وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ

کوئی مانے یا نہ مانے، ہم اہل پاکستان غلط معمولات کی ایک طویل تاریخ رکھتے ہیں۔

کوئی مانے یا نہ مانے، ہم اہل پاکستان غلط معمولات کی ایک طویل تاریخ رکھتے ہیں۔ اور یہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ہمارے ہاں جن کی کھوپڑیوں میں دماغ ہے، وہ دھکے کھاتے پھرتے ہیں اور جن کی کھوپڑیاں خالی ہیں وہ یا تو منصب سنبھالے بیٹھے ہیں یا پھر ان کے سروں پر انعام مقرر کردیے جاتے ہیں۔

اور یہ بھی ہمارے عہدے کا قصور ہے کہ جس نے معاشرے میں نزاکت کی جگہ خرافات بھر دی ہیں، ہم فن کی گہرائیوں میں سے بھی فضولیات تلاش کرتے رہتے ہیں، ہم فن، آرٹ اور ہنر یا تخلیق پر ناز کرنے، فخر کرنے والوں کو جنھیں عالمی سطح پر ایوارڈز یا اعزازات، پذیرائی اور تحسین ملتی ہے، انھیں متنازعہ یا قابل نفرت بناکر پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

یہ کوشش یا اچھی حرکت پاکستان کی ایک ہونہار لائق فائق بیٹی شرمین عبید چنائے کے حوالے سے حال ہی میں کی گئی ہے اور جابجا ثقافتی اور میڈیا کے حلقوں میں اسے منفی انداز سے ایکسپوز کیا جارہا ہے۔ حالانکہ ہمارے ملک پاکستان کے لیے یہ امر بڑے فخر و انبساط کا موجب ہونا چاہیے کہ اس سرزمین سے وابستہ کراچی میں پیدا ہونے والی شرمین عبید چنائے نے صرف چار سال کے عرصے میں دوسری بار آسکر ایوارڈ حاصل کر کے دنیا بھر کی شوبز انڈسٹری میں ہلچل مچادی ہے اور دنیا بھر کو یہ پیغام دے دیا ہے کہ پاکستانی خواتین زندگی کے ہر شعبے میں بے پناہ صلاحیت رکھتی ہیں۔

شرمین نے 2012 میں دستاویزی فلم سیونگ فیس پر پہلی بار آسکر ایوارڈ جیتا تھا اور اب گزشتہ ماہ امریکی شہر لاس اینجلس میں 88 واں اکیڈمی ایوارڈ اپنی دوسری فلم ''دا گرل ان دا ریور'' کے حوالے سے اپنے نام کیا ہے۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ مغربی امداد سے ہرگز نہیں، مغربی انعامات یا اعزازات سے ہمیں خدا واسطے کا بیر ہے، اگر واقعی ایسا ہے تو پھر کیوں ڈیڑھ ارب مسلمان اپنا ایک ایوارڈ شروع نہیں کرتے جس کی دنیا بھر میں ساکھ ہو، ہم خود اعلیٰ معیار کی فلمیں بنائیں اور پھر جسے چاہیں انعام دیں مگر ہمیں یہ کام نہیں کرنا اور تنقید چونکہ اس دنیا کا سب سے آسان کام ہے، لہٰذا فوراً وہ کرتے ہیں۔

شرمین عبید چنائے پر چارج یہ لگتا ہے کہ یہ محترمہ اپنی دستاویزی فلموں کے ذریعے پاکستان کا منفی چہرہ دنیا کو دکھاتی ہیں۔ پہلے پاکستان میں خواتین کے چہرے پر تیزاب پھینکنے پر فلم بنائی اور اب غیرت کے نام پر قتل کی فلم بنا ڈالی۔ ایک طبقے کا یہ کہنا ہے کہ شرمین اپنی ڈاکومینٹری فلموں سے یہ ثابت کرنا چاہتی ہے کہ پاکستان کے گلی کوچے میں خواتین کے ساتھ ظلم و ستم ہورہا ہے اور مغرب کو تو بہانہ چاہیے پاکستان کو بدنام کرنے کا، اس لیے شرمین کی دونوں فلموں کو آسکر ایوارڈ دے دیاگیا۔ ایک حلقے کا یہ کہنا ہے شرمین نے وطن کی عزت پر دھبہ لگادیا ہے۔

