دروغ گوئی سے پرہیز کیجیے
جھوٹے آدمی پر اﷲ تعالیٰ کی لعنت ہوتی ہے، اس کا دل سیاہ، چہرہ بے رونق اور رزق میں برکت ختم ہوجاتی ہیں
جھوٹ بہت بڑا عیب اور بدترین گناہ کبیرہ ہے۔ اسلام اس کی شدید ممانعت اور مذمت کرتا ہے۔ جھوٹ کو بھی امُ الخبائث یعنی برائیوں کی ماں قرار دیا گیا ہے۔ کیوں کہ اس سے معاشرے میں بے شمار برائیاں جنم لیتی ہیں۔ ویسے بھی جھوٹ بولنے والا ذلیل و رسوا ہی ہوتا ہے۔ جھوٹ بولنے سے دنیا و آخرت کا نقصان اور دروغ گو عذاب جہنم اور عذاب قبر میں مبتلا ہوتا ہے۔
جھوٹ بولنے سے آدمی، اﷲ تعالیٰ کی رحمت و عنایت سے دور ہوجاتا ہے۔ جھوٹے آدمی پر اﷲ تعالیٰ کی لعنت ہوتی ہے۔ جھوٹ بولنے والے کا دل سیاہ اور چہرہ بے رونق ہو جاتا اور رزق میں برکت ختم ہوجاتی ہیں۔ جھوٹ غم و فکر پیدا کرتا ہے، کیوں کہ ایسا آدمی وقتی طور پر مطمین ہوجاتا ہے، لیکن بعد میں اس کا ضمیر اسے ہمیشہ ملامت کرتا رہتا ہے۔
جس کے نتیجے میں وہ اطمینانِ قلب کی دولت سے محروم ہوجاتا ہے۔ جھوٹ گناہوں کا دروازہ ہے، کیوں کہ ایک جھوٹ بول کر اسے چھپانے کے لیے کئی جھوٹ بولنے پڑتے ہیں۔ اسلامی تعلیمات میں اس قبیح عادت کو ترک کردینے کی سختی سے تاکید کی گئی ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد خدا وندی ہے۔
ترجمہ و مفہوم: ان کے دلوں میں مرض ہے تو اﷲ نے ان کے مرض میں اضافہ کر دیا اور ان کے جھوٹ بولنے کی وجہ سے ان کے لیے درد ناک عذاب ہے۔'' ایک دوسری جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے '' اور یونہی جھوٹ تمہاری زبان پر آجائے، مت کہہ دیا کرو کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے، کہِیں اﷲ پر جھوٹ بہتان باندھنے لگو، جو لوگ اﷲ پر جھوٹ بہتان باندھتے ہیں وہ فلاح نہیں پائیں گے، فائدہ تو تھوڑا ہے مگر ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہے۔''
روز قیامت جھوٹ بولنے والوں کے چہرے سیاہ ہوں گے۔ اس بارے میں ارشاد فرمایا ''اور قیامت کے دن جنہوں نے اﷲ پر جھوٹ بولا ہے، ان کے چہرے سیاہ ہوں گے، کیا متکبرین کے لیے جہنم کا ٹھکانا کافی نہیں ہے۔''
فرمانِ نبوی ﷺ کا مفہوم ہے کہ ''جو شخص جھوٹ بولنا چھوڑ دے تو اس کے لیے جنت کے کنارے میں مکان بنایا جائے گا۔''
اکثر گھروں میں جھوٹ کو نہ تو محسوس کیا جاتا ہے اور نہ ہی اس میں کوئی برائی سمجھی جاتی ہے۔ اور اپنے ہی بچوں سے جھوٹ بلوایا جاتا ہے، یہ بھی نہیں سوچا جاتا کہ گھر اور ماں باپ ہی بچوں کے لیے سب سے پہلے آئیڈیل کا درجہ رکھتے ہیں۔ اپنے والدین ہی کی دیکھا دیکھی بچے وہی کچھ کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جو ان کے ماں باپ کرتے ہیں۔
ماں باپ اپنے بچوں کو کہتے ہیں کہ فلاں کام غلط ہے، لیکن جب بچے اپنے ماں باپ کو وہی کام کرتے دیکھتے ہیں تو وہ پریشان ہوجاتے ہیں کہ اگر یہ کام غلط ہے تو ان کے ماں باپ کیوں کررہے ہیں اور اگر غلط نہیں ہے تو انہیں کیوں روکا جاتا ہے۔
