’’برائیڈل شاور‘‘ دلُہن کے نام تحائف کی ایک دعوت
برائیڈل شاور منانے کے لیے آج ایک دلہن کی سہیلیاں سج دھج کر اْس کے گھر اکٹھا ہوتی ہیں۔
رنگ بِرنگے ملبوسات، چہرے پر مسرت، آنکھوں میں دھنک رنگ، چوڑیوں کی کھنک اور سکھیوں کی محفل۔۔۔ ملکہ بنی ہوئی ایک لڑکی جس کی آنکھیں اور چہرہ خوشی سے دمن رہا ہے۔ کمرے کی سجاوٹ اور دسترخوان پر کیک اور دیگر لوازمات کو دیکھ کر گمان ہوتا ہے کہ کسی کا جنم دن منانے کی تیاریاں ہو رہی ہیں، لیکن یہ دیوار پر آرائشی اشیا کے ساتھ کچھ مختلف سے الفاظ لکھے ہوئے نظر آرہے ہیں۔
''برائیڈل شاور (Bridal Shower)''
یہ برائیڈل شاور کیا ہے، جسے منانے کے لیے آج ایک دلہن کی سہیلیاں سج دھج کر اْس کے گھر اکٹھا ہوئی ہیں۔ برائیڈل شاور نامی یہ رسم دراصل ایک مغربی رسم ہے۔ جو 1860ء میں بیلجیم سے شروع ہوئی۔ امریکا کے شہری علاقوں میں یہ رسم 1890ء کی دہائی میں شروع ہوئی اور پھر کینیڈا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ تک پھیل گئی۔ اْس دور میں 'برائیڈل شاور' دلہن کے دوستوں کی جانب سے اْسے تحائف دینے کی ایک تقریب ہوا کرتی تھی، جس کا مقصد دلہن کے گھر والوں کا اْن کی بیٹی کی شادی کے موقع پر معاشی بوجھ کم کرنا اور دلہن کا جہیز بنانے میں اْس کی مدد کرنا ہوتا۔ بالخصوص کوئی معاشی طور پر کم زور ہے، تو اْس رسم کے ذریعے اس کا ہاتھ بٹانے کی کوشش کی جاتی۔
مغرب میں پہلے اس تقریب میں مردوں کا داخلہ ممنوع ہوتا تھا، لیکن آج کل مرد بھی اس میں شرکت کرتے ہیں۔ برائیڈل شاور نامی تقریب کا انعقاد دن یا شام کے اوقات میں کیا جاتا ہے اور اس کی دعوت غیر رسمی انداز میں یعنی ٹیلی فون، ای میل وغیرہ کے ذریعے سے قریبی دوستوں کو دی جاتی ہے۔ اس موقع پر مہمانوں کی خاطر داری کے لیے کیک اور کھانے پینے کے دیگر لوازمات پیش کیے جاتے ہیں۔
پاکستان میں بالخصوص کراچی ایک ایسا شہر ہے، جس میں مختلف ذات پات، رسم ورواج کے حامل لوگ رہتے ہیں، جو مختلف روایات اور ثقافتوں کی پیروی کرتے ہیں۔ مختلف قومیتوں کے لوگوں کی آپس میں شادیوں کی وجہ سے شادیوں میں مختلف ثقافتوں کے رنگ نظر آتے ہیں۔ مثال کے طور پر کہیں شادیوں میں گھڑولی اْٹھانے کی رسم ہے، تو کہیں رت جگا منانے کا رواج، کہیں مسلسل دعوتوں اور مہمان نوازی کی رِیت ہے، تو کہیں دُلہے کی سالیاں اْس سے نیگ لیتی ہیں۔ غرض شادی بیاہ کے موقع پر لوگ مختلف رسم ورواج کی پیروی کرتے نظر آتے ہیں۔ اسی طرح اب پاکستانی ثقافت میں بھی 'برائیڈل شاور' نامی مغربی رسم کا بھی اضافہ ہو چکا ہے۔ پاکستان میں برائیڈل شاور نامی یہ رسم کافی عرصے سے امیر طبقے میں رائج تھی، لیکن کچھ عرصے سے اب متوسط طبقے میں بھی یہ رسم پورے جوش وخروش سے منائی جارہی ہے۔ جس کے لیے دلہن کی سہیلیاں کئی روز پہلے سے تیاریاں شروع کر دیتی ہیں۔