انھوں نے پاکستان کے دکھ بیچ کر شہرت حاصل کی ہے۔ ایک نقاد نے کہا ہے کہ یہ فلم پاکستان کے خلاف امریکا کی سازش ہے، بعض دور اندیشوں نے امریکن نژاد شرمین عبید چنائے کو مغربی ایجنٹ قرار دیا۔ مصطفیٰ قریشی سمیت ہمارے بعض دوسرے اداکاروں نے بھی شرمین کے کام پر تنقید کی ہے اور انھیں معاشرے کا مثبت چہرہ دکھانے کی تجویز پیش کی ہے۔ کسی دور کے پاکستان فلم انڈسٹری کے شومین سید نور نے میڈیا کو بتایا ہے کہ شرمین نے ''اے گرل ان دی ریور'' کی کہانی ان کی فلم کی کہانی سے چوری کی ہے اور فلم کا ٹائٹل بھی چرالیا ہے، جسے وہ دو برس سے مکمل کرنے کی کوشش میں اب تک کامیاب نہ ہوسکے۔

یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ ہماری لاہور کی قدیم فلمی انڈسٹری گزشتہ طویل برسوں سے ''تازہ خون'' کی کمیابی یا عدم دستیابی سے لاغر سے لاغر ہوتی جارہی ہے اور اب وینٹی لیٹر پر پہنچ گئی ہے، اس سے وابستہ فرعون صفت یا رجعت پسند دقیانوس لوگوں کی غالب اکثریت ہمیشہ سے اچھے کام کی دشمن رہی ہے اور اس قسم کے کام کرنے والوں کو وہ کبھی آگے بڑھنے نہیں دیتی تھی، یہ لوگ اپنے آپ کو سبھی کچھ اور نئے ٹیلنٹ کو کچھ بھی نہیں سمجھتے تھے، نتیجے میں وقت سے پہلے یہ اپنی موت آپ مر گئے۔ ویسے بھی تاریخ کا قبرستان ہمیشہ سے ان لوگوں سے بھرا پڑا ہے جن کا اپنے بارے میں یہ خیال تھا کہ دنیا ان کے بغیر نہیں چل سکتی۔


جہاں تک ہماری فلموں کا تعلق ہے تو وہ عرصہ دراز سے عرصہ دراز تک گجروں، بدمعاشوں یا بدنام زمانہ لوگوں کی من مانیوں تک محدود رہیں، بھاری بھرکم ہیروئنیں، بے سروپا کہانیوں، احمقانہ ٹریٹ منٹ، دلکش موسیقی و نغمات سے عاری، ذومعنی مکالموں اور ہیجان انگیز رقصوں کو ہمارے ہاں ایک طویل مدت سے فلم سمجھا جارہا تھا، ''خدا کے لیے''، ''بول'' اور ''چنبیلی'' جیسی بین الاقوامی معیار کی مصنوعاتی فلموں نے پاکستانی سینما کی جدیدیت، مقصدیت اور صلاحیت سے توانا یا آراستہ کردیا ہے۔کون نہیں جانتا، کسے نہیں معلوم کہ فلم ذریعہ ابلاغ کا سب سے موثر اور طاقتور میڈیم ہے اور ترقی یافتہ اور ذہین ممالک اس کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔

دنیا بھر میں متوازی سینما بھی ہیں اور پروپیگنڈہ فلمیں بھی وہاں بنائی جاتی ہیں لیکن اگر ہمارے ہاں کوئی ایسی جرأت کرے تو اس پر تنقید اور الزامات کی بوچھاڑ کردی جاتی ہے، ہم اگر اچھے کاموں کی تحسین کے معاملے میں پیدائشی طور پر اپاہج یا تنگ دل ہیں اور دوسرے ملک ہماری اچھی کاوش کو اعزاز سے نوازتے ہیں تو ہمیں ایسے ہنرمندوں یا تخلیق کاروں کی اہمیت کو گھٹانے کے بجائے اس پر فخر کرنا چاہیے۔

