سرکاری تعلیمی اداروں میں طلباء کے داخلوں میں کمی
خواندگی کی شرح میں اضافہ کے بغیر معاشرے کی تعمیر و ترقی اور معاشی بہتری کا تصور محال ہے
اس ترقی یافتہ دور میں تعلیم و تربیت اور علم و عمل کی اہمیت سے ہر معاشرہ بخوبی آگاہ ہے اور حکومتیں تعلیم کے شعبے پر خصوصی توجہ دے رہی ہیں۔
خواندگی کی شرح میں اضافہ کے بغیر معاشرے کی تعمیر و ترقی اور معاشی بہتری کا تصور محال ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں شعبۂ تعلیم دور رس نتائج کی حامل منصوبہ بندی اور بہتر و متوازن تعلیمی پالیسی سے محروم ہے اور اس کے منفی اثرات ہماری معاشی، سماجی، اخلاقی اور مجموعی ملکی صورت حال پر نمایاں طور پر دیکھے جاسکتے ہیں۔ وطن عزیز کے بڑے شہروں میں بھی اگرچہ سرکاری اسکولوں اور جامعات میں تعلیمی معیار اور تدریسی سہولیات سے متعلق صورت حال نامناسب ہے، لیکن چھوٹے شہروں، دیہات اور دور دراز کے علاقوں میں اسکولوں کی حالت انتہائی خراب ہے۔ صوبۂ بلوچستان میں بھی تعلیم کا شعبہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی عدم توجہی اور محکمۂ تعلیم کے کرتا دھرتاؤں کی غفلت و کوتاہیوں سے بری طرح متاثر نظر آتا ہے۔ یہی صورت حال ضلع پشین میں بھی ہے بلکہ تشویش ناک ہو چکی ہے۔
پشین میں تعلیمی اداروں میں بنیادی سہولیات کی فراہمی، طلبہ و طالبات کے داخلہ لینے کی شرح میں مسلسل کمی، والدین کی غفلت، غربت، سیاسی مداخلت اور تعلیم یافتہ اور ترقی پسند سیاسی قیادت کا فقدان، اساتذہ اور ان کی تنظیموں کے ذاتی مفادات اور آئے روز سیاسی اثر و رسوخ کی بناء پر اساتذہ کے تبادلوں نے اس کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ محکمۂ تعلیم کی ناقص پالیسیوں اور صوبائی وزراء کے غیر تسلی بخش اقدامات سے تعلیمی نظام اور بنیادی اسٹرکچر تباہ و برباد ہوگیا ہے۔ نوجوان طبقہ جدید تعلیمی سہولیات، معیاری تدریس میسر نہ آنے کی وجہ سے ناخواندگی، پسماندگی اور اس کے زیرِ اثر دیگر عوامل کا شکار ہو رہا ہے۔
اکثر سرکاری اسکولز سے اساتذہ کی مسلسل غیر حاضری اور نجی سرگرمیوں میں مشغول ہونے سے ان میں تدریس کا عمل معطل ہے، کئی اساتذہ حاضری لگانے اور تنخواہ لینے کی حد تک اسکولز کا حصہ ہیں اور مختلف نجی اداروں میں ملازمت کر رہے ہیں، جب کہ بعض اساتذہ، اساتذہ تنظیموں اور سیاسی اثر و رسوخ کی بدولت اپنے فرائض کی ادائیگی سے آزاد ہیں اور ان کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی جاتی۔
ضلع پشین میں3 ہزار تین سو سے زاید اساتذہ بھاری تنخواہیں، مراعات اور دیگر سہولیات لے رہے ہیں، لیکن اپنی ذمے داریاں پوری نہیں کرتے، جس سے چند سال کے دوران ضلع پشین میں تعلیمی نظام بری طرح متأثر ہوا ہے اور پڑھائی میں تسلسل نہ ہونے سے داخلے کی شرح میں خطرناک حد تک کمی جب کہ ڈرافٹ آئوٹ میں اضافہ ہو رہا ہے۔
