خواتین کا تحفظ

25 مذہبی جماعتوں کے مشترکہ اجلاس میں اس عزم کا اعادہ کیا گیا ہے

advo786@yahoo.com

KANDAHAR:
24 فروری کو حکومت پنجاب نے صوبائی اسمبلی سے ویمن پروٹیکشن بل متفقہ طور پر منظور کرواکر ایک ایکٹ کی صورت میں نافذ کردیا، اس قانون پر اسلامی نظریاتی کونسل اور خصوصاً علما اور مذہبی جماعتوں نے شدید اعتراضات اور تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے شدید احتجاج کیا اور حکومت کو 27 مارچ تک اس قانون کو ختم کرنے کی ڈیڈ لائن دیتے ہوئے حکومت سے کہا ہے کہ وہ مغربی ایجنڈے سے لاتعلقی کا اعلان کرے اور اسلامی نظریاتی کونسل کی مشاورت سے نیا بل لایا جائے۔

25 مذہبی جماعتوں کے مشترکہ اجلاس میں اس عزم کا اعادہ کیا گیا ہے کہ قانون ختم نہ کرنے کی صورت میں 2 اپریل کو آیندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کیا جائے گا۔ اطلاعات کیمطابق حکومت پنجاب کے نافذ کردہ ویمن پروٹیکشن ایکٹ کو وفاقی شرعی عدالت اور عدالت عالیہ میں چیلنج کردیاگیا ہے، صورتحال کے تناظر میں ایکٹ کا وجود خطرے میں پڑتا نظر آرہا ہے۔

خواتین کے تحفظ کے نام پر نافذ کردہ اس قانون کے تحت گھریلو تشدد، جذباتی و نفسیاتی تشدد، معاشی استحصال، بدکلامی اور سائبر کرائمز پر قید و جرمانے کی سزائیں ہوںگی، قانون کے متن کے لحاظ سے اس قانون کا اطلاق صرف شوہروں پر ہی نہیں بلکہ ان اقدام کے مرتکب ماں باپ، بھائی بہن پر بھی ہوسکتا ہے، اس میں تشدد کی جو اقسام بتائی گئی ہیں ان میں مارپیٹ، جسمانی تشدد اور سائبر کرائمز کے علاوہ جذباتی و نفسیاتی اور معاشی استحصال اور تشدد کو ثابت کرنا انتہائی مشکل امر لگتا ہے۔

قانون کے تحت خواتین سے مارپیٹ کرنے والے مرد کو ایک جی پی ایس ٹریکر والا کڑا لگاکر اس کی نگرانی کی جائے گی اور کڑا اتارنے پر بھی قید و جرمانے کی سزا رکھی گئی ہے۔ خبر کے مطابق یہ کڑا تیار کرلیا گیا ہے جس پر تحریر ہے کہ ''یہ تشدد پسند شخص ہے''۔ کلائی یا ٹخنے میں کڑا لگاکر مجرم کی سرعام تشہیر و نگرانی کرنا بذات خود اس کی عزت نفس کی پامالی اور نجی زندگی میں دخل اندازی کے مترادف غیر اخلاقی و غیر آئینی عمل ہے۔

قانون کے تحت عورت پر ہاتھ اٹھانے والے مرد کو دو دن کے لیے گھر سے بے دخل کرنے اور تشدد کے مرتکب شخص کا اسلحہ تھانے میں جمع کرانے کا اختیار بھی دیا گیا ہے۔ کسی شخص کو اپنے ہی گھر سے 2 دن کے لیے بے دخل کردینا شاید اسے دو دن کے لیے قید کردینے کے عمل سے بھی زیادہ تکلیف دہ امر ہوگا۔ اس کا نفسیاتی ردعمل کیا ہوسکتا ہے؟ اور اگر خاوند کو گھر سے نکال دیا جائے تو خاندان والوں کا اس کی بیوی سے کیا سلوک ہوگا؟ یہ سزا انتقامی ردعمل کا باعث بن سکتی ہے۔

