کراچی کا کوڑا کراچی کی بجلی

پچھلے کچھ سال میں کراچی نہ صرف جرائم اور کرپشن بلکہ کوڑے کا بھی ڈپو بن گیا۔

پچھلے کچھ سال میں کراچی نہ صرف جرائم اور کرپشن بلکہ کوڑے کا بھی ڈپو بن گیا۔ بلند و بالا ایوانوں، سرکاری دفتروں سے لے کر سڑکوں، گلی، کوچوں میں ہر طرف کوڑا ہی کوڑا نظر آتا ہے۔ کراچی کے پچھلے دو منتخب سٹی ناظموں کے دور میں روزانہ صفائی کا باقاعدہ نظام شروع کیا گیا تھا، جس کے لیے مہنگی مشینری بھی خریدی اور فعال کی گئی تھی۔

کوڑا ٹھکانے لگانے کے لیے اس کی ترسیل پرانے کھلے ٹرکوں کے بجائے چاروں طرف سے بند ٹرکوں میں کی جانے لگی تھی۔ وہ مشینری، وہ چاروں طرف سے بند کوڑے کے ٹرک کہاں ٹھکانے لگ گئے، یہ کوئی نہیں جانتا، جیسے یہ کوئی نہیں جانتا کہ پچھلے دو منتخب ناظموں کے دور میں چلائی جانے والی نئی نویلی CNG بسیں بے چاری کہاں اور کیسے ٹھکانے لگ گئیں اور جیسے یہ کوئی نہیں جانتا کہ ملک اور صوبے کو سیکڑوں ارب کما کر دینے والے شہر کے لیے ان کچھ برسوں میں کتنے ارب مختص کیے گئے اور یہ کتنے ارب کہاں اور کیسے گئے کہ کراچی برباد ہوا اور بن گیا کوڑے کا ڈھیر۔

کراچی نہ صرف اتنے بڑے سائز کے ان چند بدنصیب شہروں میں شامل ہے جنھیں ان کی منتخب بااختیار شہری حکومت سے محروم رکھا گیا ہے بلکہ یہ پچھلے چند برسوں میں دنیا کا پانچواں سب سے آلودہ شہر بھی بن گیا کہ اس سال فروری میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن WHO کے بیان کردہ حقائق کے مطابق کراچی یونیورسٹی کے Institute of Environmental Studies کے رجسٹرار اور پروفیسر ڈاکٹر معظم علی خان نے اس سال 25 جنوری کو یوتھ پارلیمنٹ کی طرف سے موسمیات پر منعقد کی گئی ایک کانفرنس کو بتایا کہ دنیا میں ماحولیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونے کے سب سے زیادہ خطرے سے دوچار ممالک میں پاکستان کا نمبر آٹھواں ہے۔

ہمیں ماحولیاتی تباہی سے دوچار کرنے میں کوڑے کا اپنا ایک اہم کردار ہے، خصوصاً کراچی جیسے بڑے اور لاوارث شہر میں ہمیں ہر طرح کے کوڑے کا سامنا ہے، بلکہ یہ کہنا بہتر ہو گا کہ ہم ہر طرح کا کوڑا پھیلانے میں ماہر بن چکے ہیں۔ قدرتی (Organic) غیر قدرتی (Inorganic)، ٹھوس، مایع اور گیس، کوڑا اپنے ہر روپ میں ہمارے چاروں طرف موجود ہے۔

پاکستان میں ہر روز کوئی پچاس ہزار میٹرک ٹن میونسپل سالڈ ویسٹ پیدا ہوتا ہے اور ہمیں نہیں پتہ کہ اس میں سے کتنا ری سائیکل ہو پاتا ہے اور جو ری سائیکل ہوتا بھی ہے تو کیا وہ محفوظ اور انٹرنیشنل معیار پہ ری سائیکل ہوتا ہے کہ نہیں، مثلاً ہمارے ہاں اسپتال کے فضلے میں شامل پلاسٹک کی اشیا خالی سرنج، بوتلوں وغیرہ سے دودھ، دہی اور کھانے پینے کی دوسری چیزوں کے لیے پلاسٹک کی تھیلیاں بن جاتی ہیں، جنھیں لوگ پیار سے شاپر پکارتے ہیں۔

