کون کتنے پانی میں

ورلڈ ٹوئنٹی 20میں شریک تمام ٹیمیں بلند عزائم کیساتھ ٹائٹل کا خواب لئے میدان میں اتریں گی۔

ورلڈ ٹوئنٹی 20میں شریک تمام ٹیمیں بلند عزائم کیساتھ ٹائٹل کا خواب لئے میدان میں اتریں گی۔ فوٹو: فائل

NEW DELHI:
ورلڈ ٹوئنٹی 20میں شریک تمام ٹیمیں بلند عزائم کیساتھ ٹائٹل کا خواب لئے میدان میں اتریں گی۔ بھرپور تیاریوں کے باجود ہر سکواڈ میں خوبیوں اور خامیوں دونوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا،اپنی قوت کے بہترین استعمال اور حریفوں کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے کی بہتر حکمت عملی تیار کرنے والی ٹیموں کو ہی کامیابی ملے گی، اس حوالے سے ایک جائزہ قارئین کی نذر ہے۔

بھارت: انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کی موجودہ ٹوئنٹی20 رینکنگ میں بلو شرٹس کا پہلا نمبر ہے، بلا کی مضبوط بیٹنگ لائن اپ نے اسے دنیا کی بہترین ٹیموں کی ابتدائی صفوں میں لا کھڑا کیا ہے، ٹاپ آرڈر میں شیکھر دھون، روہت شرما اور ویرات کوہلی نہ صرف قابل اعتماد کھلاڑی سمجھے جاتے ہیں بلکہ یہ پلیئرز اپنی سرزمین پر اپنی ہوم گراؤنڈ میں دنیا کی کسی بھی ٹیم کے بولرز کو تگنی کا ناچ نچانے میں ماہر سمجھے جاتے ہیں،روی چندرن ایشون کے ساتھ رویندرا جدیجہ، سریش رائنا اور یوراج سنگھ کا ساتھ بھی بلوز شرٹس کو سپن بولنگ کے شعبے میں مزید مضبوطی فراہم کرتا ہے۔

بھارتی کھلاڑیوں کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ تمام پلیئرز کو اپنی اپنی ذمہ داریوں کا بخوبی اندازہ ہے اور ضرورت پڑنے پر کھلاڑی اپنے فرائض کے ساتھ پورا پورا انصاف بھی کرتے ہیں، یہ بات بھی سچ ہے کہ بھارتی ٹیم کو اچھے فاسٹ بولرز کی کمی کا سامنا رہا ہے اور صورت حال اس وقت بھی ماضی کی جیسی ہی ہے۔ گو اشیش نہرا اور جسپریت بمرا بھر پور فارم میں ہیں، تاہم ان کھلاڑیوں کے فٹنس مسائل سے دو چار ہونے کی صورت میں میزبان ٹیم کے پاس قابل اعتماد پیسرز کی کمی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے. بلو شرٹس کی ایشیا کپ سمیت متعدد عالمی ایونٹس میں پرفارمنس اور ہوم گراؤنڈز پر کرکٹ کے پنڈتوں نے بھارتی ٹیم کو دوسری بار ورلڈ ٹوئنٹی20 ٹائٹل جیتنے کے لیے فیورٹ قرار دیا ہے۔

جنوبی افریقہ: بھارت کے بعد عالمی رینکنگ میں جس ٹیم کا غلبہ ہے وہ جنوبی افریقہ ہی ہے، ٹوئنٹی 20 ورلڈ کپ میں شائقین دنیا کے ممتاز ٹاپ آرڈر بیٹسمینوں کو ایکشن میں دیکھیں گے، اے بی ڈویلیئرز، ہاشم آملہ اور کوئنٹن ڈی کاک کا شمار بھی دنیا کے بڑے اوپنرز میں ہوتا ہے، اے بی ڈویلیئرز، ڈیوڈ ملر اور جے پی ڈومینی کو نہ صرف آئی پی ایل کھیلنے کا وسیع تجربہ ہے ۔

اس ٹیم میں نہ صرف اے بی ڈویلیئرز اور ڈیوڈ ملر بلکہ کرس مورس اور ڈیوڈ ویز سمیت ٹیم کا ہر کھلاڑی مختصر طرز کی کرکٹ کا ماہر نظر آتا ہے، گو ڈیل سٹین اور ربادا نئی گیند کا استعمال احسن طریقے سے کرتے ہیں، عمران طاہر کا شمار بھی اچھے سپنرز میں ہوتا ہے تاہم پروٹیز کا سب سے بڑا مسئلہ بولنگ آپشنز کا فقدان ہے۔ ڈومینی کی بولنگ میں اب پہلے جیسا دم خم نہیں رہا، ان تمام باتوں کے باوجود جنوبی افریقہ کو ورلڈ کپ کا مضبوط ترین سکواڈ سمجھا جا رہا ہے ۔

