عابدہ پروین پر گائیکی بھی ناز کرتی ہے
عابدہ پروین نے کہا آپ بے فکر ہوجائیں ہم تقریب میں شرکت بھی کریں گے اور کلام بھی سنائیں گے
جن دنوں میں کیسٹ میلوڈی ایوارڈ کا کنوینر تھا تو ہر سال ایوارڈ کمیٹی کے ایک سینئر ممبر کی حیثیت سے پاکستان بھر میں فروخت کے حساب سے کیسٹ کمپنیوں سے سب سے زیادہ بکنے والے کیسٹس کی معلومات جمع کیا کرتا تھا۔ اور پھر کیسٹ کے حقدار ایوارڈز یافتہ فنکاروں کا انتخاب کیا جاتا تھا، یہ معلومات صدر، طارق روڈ اور پھر کیسٹس کی سب سے بڑی مارکیٹ جو بولٹن مارکیٹ میں واقع تھی وہاں سے پاکستان اور بیرون پاکستان بھیجے جانے والے کیسٹوں کی فروخت کا بھی پتا چل جاتا تھا، جس سال صوفیانہ گائیکی پر ایوارڈ دیا جانا تھا اس سال کیسٹ کی ہر مارکیٹ اور ہر چھوٹی بڑی دکان سے صوفیانہ کلام پر مبنی کیسٹوں میں بکنے والا نام صرف عابدہ پروین ہی نکلا تھا اور پھر اس سال کیسٹ میلوڈی ایوارڈ کی حقدار عابدہ پروین قرار دی گئی تھیں۔
میری پہلی ملاقات عابدہ پروین سے ریڈیو پاکستان کراچی میں ہوئی تھی، دوسری بار میں عابدہ پروین کو کیسٹ میلوڈی ایوارڈ کی تقریب میں ایوارڈ یافتہ گلوکارہ کی حیثیت سے دعوت دینے ان کے گھر واقع فیڈرل بی ایریا واٹر پمپ گیا تھا، جہاں وہ ایک فلیٹ میں رہتی تھیں۔ وہ ایک سادہ سا گھر تھا، ایک کمرے میں موسیقی کے چند آلات رکھے ہوئے تھے اور وہ وہاں اپنے شوہر ریڈیو کے پروڈیوسر غلام حسین شیخ کے ساتھ موجود تھیں۔ گفتگو میں انتہائی عاجزی اور انکساری نے مجھے بھی بہت زیادہ متاثر کیا تھا۔ عابدہ پروین کو میں نے کیسٹ میلوڈی ایوارڈ کی تقریب میں شرکت کی دعوت دی اور اس خواہش کا بھی اظہار کیا کہ ایوارڈ وصول کرنے کے بعد اگر آپ ایک دو گیت بھی سنادیں گی تو تقریب میں چار چاند لگ جائیں گے۔
عابدہ پروین نے کہا آپ بے فکر ہوجائیں ہم تقریب میں شرکت بھی کریں گے اور کلام بھی سنائیں گے۔ پھر ایسا ہی ہوا، کیسٹ میلوڈی ایوارڈ کی تقریب میں عابدہ پروین نے اپنی گائیکی سے ساری محفل پر ایک سحر طاری کردیا تھا۔ اور کیسٹ میلوڈی ایوارڈ کی یہ تقریب بھی ایک یادگار تقریب کا روپ دھار گئی تھی۔ عابدہ پروین نے صوفیانہ کلام پیش کرکے تقریب کو روحانی رنگوں سے روشن کردیا تھا۔
پاکستان میں غزل کی گائیکی میں جہاں اقبال بانو اور فریدہ خانم نے اپنی اپنی جداگانہ حیثیت حاصل کی تھی ان دونوں نامور گلوکاراؤں کے بعد جب عابدہ پروین نے صوفیانہ کلام کے بعد غزل کی گائیکی کی طرف پیش رفت کی تو عابدہ پروین کے سچے سروں نے غزل کی گائیکی کو بھی معتبر بنادیا۔ جو سروں کا رچاؤ، جو سوز و گداز عابدہ پروین کی آواز کا حصہ ہے اور جو لے کاری عابدی پروین کے گلے کا نچوڑ ہے، اس کا حسن ہی سب سے الگ ہے، اس کا انداز ہی سب سے منفرد ہے۔