بہرحال عام طور پر کوڑا ربر، پلاسٹک، دھات، کاغذ، کارڈ بورڈ، کپڑے، گلاس، خراب و زائد کھانے، لکڑی، پتھروں اور انسانی و حیوانی فضلے پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ کوڑے میں انسانی صحت اور قدرتی ماحول کے لیے انتہائی خطرناک فضلہ جیسے E-Waste یعنی استعمال شدہ کمپیوٹر اور الیکٹرانک اشیاء اور ان کے پارٹس، اسپتال کا فضلہ اور مختلف استعمال شدہ آئلز اور کیمیکلز بھی شامل ہوتے ہیں۔ پاکستان میں خاص طور پر تباہ حال کراچی میں کوڑے کی جدید ری سائیکلنگ اور سالڈ ویسٹ مینجمنٹ سسٹم نہ ہونے کی وجہ سے بڑھتا ہوا یہ کوڑا انسانی صحت اور قدرتی ماحول کی بڑھتی ہوئی تباہی کا باعث ہے۔ یہ کوڑا نام نہاد Land-Fill سائٹس میں پھینکا اور جلایا جاتا ہے، جب کہ کوڑے کا کافی حصہ میٹھے اور سمندری پانی کے ذخائر میں بھی شامل ہو جاتا ہے۔


ہم آخر اس پھلتے پھولتے کوڑے کا کیا کریں؟ ہم آج تک پلاسٹک کی تھیلیوں سے اپنا بے ہودہ عشق ختم نہیں کر پائے تو اس ہمالیاتی کوڑے کو کیسے ٹھکانے لگائیں گے؟ کراچی کے لیے سب سے باعمل حل کوڑے سے توانائی پیدا کرنا ہے اور اس سلسلے میں ہم ترقی یافتہ ممالک جیسے سوئیڈن کی مثال لے سکتے ہیں، جو کوڑے سے توانائی پیدا کرتا ہے اور حالیہ برسوں میں کوڑے سے اس قدر پاک ہو گیا ہے کہ اسے کوڑا درآمد کرنا پڑتا ہے۔

2013ء تک صرف یورپ میں ہی 420 پلانٹس کوڑے سے توانائی پیدا کر کے دو کروڑ صارفین کو فراہم کر رہے تھے اور صرف یورپ ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں WTE یعنی Waste to Energy کا نظریہ مقبول ہو رہا ہے۔ صرف چین میں ہی اگلے چند سال میں WTE پلانٹس میں 3 گنا اضافے کا اندازہ لگایا گیا ہے۔ پاکستان میں WEE پلانٹس پہ کچھ کام ہوا ہے جس میں پاکستان کے دل لاہور میں (Lahore Waste Management Company) LWMC کے 1500 سے 2000 ٹن یومیہ کے پراجیکٹس اور کراچی میں کے الیکٹرک کا لانڈھی بھینس کالونی میں تقریباً 30 میگاواٹ کا WTE بائیوگیس پاور پراجیکٹ قابل ذکر ہیں۔ پاکستان میں خصوصاً کراچی میں WTE پراجیکٹس کے لیے کوڑے کی وسیع اور مستقل سپلائی کے ذخائر موجود ہیں جن میں گھروں کے علاوہ اسپتالوں کے کوڑے، صنعتی اور میونسپل کچرے اور فضلے کے علاوہ Mixed Waste اور ٹائرز اور خشک سیوریج کا آمیزہ وغیرہ شامل ہیں۔

