خواب دیکھنے پر پابندی نہیں
ٹیم جتنا عرصہ بھارت میں رہے گی انتہا پسندہندوؤں کا خوف بھی اس پر سوار رہے گا۔
ہندو انتہا پسندی اور بھارتی حکومت کی چالبازیوں کو شکست دینے کے بعد پاکستان کرکٹ ٹیم بھارت کی ریاست مغربی بنگال کے دارالحکومت کولکتہ میں پہنچ کر اپنا واحد وارم اپ میچ بھی کھیل چکی ہے۔ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں پاکستان کا پول بھی سخت ہے اور سیکیورٹی حصار کی وجہ سے اس پر دباؤ بھی تمام ٹیموں سے زیادہ ہے۔
ایشیاء کپ میں انتہائی بری پرفارمنس بھی ذہنوں پر طاری ہے۔ ٹیم جتنا عرصہ بھارت میں رہے گی انتہا پسندہندوؤں کا خوف بھی اس پر سوار رہے گا۔ نریندرمودی کی قیادت میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی)کی حکومت نے شدت پسندی کی جو آگ بھڑکائی ہے اسے ٹھنڈا کرناآسان نہیں۔ پاکستان کرکٹ بورڈ(پی سی بی)کے چیئرمین شہریار خان کے ساتھ بھارت میں جو سلوک کیا گیا، پاکستان انٹر نیشنل ایئرلائن(پی آئی اے)کے دفتر پر حملہ اور جنوبی افریقہ کی ٹیم کے جیتنے کے بعد ان کی گاڑی پر پتھراؤ ایسے واقعات تھے کہ ان میں سے ایک بھی پاکستان میں ہوا ہوتا تو بھارت نے آسمان سر پر اٹھا لینا تھا اور ٹی ٹوئنٹی کا ورلڈ کپ پاکستان میں ہو رہا ہوتا تو اسے بڑی آسانی کے ساتھ کسی اور جگہ منتقل کر ا لینا تھا۔
یہ تین واقعات جن کا میںنے ذکر کیا پاکستان اور کرکٹ سے متعلقہ ہیں ورنہ وہاں تو شدت پسندی ، مذہبی دہشتگردی اور غنڈہ گردی کے ایسے ایسے واقعات ہو رہے ہیں کہ ایسے حالات میں ورلڈ کپ تو کیا کوئی دو طرفہ سیریز کا انعقاد بھی آسان نہیں ہے۔ اگر آپ نے پاکستانی کرکٹ ٹیم کے ایئرپورٹ سے تاج بنگال ہوٹل تک جانے کے مناظر دیکھے ہوں تو یوں لگتا ہے ہماری ٹیم کسی جنگ زدہ علاقے میں گئی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ قومی کرکٹ ٹیم جب تک بھارت میں رہے گی، اسے حالت جنگ میں رہنا پڑے گا۔
انگریزی میں ایک ٹرم ہے Comedy of errors۔ جس دن قومی کرکٹ ٹیم کو بھارت جانے کی اجازت دی گئی اس دن مجھے صورتحال بالکل اس طرح کی لگی۔ اس دن کی کارروائی کے لیے ذرا ٹیلی ویژن اسکرینوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