یہی وجہ ہے کہ عابدہ پروین نے بابا بلھے شاہ، بابا غلام فرید اور شاہ لطیف کے کلام کو جس طرح گایا ہے اس طرح اس سے پہلے کسی بھی گلوکارہ کو ایسی گائیکی نصیب نہیں تھی۔ عابدہ پروین نے اپنی گائیکی کا آغاز درگاہوں پر عرس کی محفلوں سے کیا تھا، پھر یہ آواز خوشبو کی طرح پھیلتی ہی چلی گئی اور پھر خوشبو کا سفر تو وہ سفر ہے جس کا ساتھ ہر دم ہوائیں دیتی ہیں، جس سے ہمکنار فضائیں ہوتی ہیں۔
عابدہ پروین نے ابتدا میں جب اپنا مخصوص گیت ''یار کو ہم نے جا بجا دیکھا'' گانا شروع کیا تو پھر گائیکی کی دنیا میں ایک نئی تاریخ رقم کی گئی۔ آج غزل کی گائیکی کے ساتھ صوفیانہ کلام کی گائیکی میں جو دسترس جو مہارت اور جو سروں کی خوبصورتی عابدہ پروین کی آواز میں جھلکتی ہے، ایسی خوبی کے لیے کسی بھی گائیک کو برسوں کی محنت درکار ہوتی ہے۔ پھر بھی وہ آواز اتنی معتبر نہیں ہوتی جتنی معتبر آواز آج عابدہ پروین کی ہے۔
اب میں چند ایسی غزل کی گلوکاراؤں کا بھی تذکرہ کروں گا جن کے کیسٹ عابدہ پروین اور منی بیگم کے بعد کافی پذیرائی حاصل کرتے رہے ہیں۔ گلشن غزل کے ان پھولوں میں ایک آواز گلشن آرا سید کی ہے، دوسری آواز گل بہار بانو اور تیسری آواز ٹینا ثانی کی ہے۔ گلشن آرا سید کو میں نے پہلی بار ایک چیریٹی پروگرام میں سنا تھا۔ اس پروگرام میں چند اساتذہ کی خوبصورت غزلوں کے ساتھ ساتھ آج کے دور کے شاعر قیصرالجعفری کی غزل جس کا مطلع ہے:
تمہارے شہر کا موسم بڑا سہانا لگے
میں ایک شام چرا لوں اگر برا نہ لگے
گلشن آرا سید نے بڑی خوبصورتی اور رچاؤ کے ساتھ گائی تھی اور اس غزل کو بڑی پذیرائی حاصل ہوئی تھی۔ گلشن آرا سید کا تعلق مشرقی پاکستان سے ہے۔ 1979 میں یہ اپنے شوہر کے ساتھ مغربی پاکستان آئیں۔ ان کے شوہر کا بحیثیت ایک سرکاری افسر اسلام آباد تبادلہ ہوا تھا۔ وہ ایک پی ایچ ڈی ڈاکٹر تھے۔ گلشن آرا سید نے پی ٹی وی سے موسیقی کے ایک پروگرام ''خوشبو'' سے اپنی گائیکی کے کیریئر کا آغاز کیا، ان کا پہلا البم ''شام غزل'' اور دوسرا البم ''یادگار غزلیں'' کے نام سے منظر عام پر آیا اور مقبولیت حاصل ہوئی۔
گلشن آرا سید کو بھی ایک بار بہترین غزل سنگر کا کیسٹ میلوڈی ایوارڈ دیا گیا تھا اور گلشن آرا سید نے کیسٹ میلوڈی ایوارڈ کی تقریب میں اپنی آواز کا جادو جگا کر محفل لوٹ لی تھی۔ اب میں کراچی کی موسیقی کی محفلوں میں اپنا رنگ جمانے والی ایک اور گلوکارہ کا تذکرہ کروں گا جسے گل بہار بانو کے نام سے موسیقی کی دنیا میں کافی عرصے تک ایک شناخت حاصل رہی ہے۔ گل بہار بانو کو میں نے پہلی بار ایک فنکشن میں سنا تھا اور اس نے اپنی آواز سے بڑا متاثر کیا تھا۔
پھر ایک موسیقی کی ایک نجی محفل میں سنا اور اس محفل کی یہ واحد گلوکارہ تھی جو رات دیر گئے تک گاتی رہی اور محفل کو گرماتی رہی۔ اس دوران اس نے نئی اور پرانی بہت سی غزلیں بڑے ہی خوبصورت انداز میں پیش کی تھیں۔ ان غزلوں نے ایک سماں باندھ دیا تھا اور گل بہار بانو کی آواز دلوں پر دستک دے رہی تھی۔ گل بہار بانو نے اپنی گائیکی کا آغاز ملتان ریڈیو سے کیا تھا پھر اس نے پی ٹی وی کے موسیقی کے پروگراموں سے اپنی شہرت کے سفر کا آغاز کیا۔
