’’کم آن گرین شرٹس‘‘ آج تاریخ بدل ہی دو

کرکٹ کے سب سے بڑے مقابلے کا وقت آ گیا، کولکتہ میں آج پاکستان اور بھارت میں زبردست مقابلے کی توقع

کرکٹ کے سب سے بڑے مقابلے کا وقت آ گیا، کولکتہ میں آج پاکستان اور بھارت میں زبردست مقابلے کی توقع۔ فوٹو: فائل

کرکٹ کے سب سے بڑے مقابلے کا وقت آ گیا، آئی سی سی ورلڈ ٹوئنٹی 20میں فائنل سے قبل ہی فیصلہ کن معرکے جیسا ماحول بن چکا، کولکتہ میں آج پاکستان اور بھارت میں زبردست مقابلے کی توقع ظاہر کی جا رہی ہے۔

روایتی حریف جب ٹکرائیں سابقہ ریکارڈز قصہ پارینہ بن جاتے ہیں، اعصاب کی جنگ میں کون اپنے آپ کو سنبھال پائے گا اسی سے میچ کا فیصلہ ہوتا ہے، جیسے ایشیا کپ میں گرین شرٹس گھبرائے ہوئے دکھائی دیے تو بھارتی ٹیم کو آسانی سے حاوی ہونے کا موقع مل گیا، اب تو مقابلہ اس کے ہوم گراؤنڈ کولکتہ میں ہو رہا ہے، شائقین کی توقعات آسمان سے باتیں کر رہی ہوں گی۔

ایسے میں تمام تر دباؤ میزبان ٹیم پر ہو گا، نیوزی لینڈ سے شکست پر بھارتی عوام ویسے ہی سخت ناخوش ہیں اگر ایڈن گارڈنز میں بھی نتیجہ توقعات کیخلاف آیا تو پھر پتلے جلنے اور گھروں پر حملے جیسے ناخوشگوارواقعات کیلیے بلوشرٹس کوتیار رہنا پڑے گا،اسی طرح بنگلہ دیش پر فتح نے پاکستانی شائقین کی امیدیں بھی بیحد بڑھا دیں، لوگ کپتان شاہد آفریدی کے اس بیان کو بھی بھول گئے جس میں انھوں نے کہا تھا کہ ''پاکستان سے زیادہ پیار بھارت میں ملا'' البتہ خدانخواستہ اگر آج میدان سے سرخرو واپس نہ آئے تو تمام فائلیں دوبارہ کھل جائیں گی۔

ان باتوں سے کرکٹرز بھی بخوبی واقف اور اسی لیے دباؤ کا شکار رہتے ہیں،مہمان سائیڈ کو اگر فتح حاصل کرنا ہے تو منفی باتوں کو بھول کر میدان میں اترنا ہوگا، یہ یاد رکھیں کہ آج ایڈن گارڈنز میں چند سو لوگ ہی انھیں سپورٹ کریں گے، کراؤڈ کے منفی رویے کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے کھیل پر توجہ دینا ہوگی،یہ درست ہے کہ پاکستان اب تک بھارت کوآئی سی سی ایونٹس میں نہیں ہرا سکا مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ایسا کبھی نہ ہوگا، بس ذہن سے منفی خیالات نکالنا ہوں گے،کرکٹ میں سابقہ ریکارڈز کی زیادہ اہمیت نہیں ہوتی، میچ کے دن جو پرفارم کرے وہی جیتتا ہے اس لیے ایڈن گارڈنز میں میزبان سے نہ ہارنے کی بات کو بھی ذہن پر سوار نہیں کرنا چاہیے۔

ون ڈے کی طرح ٹوئنٹی 20میں بھی پاکستان کی کارکردگی روبہ زوال ہے، مسلسل ناقص کارکردگی نے رینکنگ میں چھٹے سے آٹھویں نمبر کے درمیان ہی دھکیل دیا ہے،ایشیا کپ میں غیرمعیاری کھیل کے بعد شائقین کی توقعات بالکل ہی زیرو ہو گئی تھیں، تاہم بھارت آنے کے بعد ٹیم نے جس طرح وارم اپ میچ میں سری لنکا کو ہرایا اور پھر بنگال ٹائیگرز کے ہوش ٹھکانے لگائے اس سے سب کی امیدیں دوبارہ جاگ گئی ہیں،عوام کو ایسا لگتا ہے کہ گرین شرٹس ایونٹ میں کچھ کر دکھا سکتے ہیں۔

اس کیلیے ہفتے کے میچ میں فتح بیحد ضروری ہو گی،بورڈ حکام، سلیکٹرز، کوچ ، کپتان سب کے مستقبل کا اسی میچ پر دارومدار ہے، ہمارے کرکٹ لورز سب کچھ برداشت کر سکتے ہیں مگر بھارت سے ہار نہیں، ایونٹ سے قبل جس طرح کا ماحول بنا اور ٹیم سیکیورٹی خدشات کے سبب تاخیر سے پہنچی اس نے بھی کرکٹ میچ کو جنگ جیسا بنا دیا ہے،پاکستانی کھلاڑیوں کو اب اپنے اعصاب کنٹرول میں رکھتے ہوئے فتح کیلیے جان لڑا دینا ہوگی تاکہ ''موقع موقع '' جیسے اشتہار بنانے والے بھارتیوں کو کچھ سبق سکھایا جا سکے۔




