گھر کے چراغ سے
ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوتے ہیں، جن کی قیادت سیاسی بصیرت کے ساتھ عزم و حوصلہ کی دولت سے مالامال ہو۔
کبھی کبھی یہ احساس ہوتا ہے کہ وطن عزیز کو ایک مہذب، شائستہ اور فلاحی ریاست بنانے کی خواہش کی تکمیل مستقبل قریب میں نہ ہو سکے گی۔ یہ وہ خواب ہے، جو 68 برس گزر جانے کے باوجود ہنوز تشنہ تعبیر ہے۔ دراصل حکمران اشرافیہ (سیاسی اور غیر سیاسی دونوں) کے مخصوص ڈیزائنز اور مفادات اس راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ جس نے یہ تہیہ کر رکھا ہے کہ اس ملک کو بانی پاکستان کے تصورات کا کسی بھی طور آئینہ دار نہیں بننے دینا۔ حالانکہ یہ ملک اپنے قیام کے وقت سے تادم تحریر ایک ترقی دوست فلاحی ریاست بننے کی پوری صلاحیت اور پوٹینشل رکھتا ہے۔
وہی ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوتے ہیں، جن کی قیادت سیاسی بصیرت کے ساتھ عزم و حوصلہ کی دولت سے مالامال ہو۔ اہداف اور ترجیحات کا تعین ملکوں کو آگے بڑھنے میں مدد دیتا ہے۔ کنفیوزڈ قیادتیں اپنے ملک کو ترقی معکوس کی راہ پر لگا دیتی ہیں۔ تنگ نظری، تعصب اور عوام کے مختلف طبقات اور کمیونیٹیز کے ساتھ امتیازی سلوک تباہی کے دہانے تک پہنچانے کا سبب بنتا ہے۔
1916ء سے قیام پاکستان تک بانی پاکستان کی سیاست کا محور و مقصود برٹش انڈیا میں زیادہ سے زیادہ صوبائی خودمختاری اور اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کا حصول تھا۔ مگر قیام پاکستان سے تین روز قبل دستور ساز اسمبلی میں ان کی تقریر کو سنسر کر کے بیوروکریسی نے اپنی طاقت کا پہلا مظاہرہ کیا تھا، جب کہ قرارداد مقاصد کی دستور ساز اسمبلی سے منظوری دوسرا، ملک غلام محمد کی بطور گورنر جنرل تقرری تیسرا اور 1955ء میں دستور ساز اسمبلی کی تحلیل چوتھا مظاہرہ تھا۔
ہمارے بزرگ حمید اختر مرحوم بتاتے تھے کہ ساحر لدھیانوی مرحوم پاکستان آنے کے ایک برس بعد ہی اس کے سیاسی مستقبل سے مایوس ہو گئے تھے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ جلد یا بدیر یہ ملک ملاؤں کے قبضے میں جانے والا ہے، جس کے نتیجے میں آزادی اظہار اور دلیل کی بنیاد پر مکالمہ کے لیے گنجائش بالکل ختم ہو جائے گی اور فکری حبس کا ایک ایسا ماحول جنم لے گا، جس میں سانس لینا دوبھر ہو جائے گا۔
حمید اختر مرحوم کہتے تھے کہ میں انھیں ہر طرح سے مطمئن کرنے کی کوشش کرتا، مگر ان کی سیاسی بصیرت میری باتوں سے قائل نہیں ہوئی۔ جب میں چند روز کے لیے کراچی گیا ہوا تھا، وہ چپکے سے بھارت واپس چلے گئے۔ حمید اختر مرحوم کا کہنا تھا کہ ساحر نے صحیح فیصلہ کیا تھا۔ اگر وہ یہاں رہتا تو شاید نہ تو اتنی عمدہ شاعری کر پاتا اور نہ ہی اسے اتنی مقبولیت مل پاتی، جو اس نے واپس جا کر کمائی۔
