ملک میں ایمان کے سوا ہر نعمت ہے
عوام گزشتہ 70 سال سے قربانیاں دے رہے ہیں بلکہ ان کو اپنے عزائم کے لیے جب چاہا جاتا ہے
دہشتگردی کے ایک اور واقعے میں چارسدہ کی ایک عدالت میں خودکش حملے کے نتیجے میں 3 پولیس اہلکاروں، 6 خواتین، 2 بچوں اور 2 وکلا سمیت 17 افراد جاں بحق اور 36 زخمی ہوگئے۔ جماعت احرار نے حملے کی ذمے داری قبول کر لی۔ سانحے کے بعد حسب روایت مذمتی بیانات داغنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ صدر صاحب نے لواحقین سے اظہار تعزیت و ہمدردی کرتے ہوئے کہا کہ بزدلانہ کارروائیاں حکومت کے عزائم کو کمزور نہیں کرسکتیں۔
وزیراعظم نے بھی قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع پر دکھ و افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ قانون نافذ کرنیوالے اداروں کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی۔ حسب اقتدار و اختلاف اور ہر چھوٹی بڑی سیاسی جماعت کے رہنماؤں نے حملے کی شدید مذمت اور قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع پر دکھ و افسوس کا اظہار کیا اور عوام کی قربانیاں رائیگاں نہ جانے دینے کا عزم دہرایا۔ کیا اس ملک میں انسانی زندگیوں کی کچھ اہمیت ہے یا انسان کو انسان سمجھا جاتا ہے؟
عوام گزشتہ 70 سال سے قربانیاں دے رہے ہیں بلکہ ان کو اپنے عزائم کے لیے جب چاہا جاتا ہے قربانی کا بکرا بنا دیا جاتا ہے، انسانی حقوق تو صرف حکمرانوں، سیاستدانوں، جاگیرداروں اور وڈیروں کے لیے ہیں۔ عوام تو صحت، تعلیم، انصاف کے بنیادی اور آئینی حق سے بھی محروم ہی نہیں ناآشنا ہیں۔ سب سے بڑا اور بنیادی مسئلہ جان و مال، عزت و آبرو کے تحفظ کی فراہمی کا ہے جو کہیں نظر نہیں آتا ہے۔
گزشتہ دنوں کراچی بدامنی کیس میں حکومت، پولیس اور رینجرز کی پیش کردہ رپورٹس میں یہ بات سامنے آئی کہ کراچی میں اغوا کی وارداتوں میں خود 47 پولیس افسران ملوث ہیں۔ پولیس مجرموں کی پشت باں بن چکی ہے وہ انھیں پکڑنے کے بجائے چھوڑنے پر مامور ہے، اس کی بڑی وجہ مجرموں اور پولیس کا سیاست سے تعلق ہے۔ پولیس سیاسی دباؤ کا شکار ہے بیشتر تفتیشی افسر تفتیش کرنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتے اس لیے رینجرز نے اس امر کا مطالبہ کیا ہے کہ انھیں کراچی میں اپنے تھانے قائم کرنے، ایف آئی آر کے اندراج اور مقدمات کے چالان پیش کرنے کا اختیار دیا جائے۔
سپریم کورٹ نے رینجرز کی رپورٹ کو آئی جی پولیس اور چیف سیکریٹری کے خلاف چارج شیٹ کے مترادف قرار دیا۔ آئی جی پولیس نے بتایا کہ مجموعی صورتحال بہتر ہوئی ہے جس پر عدالت نے ان سے دریافت کیا کہ یہ بتائیں کتنے ملزمان پکڑے؟ کتنے مقدمات کے چالان عدالتوں میں پیش کیے گئے اور ملزمان کے خلاف مقدمات چل رہے ہیں؟ ٹارگٹ کلنگ ہوئی تو کون سا مجرم پکڑا گیا؟ عدالت نے کہا کہ ایسا بھی ہوتا کہ سنگین مقدمات میں ملوث ملزمان کے چالان کلاس A کردیے جاتے ہیں۔