گل بہار بانو کی یہ خوبی ہے کہ یہ سرائیکی، پنجابی، سندھی اور اردو گائیکی میں اپنا ایک جداگانہ انداز رکھتی ہے۔ گل بہار بانو کو بھی ایک بار اس کے کامیاب کیسٹوں پر کیسٹ میلوڈی ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔ گل بہار بانو غزل کے علاوہ ٹھمری اور خیال بھی بہت خوبصورت انداز سے گاتی ہے۔ گل بہار بانو نے موسیقی کی تعلیم استاد محمد افضل سے حاصل کی اور اس کے استاد اس کے سرپرست بن کر ہمیشہ اس کے ساتھ ہی رہے۔ اب میں پھر عابدہ پروین کی طرف آتا ہوں۔
عابدہ پروین نے بھی ابتدائی تعلیم اپنے والد استاد غلام حیدر مرحوم سے حاصل کی جو اپنے دور کے مشہور صوفی سنگر تھے اور انھی کی بدولت عابدہ پروین کی گائیکی میں صوفیانہ رنگ غالب آتا گیا۔ استاد غلام حیدر نے موسیقی کا ایک باقاعدہ اسکول بھی قائم کیا تھا۔
عابدہ پروین نے اپنی گائیکی کا آغاز ریڈیو پاکستان حیدرآباد سے کیا، پھر اس کی شہرت کا سفر اسے ریڈیو پاکستان کراچی اور پھر پاکستان ٹیلی ویژن تک لے آیا۔ اردو گائیکی میں عابدہ پروین کو امیر خسرو کے گیتوں کی گائیکی میں بڑا ملکہ حاصل ہے۔ عابدہ پروین 1954 میں لاڑکانہ کے ایک علاقے علی گوہر آباد میں پیدا ہوئی تھی۔
پھر اس کی گائیکی کی دھوم پاکستان سے ہندوستان اور یورپ امریکا تک پہنچ گئی۔ عابدہ پروین کو اس کی خوبصورت گائیکی پر 1984 میں پرائیڈ آف پرفارمنس دیا گیا، 2005 میں اسے ملک کی بہترین گلوکارہ کی حیثیت سے اس کی خدمات پر ستارہ امتیاز سے نوازا گیا اور صوفیانہ گائیکی پر اسے خاص طور پر لال شہباز قلندر گولڈ میڈل کا بھی حقدار قرار دیا گیا۔ عابدہ پروین ایک ایسی گلوکارہ ہے جس پر گائیکی بھی خود ناز کرتی ہے۔
میری پہلی ملاقات عابدہ پروین سے ریڈیو پاکستان کراچی میں ہوئی تھی، دوسری بار میں عابدہ پروین کو کیسٹ میلوڈی ایوارڈ کی تقریب میں ایوارڈ یافتہ گلوکارہ کی حیثیت سے دعوت دینے ان کے گھر واقع فیڈرل بی ایریا واٹر پمپ گیا تھا، جہاں وہ ایک فلیٹ میں رہتی تھیں۔ وہ ایک سادہ سا گھر تھا، ایک کمرے میں موسیقی کے چند آلات رکھے ہوئے تھے اور وہ وہاں اپنے شوہر ریڈیو کے پروڈیوسر غلام حسین شیخ کے ساتھ موجود تھیں۔ گفتگو میں انتہائی عاجزی اور انکساری نے مجھے بھی بہت زیادہ متاثر کیا تھا۔ عابدہ پروین کو میں نے کیسٹ میلوڈی ایوارڈ کی تقریب میں شرکت کی دعوت دی اور اس خواہش کا بھی اظہار کیا کہ ایوارڈ وصول کرنے کے بعد اگر آپ ایک دو گیت بھی سنادیں گی تو تقریب میں چار چاند لگ جائیں گے۔