ڈسٹرکٹ ایجوکیشن افسر کے دفتر سے فراہم کردہ معلومات اور تفصیلات کے مطابق پورے ضلع میں سرکاری تعلیمی اداروں کی تعداد 903 ہے، جن میں 8 کالجز، 752 پرائمری اسکولز، 106 مڈل، 37 ہائر سیکنڈری اسکولز اور 30 کے قریب نجی اسکول ہیں۔ ان میں سے 566 پرائمری، 58 مڈل اور 29 ہائی سیکنڈری اسکولز طلبہ کے لیے جب کہ 186پرائمری، 48 مڈل اور صرف 8 ہائی اسکولز طالبات کے لیے ہیں۔ آٹھ میں سے دو کالجز میں ڈگری کی سطح تک تعلیم دی جاتی ہے جب کہ دو ایلیمنٹری ایجوکیشن فراہم کرتے ہیں، دو انٹرمیڈیٹ کالج لڑکوں کے لیے اور دو ہی لڑکیوں کے لیے قائم ہیں۔
2010-11 میں تمام اسکولوں میں جماعت اول میں مجموعی داخلوں کا شمار 40691 جب کہ جماعت دہم میں 12140 رہا، جو آبادی اور مقررہ تعلیمی اہداف کے لحاظ سے انتہائی کم ہے۔ اسی تناظر میں ویلفیر انڈیکس رپورٹ پلاننگ اینڈ ڈیولپمینٹ ڈپارٹمینٹ بلوچستان اور ملٹی پل انڈیکس کلسٹر سروے 2010 کے مطابق 5 سال سے 10سال تک کی عمر کے اسکول نہ جانے والے بچوں کی شرح 57.8 فی صد رہی۔ تعلیم کے میدان میں یہ صورتِ حال انتہائی تشویش ناک ہے۔
زیادہ تر سرکاری اسکولوں اور کالجز میں بنیادی پینے اور استعمال کرنے کا پانی، بجلی، مدرسوں کی چار دیواری، فرنیچر، اسٹیشنری، جدید سائنسی آلات، لائبریری اور اسپورٹس کا سامان طالب علموں کو میسر نہیں ہے۔ ضلع پشین کے تمام تعلیمی اداروں سے متعلق حاصل کیے گئے اعدادوشمار کے مطابق 75 فی صد اسکولز ایسے ہیں، جہاں پینے کا صاف پانی تک دست یاب نہیں۔ 895 اسکولوں میں سے صرف 112میں بجلی کی سہولت موجود ہے جب کہ 783 میں بجلی کا نام و نشان نہیں۔ 317 اسکولوں کی چار دیواری موجود ہے جب کہ 578 اس سے محروم ہیں، جو اسکولوں کی مجموعی تعداد کا64.4 فی صد بنتے ہیں۔ کئی اسکولوں میں طلباء کو رفع حاجات کی سہولت حاصل نہیں ہے اور بیش تر فرنیچر سے محروم ہیں۔
پچھلے سال اسکولوں کو فراہم کیا گیا فرنیچر غیر معیاری نکلا اور تھوڑے عرصے بعد استعمال کے قابل نہیں رہا۔ 37 سیکنڈری اور 106 مڈل اسکولوں میں سے گورنمنٹ مڈل ہائی اسکول پشین، گرلز ہائی اسکول پشین، بوائزہائی اسکول مچان اور گرلز ہائی اسکول خانوزئی کے علاوہ کسی بھی اسکول میں لائبریری کا نام و نشان نہیں ہے۔ اکثر اسکولوں میں لیبارٹری میں بنیادی اور ضروری سائنسی آلات کی کمی ہے یا اکثر لیبارٹریاں چند وجوہ کی بناء پر غیر فعال ہیں۔ ان اہم اور بنیادی ضروریات کی عدم دست یابی کے بعد کھیل اور جسمانی تربیت سے متعلق سہولیات کا سوال ہی بے تُکا معلوم ہوتا ہے۔ سرکاری اداروں میں طلباء میں صحت مند جسمانی سرگرمیوں کے فروغ اور صلاحیتوں کے اظہار کا کوئی اہتمام نہیں ہے۔ اکثر تعلیمی اداروں کا سالانہ فنڈ خورد برد کی نذر ہوجاتا ہے۔ شہر کے بعد دور دراز کے علاقوں کا ذکر کیا جائے تو یہ صورت حال مزید خوف ناک معلوم ہو گی۔ وہاں اکثر اسکول یا تو بند یا ان کی عمارتیں مخدوش حالت میں ہیں اور اس وجہ سے غیر فعال ہیں۔