شہر میں مختصر عرصے کی اغوا کی وارداتیں بڑھ گئی ہیں، اگر شہر میں 4 ہزار اشتہاری ملزمان دندناتے پھر رہے ہیں تو شہر کا کیا ہوگا؟ حالانکہ مقدمات میں ملزمان کے نام پتے تک درج ہیں آپ ان پر ہاتھ کیوں نہیں ڈالتے؟ آپ خود تفتیش کرتے نہیں الزام عدالتوں پر ڈالتے ہیں۔ اگر آپ گواہ پیش نہیں کریں گے تو کیا ہم ملزم کو پھانسی پر چڑھا دیں؟
عدالت عظمیٰ نے بورڈ آف ریونیو کا ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کرنے سے متعلق رپورٹ پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ راتوں رات گوٹھ آباد ہوجاتے ہیں، من پسند افراد کو من پسند اراضی الاٹ کردی جاتی ہے، آپ نے 5 ارب روپے لگا کر 1985 کے اصل ریکارڈ کے بجائے جعلی و بے ایمانی کے ریکارڈ کو کمپیوٹرائزڈ کردیا ہے۔ یہ حکم اس لیے دیا گیا تھا کہ شریف لوگ مارے مارے پھر رہے ہیں، ان کی زمینوں پر قبضے کر لیے گئے ہیں اور آپ مجرموں کو تحفظ دے رہے ہیں۔
پنجاب میں ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ ہوسکتا ہے تو سندھ میں کیوں نہیں ہوسکتا ہے۔ صوبائی حکومت کی پیش کردہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کراچی کی 52 ہزار ایکڑ سرکاری زمین پر وفاقی و صوبائی ادارے قابض ہیں۔ عدالت عظمی نے نیب سے بھی کہا ہے کہ وہ 55 لاکھ روپے کے مقدمات کے بجائے میگا اسکینڈلز پر توجہ مرکوز کرے اور مقدمات سے متعلق دوسرے اداروں کے معاملات میں مداخلت نہ کرے۔ نیب کا سارا زور مقدمات میں تفتیش کے بجائے رضاکارانہ وصولی پر ہے کرپشن میں ملوث افسران رضاکارانہ رقوم دے کر دوبارہ عہدوں پر تعینات ہوجاتے ہیں۔ یہ بات مد نظر رکھی جائے کہ نیب بنانے کے تقاضے کیا تھے۔
عدالت عظمیٰ کراچی بدامنی کیس کی سماعت اور اس کے دوران حکومت، پولیس، رینجرز اور بورڈ آف ریونیو کی پیش کردہ رپورٹس سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ عوام کے ساتھ ظلم و استحصال بدامنی اور لوٹ مار میں پولیس کی نااہلی و بدعنوانی، بورڈ آف ریونیو کی ملی بھگت و لوٹ مار اور نیب کا مخصوص و سیاسی کردار شامل ہے جو ایک دور کے مقدمات تو کھولتا ہے دوسرے دور کے نہیں۔ اس میں شروع سے سیاسی بلیک میلنگ کا عنصر نمایاں نظر آتا ہے۔ بڑے مجرموں پر ہاتھ نہیں ڈالا جاتا قومی دولت لوٹنے والوں کو پلی بارگیننگ کے ذریعے معمولی رقم وصول کرکے چھوڑ دیا جاتا ہے۔
ایک خطرناک رجحان سرکاری اداروں کے درمیان ٹکراؤ اور ایک دوسرے پر الزامات کا ہے۔ حالیہ سماعت کے دوران بھی یہ بات سامنے آئی ہے عدالت نے نیب سے کہا ہے کہ وہ دوسرے اداروں کے معاملات میں مداخلت نہ کرے۔ رینجرز رپورٹ میں بھی پولیس پر سنگین نوعیت کے الزامات لگاتے ہوئے رینجرز کے علیحدہ تھانے، ایف آئی آر درج کرنے اور عدالتوں میں چالان پیش کرنے کے اختیارات مانگے گئے ہیں جو آئینی و قانونی طور پر ناممکن اور متوازی نظام کے مترادف ہیں اگر اس کے لیے قانون سازی بھی کی جاتی ہے تو مزید پیچیدگیاں اور قانونی قباحتیں پیش آئیں گی۔