آسٹریلیا: عالمی رینکنگ میں تیسری پوزیشن پر قبضہ جمانے والی آسٹریلوی ٹیم کی حالیہ کارکردگی کے باوجود اس کا شمار دنیا کی بڑی ٹیموں میںہوتا ہے، سب سے اہم بات یہ ہے کہ کینگروز کو دنیا کے4 مستند اوپنرز کا ساتھ حاصل ہے جبکہ اس ٹیم میں مڈل آرڈر بیٹسمینوں کے علاوہ اچھے آل راؤنڈرز کی بھی کمی نہیں،بعض کھلاڑیوں نے آئی پی ایل میں بھی عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ ایرون فنچ، ڈیوڈ وارنر، شین واٹسن، گلین میکسویل اور جیمزفالکنر بڑے سٹروکس کے ماہر سمجھے جاتے ہیں، شین واٹسن اور جیمز فالکنرتو آئی پی ایل میں بطور آل راؤنڈر اچھی کارکردگی کے بعد شائقین کے دلوں میں اتر چکے ہیں۔

گلین میکسویل بھی میچ کی بدلتی ہوئی صورت حال کے مطابق کھیلنے کا تجربہ رکھتے ہیں تاہم آسٹریلوی بیٹسمین سپنرز کو بہت زیادہ اچھا نہیں کھیلتے، بھارتی کنڈیشنز میں سلو بولرز کے خلاف عمدہ بیٹنگ ایک چیلنج ہے۔ اچھے بولنگ اٹیک کا نہ ہونا بھی حریف سائیڈز کو لمبے آغاز کے لیے معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ ان تمام تر خامیوں کے باوجود آسٹریلوی ٹیم کسی بھی طرح آسان حریف نہیں ہے اور فیورٹس میں شمار کی جا رہی ہے۔

ویسٹ انڈیز: ماضی میں کالی آندھی کے نام سے مشہور ویسٹ انڈیز کا عالمی رینکنگ میں چوتھا نمبر ہے، ماضی کے برعکس اس بار اس ٹیم کو زیادہ تر بڑے کھلاڑیوں کاساتھ حاصل نہیں ہے، کیرن پولارڈ، سنیل نارائن میسر نہیں، آندرے رسل اور سمنز بھی بھر پور فارم میں دکھائی نہیں دیتے تاہم کرس گیل کی موجودگی دنیا کی تمام ٹیموں کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔


اوپنر اکیلے بھی ٹیم کو جتوا سکتے ہیں۔ان کے علاوہ ڈیوائن براوو اور آندرے رسل جیسے آل راؤنڈرز بھی میچ والے دن کسی بھی ٹیم کو ٹف ٹائم دے سکتے ہیں، سیموئل بدری ٹوئنٹی 20 کے بہترین بولرز تصور کئے جاتے ہیں تاہم اس ٹیم کو نئے گیند سے وکٹیں حاصل کرنے والے بااعتماد بولرز کی کمی کا سامنا ہے۔ کرس گیل کا جادو چل گیا تو سیمی فائنل تک رسائی کے بہترین مواقع موجود ہیں۔

نیوزی لینڈ: کیویز کا عالمی رینکنگ میں پانچواں نمبر ہے، برینڈن میک کولم کی ریٹائرمنٹ کے باوجود ٹیم کو بہترین ٹاپ آرڈر بیٹسمینوں کا ساتھ حاصل ہے، مارٹن گپٹل کے ساتھ کین ولیمسن اور کولن منرو ٹاپ 3 ہیں،سب مکمل فارم میں ہیں، ٹم ساؤتھی اور ٹرینٹ بولٹ نے تینوں طرز کی کرکٹ میں کیوی اٹیک کو خاصا مضبوط بنا رکھا ہے۔

میٹ ہینری کی عدم موجودگی کے باوجود مچل میکلینگن اور ایڈم ملن بھرپور رفتار اور لائن اینڈ لینتھ کے ساتھ بولنگ کر کے حریف ٹیموں کے بیٹسمینوں کو ٹف ٹائم دیتے ہیں تاہم اس ٹیم کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ اس ٹیم کو برصغیر کی کنڈیشنز میں بہت زیادہ کرکٹ کھیلنے کا تجربہ حاصل نہیں ہے، مارٹن گپٹل کو کسی آئی پی ایل فرنچائز نے نہیں خریدا، کولن منرو بھی اس ایونٹ میں نہیں کھیلے، یہ فیکٹر ان کی کامیابی میں رکاوٹ بن سکتا ہے، میگا ایونٹ کے دوران کھلاڑی بھارتی سرزمین پر خود کو ایڈجسٹ کرنے میں کامیاب ہو گئے تو کوئی بھی ٹیم کیویز کو چیمپئن بننے سے نہیں روک سکے گی۔