دلہن کی سہیلیاں شادی سے کچھ روز قبل دلہن کے گھر میں تحفے تحائف، کیک، گجرے اور آرایشی لوازمات لے کر جاتی ہیں اور پھر دلہن کو تیار کیا جاتا ہے، کیک کاٹا جاتا ہے، خوشی کے گیت گائے جاتے ہیں، رقص ہوتا ہے اور اس دوران اس کی شادی کے جوڑے بھی تیار کیے جاتے ہیں۔ اپنی زبان، ثقافت اور تہذیب سے بالاتر ہو کر اب ہماری نئی نسل اس رسم میں خوشی محسوس کرتی ہے۔ یعنی یہ مغرب کی رسم کی پیروی تو ہے، لیکن مشرق والوں نے اس میں اپنے رنگ بھی شامل کر لیے ہیں۔ جس کی وجہ سے یہ مغربی روایت کافی مختلف ہو گئی ہے۔ جیسا کہ یہاں جوڑے ٹانکنا، رقص اور گیت وغیرہ مغرب سے مختلف ہیں۔ اس رسم کے موقع پر مرکز نگاہ دلہن خود کو بجا طور پر ایک شاہ زادی تصور کرتی ہے اور یہ دن اْس کی زندگی کا ایک یادگار دن بن جاتا ہے۔
اگر اس رسم کے مثبت پہلوؤ ں کو دیکھا جائے، تو ایک لڑکی، جو ماں باپ، بہن بھائی اور سَکھیوں کو چھوڑ کر پیا دیس سدھارنے والی ہوتی ہے۔ اْس کے دل میں ایک طرف تو نئی زندگی کے متعلق خدشات ہوتے ہیں، تو دوسری طرف اپنوں کو چھوڑ کر جانے کا دکھ۔ ایسے میں اس کی سہیلیوں اور اس کے عزیز واقارب کی جانب سے اْسے اس قدر اہمیت کا احساس دلانا اُس کی خوشی کے ساتھ ساتھ خود اعتمادی میں بھی اضافے کا باعث بنتا ہے۔ وہ اپنی سہیلیوں کی جانب سے دیے گئے تحائف پر خوش ہوتی ہے اور اْنہیں اپنا آپ بہت اہم لگتا ہے۔ نفسانفسی کے اس دور میں برائیڈل شاور یا اس جیسی دوسری چھوٹی چھوٹی رسومات جو کسی کے چہرے پر خوشی کے رنگ بکھیر دیں، اْنہیں منانے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ یہ ایک ایسی مثبت رسم ہے، جس سے خوشیاں بڑھتی ہیں اور دلہن کی شادی کے اخراجات میں بھی کمی واقع ہوتی ہے۔
''برائیڈل شاور (Bridal Shower)''
یہ برائیڈل شاور کیا ہے، جسے منانے کے لیے آج ایک دلہن کی سہیلیاں سج دھج کر اْس کے گھر اکٹھا ہوئی ہیں۔ برائیڈل شاور نامی یہ رسم دراصل ایک مغربی رسم ہے۔ جو 1860ء میں بیلجیم سے شروع ہوئی۔ امریکا کے شہری علاقوں میں یہ رسم 1890ء کی دہائی میں شروع ہوئی اور پھر کینیڈا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ تک پھیل گئی۔ اْس دور میں 'برائیڈل شاور' دلہن کے دوستوں کی جانب سے اْسے تحائف دینے کی ایک تقریب ہوا کرتی تھی، جس کا مقصد دلہن کے گھر والوں کا اْن کی بیٹی کی شادی کے موقع پر معاشی بوجھ کم کرنا اور دلہن کا جہیز بنانے میں اْس کی مدد کرنا ہوتا۔ بالخصوص کوئی معاشی طور پر کم زور ہے، تو اْس رسم کے ذریعے اس کا ہاتھ بٹانے کی کوشش کی جاتی۔
مغرب میں پہلے اس تقریب میں مردوں کا داخلہ ممنوع ہوتا تھا، لیکن آج کل مرد بھی اس میں شرکت کرتے ہیں۔ برائیڈل شاور نامی تقریب کا انعقاد دن یا شام کے اوقات میں کیا جاتا ہے اور اس کی دعوت غیر رسمی انداز میں یعنی ٹیلی فون، ای میل وغیرہ کے ذریعے سے قریبی دوستوں کو دی جاتی ہے۔ اس موقع پر مہمانوں کی خاطر داری کے لیے کیک اور کھانے پینے کے دیگر لوازمات پیش کیے جاتے ہیں۔
