مارشل لاء کیوں نہیں لگ رہا
اگر کوئی سینئیر فوجی اس وقت اٹھ کر سچ بول رہا ہے تو وہ اس وقت کیوں نہیں بولا جس وقت وہ اس ’’ سچ ‘‘ کا حصہ تھا۔
NEW DEHLI:
'' چیف صاحب نے دھمکی دے دی!!!'' بار بار وہ ایک ہی صدا لگاتا میری گاڑی کے پاس سے گزرا تو میں نے کوشش کی کہ کسی طرح نظر اخبار کی سرخی پر پڑ جائے... گھر سے صبح سویرے نکلنے کا سب سے بڑا نقصان یہی ہے کہ نہ ٹی وی آن کر کے خبریں سننے کا وقت ملتا ہے نہ ہی اخبار پہنچتا ہے اور یوں ایک نا مکمل سی '' سرخی '' کا تجسس بھرا تاگا ہاتھ میں پکڑے اسکول پہنچی تو اسی بات کا انتظار تھا کہ کسی اور سے اس خبر کا باقی سرا مل جائے گا۔
'' اب انتظار کس بات کا ہے... مارشل لاء کیوں نہیں لگ رہا ہمارے ملک میں؟ '' میں نے نظر اٹھا کر حیرت سے دیکھا اور ایک لمحہ نہ لگا مجھے یاد کرنے میں کہ انھی لبوں سے... اسی منہ سے کچھ عرصہ پہلے یہ الفاظ ادا ہوئے تھے، '' ملک کا صدر ملک کا چنیدہ سربراہ ہوتا ہے... ( یہ وضاحت ہر گز نہ تھی کہ اسے کس نے چنا )، اپوزیشن بھی معزول حکمرانوں کا ٹولہ ہوتی ہے، وہ لوگ جنھیں عوام کے نمایندے کہا جاتا ہے، جنھیں عوام اپنے ہاتھوں سے منتخب کرتے ہیں، اور چیف... چیف جسٹس ہو یا چیف آف آرمی اسٹاف... تنخواہ دار لوگ ہیں جنھیں ان کی ملازمت کا عوضانہ ملتا ہے، وہ ہر گز اس پوزیشن میں نہیں ہوتے کہ وہ ملک کے حکمرانوں یا اپوزیشن کو dictation دیں۔
'' کیا بات ہے... کیوں اتنی جلدی آپ کے سنہری خیالات بدل گئے ہیں، میں نے حیرت سے پوچھا۔
'' جانے کیا وجہ ہے کہ اتنی دھند ہے، سمجھ میں نہیں آتا کہ کس طرح مطلع صاف ہو گا، مجھے لگتا ہے کہ مارشل لاء ہی ہمارا علاج ہے... ہم جمہوریت کے مستحق ہی نہیں ہیں!!'' تاریخ کی استاد کے منہ سے ایسی باتیں۔
'' اس روز تو آپ نے دلائل کی رو میں مجھے فوج کی چمچی کہہ دیا تھا... یہ جانے بغیر کہ ہماری کمزوریاں کیا ہیں اور طاقت کیا...'' میں نے حیرت سے پوچھا۔
'' وہ تو ہے... مگر اس بات پر مجھے کوئی افسوس نہیں، کسی نہ کسی کو تو فوج کی حمایت بھی کرنا ہو گی! ''
'' کاش ہم سمجھ لیں کہ فوج کے خلاف بول کر ہم خود کو کتنا کمزور کر رہے ہیں... ایک کرکٹ میچ ہوتا ہے تو ہم سب مصلے بچھا کر دعاؤں میں مصروف ہو جاتے ہیں، کرکٹ ٹیم کی پشت پر کھڑے ہوتے ہیں، ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں... اور وہ جو ہمہ وقت گولیوں کی بوچھاڑ کے سامنے ڈٹے کھڑے ہوتے ہیں، جو ہماری سرحدوں کے ، ہماری عزتوں کے محافظ ہیں، ان کے لیے داد و تحسین تو ایک طرف، ہماری ملامتیں اور محاذ آرائیاں ہی ختم نہیں ہوتیں!''