سائیں جی ایم سید نے بھی 1952ء میں ویانا کانفرنس کے موقع پر اسی نوعیت کے خیالات کا اظہار کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ ایک طرف مذہبی عناصر کی پرورش کر رہی ہے، جب کہ دوسری طرف فیوڈل سیاستدانوں کو مضبوط کر رہی ہے، تا کہ ان کی مدد سے جمہوریت اور وفاقیت کا خاتمہ کر کے ملک کو وحدانی ریاست میں تبدیل کیا جا سکے۔ اس طرز عمل سے ان اہداف کو شدید دھچکا لگا جو قیام پاکستان کا سبب بنے تھے، یعنی صوبائی خودمختاری اور اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ۔ سائیں نے 64 برس قبل جو کچھ کہا وہ آج درست ثابت ہو رہا ہے۔
آج پاکستان میں بعض قوتیں 18 ویں آئینی ترمیم کو ختم کرنے کے درپے ہیں، تا کہ صوبوں کو جو تھوڑی بہت خودمختاری ملی ہے، اسے ایک بار پھر سلب کیا جا سکے۔ اس مقصد کے لیے کچھ زرخرید صحافی اور چند کج ذہن سیاسی کارکنوں کو صدارتی نظام کے حق میں مہم چلانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے، تا کہ چھوٹے صوبوں کے وسائل پر مزید کنٹرول حاصل کیا جا سکے۔
اب ایک دوسرے پہلو کی طرف آئیے۔ 1950ء اور 60ء کے عشرے میں ہماری حکمران اشرافیہ پاک امریکا تعلقات کو قومی سلامتی کے لیے ضروری قرار دیتے نہیں تھکتی تھی۔ جب کہ دائیں بازو کی سیاسی جماعتیں اور مذہبی تنظیمیں حکومت کے سُر میں سُر ملا رہی تھیں۔ بائیں بازو کے دانشور اور سرگرم سیاسی کارکن جب امریکا کو استعماری ریاست قرار دیتے ہوئے حکومتی پالیسیوں پر تنقید کرتے، تو ان پر بھارت اور سوویت یونین کے ایجنٹ ہونے کا الزام عائد کیا جاتا تھا۔ لیکن فلک کہن نے یہ منظر بھی دیکھا کہ جب افغانستان سے سوویت فوجیں نکل گئیں اور امریکا کرائے کے جنگجوؤں کو چھوڑ کر چلا گیا، تو وہی مذہبی عناصر جنھوں نے امریکی ڈالروں کی جھنکار میں عسکری جتھے تیار کیے تھے، امریکا دشمنی پر اتر آئے۔
آج حکمران اشرافیہ چین کے ساتھ اقتصادی معاہدوں اور راہداری کے منصوبے کے فوائد بیان کرتے نہیں تھک رہی۔ ہر طرف چین کی فیاضی کے ایسے ایسے قصیدے پڑھے جا رہے ہیں کہ حاتم طائی بھی اپنی قبر میں شرما رہا ہو گا۔ مگر خدشہ یہی ہے کہ 10 سے 20 برس بعد شاید ہم تو نہ ہوں گے، مگر اس وقت کی نسلیں چین کے بارے میں اس سے بھی بدتر الفاظ استعمال کر رہی ہوں گی، جو ماضی میں ہم اور ہمارے بزرگ امریکا کے بارے میں ادا کیا کرتے رہے اور آج کل مذہبی جماعتیں گلے میں ڈھول لے کر پیٹ رہی ہیں۔
سیاسی تاریخ پر نظر رکھنے والے متوشش حلقوں کا کہنا ہے کہ ہمارے حکمران، جو کورچشمی (Myopic) کا شکار ہیں، انھیں یہ اندازہ ہی نہیں کہ منگولیائی نسل یورپیائی نسل کے مقابلے میں کہیں زیادہ سفاک اور سنگدل ہوتی ہے۔ امریکی حکام نے تو ہماری ان گنت لغزشوں، کوتاہیوں اور غلط بیانیوں کو نظر انداز کر دیا، مگر چین کے منگول حکمرانوں سے درگزر کی توقع محال ہے۔
