و غبار، دھواں اور آئے دن درختوں و پودوں کو کاٹنے کا سلسلہ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ یاد کرو وہ دن جب ہم سب صبح کہیں دور کسی کے گھر سے آنے والی مُرغ کی بانگ پر بیدار ہوتے تھے، پھر سورج کی پہلی کرن کے ساتھ کوئل کی خوبصورت آواز سے ایک سُرور سے چھا جاتا تھا، بُلبل بھی درختوں کی ٹہنیوں پر بیٹھتی اُڑتی پھرتی تھی۔ ایسے لگا تھا جیسے ان سب نے ایک آہ بھری ہو، لڑکے نے پرندوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، کہ اتنی دیر میں میرا دھیان بٹ گیا۔
خیالی کہانی میں حقیقت کا ایسا رنگ! دوسرا گویا ہوا اور گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہنے لگا کہ جانداروں کیلئے نخلستان کا ذکر ہی زندگی کی بقا پڑھایا جاتا ہے۔ شجرکاری کا موسم ہے اور اس کی مہم بھی جاری ہے۔ تشہیر کیلئے ٹی وی، اخبارات میں اشتہارات پیش کئے جاتے ہیں کہ شجر کاری عبادت ہے، ماحول کیلئے ضروری ہے اور صحت کا تقاضہ شجرکاری وغیرہ، لیکن افسوس کہ اِس کام کو کرنے کے لیے جس اہتمام کی ضرورت تھی وہ اب تک کہیں بھی نظر نہیں آرہا۔
اس لئے آنے والے ماحولیاتی تغریرات اور موسم کی شدت سے بچنے کیلئے ماحولیات کے حق میں شور مچانی والی حکومتوں و اداروں کیلئے یہ انتہائی اہم معاملہ ہوگیا ہے کہ وہ مستقبل کیلئے کیا منصوبہ بندی کر رہے ہیں؟ ایسے کیا منصوبے پیش کرنے والے ہیں کہ جن کے تحت ماحول کو خوشگوار رکھنے اور آلودگی کے تدارک کے لئے شجرکاری کو بھرپور فروغ دیا جاسکے، اور اس کے ساتھ بچوں و نوجوانوں کی ذہنی و جسمانی صلاحیتوں کا بھرپور فائدہ اُٹھانے کیلئے میدانوں کی اہمیت کو مدِنظر رکھتے ہوئے اس کا بھی کوئی حل تلاش کیا جائے، کیونکہ شجر کاری اور نوجوان دونوں ہی توجہ کے متقاضی ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