جیسے بچوں کو سکھایا جاتا ہے کہ جھوٹ بولنا بری بات ہے اور جھوٹ بولنے سے اﷲ ناراض ہوتے ہیں، لیکن پھر ماں باپ میں سے کوئی ان کے سامنے جھوٹ بولتا ہے یا پھر جیسے کسی ملاقاتی کے آنے پر بچوں سے جھوٹ بلوایا جاتا ہے کہ کہہ دو ابو گھر پر نہیں ہیں، تو بچے سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ اگر جھوٹ بولنا بری بات ہوتی تو اس کے ابو امی کبھی بھی جھوٹ نہ بولتے۔ اس لیے کوشش کرنی چاہیے کہ بچوں کے سامنے کوئی ایسا کام نہ کیا جائے جسے ہم غلط کہتے ہیں۔ بچوں سے مذاق میں بھی جھوٹ نہ بولا جائے، اس کی بھی احادیث میں ممانعت فرمائی گئی ہے۔
کسی چیز کی فرمائش پر بچوں کو ٹالنے کے لیے کہہ دیا جاتا ہے کہ اچھا کل یہ چیز لے دیں گے اور پھر لے کر نہیں دی جاتی، اس طرح جب بار بار انہیں ٹالا جاتا ہے تو ماں باپ بچوں کی نظر میں اپنا اعتبار کھو بیٹھتے ہیں۔ پھر بچے ان کی بات پر یقین کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ اس لیے بچوں سے وعدہ خلافی بھی نہ کی جائے بل کہ ٹالنے کی بجائے مناسب طریقے سے انہیں سمجھا دیا جائے تاکہ ان کے ذہن میں ماں باپ کے متعلق غلط رائے قائم نہ ہو۔
کتاب و سنت کی تعلیمات سے معلوم ہوا کہ جھوٹ بہت برا گناہ ہے، جو انسان کو اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ سے بہت دور کردیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دین و دنیا کے لیے جھوٹ سراسر نقصان اور خسارے کا سودا ہے۔ لہٰذا ہمیں سوچنا چاہیے کہ یہ زندگی چند روزہ ہے، آخر ایک نہ ایک دن یہاں سے جانا پڑے گا، پھر ہمارے بولے ہوئے جھوٹ ہماری اگلی زندگی کے لیے بڑی مصیبت پیدا کریں گے۔
اس لیے آپ زندگی کے جس شعبے میں بھی ہیں، اسے جھوٹ کی آمیزش سے پاک کرلیں اور آیندہ جھوٹ بولنے سے توبہ کرلیں اور اﷲ تعالیٰ سے پکا وعدہ کرلیں کہ زندگی بھر جھوٹ کی راہ اختیار نہیں کریں گے۔
اﷲ تعالیٰ سچ کو فتح عطا فرما کر ہمیں اپنی زبان و کلام جھوٹ سے پاک رکھنے کی توفیق دے، اور رب تعالیٰ ہمیں اس قباحتِ خبیثہ اور گناہِ عظیم سے محفوظ فرمائے۔ آمین۔
جھوٹ بولنے سے آدمی، اﷲ تعالیٰ کی رحمت و عنایت سے دور ہوجاتا ہے۔ جھوٹے آدمی پر اﷲ تعالیٰ کی لعنت ہوتی ہے۔ جھوٹ بولنے والے کا دل سیاہ اور چہرہ بے رونق ہو جاتا اور رزق میں برکت ختم ہوجاتی ہیں۔ جھوٹ غم و فکر پیدا کرتا ہے، کیوں کہ ایسا آدمی وقتی طور پر مطمین ہوجاتا ہے، لیکن بعد میں اس کا ضمیر اسے ہمیشہ ملامت کرتا رہتا ہے۔
جس کے نتیجے میں وہ اطمینانِ قلب کی دولت سے محروم ہوجاتا ہے۔ جھوٹ گناہوں کا دروازہ ہے، کیوں کہ ایک جھوٹ بول کر اسے چھپانے کے لیے کئی جھوٹ بولنے پڑتے ہیں۔ اسلامی تعلیمات میں اس قبیح عادت کو ترک کردینے کی سختی سے تاکید کی گئی ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد خدا وندی ہے۔
ترجمہ و مفہوم: ان کے دلوں میں مرض ہے تو اﷲ نے ان کے مرض میں اضافہ کر دیا اور ان کے جھوٹ بولنے کی وجہ سے ان کے لیے درد ناک عذاب ہے۔'' ایک دوسری جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے '' اور یونہی جھوٹ تمہاری زبان پر آجائے، مت کہہ دیا کرو کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے، کہِیں اﷲ پر جھوٹ بہتان باندھنے لگو، جو لوگ اﷲ پر جھوٹ بہتان باندھتے ہیں وہ فلاح نہیں پائیں گے، فائدہ تو تھوڑا ہے مگر ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہے۔''