سرکاری اداروں کے درمیان ٹکراؤ اور ایک دوسرے پر الزامات کا عمل کسی طور پر عوام اور ریاست کے مفاد میں نہیں ہے۔ ہفتے کے دن چیف جسٹس آف پاکستان نے کراچی میں منعقد سیمینار سے اپنے خطاب میں کہا کہ ''جمہوریت کے نام پر چند لوگ ملک کا استحصال کر رہے ہیں اس ملک میں ایمان کے سوا ہر نعمت ہے۔ قوم کی اکثریت دو وقت کی روٹی کو ترس رہی ہے چند مخصوص گروپ ملک کے مجموعی وسائل پر قابض ہیں۔ 98 فیصد عوام زبوں حالی کا شکار ہیں ملک صوبائیت، لسانیت، مذہبی و فقہی بنیادوں پر تقسیم ہے ملک کی تقدیر اس وقت بدل سکتی ہے جب معاشرے کی تمام برائیوں کے خلاف سب لوگ نبرد آزما ہوں۔ عدالتی احکامات پر اس کی روح کیمطابق عمل نہیں کیا جاتا بلکہ عدالتی احکامات سے بچنے کے لیے قانون سازی کا طریقہ اپنایا جاتا ہے۔
خرابی عملی جامعہ پہنانیوالے مختلف کرداروں میں ہے۔ معتبر ادارے نہ ہونے کی وجہ سے عدالتی نظام انصاف کی فراہمی میں کردار ادا نہیں کرسکتا۔''چیف جسٹس کا یہ خطاب بڑا فکر انگیز ہے عدالتی فیصلوں اور ریمارکس سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ بالا عدالتیں ملکی و عوامی معاملات اور صورتحال کا مکمل احساس و ادراک رکھتی ہیں، وہ معاشرے اور حکومتی اداروں میں پائی جانے والی خرابیوں اور ان کی جڑوں کے علم کے ساتھ ساتھ ان کے تدارک اور تلافی کا شعور اور حل بھی رکھتی ہیں جس کی نشاندہی وہ گاہے بہ گاہے کرتی رہتی ہیں۔ عدلیہ، انتظامی اور مقننہ ریاست کے تین بنیادی ستون ہیں جن کا کام لوگوں کو انصاف و تحفظ فراہم کرنا ہوتا ہے۔
جب یہ ادارے اپنا کردار نبھانا چھوڑ دیں تو ملک و قوم تباہی سے دوچار ہوجاتے ہیں۔اسلام میں تو انصاف کو اتنی اہمیت دی گئی ہے کہ قرآن میں کہہ دیا گیا ہے کہ ''جو لوگ انصاف کیمطابق فیصلے نہیں کرتے وہ کافر ہیں۔'' گواہی دینا بھی ہر مسلمان پر فرض کیا گیا ہے۔ ایک عام سوچ یہ ہے کہ انصاف دینا صرف جج کا کام ہوتا ہے اس بات کو نظرانداز کردیا جاتا ہے انصاف کی فراہمی کے عمل میں جج کے علاوہ وکلا، عدالتی عملے، پولیس، گواہوں اور دیگر متعلقہ اداروں کے افراد کا اپنا اپنا اور اہم حصہ ہوتا ہے جو عدالتی فیصلوں پر اثرانداز ہوتا ہے۔