وہ افراد یا کمیونٹیز، جنھوں نے ڈھائی ہزار برس تک حملہ آوروں کی جوتیاں سیدھی کی ہوں اور صدیوں پر محیط غلامی کا طوق پہنا ہو، ان میں طاقتور کی خوشامد اور کمزور پر چڑھ دوڑنے کی نفسیات پیدا ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری حکمران اشرافیہ عزت نفس، خود اعتمادی اور عزم و حوصلہ کے فقدان کا شکار ہے۔ اسی لیے یہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے بجائے امداد اور قرض کے سہارے تلاش کرتی ہے۔ ان حکمرانوں کو یہ اندازہ ہی نہیں کہ وطن عزیز میں ہنرمند افرادی قوت کی کمی نہیں۔
ایک ایسی افرادی قوت جو ذہین بھی ہے اور جفاکش بھی۔ جس کی صحیح معنی میں منصوبہ بندی کے ذریعے جدید خطوط پر استوار تعلیم و تربیت کا بندوبست کیا جائے، تو ایسے ایسے گوہر نایاب نکل کر سامنے آ سکتے ہیں، جو اس ملک کی تقدیر محض چند برسوں میں بدل دیں۔ مگر کسی کی سوچ کا محور اپنے خاندان کے کاروبار کی دنیا بھر میں وسعت ہے۔ کسی کو خطرہ ہے کہ اگر کمی کمدار کا بچہ تعلیم حاصل کر گیا تو اس کے فیوڈل کروفر کا کیا بنے گا؟ محدود مفادات میں گھری اسی سوچ نے 1965ء تک تیزی سے ترقی کرتے ملک کو ترقی معکوس کی عبرت ناک تصویر بنا دیا ہے۔
کسی شاعر نے کیا خوب کہا تھا کہ:
اپنے کشکول چھپا لے تو ہر ایک حاتم ہے
ورنہ ہر شخص بھکاری ہے، جدھر جاؤ گے
جب کہ تقسیم ہند سے پہلے ایک نوعمر شاعر کا یہ شعر زبانِ زد عام ہے کہ:
دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
یہ شعر اس تلخ حقیقت کی ترجمانی کرتا ہے، جس سے ہمارا ملک دوچار ہے۔ یہ کہنا کہ فلاں ملک یا فلاں اقوام ہماری دشمن ہیں، اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں پر پردہ ڈالنے کے سوا کچھ اور نہیں۔ ویسے بھی فکری تنزل کے شکار افراد کی بھیڑ کے خلاف سازش کرنے کی کسی کو فرصت نہیں ہے۔ وطن عزیز ایک بار پھر 1952ء سے 1965ء کے دوران ہونے والی ترقی کی راہ پر لگ سکتا ہے، بشرطیکہ حکمران اشرافیہ موقع پرستی، چھوٹے صوبوں کے حقوق سلب کرنے اور چھوٹی کمیونٹیز کے سیاسی حقوق غصب کرنے جیسے گھناؤنے منصوبہ میں وقت ضایع کرنے کے بجائے ملک کی ترقی کے لیے نئے اہداف طے کرنے پر اپنی توجہ مرکوز کرے۔