'' تو پھر وہ کیوں نہیں ملک کی عنان سنبھالتے؟ ''
'' کیا آپ کو لگتا ہے کہ فوج کی حالیہ قیادت اس بات میں دلچسپی رکھتی ہے؟ اگر ایسا تھا تو گزشتہ چار سالوں میں کیا کوئی ایسا موقع نہ تھا جب فوج اقتدار سنبھال لیتی تو قوم اس کے پیچھے کھڑی ہوتی؟ ''
'' کئی بار... کئی بار ایسے مواقعے آئے بلا شبہ! '' انھوں نے میری بات کی تائید کی، '' جانے کیوں نہیں سنبھالا پھر انھوں نے اقتدار؟ ''
''در حقیقت تو اس ملک کے سارے مسائل کا حل ہی ڈکٹیٹر شپ ہے... جمہوری عمل ان ملکوں میں کامیاب ہے جہاں لوگوں میں شعور ہے، تعلیم ہے اور انھیں علم ہے کہ ان کے چنیدہ نمایندوں کے کیا اختیارات ہیں، کیا حقوق اور کیا فرائض۔ ہمارے ہاں شعور ہے نہ تعلیم، عقل ہے نہ کوئی ضابطہ اخلاق... جو شخص بھی اس ملک کا سربراہ منتخب ہوتا ہے،ا س سے اگلے روز اس کے بارے میں ہر میڈیا پر اس کی '' عزت افزائی '' شروع ہوجاتی ہے۔ ٹیلی وژن کے مزاحیہ پروگرام ہوں یا ٹیلی فون کی پیغامات کی سروس، کھلے عام منفی زبان اور گالیاں... یہ ہمارے اخلاق ہیں اور یہ ہمارا عزت کا معیار!!!''
'' کسی حکمران نے کچھ دیا ہو ہمیں تو ہم سے عزت کروائے ... مشرف صاحب کہتے رہے کہ انھوں نے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کر دیا ہے، جو ترقی انھوں نے ہمیں دی ہے وہ موبائل ٹیلی فون اور انٹر نیٹ کا بے جا استعمال ہے اور اس ماڈرن ازم کے نام پر ہماری پوری نوجوان نسل کو گمراہی کی راہ پر ڈال دیا ہے کہ انھیں اپنے ماں باپ بھی دشمن نظر آنے لگے ہیں! آرمی چیف نے کھلم کھلا الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ ملک کے مفادات سب کے مفادات سے اہم ہیں اور وہ کسی کو ملکی سالمیت سے کھیلنے کی اجازت نہیں دیں گے ... یہی بات کہنے کی بجائے اگر وہ ...''
'' یہ ہر گز اس مسئلے کا حل نہیں ہے، مارشل لاء سب سے پہلے فوج کو نقصان پہنچاتا ہے!!'' میں نے فوراً ان کی بات کاٹی، '' ہر ادارہ اپنے دائرہ اختیار میں رہ کر کام کرتا ہی اچھا لگتا ہے اور فروغ پاتا ہے۔ جس کا کام ، اسی کو ساجھے... جن کا کام ملک کو چلانا ہے وہ چلائیں،مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ مخلص قیادت ہو کہ جس کو اس ملک اور اس کے عوام کے مسائل کا ادراک ہو، احساس ہو اور ان کے دل میں ان مسائل کو حل کرنے کی لگن ہو... اپنے اقتدار کو طول دینے کی ہوس ہو نہ اپنے ذاتی مفادات ترجیح ہوں!! ''
'' تو ایسے حکمران کیا آسمان سے ٹپکیں گے؟ '' انھوں نے ہنس کر کہا، '' کتنا potential ہے اس ملک میں کہ جسے آج تک آنے والے زیادہ تر حکمران لوٹتے اور بھنبھوڑتے رہے ہیں مگر پھر بھی اس میں جان ہے... ''