پاکستان میں بالخصوص کراچی ایک ایسا شہر ہے، جس میں مختلف ذات پات، رسم ورواج کے حامل لوگ رہتے ہیں، جو مختلف روایات اور ثقافتوں کی پیروی کرتے ہیں۔ مختلف قومیتوں کے لوگوں کی آپس میں شادیوں کی وجہ سے شادیوں میں مختلف ثقافتوں کے رنگ نظر آتے ہیں۔ مثال کے طور پر کہیں شادیوں میں گھڑولی اْٹھانے کی رسم ہے، تو کہیں رت جگا منانے کا رواج، کہیں مسلسل دعوتوں اور مہمان نوازی کی رِیت ہے، تو کہیں دُلہے کی سالیاں اْس سے نیگ لیتی ہیں۔ غرض شادی بیاہ کے موقع پر لوگ مختلف رسم ورواج کی پیروی کرتے نظر آتے ہیں۔ اسی طرح اب پاکستانی ثقافت میں بھی 'برائیڈل شاور' نامی مغربی رسم کا بھی اضافہ ہو چکا ہے۔ پاکستان میں برائیڈل شاور نامی یہ رسم کافی عرصے سے امیر طبقے میں رائج تھی، لیکن کچھ عرصے سے اب متوسط طبقے میں بھی یہ رسم پورے جوش وخروش سے منائی جارہی ہے۔ جس کے لیے دلہن کی سہیلیاں کئی روز پہلے سے تیاریاں شروع کر دیتی ہیں۔
دلہن کی سہیلیاں شادی سے کچھ روز قبل دلہن کے گھر میں تحفے تحائف، کیک، گجرے اور آرایشی لوازمات لے کر جاتی ہیں اور پھر دلہن کو تیار کیا جاتا ہے، کیک کاٹا جاتا ہے، خوشی کے گیت گائے جاتے ہیں، رقص ہوتا ہے اور اس دوران اس کی شادی کے جوڑے بھی تیار کیے جاتے ہیں۔ اپنی زبان، ثقافت اور تہذیب سے بالاتر ہو کر اب ہماری نئی نسل اس رسم میں خوشی محسوس کرتی ہے۔ یعنی یہ مغرب کی رسم کی پیروی تو ہے، لیکن مشرق والوں نے اس میں اپنے رنگ بھی شامل کر لیے ہیں۔ جس کی وجہ سے یہ مغربی روایت کافی مختلف ہو گئی ہے۔ جیسا کہ یہاں جوڑے ٹانکنا، رقص اور گیت وغیرہ مغرب سے مختلف ہیں۔ اس رسم کے موقع پر مرکز نگاہ دلہن خود کو بجا طور پر ایک شاہ زادی تصور کرتی ہے اور یہ دن اْس کی زندگی کا ایک یادگار دن بن جاتا ہے۔
اگر اس رسم کے مثبت پہلوؤ ں کو دیکھا جائے، تو ایک لڑکی، جو ماں باپ، بہن بھائی اور سَکھیوں کو چھوڑ کر پیا دیس سدھارنے والی ہوتی ہے۔ اْس کے دل میں ایک طرف تو نئی زندگی کے متعلق خدشات ہوتے ہیں، تو دوسری طرف اپنوں کو چھوڑ کر جانے کا دکھ۔ ایسے میں اس کی سہیلیوں اور اس کے عزیز واقارب کی جانب سے اْسے اس قدر اہمیت کا احساس دلانا اُس کی خوشی کے ساتھ ساتھ خود اعتمادی میں بھی اضافے کا باعث بنتا ہے۔ وہ اپنی سہیلیوں کی جانب سے دیے گئے تحائف پر خوش ہوتی ہے اور اْنہیں اپنا آپ بہت اہم لگتا ہے۔ نفسانفسی کے اس دور میں برائیڈل شاور یا اس جیسی دوسری چھوٹی چھوٹی رسومات جو کسی کے چہرے پر خوشی کے رنگ بکھیر دیں، اْنہیں منانے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ یہ ایک ایسی مثبت رسم ہے، جس سے خوشیاں بڑھتی ہیں اور دلہن کی شادی کے اخراجات میں بھی کمی واقع ہوتی ہے۔