یہاں کے باسیوں نے جن سیاست دانوں کو منتخب کر کے ایوان میں بھیجا، وہ ان کے مستقبل کی طرف سے آنکھیں بند کر چکے ہیں اور تعلیم اور تربیت کے شعبے کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ منتخب نمائندے اپنے فنڈز کا معمولی حصہ بھی اس اہم شعبے پر خرچ کرنا مناسب نہیں سمجھتے۔ وہ منظور نظر افراد کو نوازنے اور اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے عوام کی رقم بے دریغ خرچ کرنے کے عادی ہو چکے ہیں اور ان حالات میں تبدیلی کے امکانات معدوم ہو چکے ہیں۔ ملک کے پسماندہ علاقے پشین اور اس جیسے دیگر علاقوں میں پچھلے چند سال کے دوران اگر کوئی تبدیلی آئی ہے، تو صرف یہ کہ انتہا پسندی اور تنگ نظری کو فروغ ملا ہے، جس نے ہر فرد اور شعبے پر منفی اثر ڈالا ہے۔
انفرادی اور اجتماعی ترقی اور کام یابی کے لیے ضروری ہے کہ ہم نیک نیتی اور خلوصِ دل سے اپنے فرائض انجام دیں، حکومت اور منتخب نمایندے شعبۂ تعلیم میں بہتری لانے کے لیے ٹھوس عملی اقدامات کریں جب کہ اساتذہ اور متعلقہ حکام اپنی ذمے داریاں دیانت داری سے نبھائیں۔
خواندگی کی شرح میں اضافہ کے بغیر معاشرے کی تعمیر و ترقی اور معاشی بہتری کا تصور محال ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں شعبۂ تعلیم دور رس نتائج کی حامل منصوبہ بندی اور بہتر و متوازن تعلیمی پالیسی سے محروم ہے اور اس کے منفی اثرات ہماری معاشی، سماجی، اخلاقی اور مجموعی ملکی صورت حال پر نمایاں طور پر دیکھے جاسکتے ہیں۔ وطن عزیز کے بڑے شہروں میں بھی اگرچہ سرکاری اسکولوں اور جامعات میں تعلیمی معیار اور تدریسی سہولیات سے متعلق صورت حال نامناسب ہے، لیکن چھوٹے شہروں، دیہات اور دور دراز کے علاقوں میں اسکولوں کی حالت انتہائی خراب ہے۔ صوبۂ بلوچستان میں بھی تعلیم کا شعبہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی عدم توجہی اور محکمۂ تعلیم کے کرتا دھرتاؤں کی غفلت و کوتاہیوں سے بری طرح متاثر نظر آتا ہے۔ یہی صورت حال ضلع پشین میں بھی ہے بلکہ تشویش ناک ہو چکی ہے۔