یہ بات تو طے شدہ تھی کہ قومی ٹیم نے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں شرکت کے لیے بھارت جانا ہے۔ دھرم شالہ پاک بھارت میچ کو کولکتہ میں شفٹ کیا جانا، اس کے بعد مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بینرجی کی طرف سے فول پروف سیکیورٹی کی یقین دہانی کے بعد یہ گنجائش نہیں رہ گئی تھی کہ ٹیم کو شرکت سے روکا جاتا۔ آخری رکاوٹ بھارت کی طرف سے سیکیورٹی کی تحریری ضمانت ملنا تھی جو آخر تک نہیں مل سکی البتہ بھارتی سیکریٹری داخلہ نے دلی میں ہمارے ہائی کمشنر عبدالباسط کو شرف باریابی بخش کر ہماری وزارت داخلہ کا کام نسبتاً آسان کر دیا۔ اقتدار کی راہداریوں میں جمعہ کی صبح سے شام تک صرف ایک کام ہوتا رہا۔
سیاسی اور افسر شاہی کے زعما سر جوڑ کر بیٹھے رہے اور انھوں نے دن بھر صرف ایک نکتے پر غور کیا کہ پاکستانی کرکٹ ٹیم کو بھارت جانے کی اجازت دینے کا جواز کیا بنایا جائے؟ نجی ٹی وی چینلوں کی اسکرینوں پر پہلا ٹیکر یہ نمودار ہوا ،''وزیراعظم اور وزیرداخلہ کا ٹیلی فون پر رابطہ، قومی کرکٹ ٹیم کے دورہ بھارت پر تبادلہ خیال''۔ اس کے بعد اچانک خبر آئی کہ پی سی بی کی ایگزیکٹو کمیٹی کے چیئرمین نجم سیٹھی ، وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار سے ملاقات کے لیے پہنچ گئے۔
یہ ملاقات کافی دیر جاری رہی۔ جیسے ہی یہ ملاقات ختم ہوئی نجم سیٹھی نے کسی کونے میں جا کر ایک ٹوئیٹ کیا اور پھر میڈیا کے سامنے آئے۔ موصوف نے مختصرگفتگو میں یہ اعلان فرما دیا کہ پاکستان ٹیم کو بھارت جانے کی اجازت مل گئی ہے، یہ سب اسلام آباد میں ہو رہا تھا۔ ادھر لاہور میں میڈیا والے صبح 11بجے سے پی سی بی کے ہیڈکوارٹرزقذافی اسٹیڈیم میں بڑی خبر کے حصول کے لیے مارے مارے پھر رہے تھے۔
انھیں بتایا گیا تھا کہ جس خبر کا انھیں انتظار ہے چیئرمین پی سی بی شہریارخان مناسب وقت پر ان کے سامنے آئیں گے اور ان کے حوالے کر دیں گے تاکہ گلشن کا کاروبار چلتا رہے۔ خدا خدا کر کے چیئرمین پی سی بی نمودار ہوئے انھوں نے گفتگو کا آغاز کیا تو میڈیا والوں کی سمجھ میں آگیا کہ پی سی بی کے بزرگ چیئرمین تھوڑی دیر پہلے ہونے والی پیشرفت سے آگاہی نہیں رکھتے۔ انھیں بتایا گیا کہ قومی ٹیم کو بھارت جانے کی اجازت مل گئی ہے اور نجم سیٹھی بنفسِ نفیس اس کا اعلان بھی کر چکے ہیں۔ سچی بات ہے مجھے اس لمحے چیئرمین صاحب کی حالت زار پر بڑا ترس آیا۔ یہ احساس بھی شدت سے ہواکہ وطن عزیز میں عہدے کسی بھی چیز سے زیادہ اہم ہیں۔ دہی کے ساتھ روٹی کھانے والی اس سے بہتر مثال اور کیا ہو سکتی ہے۔
نجم سیٹھی جب بڑے فخر سے ٹیم کو دورہ بھارت کی اجازت ملنے کا اعلان کر رہے تھے تو میرا دھیان ایشیاء کپ میں پاکستان کی شکست کے بعد ان کی گفتگو کی طرف چلا گیا جس میں انھوں نے فرمایا تھا کہ ان کا پی سی بی سے کوئی تعلق نہیں ہے، وہ تو پی ایس ایل میں مصروف ہیں اس لیے ذمے داروں کے خلاف کارروائی کرنا پی سی بی کی ذمے داری ہے۔ بدلتا ہے رنگ ''انساں'' کیسے کیسے؟
