وہ شخص مر گیا ہے جو…

چند ہفتے قبل میں نے ایک مختصر سی انگریزی کہانی پڑھی تھی جسے میں آپ سب کو ترجمہ کر کے سنانا چاہتی ہوں

Shireenhaider65@hotmail.com

چند ہفتے قبل میں نے ایک مختصر سی انگریزی کہانی پڑھی تھی جسے میں آپ سب کو ترجمہ کر کے سنانا چاہتی ہوں اور چاہتی ہوں کہ اس کہانی کی مدد سے جو سبق سکھانے کی کوشش کی گئی ہے ، اسے آپ سب بھی سمجھ لیں۔

کسی دفتر میں ملازمین کو باس سے بہت سی شکایات تھیں اور وہ آپس میں بیٹھ کر باس کے خلاف خوب باتیں کرتے تھے، سب سے اہم شکایت ان سب کو یہی تھی کہ ان کی شبانہ روز محنت کے باوجود، جونہی ان کی ترقی کا وقت آتا ہے اور باس کی طرف سے ان کے محکمے کو رپورٹ بھجوائی جانا ہوتی ہے۔

اس وقت باس اپنے قلم سے ان کے خوابوں کا خون کر دیتا تھا۔ ہر کوئی خود کو اپنی موجودہ سیٹ سے بہت بہتر کا اہل تصور کرتا تھا، آپس میں بیٹھ کر کی گئی ان کی گفتگو کسی نہ کسی وسیلے سے باس تک پہنچ جاتی تھی کیونکہ اس دفتر میں بھی اور بہت سے دفاتر کی طرح کچھ لوگ اس لیے بھرتی کیے گئے تھے کہ وہ بظاہر باقی کارکنوں کی طرح کام کریں مگر ان کا اصل کام ماتحتوں کے ساتھ مل کر گپ شپ کرنا اور ان کے دلی خیالات جاننا ہوتا تھا۔

بظاہراپنے جیسے کارکنوں کے وہ '' سنہری '' خیالات خفیہ طریقوں سے من وعن مالکوں تک پہنچائے جاتے تھے اور ان کی روشنی میں محکمہ اپنے کارکنوں کی اپنے کام میں دلچسپی اور محکمے سے وفاداری کو جانچتا تھا۔ ایک روز سب کارکنوں کو ایک کاغذ دستخط کرنے کے لیے بھجوایا گیا کہ وہ لوگ اس شام کو فارغ تھے یا نہیں... اس کاغذ پر عبارت درج تھی، '' آج وہ شخص مر گیا ہے ، جوآپ کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تھا، اس کا جنازہ شام پانچ بجے دفتر سے ملحقہ کار پارکنگ میں ہو گا۔

اس کا چہرہ دیدار کے لیے شام چار بجے ڈائننگ ہال میں رکھا جائے گا! '' سب لوگ خوشی سے معمور ہو گئے، ایک ایک لمحہ شمار کرنے لگے کہ کب شام کے چار بجیں گے اور ان کا انتظار ختم ہو گا۔ دفتر میں معمول کا کام ہو رہا تھا، ڈائننگ ہال کو خالی کروا کے اس میں سے فرنیچر نکال دیا گیا تھا، چار بجنے سے کچھ دیر پہلے چند لوگ ایک تابوت اٹھا کر لائے اور اسے ڈائننگ ہال میں رکھ دیا، اب لوگوں کی بے چینی دیدنی تھی مگر انھیں چار بجنے کا انتظار کرنا تھا اور اس میں ابھی دس منٹ باقی تھے۔

سب لوگ کام سمیٹ کر بیٹھ گئے اور لگے دس منٹ کا ایک ایک سیکنڈ گننے، کون تھا جسے اس شخص کا دیدار نہیں کرنا تھا جو ان کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تھا اور اس کے آگے اب انھیں اپنی ترقی کی راہ میں کوئی رکاوٹ نظر نہ آ رہی تھی، سب کے دل بلیوں اچھل رہے تھے مگر چار بجنے سے پانچ منٹ پہلے ہی سب لوگ اپنے چہروں پر مصنوعی اداسی اور غم کی کیفیت کا میک اپ کر کے ڈائننگ کے دروازے پر قطار میں کھڑے ہو گئے۔