جس سے کسی اصلاح و سدھار کے بجائے مصالحت کا باب ہمیشہ کے لیے بند ہوسکتا ہے، ابھی اس قانون پر میڈیا میں بحث جاری تھی کہ پنجاب کے ایک علاقے میں ایک سفاکانہ واقعہ پیش آیا۔ خبر کے مطابق ایک بیوی نے اپنے شوہر کو دھمکی دی تھی کہ وہ پولیس کے ذریعے اسے گھر سے نکلوا دے گی، جس پر شوہر نے مشتعل ہوکر اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر بیوی کو جلا ڈالا۔ گھریلو تشدد کے لیے کسی اسلحہ کی ضرورت نہیں ہوتی، یہ تو چہرے کے تاثرات، آواز کے زیرو بم سے لے کر مارپیٹ اور چاقوزنی تک سے کیا جاتا ہے۔

جو ہر گھر اور ہر مرد کی دسترس میں ہوتے ہیں، اس قانون کے تحت اگر کسی خاتون کو تشدد کے نتیجے میں جان کا خطرہ ہو تو وہ بچوں سمیت شیلٹر ہومز میں پناہ لے سکتی ہے۔ بظاہر تو قانون کی یہ شق اچھی نظر آتی ہے لیکن اس کا غلط استعمال گمبھیر صورتحال پیدا کرسکتا ہے۔ اس قانون میں پروٹیکشن سینٹر اور پروٹیکشن آفیسر تعینات کیے جائیں گے، جو کسی بھی وقت کسی بھی گھر میں داخل ہوسکیںگے۔


وزیر قانون نے کہہ دیا ہے کہ اس قانون کے تحت پولیس کو استعمال نہیں کیا جائے گا، پروٹیکشن آفیسر کی اہلیت، صلاحیت اور دانش عظیم یا عزائم خاندانی نظام پر براہ راست مرتب ہوںگے، خاندانی تنازعات کی نوعیت دیگر تنازعات سے بہت مختلف اور حساس و جذباتی نوعیت کی ہوتی ہے، اس کے مصالحت کار یا قاضی کا معاملہ فہم، خداترس اور با کردار ہونا لازمی ہے، جو دور رس نظر رکھنے والا ہو، انسانی نفسیات اور معاشرتی سوچ اور رویوں کو سمجھتا ہو۔

اس قانون کے مخالفین کا کہنا ہے کہ سرکار نے ایک جانب تو خوش نما نعرے لگاکر خواتین کو بے وقوف بناکر ان کی ہمدردیاں سمیٹ کر شہرت حاصل کرنے کی کوشش کی ہے تو دوسری جانب مغربی ایجنڈے پر کام کرکے اپنے آقاؤں کو خوش کیا ہے۔ این جی اوز بھی خواتین کے حقوق کے نام پر شہرت، ہمدردیاں اور فنڈز اکٹھا کررہی ہیں، خواتین کے تحفظ کے قانون کی مخالفت اور حمایت میں دو گروپ برسر پیکار اور فعال نظر آرہے ہیں جس میں ایک گروپ علما اور مذہبی جماعتوں کا ہے جو اس قانون کی مخالفت پر کمربستہ ہیں، دوسرا گروپ لبرل، روشن خیال سیاسی شخصیات اور این جی اوز پر مشتمل ہے۔

دونوں گروہ قانون کی روح اور مندرجات پر بحث و تمحیص اور منطقی رائے زنی کے بجائے اس کی مخالفت برائے مخالفت یا بے جا حمایت پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ ایسے ماحول میں دانشوروں، قانون دانوں اور ماہرین سماجیات و عمرانیات کا کردار بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ وہ اس ایکٹ کے قانونی پہلو کے علاوہ اس کے سماجی پہلو اور معروضی حالات میں اس کے اثرات و نتائج کا جائزہ لے کر مبنی برحقیقت رہنمائی کریں۔