پشین میں تعلیمی اداروں میں بنیادی سہولیات کی فراہمی، طلبہ و طالبات کے داخلہ لینے کی شرح میں مسلسل کمی، والدین کی غفلت، غربت، سیاسی مداخلت اور تعلیم یافتہ اور ترقی پسند سیاسی قیادت کا فقدان، اساتذہ اور ان کی تنظیموں کے ذاتی مفادات اور آئے روز سیاسی اثر و رسوخ کی بناء پر اساتذہ کے تبادلوں نے اس کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ محکمۂ تعلیم کی ناقص پالیسیوں اور صوبائی وزراء کے غیر تسلی بخش اقدامات سے تعلیمی نظام اور بنیادی اسٹرکچر تباہ و برباد ہوگیا ہے۔ نوجوان طبقہ جدید تعلیمی سہولیات، معیاری تدریس میسر نہ آنے کی وجہ سے ناخواندگی، پسماندگی اور اس کے زیرِ اثر دیگر عوامل کا شکار ہو رہا ہے۔
اکثر سرکاری اسکولز سے اساتذہ کی مسلسل غیر حاضری اور نجی سرگرمیوں میں مشغول ہونے سے ان میں تدریس کا عمل معطل ہے، کئی اساتذہ حاضری لگانے اور تنخواہ لینے کی حد تک اسکولز کا حصہ ہیں اور مختلف نجی اداروں میں ملازمت کر رہے ہیں، جب کہ بعض اساتذہ، اساتذہ تنظیموں اور سیاسی اثر و رسوخ کی بدولت اپنے فرائض کی ادائیگی سے آزاد ہیں اور ان کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی جاتی۔
ضلع پشین میں3 ہزار تین سو سے زاید اساتذہ بھاری تنخواہیں، مراعات اور دیگر سہولیات لے رہے ہیں، لیکن اپنی ذمے داریاں پوری نہیں کرتے، جس سے چند سال کے دوران ضلع پشین میں تعلیمی نظام بری طرح متأثر ہوا ہے اور پڑھائی میں تسلسل نہ ہونے سے داخلے کی شرح میں خطرناک حد تک کمی جب کہ ڈرافٹ آئوٹ میں اضافہ ہو رہا ہے۔
ڈسٹرکٹ ایجوکیشن افسر کے دفتر سے فراہم کردہ معلومات اور تفصیلات کے مطابق پورے ضلع میں سرکاری تعلیمی اداروں کی تعداد 903 ہے، جن میں 8 کالجز، 752 پرائمری اسکولز، 106 مڈل، 37 ہائر سیکنڈری اسکولز اور 30 کے قریب نجی اسکول ہیں۔ ان میں سے 566 پرائمری، 58 مڈل اور 29 ہائی سیکنڈری اسکولز طلبہ کے لیے جب کہ 186پرائمری، 48 مڈل اور صرف 8 ہائی اسکولز طالبات کے لیے ہیں۔ آٹھ میں سے دو کالجز میں ڈگری کی سطح تک تعلیم دی جاتی ہے جب کہ دو ایلیمنٹری ایجوکیشن فراہم کرتے ہیں، دو انٹرمیڈیٹ کالج لڑکوں کے لیے اور دو ہی لڑکیوں کے لیے قائم ہیں۔
2010-11 میں تمام اسکولوں میں جماعت اول میں مجموعی داخلوں کا شمار 40691 جب کہ جماعت دہم میں 12140 رہا، جو آبادی اور مقررہ تعلیمی اہداف کے لحاظ سے انتہائی کم ہے۔ اسی تناظر میں ویلفیر انڈیکس رپورٹ پلاننگ اینڈ ڈیولپمینٹ ڈپارٹمینٹ بلوچستان اور ملٹی پل انڈیکس کلسٹر سروے 2010 کے مطابق 5 سال سے 10سال تک کی عمر کے اسکول نہ جانے والے بچوں کی شرح 57.8 فی صد رہی۔ تعلیم کے میدان میں یہ صورتِ حال انتہائی تشویش ناک ہے۔
