معیشت ایس آر او کلچر کے تحت چل رہی ہے علی ارشد حکیم
ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کے باوجود ملک میں یونیفائیڈ ٹیکسیشن سسٹم نہیں۔
چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر) علی ارشد حکیم نے انکشاف کیا ہے کہ ملکی معیشت ایس آر او کلچر کے تحت چل رہی ہے اور ٹیکنالوجی میں اہم و معنی خیز سرمایہ کاری کے باوجود ملک میں یونیفائیڈ ٹیکسیشن سسٹم نہیں ہے۔
جبکہ بلیک اکانومی ایک حقیقت ہے جسے تسلیم کرنے کی ضرورت ہے جبکہ ماضی میں متعارف کرائی جانے والی اصلاحات ایف بی آر کے ٹیکس سسٹم میں پائی جانے والی ڈھانچہ جاتی خامیوں کو دورکرنے ناکام رہی ہیں۔ اس ضمن میں ''ایکسپریس'' کو دستیاب دستاویز کے مطابق یہ باتیں چیئرمین ایف بی آر نے وزیراعظم کو دی جانے والی پریزنٹیشن کے دوران بتائیں۔ وزیراعظم کے دورہ ایف بی آر کے موقع پر اجلاس کے منٹس میں بتایا گیاکہ ایف بی آر کی طرف سے وزیراعظم کو بتایا گیا ہے کہ ملک میں ٹیکس وصولیاں اور ٹیکس ٹو جی جی ڈی میں کمی کی اصل وجہ ٹیکس بیس اور ٹیکس کمپلائنس میں کمی ہے کیونکہ ملک کی صرف 0.9 فیصد آبادی ٹیکس ادا کرتی ہے۔
دستاویز کے مطابق ایف بی آر کو ٹیکس میں کمی،کمزور ٹیکنالوجی انفراا سٹرکچر، غیردستاویز معیشت، ورک فورس ٹریننگ، انٹیگریٹی،کمزور آڈٹ انفورسمنٹ ، رعایتی ٹیکس ریجیم اور کمزور بارڈر کنٹرول سمیت دیگر چیلنجز کا سامنا ہے۔ دستاویز کے مطابق چیئرمین ایف بی آر کا کہنا ہے کہ ملکی معیشت ایس آر او کلچر کے تحت چل رہی ہے اور بلیک اکانومی ایک حقیقت ہے، اس حقیقت کا ادراک کرتے ہوئے اسے فارمل اکانومی میں بدلنے کی ضرورت ہے جس سے ملکی معیشت کا حجم بڑھے گا اور اقتصادی سرگرمیوں کو فروغ ملے گا۔ دستاویز کے مطابق علی ارشد حکیم کا کہنا ہے کہ ٹیکنالوجی میں اہم و معنی خیز سرمایہ کاری کے باوجود ملک میں یونیفائیڈ ٹیکسیشن سسٹم نہیں ہے۔
تاہم چیئرمین ایف بی آر پر اعتماد ہیں کہ ٹیکسیشن سسٹم میں پائے جانے والے عدم توازن کو کامیابی کے ساتھ توازن میں لایا جائیگا اور ٹیکس نیٹ کو وسعت دینے کے ساتھ ساتھ ملکی کی سماجی و اقتصادی ترقی کیلیے زیادہ سے زیادہ ریونیو اکٹھا کیا جائیگا اورٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح کو بھی بہتر بنایاجائیگا۔ دستاویز کے مطابق علی ارشد حکیم نے اپنی آئندہ کی حکمت عملی سے آگاہ کرتے ہوئے بتایاکہ ڈیٹا بیس کی یونیفکیشن کی جائے گی، کارپوریٹ سیکٹر ریفارمز، ٹیرف ریفارمز، موٹر ٹیکس کی شرح کم کی جائے گی اور اسمگلنگ کی روک تھام کیلیے بارڈر کنٹرولز کیلیے موثر انفورسمنٹ کی جائے گی جس کیلیے تیاریاں مکمل ہیں۔
جبکہ بلیک اکانومی ایک حقیقت ہے جسے تسلیم کرنے کی ضرورت ہے جبکہ ماضی میں متعارف کرائی جانے والی اصلاحات ایف بی آر کے ٹیکس سسٹم میں پائی جانے والی ڈھانچہ جاتی خامیوں کو دورکرنے ناکام رہی ہیں۔ اس ضمن میں ''ایکسپریس'' کو دستیاب دستاویز کے مطابق یہ باتیں چیئرمین ایف بی آر نے وزیراعظم کو دی جانے والی پریزنٹیشن کے دوران بتائیں۔ وزیراعظم کے دورہ ایف بی آر کے موقع پر اجلاس کے منٹس میں بتایا گیاکہ ایف بی آر کی طرف سے وزیراعظم کو بتایا گیا ہے کہ ملک میں ٹیکس وصولیاں اور ٹیکس ٹو جی جی ڈی میں کمی کی اصل وجہ ٹیکس بیس اور ٹیکس کمپلائنس میں کمی ہے کیونکہ ملک کی صرف 0.9 فیصد آبادی ٹیکس ادا کرتی ہے۔
دستاویز کے مطابق ایف بی آر کو ٹیکس میں کمی،کمزور ٹیکنالوجی انفراا سٹرکچر، غیردستاویز معیشت، ورک فورس ٹریننگ، انٹیگریٹی،کمزور آڈٹ انفورسمنٹ ، رعایتی ٹیکس ریجیم اور کمزور بارڈر کنٹرول سمیت دیگر چیلنجز کا سامنا ہے۔ دستاویز کے مطابق چیئرمین ایف بی آر کا کہنا ہے کہ ملکی معیشت ایس آر او کلچر کے تحت چل رہی ہے اور بلیک اکانومی ایک حقیقت ہے، اس حقیقت کا ادراک کرتے ہوئے اسے فارمل اکانومی میں بدلنے کی ضرورت ہے جس سے ملکی معیشت کا حجم بڑھے گا اور اقتصادی سرگرمیوں کو فروغ ملے گا۔ دستاویز کے مطابق علی ارشد حکیم کا کہنا ہے کہ ٹیکنالوجی میں اہم و معنی خیز سرمایہ کاری کے باوجود ملک میں یونیفائیڈ ٹیکسیشن سسٹم نہیں ہے۔
تاہم چیئرمین ایف بی آر پر اعتماد ہیں کہ ٹیکسیشن سسٹم میں پائے جانے والے عدم توازن کو کامیابی کے ساتھ توازن میں لایا جائیگا اور ٹیکس نیٹ کو وسعت دینے کے ساتھ ساتھ ملکی کی سماجی و اقتصادی ترقی کیلیے زیادہ سے زیادہ ریونیو اکٹھا کیا جائیگا اورٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح کو بھی بہتر بنایاجائیگا۔ دستاویز کے مطابق علی ارشد حکیم نے اپنی آئندہ کی حکمت عملی سے آگاہ کرتے ہوئے بتایاکہ ڈیٹا بیس کی یونیفکیشن کی جائے گی، کارپوریٹ سیکٹر ریفارمز، ٹیرف ریفارمز، موٹر ٹیکس کی شرح کم کی جائے گی اور اسمگلنگ کی روک تھام کیلیے بارڈر کنٹرولز کیلیے موثر انفورسمنٹ کی جائے گی جس کیلیے تیاریاں مکمل ہیں۔