عوام کو بھی چاہیے کہ وہ تاجر اور فیوڈل مائنڈ سیٹ کے سیاستدانوں سے جان چھڑا کر اپنے ہی طبقات میں سے اپنے نمایندے منتخب کریں۔ کتنی عجیب بات ہے کہ سال بھر استعمال کیے جانے والا جوتا خریدنے میں ہم اتنے محتاط ہوتے ہیں کہ دس دکانوں کا چکر لگانے کے بعد کہیں جا کر خریدتے ہیں۔ لیکن پانچ برس تک قوم کے مقدر کا فیصلہ کرنے والے رکن قومی یا صوبائی اسمبلی کے انتخاب میں انتہائی غیر محتاط اور غیر ذمے دار ہونے کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ یہ وہ روش ہے، جس نے ملک میں ایک مخصوص اشرافیہ کو جنم دیا ہے، جو پنجے گاڑ کر اس ملک پر مسلط ہو گئی ہے اور غلط فیصلوں سے ملک کو نقصان پہنچا رہی ہے۔
وہی ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوتے ہیں، جن کی قیادت سیاسی بصیرت کے ساتھ عزم و حوصلہ کی دولت سے مالامال ہو۔ اہداف اور ترجیحات کا تعین ملکوں کو آگے بڑھنے میں مدد دیتا ہے۔ کنفیوزڈ قیادتیں اپنے ملک کو ترقی معکوس کی راہ پر لگا دیتی ہیں۔ تنگ نظری، تعصب اور عوام کے مختلف طبقات اور کمیونیٹیز کے ساتھ امتیازی سلوک تباہی کے دہانے تک پہنچانے کا سبب بنتا ہے۔
1916ء سے قیام پاکستان تک بانی پاکستان کی سیاست کا محور و مقصود برٹش انڈیا میں زیادہ سے زیادہ صوبائی خودمختاری اور اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کا حصول تھا۔ مگر قیام پاکستان سے تین روز قبل دستور ساز اسمبلی میں ان کی تقریر کو سنسر کر کے بیوروکریسی نے اپنی طاقت کا پہلا مظاہرہ کیا تھا، جب کہ قرارداد مقاصد کی دستور ساز اسمبلی سے منظوری دوسرا، ملک غلام محمد کی بطور گورنر جنرل تقرری تیسرا اور 1955ء میں دستور ساز اسمبلی کی تحلیل چوتھا مظاہرہ تھا۔
ہمارے بزرگ حمید اختر مرحوم بتاتے تھے کہ ساحر لدھیانوی مرحوم پاکستان آنے کے ایک برس بعد ہی اس کے سیاسی مستقبل سے مایوس ہو گئے تھے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ جلد یا بدیر یہ ملک ملاؤں کے قبضے میں جانے والا ہے، جس کے نتیجے میں آزادی اظہار اور دلیل کی بنیاد پر مکالمہ کے لیے گنجائش بالکل ختم ہو جائے گی اور فکری حبس کا ایک ایسا ماحول جنم لے گا، جس میں سانس لینا دوبھر ہو جائے گا۔
حمید اختر مرحوم کہتے تھے کہ میں انھیں ہر طرح سے مطمئن کرنے کی کوشش کرتا، مگر ان کی سیاسی بصیرت میری باتوں سے قائل نہیں ہوئی۔ جب میں چند روز کے لیے کراچی گیا ہوا تھا، وہ چپکے سے بھارت واپس چلے گئے۔ حمید اختر مرحوم کا کہنا تھا کہ ساحر نے صحیح فیصلہ کیا تھا۔ اگر وہ یہاں رہتا تو شاید نہ تو اتنی عمدہ شاعری کر پاتا اور نہ ہی اسے اتنی مقبولیت مل پاتی، جو اس نے واپس جا کر کمائی۔
سائیں جی ایم سید نے بھی 1952ء میں ویانا کانفرنس کے موقع پر اسی نوعیت کے خیالات کا اظہار کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ ایک طرف مذہبی عناصر کی پرورش کر رہی ہے، جب کہ دوسری طرف فیوڈل سیاستدانوں کو مضبوط کر رہی ہے، تا کہ ان کی مدد سے جمہوریت اور وفاقیت کا خاتمہ کر کے ملک کو وحدانی ریاست میں تبدیل کیا جا سکے۔ اس طرز عمل سے ان اہداف کو شدید دھچکا لگا جو قیام پاکستان کا سبب بنے تھے، یعنی صوبائی خودمختاری اور اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ۔ سائیں نے 64 برس قبل جو کچھ کہا وہ آج درست ثابت ہو رہا ہے۔