کراچی میں آٹھ سال میں ایک بار کوڑے کی صفائی، کوڑے میں ڈوبے کراچی شہر کے لیے ایک دیرپا حل نہیں ہے۔ ایک تو یہ کہ ''صفائی مہمات'' کے بعد پھر سے کوڑے کے پہاڑ کھڑے ہو جاتے ہیں اور دوسرے یہ کہ ''صفائی مہمات'' کا کوڑا بھی آخر میں لینڈ فل سائٹس پر پہنچتا ہے جہاں اس کے جلائے جانے سے نہ صرف ماحول مزید آلودہ ہوتا ہے بلکہ مزید بیماریاں بھی پھیلتی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ وفاقی حکومت کراچی WTE ڈویژن قائم کرے جس کی نوعیت، کام اور مقاصد کچھ اس طرح کے ہوں۔

(1) یہ ایک خودمختار وفاقی ادارہ ہونا چاہیے جس کی مینجمنٹ میں ماحولیات سے متعلق پروفیشنل شخصیات، نیک نام ریٹائرڈ جج صاحبان، ٹاؤن پلانرز اور نیک نام میڈیا شخصیات شامل ہوں تا کہ کرپشن، نااہلی اور سست روی کی قومی روایت سے بچا جاسکے۔ (2) اس ڈویژن کے لیے خصوصی قانون سازی کی جائے تاکہ کراچی پر مسلط کرپشن، جرائم اور کراچی سے لسانی نفرت کا راج عوام اور قدرتی ماحول کی بھلائی کے ان منصوبوں میں کراچی سرکلر ریلوے والے معاملے کی طرح رکاوٹ نہ ڈال سکے۔

(3) اس ڈویژن کو دوسرے روایتی گرین انرجی کے منصوبوں سے الگ ٹریٹ کیا جائے کیونکہ WTE کا تعلق نہ صرف گرین انرجی بلکہ ویسٹ مینجمنٹ دونوں سے ہے۔ (4) کراچی میں خاصی زمین موجود ہے۔ WTE کمپنیوں کو اس زمین پہ کرائے یا لیز یا مکمل فروخت کے عوض اپنے WTE پلانٹس قائم کرنے دیے جائیں جن کو وفاقی قانون سازی کی حفاظت و ضمانت حاصل ہو۔ (5) ان WTE پراجیکٹس کی مشینری اور Auxiliaries پر سے تمام امپورٹ، کسٹم ڈیوٹیز اور دوسرے ٹیکسز پہ بڑی اور مستقل رعایت دی جائے۔ (6) وفاقی حکومت ان WTE کمپنیز کے ساتھ مل کر افرادی قوت کی ٹریننگ کے پروگرام بھی شروع کرے ۔

(7) کراچی WTE ڈویژن کی مینجمنٹ پر ایک نگراں پینل بناکر اس میں غیر ملکی و ملکی ماہرین کو لیا جائے تاکہ یہ یقینی بنایا جائے کہ لگنے والے تمام WTE پلانٹس جدید ترین ٹیکنالوجی کے حامل ہیں، جس سے کہ پلانٹس سے ماحول میں خارج ہونے والے عناصر کی مقدار کم سے کم ہو۔ جرمنی کی ماحولیات کی وزارت کے مطابق سخت ریگولیشن کے نتیجے میں (یورپ میں لگنے والے) ویسٹ Incineration پلانٹس مضر عناصر مثلاً Dioxins، Dust اور بھاری دھاتوں کے اخراج کے لحاظ سے اب نمایاں نہیں رہے ہیں۔ چنانچہ کراچی WTE ڈویژن کو یقینی بنانا ہو گا کہ ان پلانٹس میں صرف جدید ترین ٹیکنالوجی ہی استعمال کی جائے۔ WTE کا یہ انقلاب درحقیقت ایک عوامی انقلاب ہو گا کیونکہ کوڑے کرکٹ کی صفائی اور بجلی کی پیداوار دونوں ہی عوام کی زندگیوں کے لیے اہم ترین عناصر میں سے ہیں۔
Load Next Story