عابدہ پروین نے کہا آپ بے فکر ہوجائیں ہم تقریب میں شرکت بھی کریں گے اور کلام بھی سنائیں گے۔ پھر ایسا ہی ہوا، کیسٹ میلوڈی ایوارڈ کی تقریب میں عابدہ پروین نے اپنی گائیکی سے ساری محفل پر ایک سحر طاری کردیا تھا۔ اور کیسٹ میلوڈی ایوارڈ کی یہ تقریب بھی ایک یادگار تقریب کا روپ دھار گئی تھی۔ عابدہ پروین نے صوفیانہ کلام پیش کرکے تقریب کو روحانی رنگوں سے روشن کردیا تھا۔
پاکستان میں غزل کی گائیکی میں جہاں اقبال بانو اور فریدہ خانم نے اپنی اپنی جداگانہ حیثیت حاصل کی تھی ان دونوں نامور گلوکاراؤں کے بعد جب عابدہ پروین نے صوفیانہ کلام کے بعد غزل کی گائیکی کی طرف پیش رفت کی تو عابدہ پروین کے سچے سروں نے غزل کی گائیکی کو بھی معتبر بنادیا۔ جو سروں کا رچاؤ، جو سوز و گداز عابدہ پروین کی آواز کا حصہ ہے اور جو لے کاری عابدی پروین کے گلے کا نچوڑ ہے، اس کا حسن ہی سب سے الگ ہے، اس کا انداز ہی سب سے منفرد ہے۔
یہی وجہ ہے کہ عابدہ پروین نے بابا بلھے شاہ، بابا غلام فرید اور شاہ لطیف کے کلام کو جس طرح گایا ہے اس طرح اس سے پہلے کسی بھی گلوکارہ کو ایسی گائیکی نصیب نہیں تھی۔ عابدہ پروین نے اپنی گائیکی کا آغاز درگاہوں پر عرس کی محفلوں سے کیا تھا، پھر یہ آواز خوشبو کی طرح پھیلتی ہی چلی گئی اور پھر خوشبو کا سفر تو وہ سفر ہے جس کا ساتھ ہر دم ہوائیں دیتی ہیں، جس سے ہمکنار فضائیں ہوتی ہیں۔
عابدہ پروین نے ابتدا میں جب اپنا مخصوص گیت ''یار کو ہم نے جا بجا دیکھا'' گانا شروع کیا تو پھر گائیکی کی دنیا میں ایک نئی تاریخ رقم کی گئی۔ آج غزل کی گائیکی کے ساتھ صوفیانہ کلام کی گائیکی میں جو دسترس جو مہارت اور جو سروں کی خوبصورتی عابدہ پروین کی آواز میں جھلکتی ہے، ایسی خوبی کے لیے کسی بھی گائیک کو برسوں کی محنت درکار ہوتی ہے۔ پھر بھی وہ آواز اتنی معتبر نہیں ہوتی جتنی معتبر آواز آج عابدہ پروین کی ہے۔
اب میں چند ایسی غزل کی گلوکاراؤں کا بھی تذکرہ کروں گا جن کے کیسٹ عابدہ پروین اور منی بیگم کے بعد کافی پذیرائی حاصل کرتے رہے ہیں۔ گلشن غزل کے ان پھولوں میں ایک آواز گلشن آرا سید کی ہے، دوسری آواز گل بہار بانو اور تیسری آواز ٹینا ثانی کی ہے۔ گلشن آرا سید کو میں نے پہلی بار ایک چیریٹی پروگرام میں سنا تھا۔ اس پروگرام میں چند اساتذہ کی خوبصورت غزلوں کے ساتھ ساتھ آج کے دور کے شاعر قیصرالجعفری کی غزل جس کا مطلع ہے:
تمہارے شہر کا موسم بڑا سہانا لگے
میں ایک شام چرا لوں اگر برا نہ لگے
گلشن آرا سید نے بڑی خوبصورتی اور رچاؤ کے ساتھ گائی تھی اور اس غزل کو بڑی پذیرائی حاصل ہوئی تھی۔ گلشن آرا سید کا تعلق مشرقی پاکستان سے ہے۔ 1979 میں یہ اپنے شوہر کے ساتھ مغربی پاکستان آئیں۔ ان کے شوہر کا بحیثیت ایک سرکاری افسر اسلام آباد تبادلہ ہوا تھا۔ وہ ایک پی ایچ ڈی ڈاکٹر تھے۔ گلشن آرا سید نے پی ٹی وی سے موسیقی کے ایک پروگرام ''خوشبو'' سے اپنی گائیکی کے کیریئر کا آغاز کیا، ان کا پہلا البم ''شام غزل'' اور دوسرا البم ''یادگار غزلیں'' کے نام سے منظر عام پر آیا اور مقبولیت حاصل ہوئی۔
