ہمارا ولی عہدی نظامِ سیاست
جب جب لیڈر قتل ہوئے ان کی اولاد کو میدان سیاست میں دھکیل دیا گیا،
خاندانی سیاست کے حوالے سے محوِ مطالعہ تھا کہ برطانوی مصنفہ وکٹوریا شفیلڈ کے پاکستان کے حوالے سے چند مضامین نظر سے گزرے، وکٹوریا بے نظیر بھٹو کی سہیلی تھی اور 1979ء میں بھٹو کی پھانسی کے بعد اس نے سب سے پہلے Bhutto: Trial and Execution کے نام سے ایک کتاب لکھی جسے عالمی سطح پر خاصی پذیرائی ملی۔ بعد ازاں انھیں محترمہ کے دور اقتدار میں پاکستان کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا اسی لیے انھوں نے اکثر اپنی پبلیکیشنز کا موضوع بھی پاکستان ہی کو بنایا۔
پاکستانی سیاست پر ان کی گہری نظر ہے جب کہ مسئلہ کشمیر اور پاکستان کے 50 سالوں پر ان کی دو علیحدہ علیحدہ کتب بھی دستیاب ہیں جس میں وکٹوریا نے خوبصورتی سے پاکستان کے سیاسی منظر نامے کی عکاسی کی ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد 2013ء میں وہ کراچی میں ادبی میلے کے موقع پر پاکستان آئیں، ایک موقع پر انھیں بولنے کا موقع ملا تو کہا ''پاکستان میں سیاسی خاندانوں کی اجارہ داری ختم کرنے کا یہی راستہ ہے کہ منتخب رہنماؤں کا قتل بند کیا جائے۔
جب جب لیڈر قتل ہوئے ان کی اولاد کو میدان سیاست میں دھکیل دیا گیا، اس کی واضع مثال شہید ذوالفقار علی بھٹو کے بعد شہید بے نظیر بھٹو آئیں اور ان کی شہادت کے بعد بلاول بھٹو زرداری کا پارٹی کی کمان سنبھالنا ہے، لیڈر کے قتل ہونے کے بعد متعلقہ خاندان سیاسی ہمدردیاں سمیٹ کر دوبارہ بر سر اقتدار آ جاتا ہے'' ۔
میرے لیے یہ بیان اس لیے اہمیت اختیار کر گیا کہ شاید پاکستان میں خاندانی سیاست کا رواج بھٹو سے شروع ہوا تھا (ویسے بھٹو کی کابینہ میں بھی کئی سیاستدان تھے جنہوں نے اپنے سے عمر میں کئی حصے چھوٹی بینظیر کی قیادت کو قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا ان میں غلام مصطفیٰ جتوئی، ملک معراج خالد، حفیظ پیرزادہ نمایاں ہیں) اور بعد میں کئی خاندان اس منافع بخش ''کاروبار'' میں اُمڈ آئے اور پھر بیٹے، بھتیجے،بھانجے، بھائی، بیٹیاں، بھابھیاں، منشی، خاص کارندے سبھی ''عوامی خدمت'' کے لیے میدان میں آ گئے... حقیقت میں پاکستان کا شمار اُن ممالک میں ہوتا ہے ۔
جہاں کئی دہائیوں سے وراثتی یا خاندانی سیاست کی ایک مضبوط روایت موجود ہے اور یہ سلسلہ نہ صرف نسل در نسل جاری ہے بلکہ بیک وقت ایک ہی خاندان کے افراد کے اسمبلی میں ہونے کے رواج کو بھی تقویت مل رہی ہے۔ سیاسی جماعتوں میں عہدیداروں کا چناؤ ہو یا عام انتخابات، قومی سطح کی سیاست ہو یا صوبائی سطح کی سیاست تقریباً تمام سیاسی جماعتوں میں موروثی سیاست کا رنگ نمایاں ہے۔
کیا سیاست پائی ہے پاکستان نے کہ ایک شیر خوار سیاستدا ن ''آمر'' بن جاتا ہے اور سالہا سال خدمت گزاری کرنے والا سیاستدان اس کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوتا ہے، کیا یہی ہماری سیاست ہے؟ اس وراثتی نظام میں ہر طرف نظر دوڑائیں ون مین شو کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ اعلیٰ پائے کے سیاستدان مرکزی ''نابالغ'' قیادت کے سامنے دست بستہ نظر آتے ہیں، ذرا غور فرمائیے کہ پیپلز پارٹی کی قیادت اعتزاز احسن، امین فہیم، رضا ربانی، قمرالزمان کائرہ، چوہدری منظور، فاروق اے نائیک، خورشید شاہ اور بہت سے وسیع تجربہ رکھنے والے زیرک سیاستدانوں کے ہوتے ہوئے محترمہ کی شہادت کے بعد قیادت بلاول بھٹو زرداری کے سپرد ہوئی اور ساری قیادت ''سیکنڈ لائن'' بن جاتی ہے۔
