خیبر پختون خوا پولیس کی قربانیاں فراموش نہ کی جائیں

آج کل پشاور میں موجود ہ انسپکٹر جنرل پولیس ناصر خان درانی کے تبادلے کی افواہیں زیر گردش ہیں

ISLAMABAD:
آج کل پشاور میں موجود ہ انسپکٹر جنرل پولیس ناصر خان درانی کے تبادلے کی افواہیں زیر گردش ہیں۔ان کا تعلق لاہور سے ہے اور انھیں پاکستان تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان نے خیبر پختون خوا کے آئی جی پولیس کے طور تجویز کیاتھا اور صوبائی حکومت نے اپنے قائد کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے انھیں اس عہدے پر فائز کر دیا۔

توقع تھی کہ دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے ناصر خان درانی کے تجربہ سے فائدہ اٹھایا جائے گا، انھوں نے اس حوالے سے اقدامات کا بیڑہ بھی اٹھایا، ان کا خیال تھا کہ دہشت گردی میں فرنٹ لائن شہر پشاور اور فرنٹ لائن صوبے میں دہشت گردی سے نبرد آزما ہونے کے لیے ٹھوس بنیادوں پر کام نہیں کیا گیا اگرچہ پولیس افسروں اور جوانوں نے عظیم قربانیاں دے کر خود کو امر کر دیا اس کے باوجود حکومت نے ان کے تحفظ کے لیے کچھ زیادہ نہیں کیا۔

کئی بار ناصر خان درانی سے ملاقات ہوئی جس میں انھوں نے ہمیشہ صوبے کی پولیس فورس کو دنیا کی بہادر فورس سے تعبیر کیا اور وہ چاہتے تھے کہ اس فورس کے لیے بہت کیا جائے تاکہ خودکش بمباروں کو گلے لگا کر سیکڑوں قیمتی جانیں بچانے اور خود کو ملک و قوم کی بقاء اور سالمیت پر قربان کرنے والوں کے لواحقین کو یہ احساس ہو کہ قوم بھی ان کے ساتھ ہے۔

آئی جی نے کئی منصوبے شروع کیے ان میں سب سے اہم پولیس اسکولز تھے جوصوبے کے مختلف شہروں میں قائم کیے جن میں انویسٹی گیشن، ٹیکٹکس، اسکول آف آئی ٹی اوربارودی مواد ناکارہ بنانے سے متعلق جدید تقاضوں سے ہم آہنگ تربیت کا آغاز ہوا۔پولیس اسسٹنٹس لائنز قائم کی گئیں تاکہ عام لوگوں کی شکایات دور کی جا سکیں،پولیس ایکسس سروس کا سلسلہ شروع کیا گیا،ماڈل پولیس اسٹیشنز بنائے گئے پولیس میں خود احتسابی کا آغاز ہوا اور محتاط اندازے کے مطابق پانچ ہزار پولیس اہل کاروں کے خلاف کارروائیاں کی گئیں اس کے علاوہ مصالحتی کمیٹیوں کو فعال بنایا گیا۔

ٹریفک وارڈن سسٹم بنایا گیااور ایسے بہت سے اقدامات تھے جو پہلے شاید اس لیے ممکن نہ ہو سکے کہ پولیس دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مصروف رہی اور جب کسی حد تک دہشت گردی میں کمی واقع ہوئی تو پولیس نے وہ کام کرنا شروع کیا جس کے لیے اسے تربیت دی جاتی ہے۔ایک طرف یہ اقدامات ہیں تو دوسری جانب پولیس اور بیورو کریسی میں نہ ختم ہونے والی جنگ، جس نے پولیس کا مورال تباہ کر دیا ہے۔ پہلے سرد جنگ تھی جو اب کافی حد تک پھیل گئی ہے۔


بیورو کریسی کی نظر میں موجودہ آئی جی نے جو بھی اقدامات کیے وہ نئے نہیں ہیں،خود احتسابی کے تحت جنھیں ملازمتوں سے فارغ کیا انھیں عدالتیں بحال کر چکی ہیں،ٹریفک وارڈن سسٹم کے باوجود ٹریفک کا نظام درست نہیں ہو سکا !چیف منسٹر شکایات سیل، لوکل گورنمنٹ شکایات سیل اور کئی شکایات مراکز کے بعد پولیس شکایات سیل میں ملنے والی زیادہ تر شکایات کا پولیس سے متعلق ہونا اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ نظام بہتر نہیں ہو سکا۔ خاص طور پر تاجر راہ نما حاجی حلیم جان کے قتل کے بعد پولیس عوامی غیظ و غضب کا شکار ہے اور ایسے میں تاجر برادری کی جانب سے آئی جی کو تبدیل کرنے کا مطالبہ زور پکڑ گیا ہے۔