آج پاکستان میں بعض قوتیں 18 ویں آئینی ترمیم کو ختم کرنے کے درپے ہیں، تا کہ صوبوں کو جو تھوڑی بہت خودمختاری ملی ہے، اسے ایک بار پھر سلب کیا جا سکے۔ اس مقصد کے لیے کچھ زرخرید صحافی اور چند کج ذہن سیاسی کارکنوں کو صدارتی نظام کے حق میں مہم چلانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے، تا کہ چھوٹے صوبوں کے وسائل پر مزید کنٹرول حاصل کیا جا سکے۔
اب ایک دوسرے پہلو کی طرف آئیے۔ 1950ء اور 60ء کے عشرے میں ہماری حکمران اشرافیہ پاک امریکا تعلقات کو قومی سلامتی کے لیے ضروری قرار دیتے نہیں تھکتی تھی۔ جب کہ دائیں بازو کی سیاسی جماعتیں اور مذہبی تنظیمیں حکومت کے سُر میں سُر ملا رہی تھیں۔ بائیں بازو کے دانشور اور سرگرم سیاسی کارکن جب امریکا کو استعماری ریاست قرار دیتے ہوئے حکومتی پالیسیوں پر تنقید کرتے، تو ان پر بھارت اور سوویت یونین کے ایجنٹ ہونے کا الزام عائد کیا جاتا تھا۔ لیکن فلک کہن نے یہ منظر بھی دیکھا کہ جب افغانستان سے سوویت فوجیں نکل گئیں اور امریکا کرائے کے جنگجوؤں کو چھوڑ کر چلا گیا، تو وہی مذہبی عناصر جنھوں نے امریکی ڈالروں کی جھنکار میں عسکری جتھے تیار کیے تھے، امریکا دشمنی پر اتر آئے۔
آج حکمران اشرافیہ چین کے ساتھ اقتصادی معاہدوں اور راہداری کے منصوبے کے فوائد بیان کرتے نہیں تھک رہی۔ ہر طرف چین کی فیاضی کے ایسے ایسے قصیدے پڑھے جا رہے ہیں کہ حاتم طائی بھی اپنی قبر میں شرما رہا ہو گا۔ مگر خدشہ یہی ہے کہ 10 سے 20 برس بعد شاید ہم تو نہ ہوں گے، مگر اس وقت کی نسلیں چین کے بارے میں اس سے بھی بدتر الفاظ استعمال کر رہی ہوں گی، جو ماضی میں ہم اور ہمارے بزرگ امریکا کے بارے میں ادا کیا کرتے رہے اور آج کل مذہبی جماعتیں گلے میں ڈھول لے کر پیٹ رہی ہیں۔
سیاسی تاریخ پر نظر رکھنے والے متوشش حلقوں کا کہنا ہے کہ ہمارے حکمران، جو کورچشمی (Myopic) کا شکار ہیں، انھیں یہ اندازہ ہی نہیں کہ منگولیائی نسل یورپیائی نسل کے مقابلے میں کہیں زیادہ سفاک اور سنگدل ہوتی ہے۔ امریکی حکام نے تو ہماری ان گنت لغزشوں، کوتاہیوں اور غلط بیانیوں کو نظر انداز کر دیا، مگر چین کے منگول حکمرانوں سے درگزر کی توقع محال ہے۔