'' آپ لوگ ایک ایک کر کے اندر جائیں گے اور میت کا دیدار کر کے ڈائننگ روم کے دوسرے دروازے سے باہر جا کر ، کار پارکنگ میں اکٹھے ہو کر جنازے کا انتظار کریں گے!! '' ڈائننگ کا دروازہ کھولنے سے پہلے انھیں ہدایات دی گئیں، بے تابیوں کا خاتمہ ہوا ، دروازہ کھلا اور لوگ ایک ایک کر کے اندر جانے اور میت کا دیدار کرکے باہر نکلنے لگے... ڈائننگ سے نکل کر باہر پارکنگ لاٹ میں جانے والوں کے چہروں پر مایوسی کا صاف نظارہ کیا جا سکتا تھا، ایک ایک کر کے سب لوگ فارغ ہو کر جمع ہو گئے تو ان کا باس پارکنگ لاٹ میں آ گیا، اسے دیکھ کر لوگوں میں اضطراب دوڑ گیا، کتنے ہی لوگ تھے جو اس امید پر تھے کہ تابوت میں ان کے باس کی میت ہو گی، مگر وہ زندہ سلامت اور مسکراتا ہوا انھیں اپنے سامنے نظر آ رہا تھا۔

'' آپ سب لوگ یقیناً ڈائننگ ہال میں اس شخص کا چہرہ دیکھ کر آئے ہوں گے جو آپ کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے؟ '' باس گویا ہوا، '' ممکن ہے کہ آپ لوگ اس بات سے اختلاف بھی رکھتے ہوں کہ نہیں ... ہر گز نہیں، وہ شخص ہرگز ایسا نہیں ہے، میں بھی آپ کی جگہ ہوتا تو یہی سوچتا مگر حقیقت تلخ سہی، ہے یہی اصل حقیقت!! ''

'' یہ سب کیا مذاق ہے؟ '' ایک کارکن چلایا۔

'' مذاق؟ کیسا مذاق؟ میں سمجھا نہیں، کیا آپ تابوت میں نظر آنے والے چہرے کو مذاق کہہ رہے ہیں؟ '' باس نے مسکرا کر پوچھا۔

'' تابوت میں کوئی میت نہیں تھی؟ '' اسی کارکن نے جواب دیا اور باقیوں نے باآواز بلند اس کی تائید کی۔


'' یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ تابوت میں آپ کو کسی کا چہرہ نظر نہ آیا ہو؟ '' باس نے حیرت سے سوال کیا۔

'' سچ کہہ رہا ہوں ... تابوت میںکوئی میت نہیں تھی، میں نے جب چہرہ دیکھنے کے لیے کپڑا ہٹایا تو وہاں کوئی میت نہیں تھی، تابوت کا پورا فرش آئینے کا تھا، میں نے پوری چادر ہٹا کر دیکھا تھا ''

'' ہاں !!! ایسا ہی تھا!! '' کئیوں نے تائید کی۔

'' تو کیا واقعی آپ سب کو کسی کا چہرہ نظر نہیں آیا؟ '' باس کی حیرت کی اداکاری جاری تھی۔

'' کسی اور کا نہیں... ہمیں اس تابوت میں رکھے آئینے میں اپنا ہی چہرہ نظر آیا تھا!! '' ایک کارکن نے چلا کر کہا اور باقیوں نے بھی چلا کر اس کی تائید کی۔

'' کیا آپ کو نہیں لگتا کہ یہ وہی چہرہ ہے، اسی شخص کا چہرہ جو آپ کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے؟ '' باس نے ان سب سے پوچھا۔

'' لو بھلا ہم کیوں نہیں چاہیں گے کہ ہم ترقی کریں، ہم خود کیوں اپنی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہوں گے؟ ''