پاکستانی شاہینوں کے بھارت جانے تک جو کچھ ہوا وہ سب اب بے معنی ہے۔ ہمارے کھلاڑی کل بنگلہ دیش کے خلاف پہلے میچ کے لیے میدان میں اتریں گے مگر ساری نظریں ہفتہ 19 مارچ کو ہونے والے پاک بھارت معرکے پر لگی ہوئی ہیں۔کولکتہ کی ایڈن گارڈنز گراؤنڈ اب تک ہمارے لیے لکی رہی ہے۔ 1987ء میںسلیم ملک نے ایک ہارے ہوئے میچ میں پاکستان کو جتوایا اور پھر ہماری ٹیم اس گراؤنڈ پر بھارت سے کبھی نہیں ہاری۔ ہم واحد ون ڈے سری لنکا کے خلاف ہارے۔ دنیا کے اس دوسرے بڑے اسٹیڈیم میں شکست سامنے دیکھ کر بھارتی تماشائیوں کے تماشے بھی دنیا بھر کے شائقین کرکٹ کو یاد ہیں۔
19مارچ کو اگر پاکستان نے اس میدان پر بھارت کو ہرادیا تو کیا ہو گا؟ میں فی الحال اس کے بارے میں سوچنا بھی نہیں چاہتا۔ یہ ماننا پڑے گا کہ بھارتی ٹیم اس ٹورنامنٹ کو جیتنے کے لیے ہاٹ فیورٹ ہے۔ انڈیا کے بعد جنوبی افریقہ کی ٹیم مضبوط لگ رہی ہے جب کہ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ بھی فیورٹس کی دوڑ میں شامل ہیں۔ ایشیاء کپ اور اس سے پہلے کی پرفارمنس کو سامنے رکھا جائے تو پاکستانی ٹیم کسی کھاتے میں نظر نہیں آتی مگرمجھے امید ہے کہ تمام تر مشکلات کے باوجودہمارے شاہین بہترین پرفارمنس دیں گے۔ شاہد آفریدی کا کرکٹ کیرئیر اور وقار یونس کی کوچنگ دونوں داؤ پر لگی ہوئی ہیں۔
شاہد آفریدی ابھی ریٹائرمنٹ نہیں لینا چاہتے تو ورلڈ کپ جیت جائیں وہ جب تک چاہے کھیل سکیں گے۔ جو ہوا وہ سب ماضی کا حصہ ہے،اب ٹیم میدان میں اتری ہے تو ہماری خواہش اور دعا ہے کہ وہ فاتح بنے۔ ہم اس کے ساتھ ہیں۔ یہاں میںشاہد آفریدی کے حوالے سے ایک اور بات کہنا چاہوں گا 'انھوں نے کولکتہ میں فرمایا ہے کہ ہمیں بھارت میں پاکستان سے زیادہ پیار ملا ' مجھے اس پر دلی افسوس ہوا ہے کیونکہ پاکستانیوں نے شاہد آفریدی کو اس کی کارکردگی اور صلاحیت سے بڑھ کر پیار اور محبت دی ہے 'اگر وہ بھارت میں کھیل رہا ہوتا تو کب کا ٹیم سے باہر ہو چکا ہوتا'وہ صفر پر آؤٹ ہو یا کوئی وکٹ نہ لے سکے 'لوگوں نے پھر بھی اسے پیار کیا ہے۔
لیکن اس نے پاکستانیوں کے اس پیار کی قدر نہیں کی اور وہ بھی بھارت میں جا کر ۔مجھے آصف زرداری کی وہ بات یاد آ رہی ہے جس میں انھوں نے کہا تھا کہ ہر پاکستانی میںایک ہندوستانی ہوتا ہے اور ہر ہندوستانی میں ایک پاکستانی ہوتا ہے۔شاہد آفریدی نے اس سے ایک قدم آگے جا کر بات کی ہے۔زندہ باد آصف زرداری پایندہ باد شاہد آفریدی۔