ہماری سیاست میں خاندانی قیادت کا جو کلچر مستحکم ہو رہا ہے اس کے اسباب میں ایک بڑا سبب سیاسی پارٹیوں میں موجود ''سیکنڈ لائن'' قیادت کا غلامانہ کردار ہے۔ یہ کس قدر حیرت کی بات ہے کہ سیاسی پارٹیوں میں موجود مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والی قیادت جو اپنی عمر، تجربے اور صلاحیتوں کے حوالے سے اپنی مرکزی قیادت سے کئی گنا بہتر ہوتی ہے۔
وہ محض اس وجہ سے کسی سیاسی پارٹی کی قیادت سے محروم ہے کہ اس کا تعلق مڈل کلاس سے ہے اور اس کلچر کا عالم یہ ہے کہ اس سیاست کے ''ولی عہدی نظام'' میں کل کے بچے محض اس لیے مرکزی قیادت کی جگہ لے رہے ہیں کہ وہ ان سیاسی اوتاروں کی اولاد ہیں جو اہلیت کے بجائے اپنی دولت کی بنیاد پر سیاسی پارٹیوں پر قبضہ کیے بیٹھے ہیں اور اس سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ سیاست اور سیاسی خدمات میں اپنے بال سفید کرنے والے یہ بدقسمت لوگ سیاسی اجارہ داروں کی اس نوعمر ناتجربہ کار اولاد کو سر پر اٹھائے پھر رہے ہیں، ان کی تعریف و توصیف میں اپنا حلق خشک کر رہے ہیں۔ سچ کہا تھا استاد دامن نے:
لٹن والیاں رج کے لٹیا اے
سوئے تسی وی او سوئے اسی وی آں
لالی اکھیاں دی پئی دسدی اے
روئے تسی وی او روئے اسی وی آں
بلاول کو چھوڑئیے حمزہ شہباز کو لیجیے ان کا پروٹوکول وزیراعلیٰ کے پروٹوکول سے کم نہیں ہوتا' ن لیگ کے بڑے بڑے سیاستدان حمزہ شہباز کی قیادت کے سامنے مجبور دکھائی دیتے ہیں۔ سونے کا چمچ لے کر پیدا ہونے والے یہ موروثی سیاستدان عوامی خدمت کیا کریں گے؟پاکستان میں تو خاندانی قیادت، خاندانی حکمرانیوں کی مضبوطی کا عالم یہ ہے کہ آنے والی کئی نسلوں تک کے لیے ''ولی عہد'' کی فوج تیار کی جا رہی ہے اور انھیں سیاست میں متبادل جمہوری بادشاہوں کی حیثیت سے اس طریقے سے متعارف کرایا جا رہا ہے کہ باہر سے آنے والے مہمان حکمران بھی اس کو دیکھ کر منہ بناتے دیکھے جاتے ہیں۔
ویسے ہمارے حکمران خاصے مخلص ہیں لیکن ان کی یہ مخلصی وطن کے لیے نہیں بلکہ اپنے خاندان کے لیے ہوتی ہے۔ اسی لیے تو اٹھارویں ترمیم کی منظوری کے ساتھ ہی اس شق کا خاتمہ بھی ہو گیا جس کے تحت سیاسی جماعتوں میں الیکشن لازمی قرار دیے گئے تھے؟ خاندانوں کی یہ چین اگر یہاں بیان کروں تو ممکن نہیں ہو گا کیوں کہ ایک محتاط اندازے کے مطابق تمام ملکی اسمبلیوں میں 122خاندان کسی نہ کسی طریقے سے براجمان ہیں۔
بڑے خاندانوں میں مسلم لیگ ن، بھٹو خاندان، زرداری خاندان، چوہدری خاندان، جتوئی خاندان، بوسن خاندان، کھوکھر، گیلانی، ہاشمی، کانجو اور پتہ نہیں کون کون سے خاندان اس وقت ملک پر حکمرانی کر رہے ہیں اور ان کی اولادیں تیار بیٹھی ہیں عوام پر حکمرانی کرنے کے لیے ۔