'' چیف آف آرمی اسٹاف کی طرف سے میڈیا کے ساتھ ساتھ ہر ادارے کے لیے پیغام ہے کہ ہر کوئی اپنے دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے کام کرے اور گڑھے مردے نہ اکھاڑے جائیں، اس سے افراد نہیں بلکہ ان کے ذاتی '' کارناموں '' کی وجہ سے اداروں کی عزت خطرے میں پڑ جاتی ہے، فوج کے خلاف محاذ آرائی کوئی معمولی بات نہیں، جہاں عوام اور فوج کے درمیان غلط فہمیوں کی دیوار کھڑی کر کے انھیں ایک دوسرے کے دوبدو لا کھڑا کرنے کی سازش ہو رہی ہے، وہاں فوج کس دل سے عوام کی حفاظت کی ذمے داری ادا کرے... ''
'' فوج نے کچھ غلط کیا ہو گا توا س کے بارے میں بات ہو گی نا؟ ''
'' سانپ گزر جائے تو لکیر پیٹنے کا کوئی فائدہ نہیں... اگر کوئی سینئیر فوجی اس وقت اٹھ کر سچ بول رہا ہے تو وہ اس وقت کیوں نہیں بولا جس وقت وہ اس '' سچ '' کا حصہ تھا، کیونکہ اس وقت انھیں مفادات کا حصہ مل رہا تھا اور اب انھیں کہیں نہ کہیں سے حصہ مل رہا ہو گا بعد از وقت انکشافات کرنے پر... ''
'' سب ایسا ہی کرتے ہیں... ''
'' جب آپ ایک غلط کام کا حصہ بنیں، اس کام کو ہونے سے نہ روکیں، اس وقت ضمیر کی آواز نہ سنیں اور بعد میں اپنے ضمیر کی بیداری اور اس سے مربوط کوئی نہ کوئی مفاد آپ کو اپنے اس ادارے یا ملک سے غداری پر آمادہ کر دے اور ماضی کو اچھال اچھال کر حال کے مسائل میں اضافہ کیا جا رہا ہو، میڈیا ان باتوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہا ہو تو پھر کسی نہ کسی کو آگے بڑھنا ہوتا ہے... سیاسی طور پر حالات کمزور ہیں، اداروں کے مابین تصادم کی فضا ہے تو کوئی کچھ نہ کرے... فوج ایک پیشہ ور اور غیر متعلقہ ادارہ صرف ان ملکوں میں ہو سکتا ہے جہاں ملک کے باقی ادارے اپنے اپنے دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے کام کر رہے ہوں، جہاں ان میں شعور ہو کہ ملکوں کی اصل طاقت عوام ہوتے ہیں اور کسی کو ان کا درد ہو... ہمارے یہاں بد قسمتی سے سیاسی جماعتیں اور ان کے کرتا دھرتا سبھی نا بالغ رویے رکھتے ہیں، سب کی کھینچا تانی اقتدار کے ایوانوں تک پہنچنے کے لیے ہے اور ان میں سے کوئی بھی عوام سے مخلص نہیں، عوام کے ووٹوں کی سیڑھی سے کرسی اقتدار پر براجمان ہونے والے انھیں کیڑے مکوڑوں سے زیادہ اہم نہیں سمجھتے... ''
'' یہی تو میں کہہ رہی ہوں کہ اس ملک میں جمہوریت نہیں پنپ سکتی، پہلے ہر فرد کو تعلیم کے ہتھیار سے لیس کریں ، پھر جمہوری انقلاب آ سکتا ہے، تب تک مارشل لاء ہی حل ہے... ''
آپ کی ہر بات کی تان آج اسی نکتے پر آ کر ٹوٹ رہی ہے... اللہ نہ کرے کہ اس ملک میں مارشل لاء آئے، میں نے دکانداروں اور ریڑھیوں، ٹھیلے والوں کو تو یہ کہتے سنا ہے مگر جب کوئی بات پڑھے لکھے لوگوں کی زبان پر عام ہو جائے تو... اللہ فوج کو اقتدار سے دور ہی رکھے، کیونکہ اس ملک میں جو بھی حکمران ہوتا ہے اسے ہم عوام اپنی عادت سے مجبور ہو کر ہر روز گالیوں کے ہار پہناتے ہیں...ایک طبقہ فوج کو گالیاں دیتا ہے مگر اس ملک کی اکثریت کی نظروں میں فوج اب بھی قابل قدر ہے اور اس کی قدر قائم رہنے میں ہی ہم سب کی بھلائی اور بقا ہے...