زیادہ تر سرکاری اسکولوں اور کالجز میں بنیادی پینے اور استعمال کرنے کا پانی، بجلی، مدرسوں کی چار دیواری، فرنیچر، اسٹیشنری، جدید سائنسی آلات، لائبریری اور اسپورٹس کا سامان طالب علموں کو میسر نہیں ہے۔ ضلع پشین کے تمام تعلیمی اداروں سے متعلق حاصل کیے گئے اعدادوشمار کے مطابق 75 فی صد اسکولز ایسے ہیں، جہاں پینے کا صاف پانی تک دست یاب نہیں۔ 895 اسکولوں میں سے صرف 112میں بجلی کی سہولت موجود ہے جب کہ 783 میں بجلی کا نام و نشان نہیں۔ 317 اسکولوں کی چار دیواری موجود ہے جب کہ 578 اس سے محروم ہیں، جو اسکولوں کی مجموعی تعداد کا64.4 فی صد بنتے ہیں۔ کئی اسکولوں میں طلباء کو رفع حاجات کی سہولت حاصل نہیں ہے اور بیش تر فرنیچر سے محروم ہیں۔
پچھلے سال اسکولوں کو فراہم کیا گیا فرنیچر غیر معیاری نکلا اور تھوڑے عرصے بعد استعمال کے قابل نہیں رہا۔ 37 سیکنڈری اور 106 مڈل اسکولوں میں سے گورنمنٹ مڈل ہائی اسکول پشین، گرلز ہائی اسکول پشین، بوائزہائی اسکول مچان اور گرلز ہائی اسکول خانوزئی کے علاوہ کسی بھی اسکول میں لائبریری کا نام و نشان نہیں ہے۔ اکثر اسکولوں میں لیبارٹری میں بنیادی اور ضروری سائنسی آلات کی کمی ہے یا اکثر لیبارٹریاں چند وجوہ کی بناء پر غیر فعال ہیں۔ ان اہم اور بنیادی ضروریات کی عدم دست یابی کے بعد کھیل اور جسمانی تربیت سے متعلق سہولیات کا سوال ہی بے تُکا معلوم ہوتا ہے۔ سرکاری اداروں میں طلباء میں صحت مند جسمانی سرگرمیوں کے فروغ اور صلاحیتوں کے اظہار کا کوئی اہتمام نہیں ہے۔ اکثر تعلیمی اداروں کا سالانہ فنڈ خورد برد کی نذر ہوجاتا ہے۔ شہر کے بعد دور دراز کے علاقوں کا ذکر کیا جائے تو یہ صورت حال مزید خوف ناک معلوم ہو گی۔ وہاں اکثر اسکول یا تو بند یا ان کی عمارتیں مخدوش حالت میں ہیں اور اس وجہ سے غیر فعال ہیں۔
یہاں کے باسیوں نے جن سیاست دانوں کو منتخب کر کے ایوان میں بھیجا، وہ ان کے مستقبل کی طرف سے آنکھیں بند کر چکے ہیں اور تعلیم اور تربیت کے شعبے کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ منتخب نمائندے اپنے فنڈز کا معمولی حصہ بھی اس اہم شعبے پر خرچ کرنا مناسب نہیں سمجھتے۔ وہ منظور نظر افراد کو نوازنے اور اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے عوام کی رقم بے دریغ خرچ کرنے کے عادی ہو چکے ہیں اور ان حالات میں تبدیلی کے امکانات معدوم ہو چکے ہیں۔ ملک کے پسماندہ علاقے پشین اور اس جیسے دیگر علاقوں میں پچھلے چند سال کے دوران اگر کوئی تبدیلی آئی ہے، تو صرف یہ کہ انتہا پسندی اور تنگ نظری کو فروغ ملا ہے، جس نے ہر فرد اور شعبے پر منفی اثر ڈالا ہے۔
انفرادی اور اجتماعی ترقی اور کام یابی کے لیے ضروری ہے کہ ہم نیک نیتی اور خلوصِ دل سے اپنے فرائض انجام دیں، حکومت اور منتخب نمایندے شعبۂ تعلیم میں بہتری لانے کے لیے ٹھوس عملی اقدامات کریں جب کہ اساتذہ اور متعلقہ حکام اپنی ذمے داریاں دیانت داری سے نبھائیں۔