اگر ملالہ یا شرمین نے کسی حوالے سے پاکستان کا نام روشن کردیا ہے تو یہ دقیانوسی خودپسند اور علم سے نابلد لوگ جو ان کے پیچھے پڑے ہیں پہلے علم، فلم و فن کی نازکی یا حساسیت اور باریکی کو تو سمجھیں، انھیں تو شاید ڈاکومینٹری کا مطلب بھی معلوم نہیں ہوگا۔ یہ فلم کتنے انداز اور کتنے کھٹن مراحل سے گزر کر سامنے آتی ہے اور دنیا سے اپنا آپ منواتی ہے، ایسے شاہ دولا کے چوہے اپنی اصلاح اور تربیت کے لیے صرف Cinema Verite کے بارے میں پڑھ اور جان لیں تو انھیں فائدہ پہنچے گا۔

اچھے کاموں کی تحسین اور پذیرائی کے معاملے میں ہم پاکستانی ہمیشہ سے تنگ دل اور تنگ نظر واقع ہوئے ہیں اور اکثر شدت سے یہ احساس ہوتا ہے کہ بہتری، ستائش اور سراہے جانے کے امکانات ختم ہوتے جارہے ہیں، ان حالات میں جب یہ خبریں آتی ہیں کہ ملالہ کو امن کا نوبل پرائز ملا ہے اور شرمین کو آسکر ایوارڈ دیا گیا ہے تو یہ احساس ہوتا ہے کہ آج کے مایوس کن پاکستان کا ایک روشن پہلو بھی ہے اور جب یہ روشن پہلو خواتین جیسی صنف نازک کی طرف سے میسر آئے تو دل باغ باغ ہوجاتا ہے کہ ہماری سرزمین سے وابستہ خواتین پاکستان کا ایک روشن اور بہترین چہرہ دنیا کو دکھانے کی سعی کررہی ہیں۔

حیران کن بات یہ ہے کہ 21 ویں صدی کے ترقی یافتہ دور میں بھی مردوں کی سوچ، مزاج اور رائے نہیں بدلی، آج بھی ہمارے معاشرے کو مردوں کا معاشرہ کہا جاتا ہے، یہی نہیں کم و بیش ہر ملک کی جائزہ رپورٹوں میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ خواتین کی صلاحیتوں سے بھرپور استفادہ نہیں کیا جارہا، ہمارا ملک پاکستان اس حوالے سے انفرادیت کا حامل کہلایا جائے گا کہ اس ملک کی خواتین نے باورچی خانے سے نکل کر اقتدار کے ایوانوں سے خلا تک وہ سب کچھ کر دکھایا ہے جس کی مردوں کو توقع نہیں تھی۔ باوجود اس کے ہمارے سماج میں خواتین بے پناہ مسائل کا شکار چلی آرہی ہیں، انھیں جانوروں سے بدترین زندگی گزارنے پر مجبور کردیا گیا ہے۔

گھروں میں وہ کال کوٹھریوں کی طرح رہ رہی ہیں، ان حالات کے باوجود ہمارے ملک و معاشرے ہی کی دلیر اور پروگریسیو عورت نے ہر شعبہ جات میں اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر اپنے آپ کو تسلیم کروایا ہے۔ اور یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ اب پاکستانی معاشرے میں غیر شعوری طور پر خواتین کے مثبت اور ٹھوس کردار کو تسلیم کرلیاگیا ہے اور غیر محسوس طریقے سے خواتین کی مساعی کامیابی سے ہمکنار بھی ہوتی چلی جارہی ہے۔

شرمین عبید چنائے نے اس حوالے سے جاندار پیش رفت کردی ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ معاشرے کے ذہنی ارتقا اور سماجی رویوں کی تبدیلی میں حصہ لینے والے دوسرے افراد بھی ہمارے ملک و معاشرے میں ہونے والے مظالم کے خاتمے میں کیا کردار ادا کرتے ہیں اور اسے کس طرح ماضی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں سے نکل کر روشن مستقبل کی طرف لے کر جاتے ہیں۔
Load Next Story