'' چیف صاحب نے دھمکی دے دی!!!'' بار بار وہ ایک ہی صدا لگاتا میری گاڑی کے پاس سے گزرا تو میں نے کوشش کی کہ کسی طرح نظر اخبار کی سرخی پر پڑ جائے... گھر سے صبح سویرے نکلنے کا سب سے بڑا نقصان یہی ہے کہ نہ ٹی وی آن کر کے خبریں سننے کا وقت ملتا ہے نہ ہی اخبار پہنچتا ہے اور یوں ایک نا مکمل سی '' سرخی '' کا تجسس بھرا تاگا ہاتھ میں پکڑے اسکول پہنچی تو اسی بات کا انتظار تھا کہ کسی اور سے اس خبر کا باقی سرا مل جائے گا۔
'' اب انتظار کس بات کا ہے... مارشل لاء کیوں نہیں لگ رہا ہمارے ملک میں؟ '' میں نے نظر اٹھا کر حیرت سے دیکھا اور ایک لمحہ نہ لگا مجھے یاد کرنے میں کہ انھی لبوں سے... اسی منہ سے کچھ عرصہ پہلے یہ الفاظ ادا ہوئے تھے، '' ملک کا صدر ملک کا چنیدہ سربراہ ہوتا ہے... ( یہ وضاحت ہر گز نہ تھی کہ اسے کس نے چنا )، اپوزیشن بھی معزول حکمرانوں کا ٹولہ ہوتی ہے، وہ لوگ جنھیں عوام کے نمایندے کہا جاتا ہے، جنھیں عوام اپنے ہاتھوں سے منتخب کرتے ہیں، اور چیف... چیف جسٹس ہو یا چیف آف آرمی اسٹاف... تنخواہ دار لوگ ہیں جنھیں ان کی ملازمت کا عوضانہ ملتا ہے، وہ ہر گز اس پوزیشن میں نہیں ہوتے کہ وہ ملک کے حکمرانوں یا اپوزیشن کو dictation دیں۔
'' کیا بات ہے... کیوں اتنی جلدی آپ کے سنہری خیالات بدل گئے ہیں، میں نے حیرت سے پوچھا۔
'' جانے کیا وجہ ہے کہ اتنی دھند ہے، سمجھ میں نہیں آتا کہ کس طرح مطلع صاف ہو گا، مجھے لگتا ہے کہ مارشل لاء ہی ہمارا علاج ہے... ہم جمہوریت کے مستحق ہی نہیں ہیں!!'' تاریخ کی استاد کے منہ سے ایسی باتیں۔
'' اس روز تو آپ نے دلائل کی رو میں مجھے فوج کی چمچی کہہ دیا تھا... یہ جانے بغیر کہ ہماری کمزوریاں کیا ہیں اور طاقت کیا...'' میں نے حیرت سے پوچھا۔
'' وہ تو ہے... مگر اس بات پر مجھے کوئی افسوس نہیں، کسی نہ کسی کو تو فوج کی حمایت بھی کرنا ہو گی! ''
'' کاش ہم سمجھ لیں کہ فوج کے خلاف بول کر ہم خود کو کتنا کمزور کر رہے ہیں... ایک کرکٹ میچ ہوتا ہے تو ہم سب مصلے بچھا کر دعاؤں میں مصروف ہو جاتے ہیں، کرکٹ ٹیم کی پشت پر کھڑے ہوتے ہیں، ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں... اور وہ جو ہمہ وقت گولیوں کی بوچھاڑ کے سامنے ڈٹے کھڑے ہوتے ہیں، جو ہماری سرحدوں کے ، ہماری عزتوں کے محافظ ہیں، ان کے لیے داد و تحسین تو ایک طرف، ہماری ملامتیں اور محاذ آرائیاں ہی ختم نہیں ہوتیں!''