بنگلہ دیش سے میچ نے یہ ثابت کر دیا کہ ٹیم میں صلاحیت موجود ہے، ضرورت صرف خود پر یقین کرتے ہوئے اعتماد اور بھرپور منصوبہ بندی کے ساتھ میدان میں اترنے کی ہے، بدقسمتی سے کوچ وقار یونس اپنی ذمہ داریاں بخوبی نہیں نبھا سکے لیکن اگر ٹیم بھارت سے جیت گئی تو کریڈٹ لینے میں وہی سب سے آگے ہوں گے،خیرشائقین کو اس سے کوئی غرض نہیں انھیں تو بس فتح ہی چاہیے بعد میں چاہے اس کا کریڈٹ کوئی بھی لے۔

آج کے میچ میں اصل مقابلہ پاکستانی بولنگ اور بھارتی بیٹنگ کے درمیان ہوگا، میزبان ٹیم کو روہت شرما، شیکھر دھون، ویرات کوہلی، سریش رائنا، مہندرا سنگھ دھونی اور یوراج سنگھ جیسے بیٹسمینوں کا ساتھ حاصل ہے، مگر اس کے باوجود وہ نیوزی لینڈ سے میچ میں 127کا ہدف عبور نہ کر سکی، اس سے یہ بات صاف ظاہر ہے کہ اگر اچھی بولنگ کی جائے تو بھارتی بیٹنگ لائن میں شگاف ڈالنا ناممکن نہیں، اسی کے ساتھ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ میزبان اور کیویز کا میچ ناگپور میں ہوا جہاں کی خراب پچ پر ماضی میں آئی سی سی بھی اعتراض کر چکی ہے۔

اب مقابلہ کولکتہ میں ہے، ایڈن گارڈنز میں پاکستان نے بنگلہ دیش کیخلاف201 رنزبنائے تھے، اب بھی ہائی اسکورنگ میچ کی توقع رکھنی چاہیے، گذشتہ میچ کی طرح اگر محمد عامر نے اس بار بھی جلد کوئی وکٹ دلا دی تو بھارت کو دباؤ میں لیا جا سکتا ہے، محمد عرفان بھی امیدوں کے محور ہوں گے ، وہاب ریاض کو ورلڈ کپ میں آسٹریلیا جیسی پرفارمنس دکھانا ہوگی، اسپن میں آفریدی کے ساتھ شعیب ملک اور عماد وسیم حریف بیٹسمینوں کو گھیرنے کی کوشش کریں گے۔

مضبوط بولنگ کے باوجود ضروری ہے کہ اسکور بورڈ پر اتنے رنز موجود ہوں جن کا بولرز دفاع کر سکیں، پہلے گیند سنبھالنے کی صورت میں ان پر دباؤ کچھ کم ہوگا،پاکستان کا بڑا مسئلہ اوپننگ کا ہے، احمد شہزاد نے بنگال ٹائیگرز کیخلاف اچھی اننگز کھیلی مگر اسپنرز کے آتے ہی شرجیل خان کے ہاتھ پاؤں پھول گئے،اس لیول پر کھیلتے ہوئے آپ کو بخوبی اندازہ ہونا چاہیے کہ پیسرز اور سلو بولرز کا کیسے سامنا کرنا ہے۔

اس موقع پر اچانک خالد لطیف کو کھلانے کا فیصلہ بیک فائر ہو سکتا ہے جیسا ایشیا کپ میں خرم منظور کو میدان میں اتارنا مہنگا ثابت ہوا تھا، شرجیل پر ہی اعتماد برقرار رکھتے ہوئے انھیں سمجھانا ہوگا کہ ایشون، رائنا اور جڈیجا کا سامنا کیسے کرنا چاہیے، بھارتی پیسرز نہرا اور بمرا نے کیویز کے خلاف اچھی بولنگ کی تھی مگر بیٹنگ وکٹ پر اگر عامر اور عرفان جیسی سوئنگ نہ ہو تو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے،محمد حفیظ اچھی فارم میں ہیں،وارم اپ میچ کے بعد انھوں نے ایونٹ کے پہلے مقابلے میں بھی نصف سنچری بنائی مگر لگتا ہے کہ وہ حد سے زیادہ خود اعتمادی کا شکار ہو گئے ہیں۔

اسی لیے اہم میچ کی تیاری کے بجائے ساڑھیاں خریدنے چلے گئے،بھائی شاپنگ کے موقع بہت ملیںگے پہلے بھارت کو ہرا تو دیں، گذشتہ میچ کی خاص بات شاہد آفریدی کی عمدہ کارکردگی تھی،کافی عرصے بعد وہ اپنے اصل رنگ میں دکھائی دیے، بیٹنگ بھرپور اعتماد سے کی اور بولنگ میں بھی کاٹ نظر آئی، کسی بھی ٹیم کی فتوحات میں کپتان کا اہم کردار ہوتا ہے۔

آفریدی نے یہ فارم برقرار رکھی تو ایونٹ میں پاکستان بہت آگے جائے گا، عمر اکمل، شعیب ملک، سرفراز احمد اور عماد وسیم کو بھی موقع ملنے کی صورت میں ذمہ داری کا ثبوت دینا ہوگا، اسی صورت فتح کا خواب حقیقت کا روپ دھار سکے گا، جنوبی افریقہ سے وارم اپ میچ کے بعد ورلڈٹوئنٹی 20 کے پہلے مقابلے میں نیوزی لینڈ سے شکست نے بھارت کو دباؤ کا شکار کر دیا ہے، پاکستان کو اس سے اچھا موقع نہیں ملے گا، گرتی ہوئی دیوار کو بس ایک دھکے کی ضرورت ہے، ''کم آن گرین شرٹس'' قوم کی دعائیں آپ کے ساتھ ہیں، ماضی میں جو نہیں ہوا وہ آج کر دکھائیں۔
Load Next Story