اگر موثر قیادت کے لیے تجربہ اور ذمے داری ضروری ہے تو پھر اچانک ابھرنے والی قیادتیں، جیسے بلاول بھٹو، مریم نواز شریف، حمزہ شہباز شریف وغیرہ، راتوں رات اپنی جماعتوں کے حقیقی سربراہ نہیں بن سکتے۔ کماحقہ کوئی لیڈر باہر سے آئے ان پرانی سیاسی جماعتوں کو چاہیے ملک کی خاطر اس ولی عہدی نظام کو چھوڑیں اور حقیقی معنوں میں عوامی خدمت کو عبادت سمجھ کر کریں، ورنہ ملک یونہی تباہی کی جانب گامزن رہے گابقول ساغر صدیقی
بے وجہ تو نہیں ہیں چمن کی تباہیاں
کچھ باغباں ہیں برق و شرر سے ملے ہوئے
پاکستانی سیاست پر ان کی گہری نظر ہے جب کہ مسئلہ کشمیر اور پاکستان کے 50 سالوں پر ان کی دو علیحدہ علیحدہ کتب بھی دستیاب ہیں جس میں وکٹوریا نے خوبصورتی سے پاکستان کے سیاسی منظر نامے کی عکاسی کی ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد 2013ء میں وہ کراچی میں ادبی میلے کے موقع پر پاکستان آئیں، ایک موقع پر انھیں بولنے کا موقع ملا تو کہا ''پاکستان میں سیاسی خاندانوں کی اجارہ داری ختم کرنے کا یہی راستہ ہے کہ منتخب رہنماؤں کا قتل بند کیا جائے۔
جب جب لیڈر قتل ہوئے ان کی اولاد کو میدان سیاست میں دھکیل دیا گیا، اس کی واضع مثال شہید ذوالفقار علی بھٹو کے بعد شہید بے نظیر بھٹو آئیں اور ان کی شہادت کے بعد بلاول بھٹو زرداری کا پارٹی کی کمان سنبھالنا ہے، لیڈر کے قتل ہونے کے بعد متعلقہ خاندان سیاسی ہمدردیاں سمیٹ کر دوبارہ بر سر اقتدار آ جاتا ہے'' ۔
میرے لیے یہ بیان اس لیے اہمیت اختیار کر گیا کہ شاید پاکستان میں خاندانی سیاست کا رواج بھٹو سے شروع ہوا تھا (ویسے بھٹو کی کابینہ میں بھی کئی سیاستدان تھے جنہوں نے اپنے سے عمر میں کئی حصے چھوٹی بینظیر کی قیادت کو قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا ان میں غلام مصطفیٰ جتوئی، ملک معراج خالد، حفیظ پیرزادہ نمایاں ہیں) اور بعد میں کئی خاندان اس منافع بخش ''کاروبار'' میں اُمڈ آئے اور پھر بیٹے، بھتیجے،بھانجے، بھائی، بیٹیاں، بھابھیاں، منشی، خاص کارندے سبھی ''عوامی خدمت'' کے لیے میدان میں آ گئے... حقیقت میں پاکستان کا شمار اُن ممالک میں ہوتا ہے ۔
جہاں کئی دہائیوں سے وراثتی یا خاندانی سیاست کی ایک مضبوط روایت موجود ہے اور یہ سلسلہ نہ صرف نسل در نسل جاری ہے بلکہ بیک وقت ایک ہی خاندان کے افراد کے اسمبلی میں ہونے کے رواج کو بھی تقویت مل رہی ہے۔ سیاسی جماعتوں میں عہدیداروں کا چناؤ ہو یا عام انتخابات، قومی سطح کی سیاست ہو یا صوبائی سطح کی سیاست تقریباً تمام سیاسی جماعتوں میں موروثی سیاست کا رنگ نمایاں ہے۔
کیا سیاست پائی ہے پاکستان نے کہ ایک شیر خوار سیاستدا ن ''آمر'' بن جاتا ہے اور سالہا سال خدمت گزاری کرنے والا سیاستدان اس کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوتا ہے، کیا یہی ہماری سیاست ہے؟ اس وراثتی نظام میں ہر طرف نظر دوڑائیں ون مین شو کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ اعلیٰ پائے کے سیاستدان مرکزی ''نابالغ'' قیادت کے سامنے دست بستہ نظر آتے ہیں، ذرا غور فرمائیے کہ پیپلز پارٹی کی قیادت اعتزاز احسن، امین فہیم، رضا ربانی، قمرالزمان کائرہ، چوہدری منظور، فاروق اے نائیک، خورشید شاہ اور بہت سے وسیع تجربہ رکھنے والے زیرک سیاستدانوں کے ہوتے ہوئے محترمہ کی شہادت کے بعد قیادت بلاول بھٹو زرداری کے سپرد ہوئی اور ساری قیادت ''سیکنڈ لائن'' بن جاتی ہے۔