'' تو پھر وہ کیوں نہیں ملک کی عنان سنبھالتے؟ ''
'' کیا آپ کو لگتا ہے کہ فوج کی حالیہ قیادت اس بات میں دلچسپی رکھتی ہے؟ اگر ایسا تھا تو گزشتہ چار سالوں میں کیا کوئی ایسا موقع نہ تھا جب فوج اقتدار سنبھال لیتی تو قوم اس کے پیچھے کھڑی ہوتی؟ ''
'' کئی بار... کئی بار ایسے مواقعے آئے بلا شبہ! '' انھوں نے میری بات کی تائید کی، '' جانے کیوں نہیں سنبھالا پھر انھوں نے اقتدار؟ ''
''در حقیقت تو اس ملک کے سارے مسائل کا حل ہی ڈکٹیٹر شپ ہے... جمہوری عمل ان ملکوں میں کامیاب ہے جہاں لوگوں میں شعور ہے، تعلیم ہے اور انھیں علم ہے کہ ان کے چنیدہ نمایندوں کے کیا اختیارات ہیں، کیا حقوق اور کیا فرائض۔ ہمارے ہاں شعور ہے نہ تعلیم، عقل ہے نہ کوئی ضابطہ اخلاق... جو شخص بھی اس ملک کا سربراہ منتخب ہوتا ہے،ا س سے اگلے روز اس کے بارے میں ہر میڈیا پر اس کی '' عزت افزائی '' شروع ہوجاتی ہے۔ ٹیلی وژن کے مزاحیہ پروگرام ہوں یا ٹیلی فون کی پیغامات کی سروس، کھلے عام منفی زبان اور گالیاں... یہ ہمارے اخلاق ہیں اور یہ ہمارا عزت کا معیار!!!''
'' کسی حکمران نے کچھ دیا ہو ہمیں تو ہم سے عزت کروائے ... مشرف صاحب کہتے رہے کہ انھوں نے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کر دیا ہے، جو ترقی انھوں نے ہمیں دی ہے وہ موبائل ٹیلی فون اور انٹر نیٹ کا بے جا استعمال ہے اور اس ماڈرن ازم کے نام پر ہماری پوری نوجوان نسل کو گمراہی کی راہ پر ڈال دیا ہے کہ انھیں اپنے ماں باپ بھی دشمن نظر آنے لگے ہیں! آرمی چیف نے کھلم کھلا الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ ملک کے مفادات سب کے مفادات سے اہم ہیں اور وہ کسی کو ملکی سالمیت سے کھیلنے کی اجازت نہیں دیں گے ... یہی بات کہنے کی بجائے اگر وہ ...''
'' یہ ہر گز اس مسئلے کا حل نہیں ہے، مارشل لاء سب سے پہلے فوج کو نقصان پہنچاتا ہے!!'' میں نے فوراً ان کی بات کاٹی، '' ہر ادارہ اپنے دائرہ اختیار میں رہ کر کام کرتا ہی اچھا لگتا ہے اور فروغ پاتا ہے۔ جس کا کام ، اسی کو ساجھے... جن کا کام ملک کو چلانا ہے وہ چلائیں،مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ مخلص قیادت ہو کہ جس کو اس ملک اور اس کے عوام کے مسائل کا ادراک ہو، احساس ہو اور ان کے دل میں ان مسائل کو حل کرنے کی لگن ہو... اپنے اقتدار کو طول دینے کی ہوس ہو نہ اپنے ذاتی مفادات ترجیح ہوں!! ''
'' تو ایسے حکمران کیا آسمان سے ٹپکیں گے؟ '' انھوں نے ہنس کر کہا، '' کتنا potential ہے اس ملک میں کہ جسے آج تک آنے والے زیادہ تر حکمران لوٹتے اور بھنبھوڑتے رہے ہیں مگر پھر بھی اس میں جان ہے... ''