جج کتنا ہی قابل اور دیانتدار کیوں نہ ہو تنہا کچھ نہیں کرسکتا جب تک کہ دیگر متعلقین اپنے فرائض دیانتداری و ایمانداری سے ادا نہ کریں۔ انصاف کی فراہمی میں تعطل و رکاوٹ میں بڑا کردار وکلا اور بعض ججز کا بھی ہے جس کی پاداش میں کافی ججز برطرف کیے گئے ہیں وکلا کے خلاف بھی ججز اور سائیلین کی ہزاروں شکایتیں مختلف بار کونسلرز میں زیرالتوا ہیں۔ عدالتی عملہ بھی الا ماشا اللہ ہے جس کی وجہ سے ماتحت عدالتوں میں مسائل مزید بڑھ رہے ہیں۔ عدالتوں میں بھی تھانوں، پٹواریوں اور دیگر سرکاری اداروں جیسا ماحول پروان چڑھ رہا ہے، جو فوری توجہ کا متقاضی ہے۔
وزیراعظم نے بھی قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع پر دکھ و افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ قانون نافذ کرنیوالے اداروں کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی۔ حسب اقتدار و اختلاف اور ہر چھوٹی بڑی سیاسی جماعت کے رہنماؤں نے حملے کی شدید مذمت اور قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع پر دکھ و افسوس کا اظہار کیا اور عوام کی قربانیاں رائیگاں نہ جانے دینے کا عزم دہرایا۔ کیا اس ملک میں انسانی زندگیوں کی کچھ اہمیت ہے یا انسان کو انسان سمجھا جاتا ہے؟
عوام گزشتہ 70 سال سے قربانیاں دے رہے ہیں بلکہ ان کو اپنے عزائم کے لیے جب چاہا جاتا ہے قربانی کا بکرا بنا دیا جاتا ہے، انسانی حقوق تو صرف حکمرانوں، سیاستدانوں، جاگیرداروں اور وڈیروں کے لیے ہیں۔ عوام تو صحت، تعلیم، انصاف کے بنیادی اور آئینی حق سے بھی محروم ہی نہیں ناآشنا ہیں۔ سب سے بڑا اور بنیادی مسئلہ جان و مال، عزت و آبرو کے تحفظ کی فراہمی کا ہے جو کہیں نظر نہیں آتا ہے۔
گزشتہ دنوں کراچی بدامنی کیس میں حکومت، پولیس اور رینجرز کی پیش کردہ رپورٹس میں یہ بات سامنے آئی کہ کراچی میں اغوا کی وارداتوں میں خود 47 پولیس افسران ملوث ہیں۔ پولیس مجرموں کی پشت باں بن چکی ہے وہ انھیں پکڑنے کے بجائے چھوڑنے پر مامور ہے، اس کی بڑی وجہ مجرموں اور پولیس کا سیاست سے تعلق ہے۔ پولیس سیاسی دباؤ کا شکار ہے بیشتر تفتیشی افسر تفتیش کرنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتے اس لیے رینجرز نے اس امر کا مطالبہ کیا ہے کہ انھیں کراچی میں اپنے تھانے قائم کرنے، ایف آئی آر کے اندراج اور مقدمات کے چالان پیش کرنے کا اختیار دیا جائے۔
سپریم کورٹ نے رینجرز کی رپورٹ کو آئی جی پولیس اور چیف سیکریٹری کے خلاف چارج شیٹ کے مترادف قرار دیا۔ آئی جی پولیس نے بتایا کہ مجموعی صورتحال بہتر ہوئی ہے جس پر عدالت نے ان سے دریافت کیا کہ یہ بتائیں کتنے ملزمان پکڑے؟ کتنے مقدمات کے چالان عدالتوں میں پیش کیے گئے اور ملزمان کے خلاف مقدمات چل رہے ہیں؟ ٹارگٹ کلنگ ہوئی تو کون سا مجرم پکڑا گیا؟ عدالت نے کہا کہ ایسا بھی ہوتا کہ سنگین مقدمات میں ملوث ملزمان کے چالان کلاس A کردیے جاتے ہیں۔
شہر میں مختصر عرصے کی اغوا کی وارداتیں بڑھ گئی ہیں، اگر شہر میں 4 ہزار اشتہاری ملزمان دندناتے پھر رہے ہیں تو شہر کا کیا ہوگا؟ حالانکہ مقدمات میں ملزمان کے نام پتے تک درج ہیں آپ ان پر ہاتھ کیوں نہیں ڈالتے؟ آپ خود تفتیش کرتے نہیں الزام عدالتوں پر ڈالتے ہیں۔ اگر آپ گواہ پیش نہیں کریں گے تو کیا ہم ملزم کو پھانسی پر چڑھا دیں؟