میرا خواب ہے کہ فائنل میں پاکستان اور انڈیا آمنے سامنے ہوں۔ دعا ہے اس خواب کی تعبیر یوں ہو کہ آخری معرکے میں پاکستان جیتے اور بھارتی ٹیم کے ساتھ ساتھ انتہا پسندی کو بھی شکست سے دوچار کرے۔ خواب دیکھنے پر تو کوئی پابندی نہیں۔
ایشیاء کپ میں انتہائی بری پرفارمنس بھی ذہنوں پر طاری ہے۔ ٹیم جتنا عرصہ بھارت میں رہے گی انتہا پسندہندوؤں کا خوف بھی اس پر سوار رہے گا۔ نریندرمودی کی قیادت میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی)کی حکومت نے شدت پسندی کی جو آگ بھڑکائی ہے اسے ٹھنڈا کرناآسان نہیں۔ پاکستان کرکٹ بورڈ(پی سی بی)کے چیئرمین شہریار خان کے ساتھ بھارت میں جو سلوک کیا گیا، پاکستان انٹر نیشنل ایئرلائن(پی آئی اے)کے دفتر پر حملہ اور جنوبی افریقہ کی ٹیم کے جیتنے کے بعد ان کی گاڑی پر پتھراؤ ایسے واقعات تھے کہ ان میں سے ایک بھی پاکستان میں ہوا ہوتا تو بھارت نے آسمان سر پر اٹھا لینا تھا اور ٹی ٹوئنٹی کا ورلڈ کپ پاکستان میں ہو رہا ہوتا تو اسے بڑی آسانی کے ساتھ کسی اور جگہ منتقل کر ا لینا تھا۔
یہ تین واقعات جن کا میںنے ذکر کیا پاکستان اور کرکٹ سے متعلقہ ہیں ورنہ وہاں تو شدت پسندی ، مذہبی دہشتگردی اور غنڈہ گردی کے ایسے ایسے واقعات ہو رہے ہیں کہ ایسے حالات میں ورلڈ کپ تو کیا کوئی دو طرفہ سیریز کا انعقاد بھی آسان نہیں ہے۔ اگر آپ نے پاکستانی کرکٹ ٹیم کے ایئرپورٹ سے تاج بنگال ہوٹل تک جانے کے مناظر دیکھے ہوں تو یوں لگتا ہے ہماری ٹیم کسی جنگ زدہ علاقے میں گئی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ قومی کرکٹ ٹیم جب تک بھارت میں رہے گی، اسے حالت جنگ میں رہنا پڑے گا۔
انگریزی میں ایک ٹرم ہے Comedy of errors۔ جس دن قومی کرکٹ ٹیم کو بھارت جانے کی اجازت دی گئی اس دن مجھے صورتحال بالکل اس طرح کی لگی۔ اس دن کی کارروائی کے لیے ذرا ٹیلی ویژن اسکرینوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
یہ بات تو طے شدہ تھی کہ قومی ٹیم نے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں شرکت کے لیے بھارت جانا ہے۔ دھرم شالہ پاک بھارت میچ کو کولکتہ میں شفٹ کیا جانا، اس کے بعد مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بینرجی کی طرف سے فول پروف سیکیورٹی کی یقین دہانی کے بعد یہ گنجائش نہیں رہ گئی تھی کہ ٹیم کو شرکت سے روکا جاتا۔ آخری رکاوٹ بھارت کی طرف سے سیکیورٹی کی تحریری ضمانت ملنا تھی جو آخر تک نہیں مل سکی البتہ بھارتی سیکریٹری داخلہ نے دلی میں ہمارے ہائی کمشنر عبدالباسط کو شرف باریابی بخش کر ہماری وزارت داخلہ کا کام نسبتاً آسان کر دیا۔ اقتدار کی راہداریوں میں جمعہ کی صبح سے شام تک صرف ایک کام ہوتا رہا۔