'' چیف آف آرمی اسٹاف کی طرف سے میڈیا کے ساتھ ساتھ ہر ادارے کے لیے پیغام ہے کہ ہر کوئی اپنے دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے کام کرے اور گڑھے مردے نہ اکھاڑے جائیں، اس سے افراد نہیں بلکہ ان کے ذاتی '' کارناموں '' کی وجہ سے اداروں کی عزت خطرے میں پڑ جاتی ہے، فوج کے خلاف محاذ آرائی کوئی معمولی بات نہیں، جہاں عوام اور فوج کے درمیان غلط فہمیوں کی دیوار کھڑی کر کے انھیں ایک دوسرے کے دوبدو لا کھڑا کرنے کی سازش ہو رہی ہے، وہاں فوج کس دل سے عوام کی حفاظت کی ذمے داری ادا کرے... ''
'' فوج نے کچھ غلط کیا ہو گا توا س کے بارے میں بات ہو گی نا؟ ''
'' سانپ گزر جائے تو لکیر پیٹنے کا کوئی فائدہ نہیں... اگر کوئی سینئیر فوجی اس وقت اٹھ کر سچ بول رہا ہے تو وہ اس وقت کیوں نہیں بولا جس وقت وہ اس '' سچ '' کا حصہ تھا، کیونکہ اس وقت انھیں مفادات کا حصہ مل رہا تھا اور اب انھیں کہیں نہ کہیں سے حصہ مل رہا ہو گا بعد از وقت انکشافات کرنے پر... ''
'' سب ایسا ہی کرتے ہیں... ''
'' جب آپ ایک غلط کام کا حصہ بنیں، اس کام کو ہونے سے نہ روکیں، اس وقت ضمیر کی آواز نہ سنیں اور بعد میں اپنے ضمیر کی بیداری اور اس سے مربوط کوئی نہ کوئی مفاد آپ کو اپنے اس ادارے یا ملک سے غداری پر آمادہ کر دے اور ماضی کو اچھال اچھال کر حال کے مسائل میں اضافہ کیا جا رہا ہو، میڈیا ان باتوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہا ہو تو پھر کسی نہ کسی کو آگے بڑھنا ہوتا ہے... سیاسی طور پر حالات کمزور ہیں، اداروں کے مابین تصادم کی فضا ہے تو کوئی کچھ نہ کرے... فوج ایک پیشہ ور اور غیر متعلقہ ادارہ صرف ان ملکوں میں ہو سکتا ہے جہاں ملک کے باقی ادارے اپنے اپنے دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے کام کر رہے ہوں، جہاں ان میں شعور ہو کہ ملکوں کی اصل طاقت عوام ہوتے ہیں اور کسی کو ان کا درد ہو... ہمارے یہاں بد قسمتی سے سیاسی جماعتیں اور ان کے کرتا دھرتا سبھی نا بالغ رویے رکھتے ہیں، سب کی کھینچا تانی اقتدار کے ایوانوں تک پہنچنے کے لیے ہے اور ان میں سے کوئی بھی عوام سے مخلص نہیں، عوام کے ووٹوں کی سیڑھی سے کرسی اقتدار پر براجمان ہونے والے انھیں کیڑے مکوڑوں سے زیادہ اہم نہیں سمجھتے... ''
'' یہی تو میں کہہ رہی ہوں کہ اس ملک میں جمہوریت نہیں پنپ سکتی، پہلے ہر فرد کو تعلیم کے ہتھیار سے لیس کریں ، پھر جمہوری انقلاب آ سکتا ہے، تب تک مارشل لاء ہی حل ہے... ''
آپ کی ہر بات کی تان آج اسی نکتے پر آ کر ٹوٹ رہی ہے... اللہ نہ کرے کہ اس ملک میں مارشل لاء آئے، میں نے دکانداروں اور ریڑھیوں، ٹھیلے والوں کو تو یہ کہتے سنا ہے مگر جب کوئی بات پڑھے لکھے لوگوں کی زبان پر عام ہو جائے تو... اللہ فوج کو اقتدار سے دور ہی رکھے، کیونکہ اس ملک میں جو بھی حکمران ہوتا ہے اسے ہم عوام اپنی عادت سے مجبور ہو کر ہر روز گالیوں کے ہار پہناتے ہیں...ایک طبقہ فوج کو گالیاں دیتا ہے مگر اس ملک کی اکثریت کی نظروں میں فوج اب بھی قابل قدر ہے اور اس کی قدر قائم رہنے میں ہی ہم سب کی بھلائی اور بقا ہے...