عدالت عظمیٰ نے بورڈ آف ریونیو کا ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کرنے سے متعلق رپورٹ پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ راتوں رات گوٹھ آباد ہوجاتے ہیں، من پسند افراد کو من پسند اراضی الاٹ کردی جاتی ہے، آپ نے 5 ارب روپے لگا کر 1985 کے اصل ریکارڈ کے بجائے جعلی و بے ایمانی کے ریکارڈ کو کمپیوٹرائزڈ کردیا ہے۔ یہ حکم اس لیے دیا گیا تھا کہ شریف لوگ مارے مارے پھر رہے ہیں، ان کی زمینوں پر قبضے کر لیے گئے ہیں اور آپ مجرموں کو تحفظ دے رہے ہیں۔
پنجاب میں ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ ہوسکتا ہے تو سندھ میں کیوں نہیں ہوسکتا ہے۔ صوبائی حکومت کی پیش کردہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کراچی کی 52 ہزار ایکڑ سرکاری زمین پر وفاقی و صوبائی ادارے قابض ہیں۔ عدالت عظمی نے نیب سے بھی کہا ہے کہ وہ 55 لاکھ روپے کے مقدمات کے بجائے میگا اسکینڈلز پر توجہ مرکوز کرے اور مقدمات سے متعلق دوسرے اداروں کے معاملات میں مداخلت نہ کرے۔ نیب کا سارا زور مقدمات میں تفتیش کے بجائے رضاکارانہ وصولی پر ہے کرپشن میں ملوث افسران رضاکارانہ رقوم دے کر دوبارہ عہدوں پر تعینات ہوجاتے ہیں۔ یہ بات مد نظر رکھی جائے کہ نیب بنانے کے تقاضے کیا تھے۔
عدالت عظمیٰ کراچی بدامنی کیس کی سماعت اور اس کے دوران حکومت، پولیس، رینجرز اور بورڈ آف ریونیو کی پیش کردہ رپورٹس سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ عوام کے ساتھ ظلم و استحصال بدامنی اور لوٹ مار میں پولیس کی نااہلی و بدعنوانی، بورڈ آف ریونیو کی ملی بھگت و لوٹ مار اور نیب کا مخصوص و سیاسی کردار شامل ہے جو ایک دور کے مقدمات تو کھولتا ہے دوسرے دور کے نہیں۔ اس میں شروع سے سیاسی بلیک میلنگ کا عنصر نمایاں نظر آتا ہے۔ بڑے مجرموں پر ہاتھ نہیں ڈالا جاتا قومی دولت لوٹنے والوں کو پلی بارگیننگ کے ذریعے معمولی رقم وصول کرکے چھوڑ دیا جاتا ہے۔
ایک خطرناک رجحان سرکاری اداروں کے درمیان ٹکراؤ اور ایک دوسرے پر الزامات کا ہے۔ حالیہ سماعت کے دوران بھی یہ بات سامنے آئی ہے عدالت نے نیب سے کہا ہے کہ وہ دوسرے اداروں کے معاملات میں مداخلت نہ کرے۔ رینجرز رپورٹ میں بھی پولیس پر سنگین نوعیت کے الزامات لگاتے ہوئے رینجرز کے علیحدہ تھانے، ایف آئی آر درج کرنے اور عدالتوں میں چالان پیش کرنے کے اختیارات مانگے گئے ہیں جو آئینی و قانونی طور پر ناممکن اور متوازی نظام کے مترادف ہیں اگر اس کے لیے قانون سازی بھی کی جاتی ہے تو مزید پیچیدگیاں اور قانونی قباحتیں پیش آئیں گی۔