ہماری سیاسی و مذہبی جماعتوں اور حکومت پر تو عوام کا اعتماد متزلزل ہوچکا ہے، این جی اوز کا کردار و سرگرمیاں ان کے اہداف، عزائم اور مفادات ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ پچھلے سال بچوں کے لیے کام کرنے والی ایک غیر ملکی این جی او ''سیودی چلڈرن'' کے پاکستان مخالف سرگرمیوں میں ملوث پائے جانے کے بعد اس کے دفتر سیل اور غیر ملکی عملے کو ملک چھوڑنے کا حکم دیا گیا تھا اور وزیراعظم کی زیر صدارت اجلاس میں پاکستان میں کام کرنے والی غیر ملکی این جی اوز کی رجسٹریشن اور چھان پھٹک کا عمل شروع ہوا، جو اب تک جاری ہے اور اب وزارت داخلہ نے 25 غیر ملکی این جی اوز کو پاکستان میں کام کرنے کی باقاعدہ اجازت دی ہے۔

نصف سے زیادہ آبادی کی حامل خواتین کے مسائل پر ہمیشہ سیاست و خود نمائی کی گئی ہے، ان کے مسائل کو کبھی سنجیدہ طور پر نہیں لیا گیا، خواتین کے حقوق کے علمبرداروں میں اتنی اخلاقی جرأت بھی نہیں کہ وہ خواتین کے عالمی دن کے موقع پر سہ ریاستی ظلم کا شکار ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا تذکرہ ہی کرلیں۔ جس کی بیگناہی کی گواہی خود سابق امریکی عہدیدار، قانون دان اور وہاں کے شہری دے رہے ہیں۔

اس کی رہائی کے لیے پاکستان اور دیگر ممالک کے دورے کرکے عوام کو بیدار اور حکمرانوں کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کی کوششیں کررہے ہیں، ہائی کورٹ نے بھی حکومت کو پابند کیا ہے کہ عافیہ کی رہائی کے لیے ہر ممکنہ کوششیں کرکے رپورٹ پیش کرے۔ ملک میں طبی سہولتیں نہ ہونے کی وجہ سے ہر سال دوران زچگی لاکھوں خواتین موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں، جہیز نہ ہونے کی وجہ سے لاکھوں لڑکیاں بڑھاپے کی دہلیز پر پہنچ چکی ہیں، نکاح مشکل اور غلط کاریاں آسان ہورہی ہیں۔

جبری، کم عمری اور وٹہ سٹہ کی شادیاں، وراثت سے محرومی کے لیے قانون سے شادی، ونی، سوارہ، کاروکاری خواتین کو زندہ دفنادینا اور پھر اسکورٹنی ثقافت قرار دے کر وکالت کرنے جیسے عمل میں حکومت سیاست دان انسانی حقوق کے علمبردار ان کا تدارک کیوں نہیں کرتے۔ کیا یہ درست نہیں ہے کہ خواتین تحفظ بل میں خواتین کے خلاف جس جسمانی، جذباتی، نفسیاتی و معاشی استحصال اور تشدد کا ذکر کیا گیا ہے وہ حکمرانوں نے اس ملک کے تمام عوام کے ساتھ روا رکھا ہوا ہے، ایک مذموم منصوبہ بندی کے تحت قوم کی توجہ اصل مسائل سے ہٹاکر خوش نما و پرفریب دعوؤں اور بحث و تمحیص کے چٹخاروں پر مرکوز کرا دی جاتی ہے۔

حالات کا تقاضا و ضرورت تو یہ ہے کہ خاندان کے بکھرتے شیرازے کو مضبوط بنایا جائے۔ میاں بیوی کا رشتہ اعتماد اور احساس کا ہوتا ہے اس کے لیے اسے خوش گوار گھریلو نظام کے تشکیل کی کوشش کی جائے، جس میں خواتین کو ان کے حقوق اور تحفظ حاصل ہو، ان کی عزت نفس بحال رہے اور مردوں کو بھی ذہنی اذیت و انتشار سے دوچار نہ ہونا پڑے۔ کوئی ایسا اقدام نہ کیا جائے جس سے خانگی زندگی میں استحکام کے بجائے معاشرتی فساد و انتشار برپا ہو اور تنازعات میں کمی یا مصالحت کی صورتحال کے بجائے معاملات مزید خراب ہوں۔
Load Next Story