ہماری سیاست میں خاندانی قیادت کا جو کلچر مستحکم ہو رہا ہے اس کے اسباب میں ایک بڑا سبب سیاسی پارٹیوں میں موجود ''سیکنڈ لائن'' قیادت کا غلامانہ کردار ہے۔ یہ کس قدر حیرت کی بات ہے کہ سیاسی پارٹیوں میں موجود مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والی قیادت جو اپنی عمر، تجربے اور صلاحیتوں کے حوالے سے اپنی مرکزی قیادت سے کئی گنا بہتر ہوتی ہے۔
وہ محض اس وجہ سے کسی سیاسی پارٹی کی قیادت سے محروم ہے کہ اس کا تعلق مڈل کلاس سے ہے اور اس کلچر کا عالم یہ ہے کہ اس سیاست کے ''ولی عہدی نظام'' میں کل کے بچے محض اس لیے مرکزی قیادت کی جگہ لے رہے ہیں کہ وہ ان سیاسی اوتاروں کی اولاد ہیں جو اہلیت کے بجائے اپنی دولت کی بنیاد پر سیاسی پارٹیوں پر قبضہ کیے بیٹھے ہیں اور اس سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ سیاست اور سیاسی خدمات میں اپنے بال سفید کرنے والے یہ بدقسمت لوگ سیاسی اجارہ داروں کی اس نوعمر ناتجربہ کار اولاد کو سر پر اٹھائے پھر رہے ہیں، ان کی تعریف و توصیف میں اپنا حلق خشک کر رہے ہیں۔ سچ کہا تھا استاد دامن نے:
لٹن والیاں رج کے لٹیا اے
سوئے تسی وی او سوئے اسی وی آں
لالی اکھیاں دی پئی دسدی اے
روئے تسی وی او روئے اسی وی آں
بلاول کو چھوڑئیے حمزہ شہباز کو لیجیے ان کا پروٹوکول وزیراعلیٰ کے پروٹوکول سے کم نہیں ہوتا' ن لیگ کے بڑے بڑے سیاستدان حمزہ شہباز کی قیادت کے سامنے مجبور دکھائی دیتے ہیں۔ سونے کا چمچ لے کر پیدا ہونے والے یہ موروثی سیاستدان عوامی خدمت کیا کریں گے؟پاکستان میں تو خاندانی قیادت، خاندانی حکمرانیوں کی مضبوطی کا عالم یہ ہے کہ آنے والی کئی نسلوں تک کے لیے ''ولی عہد'' کی فوج تیار کی جا رہی ہے اور انھیں سیاست میں متبادل جمہوری بادشاہوں کی حیثیت سے اس طریقے سے متعارف کرایا جا رہا ہے کہ باہر سے آنے والے مہمان حکمران بھی اس کو دیکھ کر منہ بناتے دیکھے جاتے ہیں۔
ویسے ہمارے حکمران خاصے مخلص ہیں لیکن ان کی یہ مخلصی وطن کے لیے نہیں بلکہ اپنے خاندان کے لیے ہوتی ہے۔ اسی لیے تو اٹھارویں ترمیم کی منظوری کے ساتھ ہی اس شق کا خاتمہ بھی ہو گیا جس کے تحت سیاسی جماعتوں میں الیکشن لازمی قرار دیے گئے تھے؟ خاندانوں کی یہ چین اگر یہاں بیان کروں تو ممکن نہیں ہو گا کیوں کہ ایک محتاط اندازے کے مطابق تمام ملکی اسمبلیوں میں 122خاندان کسی نہ کسی طریقے سے براجمان ہیں۔
بڑے خاندانوں میں مسلم لیگ ن، بھٹو خاندان، زرداری خاندان، چوہدری خاندان، جتوئی خاندان، بوسن خاندان، کھوکھر، گیلانی، ہاشمی، کانجو اور پتہ نہیں کون کون سے خاندان اس وقت ملک پر حکمرانی کر رہے ہیں اور ان کی اولادیں تیار بیٹھی ہیں عوام پر حکمرانی کرنے کے لیے ۔
اگر موثر قیادت کے لیے تجربہ اور ذمے داری ضروری ہے تو پھر اچانک ابھرنے والی قیادتیں، جیسے بلاول بھٹو، مریم نواز شریف، حمزہ شہباز شریف وغیرہ، راتوں رات اپنی جماعتوں کے حقیقی سربراہ نہیں بن سکتے۔ کماحقہ کوئی لیڈر باہر سے آئے ان پرانی سیاسی جماعتوں کو چاہیے ملک کی خاطر اس ولی عہدی نظام کو چھوڑیں اور حقیقی معنوں میں عوامی خدمت کو عبادت سمجھ کر کریں، ورنہ ملک یونہی تباہی کی جانب گامزن رہے گابقول ساغر صدیقی
بے وجہ تو نہیں ہیں چمن کی تباہیاں
کچھ باغباں ہیں برق و شرر سے ملے ہوئے