سیاسی اور افسر شاہی کے زعما سر جوڑ کر بیٹھے رہے اور انھوں نے دن بھر صرف ایک نکتے پر غور کیا کہ پاکستانی کرکٹ ٹیم کو بھارت جانے کی اجازت دینے کا جواز کیا بنایا جائے؟ نجی ٹی وی چینلوں کی اسکرینوں پر پہلا ٹیکر یہ نمودار ہوا ،''وزیراعظم اور وزیرداخلہ کا ٹیلی فون پر رابطہ، قومی کرکٹ ٹیم کے دورہ بھارت پر تبادلہ خیال''۔ اس کے بعد اچانک خبر آئی کہ پی سی بی کی ایگزیکٹو کمیٹی کے چیئرمین نجم سیٹھی ، وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار سے ملاقات کے لیے پہنچ گئے۔
یہ ملاقات کافی دیر جاری رہی۔ جیسے ہی یہ ملاقات ختم ہوئی نجم سیٹھی نے کسی کونے میں جا کر ایک ٹوئیٹ کیا اور پھر میڈیا کے سامنے آئے۔ موصوف نے مختصرگفتگو میں یہ اعلان فرما دیا کہ پاکستان ٹیم کو بھارت جانے کی اجازت مل گئی ہے، یہ سب اسلام آباد میں ہو رہا تھا۔ ادھر لاہور میں میڈیا والے صبح 11بجے سے پی سی بی کے ہیڈکوارٹرزقذافی اسٹیڈیم میں بڑی خبر کے حصول کے لیے مارے مارے پھر رہے تھے۔
انھیں بتایا گیا تھا کہ جس خبر کا انھیں انتظار ہے چیئرمین پی سی بی شہریارخان مناسب وقت پر ان کے سامنے آئیں گے اور ان کے حوالے کر دیں گے تاکہ گلشن کا کاروبار چلتا رہے۔ خدا خدا کر کے چیئرمین پی سی بی نمودار ہوئے انھوں نے گفتگو کا آغاز کیا تو میڈیا والوں کی سمجھ میں آگیا کہ پی سی بی کے بزرگ چیئرمین تھوڑی دیر پہلے ہونے والی پیشرفت سے آگاہی نہیں رکھتے۔ انھیں بتایا گیا کہ قومی ٹیم کو بھارت جانے کی اجازت مل گئی ہے اور نجم سیٹھی بنفسِ نفیس اس کا اعلان بھی کر چکے ہیں۔ سچی بات ہے مجھے اس لمحے چیئرمین صاحب کی حالت زار پر بڑا ترس آیا۔ یہ احساس بھی شدت سے ہواکہ وطن عزیز میں عہدے کسی بھی چیز سے زیادہ اہم ہیں۔ دہی کے ساتھ روٹی کھانے والی اس سے بہتر مثال اور کیا ہو سکتی ہے۔
نجم سیٹھی جب بڑے فخر سے ٹیم کو دورہ بھارت کی اجازت ملنے کا اعلان کر رہے تھے تو میرا دھیان ایشیاء کپ میں پاکستان کی شکست کے بعد ان کی گفتگو کی طرف چلا گیا جس میں انھوں نے فرمایا تھا کہ ان کا پی سی بی سے کوئی تعلق نہیں ہے، وہ تو پی ایس ایل میں مصروف ہیں اس لیے ذمے داروں کے خلاف کارروائی کرنا پی سی بی کی ذمے داری ہے۔ بدلتا ہے رنگ ''انساں'' کیسے کیسے؟