انگلینڈ: جب سے ٹریور بیلس نے انگلش ٹیم کا بطور کوچ چارج سنبھالا ہے، اس نے مختصر طرز کی کرکٹ میں ٹیم کی کارکردگی کو چار چاند لگا دیئے ہیں، اس وقت ٹیم کے پاس نہ صرف دنیا کے بہترین ہٹرز موجود ہیں بلکہ بہترین فاسٹ بولرز کا بھی ساتھ حاصل ہے، جوئے روٹا ایون مورگن ، بین سٹوکس اور جوز بٹلر کی عمدہ کارکردگی نے انگلش ٹیم کو عالمی رینکنگ میں ٹاپ تھری میں جگہ دلا دی ہے، اس ٹیم کا مڈل آرڈر سب سے مستند سمجھا جاتا ہے،گو انگلینڈ کو دنیا کے 2 بہترین لیفٹ آرم سیمرز کا ساتھ موجود ہے، اچھے سپنرز بھی ہیں تاہم ان کھلاڑیوں کو آئی پی ایل کھیلنے کا تجربہ نہیں ہے۔

پاکستان: گرین شرٹس کا شمار دنیا کی ان چند ٹیموں میں کیا جاتا ہے جن کی تنزلی کا سفر بڑی تیزی سے جاری ہے، عالمی رینکنگ میں اس کا نمبر ساتواں ہے، ایشیا کپ کے پہلے ہی راؤنڈ سے باہر ہونے کے بعد ٹیم کو سخت تنقید کا سامنا رہا جس کی وجہ سے کھلاڑی مزید دباؤ کا شکار رہے، رہی سہی کسر بھارت کی طرف سے سکیورٹی خدشات نے پوری کر دی ہے، اگرچہ گرین شرٹس کو مہلک فاسٹ بولرز اور سپنرز کا ساتھ حاصل ہے، وہاب ریاض، محمد عامر، محمد سمیع اور محمد عرفان وہ بولرز ہیں جو 140 سے 150 کلومیٹرفی گھنٹہ کی رفتار سے گیند کرتے ہیں۔

شعیب ملک اور شاہد آفریدی بھی ایسے کھلاڑی ہیں جو کسی بھی لمحے اپنی بولنگ اور بیٹنگ سے میچ کا پانسہ پلٹنے کی بھر پور صلاحیت رکھتے ہیں، عمر اکمل نہ صرف بہترین مڈل آرڈر بیٹسمین ہیں بلکہ ان کا شمار دنیا کے بہترین فیلڈرز میں بھی ہوتا ہے، ان تمام خوبیوں کے باوجود پاکستانی ٹیم کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ یہ کسی بھی ٹیم سے جیت بھی سکتی ہے اورچھوٹی سے چھوٹی ٹیم سے ہار بھی سکتی ہے۔

بنیادی طور پر پاکستان ٹیم کا اوپننگ کا شعبہ خاصا کمزور رہا ہے، ابتدائی بیٹسمینوں کے جلد آؤٹ ہونے کی وجہ سے بعد میں آنے والے بیٹسمین بھی دباؤ کا شکار ہو جاتے ہیں اور ٹیم بڑا سکور کرنے میں ناکام رہتی ہے۔ بولرز کی طرح بیٹسمینوں نے بھی ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے عمدہ کارکردگی دکھائی تو پاکستان چھپا رستم ثابت ہو سکتا ہے۔

سری لنکا: ماضی کی سپر طاقت کو موجودہ عالمی کپ کی قدرے کمزور ٹیم قرار دیا جا رہا ہے، لیستھ مالنگا بلاشبہ ٹوئنٹی20 کرکٹ کے بہترین بولرہیں، تاہم ان کی مکمل فٹنس پر سوالیہ نشان موجود ہے، سری لنکا کو بہترین سپنرز کا ساتھ حاصل ہے تاہم ٹاپ بیٹسمین اینجیلو میتھوز کے ساتھ اوپنرز بھی اچھی فارم میں دکھائی نہیں دے رہے جبکہ زیادہ تر بیٹسمینوں کو انٹرنیشنل کرکٹ کا زیادہ تجربہ بھی نہیں ہے، ورلڈ کپ کا ٹائٹل اپنے نام کرنے کے مواقع بہت کم ہیں۔

بنگلہ دیش، افغانستان، ہانگ کانگ، آئرلینڈ، اومان، نیدر لینڈ اورزمبابوے کی ٹیمیں کوالیفائرز میں شامل ہیں، ٹاپ 10پر مشتمل مین راؤنڈ کے لیے ان میں سے 2 ٹیمیں پیش قدمی جاری رکھیں گی۔
Load Next Story