وہ افراد یا کمیونٹیز، جنھوں نے ڈھائی ہزار برس تک حملہ آوروں کی جوتیاں سیدھی کی ہوں اور صدیوں پر محیط غلامی کا طوق پہنا ہو، ان میں طاقتور کی خوشامد اور کمزور پر چڑھ دوڑنے کی نفسیات پیدا ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری حکمران اشرافیہ عزت نفس، خود اعتمادی اور عزم و حوصلہ کے فقدان کا شکار ہے۔ اسی لیے یہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے بجائے امداد اور قرض کے سہارے تلاش کرتی ہے۔ ان حکمرانوں کو یہ اندازہ ہی نہیں کہ وطن عزیز میں ہنرمند افرادی قوت کی کمی نہیں۔
ایک ایسی افرادی قوت جو ذہین بھی ہے اور جفاکش بھی۔ جس کی صحیح معنی میں منصوبہ بندی کے ذریعے جدید خطوط پر استوار تعلیم و تربیت کا بندوبست کیا جائے، تو ایسے ایسے گوہر نایاب نکل کر سامنے آ سکتے ہیں، جو اس ملک کی تقدیر محض چند برسوں میں بدل دیں۔ مگر کسی کی سوچ کا محور اپنے خاندان کے کاروبار کی دنیا بھر میں وسعت ہے۔ کسی کو خطرہ ہے کہ اگر کمی کمدار کا بچہ تعلیم حاصل کر گیا تو اس کے فیوڈل کروفر کا کیا بنے گا؟ محدود مفادات میں گھری اسی سوچ نے 1965ء تک تیزی سے ترقی کرتے ملک کو ترقی معکوس کی عبرت ناک تصویر بنا دیا ہے۔
کسی شاعر نے کیا خوب کہا تھا کہ:
اپنے کشکول چھپا لے تو ہر ایک حاتم ہے
ورنہ ہر شخص بھکاری ہے، جدھر جاؤ گے
جب کہ تقسیم ہند سے پہلے ایک نوعمر شاعر کا یہ شعر زبانِ زد عام ہے کہ:
دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
یہ شعر اس تلخ حقیقت کی ترجمانی کرتا ہے، جس سے ہمارا ملک دوچار ہے۔ یہ کہنا کہ فلاں ملک یا فلاں اقوام ہماری دشمن ہیں، اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں پر پردہ ڈالنے کے سوا کچھ اور نہیں۔ ویسے بھی فکری تنزل کے شکار افراد کی بھیڑ کے خلاف سازش کرنے کی کسی کو فرصت نہیں ہے۔ وطن عزیز ایک بار پھر 1952ء سے 1965ء کے دوران ہونے والی ترقی کی راہ پر لگ سکتا ہے، بشرطیکہ حکمران اشرافیہ موقع پرستی، چھوٹے صوبوں کے حقوق سلب کرنے اور چھوٹی کمیونٹیز کے سیاسی حقوق غصب کرنے جیسے گھناؤنے منصوبہ میں وقت ضایع کرنے کے بجائے ملک کی ترقی کے لیے نئے اہداف طے کرنے پر اپنی توجہ مرکوز کرے۔
عوام کو بھی چاہیے کہ وہ تاجر اور فیوڈل مائنڈ سیٹ کے سیاستدانوں سے جان چھڑا کر اپنے ہی طبقات میں سے اپنے نمایندے منتخب کریں۔ کتنی عجیب بات ہے کہ سال بھر استعمال کیے جانے والا جوتا خریدنے میں ہم اتنے محتاط ہوتے ہیں کہ دس دکانوں کا چکر لگانے کے بعد کہیں جا کر خریدتے ہیں۔ لیکن پانچ برس تک قوم کے مقدر کا فیصلہ کرنے والے رکن قومی یا صوبائی اسمبلی کے انتخاب میں انتہائی غیر محتاط اور غیر ذمے دار ہونے کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ یہ وہ روش ہے، جس نے ملک میں ایک مخصوص اشرافیہ کو جنم دیا ہے، جو پنجے گاڑ کر اس ملک پر مسلط ہو گئی ہے اور غلط فیصلوں سے ملک کو نقصان پہنچا رہی ہے۔