گلشن آرا سید کو بھی ایک بار بہترین غزل سنگر کا کیسٹ میلوڈی ایوارڈ دیا گیا تھا اور گلشن آرا سید نے کیسٹ میلوڈی ایوارڈ کی تقریب میں اپنی آواز کا جادو جگا کر محفل لوٹ لی تھی۔ اب میں کراچی کی موسیقی کی محفلوں میں اپنا رنگ جمانے والی ایک اور گلوکارہ کا تذکرہ کروں گا جسے گل بہار بانو کے نام سے موسیقی کی دنیا میں کافی عرصے تک ایک شناخت حاصل رہی ہے۔ گل بہار بانو کو میں نے پہلی بار ایک فنکشن میں سنا تھا اور اس نے اپنی آواز سے بڑا متاثر کیا تھا۔
پھر ایک موسیقی کی ایک نجی محفل میں سنا اور اس محفل کی یہ واحد گلوکارہ تھی جو رات دیر گئے تک گاتی رہی اور محفل کو گرماتی رہی۔ اس دوران اس نے نئی اور پرانی بہت سی غزلیں بڑے ہی خوبصورت انداز میں پیش کی تھیں۔ ان غزلوں نے ایک سماں باندھ دیا تھا اور گل بہار بانو کی آواز دلوں پر دستک دے رہی تھی۔ گل بہار بانو نے اپنی گائیکی کا آغاز ملتان ریڈیو سے کیا تھا پھر اس نے پی ٹی وی کے موسیقی کے پروگراموں سے اپنی شہرت کے سفر کا آغاز کیا۔
گل بہار بانو کی یہ خوبی ہے کہ یہ سرائیکی، پنجابی، سندھی اور اردو گائیکی میں اپنا ایک جداگانہ انداز رکھتی ہے۔ گل بہار بانو کو بھی ایک بار اس کے کامیاب کیسٹوں پر کیسٹ میلوڈی ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔ گل بہار بانو غزل کے علاوہ ٹھمری اور خیال بھی بہت خوبصورت انداز سے گاتی ہے۔ گل بہار بانو نے موسیقی کی تعلیم استاد محمد افضل سے حاصل کی اور اس کے استاد اس کے سرپرست بن کر ہمیشہ اس کے ساتھ ہی رہے۔ اب میں پھر عابدہ پروین کی طرف آتا ہوں۔
عابدہ پروین نے بھی ابتدائی تعلیم اپنے والد استاد غلام حیدر مرحوم سے حاصل کی جو اپنے دور کے مشہور صوفی سنگر تھے اور انھی کی بدولت عابدہ پروین کی گائیکی میں صوفیانہ رنگ غالب آتا گیا۔ استاد غلام حیدر نے موسیقی کا ایک باقاعدہ اسکول بھی قائم کیا تھا۔
عابدہ پروین نے اپنی گائیکی کا آغاز ریڈیو پاکستان حیدرآباد سے کیا، پھر اس کی شہرت کا سفر اسے ریڈیو پاکستان کراچی اور پھر پاکستان ٹیلی ویژن تک لے آیا۔ اردو گائیکی میں عابدہ پروین کو امیر خسرو کے گیتوں کی گائیکی میں بڑا ملکہ حاصل ہے۔ عابدہ پروین 1954 میں لاڑکانہ کے ایک علاقے علی گوہر آباد میں پیدا ہوئی تھی۔
پھر اس کی گائیکی کی دھوم پاکستان سے ہندوستان اور یورپ امریکا تک پہنچ گئی۔ عابدہ پروین کو اس کی خوبصورت گائیکی پر 1984 میں پرائیڈ آف پرفارمنس دیا گیا، 2005 میں اسے ملک کی بہترین گلوکارہ کی حیثیت سے اس کی خدمات پر ستارہ امتیاز سے نوازا گیا اور صوفیانہ گائیکی پر اسے خاص طور پر لال شہباز قلندر گولڈ میڈل کا بھی حقدار قرار دیا گیا۔ عابدہ پروین ایک ایسی گلوکارہ ہے جس پر گائیکی بھی خود ناز کرتی ہے۔