سرکاری اداروں کے درمیان ٹکراؤ اور ایک دوسرے پر الزامات کا عمل کسی طور پر عوام اور ریاست کے مفاد میں نہیں ہے۔ ہفتے کے دن چیف جسٹس آف پاکستان نے کراچی میں منعقد سیمینار سے اپنے خطاب میں کہا کہ ''جمہوریت کے نام پر چند لوگ ملک کا استحصال کر رہے ہیں اس ملک میں ایمان کے سوا ہر نعمت ہے۔ قوم کی اکثریت دو وقت کی روٹی کو ترس رہی ہے چند مخصوص گروپ ملک کے مجموعی وسائل پر قابض ہیں۔ 98 فیصد عوام زبوں حالی کا شکار ہیں ملک صوبائیت، لسانیت، مذہبی و فقہی بنیادوں پر تقسیم ہے ملک کی تقدیر اس وقت بدل سکتی ہے جب معاشرے کی تمام برائیوں کے خلاف سب لوگ نبرد آزما ہوں۔ عدالتی احکامات پر اس کی روح کیمطابق عمل نہیں کیا جاتا بلکہ عدالتی احکامات سے بچنے کے لیے قانون سازی کا طریقہ اپنایا جاتا ہے۔
خرابی عملی جامعہ پہنانیوالے مختلف کرداروں میں ہے۔ معتبر ادارے نہ ہونے کی وجہ سے عدالتی نظام انصاف کی فراہمی میں کردار ادا نہیں کرسکتا۔''چیف جسٹس کا یہ خطاب بڑا فکر انگیز ہے عدالتی فیصلوں اور ریمارکس سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ بالا عدالتیں ملکی و عوامی معاملات اور صورتحال کا مکمل احساس و ادراک رکھتی ہیں، وہ معاشرے اور حکومتی اداروں میں پائی جانے والی خرابیوں اور ان کی جڑوں کے علم کے ساتھ ساتھ ان کے تدارک اور تلافی کا شعور اور حل بھی رکھتی ہیں جس کی نشاندہی وہ گاہے بہ گاہے کرتی رہتی ہیں۔ عدلیہ، انتظامی اور مقننہ ریاست کے تین بنیادی ستون ہیں جن کا کام لوگوں کو انصاف و تحفظ فراہم کرنا ہوتا ہے۔
جب یہ ادارے اپنا کردار نبھانا چھوڑ دیں تو ملک و قوم تباہی سے دوچار ہوجاتے ہیں۔اسلام میں تو انصاف کو اتنی اہمیت دی گئی ہے کہ قرآن میں کہہ دیا گیا ہے کہ ''جو لوگ انصاف کیمطابق فیصلے نہیں کرتے وہ کافر ہیں۔'' گواہی دینا بھی ہر مسلمان پر فرض کیا گیا ہے۔ ایک عام سوچ یہ ہے کہ انصاف دینا صرف جج کا کام ہوتا ہے اس بات کو نظرانداز کردیا جاتا ہے انصاف کی فراہمی کے عمل میں جج کے علاوہ وکلا، عدالتی عملے، پولیس، گواہوں اور دیگر متعلقہ اداروں کے افراد کا اپنا اپنا اور اہم حصہ ہوتا ہے جو عدالتی فیصلوں پر اثرانداز ہوتا ہے۔
جج کتنا ہی قابل اور دیانتدار کیوں نہ ہو تنہا کچھ نہیں کرسکتا جب تک کہ دیگر متعلقین اپنے فرائض دیانتداری و ایمانداری سے ادا نہ کریں۔ انصاف کی فراہمی میں تعطل و رکاوٹ میں بڑا کردار وکلا اور بعض ججز کا بھی ہے جس کی پاداش میں کافی ججز برطرف کیے گئے ہیں وکلا کے خلاف بھی ججز اور سائیلین کی ہزاروں شکایتیں مختلف بار کونسلرز میں زیرالتوا ہیں۔ عدالتی عملہ بھی الا ماشا اللہ ہے جس کی وجہ سے ماتحت عدالتوں میں مسائل مزید بڑھ رہے ہیں۔ عدالتوں میں بھی تھانوں، پٹواریوں اور دیگر سرکاری اداروں جیسا ماحول پروان چڑھ رہا ہے، جو فوری توجہ کا متقاضی ہے۔