روز قیامت جھوٹ بولنے والوں کے چہرے سیاہ ہوں گے۔ اس بارے میں ارشاد فرمایا ''اور قیامت کے دن جنہوں نے اﷲ پر جھوٹ بولا ہے، ان کے چہرے سیاہ ہوں گے، کیا متکبرین کے لیے جہنم کا ٹھکانا کافی نہیں ہے۔''
فرمانِ نبوی ﷺ کا مفہوم ہے کہ ''جو شخص جھوٹ بولنا چھوڑ دے تو اس کے لیے جنت کے کنارے میں مکان بنایا جائے گا۔''
اکثر گھروں میں جھوٹ کو نہ تو محسوس کیا جاتا ہے اور نہ ہی اس میں کوئی برائی سمجھی جاتی ہے۔ اور اپنے ہی بچوں سے جھوٹ بلوایا جاتا ہے، یہ بھی نہیں سوچا جاتا کہ گھر اور ماں باپ ہی بچوں کے لیے سب سے پہلے آئیڈیل کا درجہ رکھتے ہیں۔ اپنے والدین ہی کی دیکھا دیکھی بچے وہی کچھ کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جو ان کے ماں باپ کرتے ہیں۔
ماں باپ اپنے بچوں کو کہتے ہیں کہ فلاں کام غلط ہے، لیکن جب بچے اپنے ماں باپ کو وہی کام کرتے دیکھتے ہیں تو وہ پریشان ہوجاتے ہیں کہ اگر یہ کام غلط ہے تو ان کے ماں باپ کیوں کررہے ہیں اور اگر غلط نہیں ہے تو انہیں کیوں روکا جاتا ہے۔
جیسے بچوں کو سکھایا جاتا ہے کہ جھوٹ بولنا بری بات ہے اور جھوٹ بولنے سے اﷲ ناراض ہوتے ہیں، لیکن پھر ماں باپ میں سے کوئی ان کے سامنے جھوٹ بولتا ہے یا پھر جیسے کسی ملاقاتی کے آنے پر بچوں سے جھوٹ بلوایا جاتا ہے کہ کہہ دو ابو گھر پر نہیں ہیں، تو بچے سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ اگر جھوٹ بولنا بری بات ہوتی تو اس کے ابو امی کبھی بھی جھوٹ نہ بولتے۔ اس لیے کوشش کرنی چاہیے کہ بچوں کے سامنے کوئی ایسا کام نہ کیا جائے جسے ہم غلط کہتے ہیں۔ بچوں سے مذاق میں بھی جھوٹ نہ بولا جائے، اس کی بھی احادیث میں ممانعت فرمائی گئی ہے۔
کسی چیز کی فرمائش پر بچوں کو ٹالنے کے لیے کہہ دیا جاتا ہے کہ اچھا کل یہ چیز لے دیں گے اور پھر لے کر نہیں دی جاتی، اس طرح جب بار بار انہیں ٹالا جاتا ہے تو ماں باپ بچوں کی نظر میں اپنا اعتبار کھو بیٹھتے ہیں۔ پھر بچے ان کی بات پر یقین کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ اس لیے بچوں سے وعدہ خلافی بھی نہ کی جائے بل کہ ٹالنے کی بجائے مناسب طریقے سے انہیں سمجھا دیا جائے تاکہ ان کے ذہن میں ماں باپ کے متعلق غلط رائے قائم نہ ہو۔
کتاب و سنت کی تعلیمات سے معلوم ہوا کہ جھوٹ بہت برا گناہ ہے، جو انسان کو اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ سے بہت دور کردیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دین و دنیا کے لیے جھوٹ سراسر نقصان اور خسارے کا سودا ہے۔ لہٰذا ہمیں سوچنا چاہیے کہ یہ زندگی چند روزہ ہے، آخر ایک نہ ایک دن یہاں سے جانا پڑے گا، پھر ہمارے بولے ہوئے جھوٹ ہماری اگلی زندگی کے لیے بڑی مصیبت پیدا کریں گے۔
اس لیے آپ زندگی کے جس شعبے میں بھی ہیں، اسے جھوٹ کی آمیزش سے پاک کرلیں اور آیندہ جھوٹ بولنے سے توبہ کرلیں اور اﷲ تعالیٰ سے پکا وعدہ کرلیں کہ زندگی بھر جھوٹ کی راہ اختیار نہیں کریں گے۔
اﷲ تعالیٰ سچ کو فتح عطا فرما کر ہمیں اپنی زبان و کلام جھوٹ سے پاک رکھنے کی توفیق دے، اور رب تعالیٰ ہمیں اس قباحتِ خبیثہ اور گناہِ عظیم سے محفوظ فرمائے۔ آمین۔