بعض حلقوں کا یہ بھی خیال ہے کہ نئے آئی جی کی تقرری کے بعد مقامی بیوروکریسی اس کی راہ میں رکاوٹیں نہیں کھڑی کرے گی مگر ماضی میں دیکھا جائے تو ایسی شکایات سابق آئی جی صاحبان کو بھی تھیں کہ ان کے مسائل حل نہیں کیے جاتے مگر بیورو کریسی اور پولیس کے اعلیٰ حکام کے درمیان اختلافات کی شدت نے پولیس کی ان قربانیوں کو بھی نظر انداز کر دیا ہے جو اس نے قیام امن کے لیے دیں،یہ الگ بات کہ خود پولیس کے اعلیٰ افسران نے اپنے سابق آئی جی کا بھی ساتھ نہ دیا جو تین سالوں سے جیل میں ہے وہی آئی جی جس نے پولیس کو اپنی ساری زندگی دی محض الزامات کے نتیجہ میں اسے صعوبتیں برداشت کرنا پڑ رہی ہیں۔

اب چیف سیکریٹری کیوں پولیس کو فراموش کر رہے ہیں؟ سابق سیکریٹری داخلہ اور پولیس کے گریڈ اکیس کے افسر اختر علی شاہ کے تحفظات کیا تھے ؟ اور پھر ایک بہترین بیورو کریٹ تصور کیے جانے والے سیکریٹری داخلہ ارباب محمد عارف جو آج کل سپریم کورٹ کے رجسٹرار ہیں انھوں نے پولیس چیف کی تجاویز پر کان کیوں نہیں دھرا اور کیا پولیس چیف غلط ہیں، ان سوالوں کے جواب تو وزیر اعلیٰ کو جاننے چاہئیں لیکن چوںکہ ان کے پاس وقت کم ہے انتخابات کے لیے بہت کام کرنا ہے تو بھی ان اختلافات پر توجہ نہیں دے سکے اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تاجر برادری نے آئی جی کی تبدیلی کا نعرہ بلند کر دیا ہے۔

آئی جی بدلے یا نہ بدلے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ دہشت گردی کا بہادری اور جرات مندی سے مقابلہ کرنے والی پولیس فورس مایوسی کی جانب بڑھ رہی ہے۔اگر حکومت نے آئی جی کو بدلنا ہے تو فوری طور پر بدل دیا جائے اور اگر مسائل حل کرنے ہیں تو بیوروکریسی اور اعلیٰ پولیس حکام کو ایک پیج پر لایا جائے ۔سبھی چاہتے ہیں کہ خیبر پختون خوا پولیس کی قربانیاں فراموش نہ کی جائیں انھیں برا بھلا کہنے کی بجائے انھیں سلام پیش کیا جائے، سال میں ایک دن شہدائے خیبر پختون خوا پولیس منانے کے جذبے کا احترام کیا جائے، بجائے دن کے انتخاب پر اعتراضات کیے جائیں کیونکہ اگر اس وقت پولیس کو نظر انداز کر دیا گیا توپھر خودکش بمباروں کو گلے لگانے کی مثالیں کہیں ماضی کا حصہ ہی نہ بن جائیں۔

دوسری طرف پولیس کو بھی عوام کی حفاظت کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔بارودی مواد کے دھماکے کو خود کش دھماکہ قرار دے کر مقدمہ فائلوں کی نذر کر دینا بھی مناسب نہیں اور سیکڑوں بھتے کی کالز کو افغانستان سے کی جانے والی کالز قرار دے کرجان چھڑانا بھی عقل مندی نہیں ،میٹروپولیٹن سٹی میں سینئر افسروں کی بجائے جونئیر افسروں کا تقرر اور پولیس فورس کے مایہ ناز افسروں کو کھڈے لائن لگا کر وقت گزارنا بھی کسی طور درست نہیں۔

ایک تاجر راہ نما کو بھرے بازار میں چھ گولیاں مار کر قاتل کا فرار ہوجانا پولیس اور عوام دونوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ ایسے وقت میں جب کہ پاک فوج کا آپریشن ضرب عضب اپنے اختتام کو ہے یقیناً پولیس کو شہری علاقوں میں اس آپریشن کے ردعمل کا سامنا بھی ہو سکتا ہے جس کے لیے اسے چوکس رہتے ہوئے شہریوں کی جان و مال کا تحفظ یقینی بنانا ہو گا۔البتہ نوکر شاہی کو بھی پولیس کی مشکلات کا ادراک کرتے ہوئے اس کے مسائل حل کرنے کی جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
Load Next Story