'' تو کیا آپ کو لگتا ہے کہ میںآپ کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہوں ؟ '' باس کے اس سوال پر سب پر خاموشی طاری ہو گئی، دل سے اس بات کا یقین رکھنے اور بارہا آپس میں اس موضوع پر کھلم کھلا بات چیت کرنے کے باوصف اس وقت وہ کچھ نہ کہہ سکے، '' کیا آپ کو لگتا ہے کہ زید، بکر اور عمر کی ترقی کو روکنے سے مجھے کوئی فائدہ ہے... یعنی اگر انھیں ترقی نہیں ملے گی تو ان کی جگہ مجھے ترقی مل جائے گی؟''

اس سوال کا کسی کے پاس کوئی جواب نہ تھا، '' میں آپ سب کو یہی بتانا چاہتا تھا کہ ہم میں سے ہر شخص اپنی اپنی جگہ یہی سمجھتا ہے کہ دوسرے اس کے دشمن ہیں، دوسروں سے بد گمانی ہماری فطرت ثانیہ ہے، کام ہم کرتے نہیں، نہ ہی کرنا چاہتے ہیں، کنویں میں گر جانے والے کسی ذی نفس کی طرح، ہم اپنی جگہ سے اوپر جانے کے لیے کسی غیبی امداد کے منتظر رہتے ہیں، اپنی کام کی استطاعت کو بڑھاتے نہیں، کام کیے بغیر چاہتے ہیں کہ ترقی کے زینے طے کرتے جائیں اور ہماری مراعات بڑھتی رہیں، کام کیے بغیر!! '' سارے مجمعے کو سانپ سونگھ گیا تھا، '' آپ سب لوگ جا سکتے ہیں اور خود سوچیں کہ آپ نے کیا ایسا کیا کہ آپ ترقی کے مستحق تھے مگر کسی نے آپ کی ترقی روک لی اور کیا واقعی آپ خود ہی ایسے نہیں ہیں کہ آپ کے اعمال کی وجہ سے آپ کی ترقی کا عمل رکا ہوا ہے؟ '' باس کی تقریر ختم ہو گئی اور سب لوگ سوچنے کو چل دیے۔

اب آپ بھی اخبار بند کریں اور اس کہانی سے حاصل ہونے والے سبق کو سمجھیں، تصور کریں کہ آپ بھی ان ہی کارکنوں میں سے ایک کارکن ہیں جنھوں نے ابھی ابھی تابوت میں اس شخص کے چہرے کو دیکھا ہے جس کے بارے میںآپ کبھی سوچ بھی نہیں سکتے کہ وہ آپ کی ترقی کے راستے میں رکاوٹ ہو سکتا ہے۔

ہم سب عموماً ایسے ہی رویے رکھتے ہیں کہ فلاں نہ ہو تو میری ترقی ہو جائے، فلاں نہ ہوتا تو آج میں اس مقام پر ہوتا، فلاں کی وجہ سے میری تنخواہ بڑھتے بڑھتے رہ گئی۔ اور تو اور، میرا کوئی کام نہیں مگر مجھے پھر بھی فکر رہتی ہے کہ اسٹیٹ بینک کا گورنر جس کو بنا دیا ہے وہ اس کا اہل ہے کہ بھی نہیں؟ پی آئی اے کے چیئرمین کی کیا قابلیت ہے؟ چیئرمین کرکٹ بورڈ فلاں کو کیوں بنا دیا؟

اپنے گریبان میںجھانکنے کا محاورہ پرانا سہی، مگر اس کا مطلب کسی دور میں تبدیل نہیں ہوتا۔ ہمیں ضرورت ہے کہ خود اپنا محاسبہ کریں ، اپنی برائیوں کو کھوجیں دوسروں کی نہیں... اور خود جاننے کی کوشش کریں کہ ہماری کیا کجیاں اور کوتاہیاں ہمیں آگے نہیں بڑھنے دیتیں۔
Load Next Story