پاکستانی شاہینوں کے بھارت جانے تک جو کچھ ہوا وہ سب اب بے معنی ہے۔ ہمارے کھلاڑی کل بنگلہ دیش کے خلاف پہلے میچ کے لیے میدان میں اتریں گے مگر ساری نظریں ہفتہ 19 مارچ کو ہونے والے پاک بھارت معرکے پر لگی ہوئی ہیں۔کولکتہ کی ایڈن گارڈنز گراؤنڈ اب تک ہمارے لیے لکی رہی ہے۔ 1987ء میںسلیم ملک نے ایک ہارے ہوئے میچ میں پاکستان کو جتوایا اور پھر ہماری ٹیم اس گراؤنڈ پر بھارت سے کبھی نہیں ہاری۔ ہم واحد ون ڈے سری لنکا کے خلاف ہارے۔ دنیا کے اس دوسرے بڑے اسٹیڈیم میں شکست سامنے دیکھ کر بھارتی تماشائیوں کے تماشے بھی دنیا بھر کے شائقین کرکٹ کو یاد ہیں۔
19مارچ کو اگر پاکستان نے اس میدان پر بھارت کو ہرادیا تو کیا ہو گا؟ میں فی الحال اس کے بارے میں سوچنا بھی نہیں چاہتا۔ یہ ماننا پڑے گا کہ بھارتی ٹیم اس ٹورنامنٹ کو جیتنے کے لیے ہاٹ فیورٹ ہے۔ انڈیا کے بعد جنوبی افریقہ کی ٹیم مضبوط لگ رہی ہے جب کہ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ بھی فیورٹس کی دوڑ میں شامل ہیں۔ ایشیاء کپ اور اس سے پہلے کی پرفارمنس کو سامنے رکھا جائے تو پاکستانی ٹیم کسی کھاتے میں نظر نہیں آتی مگرمجھے امید ہے کہ تمام تر مشکلات کے باوجودہمارے شاہین بہترین پرفارمنس دیں گے۔ شاہد آفریدی کا کرکٹ کیرئیر اور وقار یونس کی کوچنگ دونوں داؤ پر لگی ہوئی ہیں۔
شاہد آفریدی ابھی ریٹائرمنٹ نہیں لینا چاہتے تو ورلڈ کپ جیت جائیں وہ جب تک چاہے کھیل سکیں گے۔ جو ہوا وہ سب ماضی کا حصہ ہے،اب ٹیم میدان میں اتری ہے تو ہماری خواہش اور دعا ہے کہ وہ فاتح بنے۔ ہم اس کے ساتھ ہیں۔ یہاں میںشاہد آفریدی کے حوالے سے ایک اور بات کہنا چاہوں گا 'انھوں نے کولکتہ میں فرمایا ہے کہ ہمیں بھارت میں پاکستان سے زیادہ پیار ملا ' مجھے اس پر دلی افسوس ہوا ہے کیونکہ پاکستانیوں نے شاہد آفریدی کو اس کی کارکردگی اور صلاحیت سے بڑھ کر پیار اور محبت دی ہے 'اگر وہ بھارت میں کھیل رہا ہوتا تو کب کا ٹیم سے باہر ہو چکا ہوتا'وہ صفر پر آؤٹ ہو یا کوئی وکٹ نہ لے سکے 'لوگوں نے پھر بھی اسے پیار کیا ہے۔
لیکن اس نے پاکستانیوں کے اس پیار کی قدر نہیں کی اور وہ بھی بھارت میں جا کر ۔مجھے آصف زرداری کی وہ بات یاد آ رہی ہے جس میں انھوں نے کہا تھا کہ ہر پاکستانی میںایک ہندوستانی ہوتا ہے اور ہر ہندوستانی میں ایک پاکستانی ہوتا ہے۔شاہد آفریدی نے اس سے ایک قدم آگے جا کر بات کی ہے۔زندہ باد آصف زرداری پایندہ باد شاہد آفریدی۔
میرا خواب ہے کہ فائنل میں پاکستان اور انڈیا آمنے سامنے ہوں۔ دعا ہے اس خواب کی تعبیر یوں ہو کہ آخری معرکے میں پاکستان جیتے اور بھارتی ٹیم کے ساتھ ساتھ انتہا پسندی کو بھی شکست سے دوچار کرے۔ خواب دیکھنے پر تو کوئی پابندی نہیں۔