ریاست کراچی کے نوجوانوں کو عام معافی کا پیکیج دے ہم قانونی مدد کریں گے
سابق ناظم کراچی مصطفیٰ کمال اور ایم کیو ایم کے سابق اہم رہنما انیس قائم خانی کی ایکسپریس فورم میں خصوصی گفتگو
سابق ناظم کراچی سید مصطفیٰ کمال نے اپنے دور نظامت میں کراچی شہر میں جو ترقیاتی منصوبے تکمیل تک پہنچائے، وہ آج بھی اُن کی پہچان بنے ہوئے ہیں۔
شہر کا ہر فرد ان سے اختلافات رکھنے کے باوجود اُن کی سٹی گورنمنٹ کے زمانے میں خدمات کا دل سے معترف ہے۔ اپنے دور ِ نظامت میں مصطفیٰ کمال مسلسل میڈیا کی خبروں کا بھی حصہ بنتے رہے تاہم گذشتہ دو تین سال سے وہ ایم کیوایم سے کنارہ کشی اختیار کرکے ملک ہی چھوڑ گئے تھے۔۔ اور اب رواں سال مارچ کے اوائل میں اُن کی اچانک کراچی آمد نے قومی سیاست کا رخ ہی بدل دیا، وہ ایم کیو ایم کے ایک اور اہم رہنما انیس احمد قائمخانی کے ساتھ کراچی پہنچے اور انھوں نے اپنی پہلی پُرہجوم پریس کانفرنس میں ایم کیوایم سے علیحدگی کا اعلان کیا اور قائد متحدہ الطاف حسین پر سنگین الزامات عائد کیے۔ اس پریس کانفرنس کے بعد ایم کیو ایم کے کئی رہنماؤں نے اُن کا ساتھ دینے کا اعلان کیا ہے۔ مصطفیٰ کمال نے اپنی پارٹی بنانے کا بھی اعلان کیا ہے تاہم اس کا نام تاحال نہیں رکھا گیا۔
کچھ ہی دنوں میں مصطفیٰ کمال اور انیس قائمخانی کے قافلے میں ارکان سندھ اسمبلی اور سابق صوبائی وزرا ڈاکٹر صغیر احمد اور رضا ہارون بھی شامل ہوگئے جبکہ رکن سندھ اسمبلی افتخار عالم نے بھی اُن کا ساتھ دینے کا اعلان کیا۔ ڈاکٹر صغیر اور افتخار عالم نے سندھ اسمبلی کی رکنیت سے بھی استعفیٰ دیدیا، ان کے علاوہ ایم کیو ایم کے ایک رہنما وسیم آفتاب نے بھی سابق ناظم کراچی کا ساتھ دینے کا اعلان کیا ہے۔ مصطفیٰ کمال کی جماعت میں شامل ہونے والوں کا سلسلہ جاری ہے اور جب یہ تحریر قارئین پڑھ رہے ہوں گے تو مزید شخصیات بھی مصطفیٰ کمال سے ہاتھ ملاچکی ہوں گی۔
مصطفیٰ کمال اور ان کے ساتھیوں کا کراچی کی سیاست میں اب یہ نیا کردار کیسا ہوگا؟، وہ لوگوں کو کس طرح اپنی جانب مائل کریں گے؟، ایم کیو ایم کا ووٹ بینک توڑنے کے لیے اُن کی حکمت عملی کیا ہوگی؟ اور کون کون سی شخصیات اُن کا ساتھ دینے کے لیے آرہی ہیں؟، یہ اور ایسے ہی بہت سے سوالات کے جواب جاننے کیلیے گذشتہ دنوں مصطفیٰ کمال اور انیس قائمخانی سے ''ایکسپریس فورم ''میں خصوصی گفتگو کی گئی۔ واضح رہے کہ یہ انٹرویو مصطفیٰ کمال اور انیس قائمخانی کا کسی بھی اخبار کے لیے پہلا فورم انٹرویو ہے۔ مصطفیٰ کمال اور انیس قائمخانی نے ''ایکسپریس فورم '' میں جو گفتگو کی اُس کی تفصیلات نذر قارئین ہیں۔
سید مصطفیٰ کمال (سابق سٹی ناظم)
ہمارا کسی سے جھگڑا نہیں ہے، ہم دلوں کو توڑنے نہیں بلکہ دلوں کو جوڑنے آئے ہیں ۔ ہمارا مقصد امن و محبت کے پیغام کو عام کرنا ہے، ہم یہ پیغام پورے پاکستان میں پھیلائیں گے ۔ ہمارے لیے جگہ یا مقام کی کوئی قید نہیں ہے ۔ ہم کسی بھی علاقے میں بیٹھ کر اپنا تنظیمی نیٹ ورک چلا سکتے ہیں۔ لوگ دشواریوں کے باوجود ہمارے پاس آ رہے ہیں، ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے ہمارے پیغام کو قبول کیا ہے ۔ اپریل کے مہینے میں کراچی میں باغ قائد اعظم میں تاریخی جلسہ کریں گے اور اس کے بعد پارٹی کی تنظیم نو کریں گے، پارٹی کی تنظیم سازی کے لیے مشاورت کر رہے ہیں۔ جلد پارٹی کے سیٹ اپ کا اعلان کیا جائے گا۔
مصطفیٰ کمال نے کہا کہ میں ایم کیو ایم کے ساتھ 28 برس سے زائد وابستہ رہا ہوں ۔ رکن سندھ اسمبلی رہا، صوبائی وزیر بنا، سٹی ناظم بنا اور پھر سینیٹر منتخب ہوا ۔ مجھے ایم کیو ایم نے نہیں نکالا، میں ایم کیو ایم اپنی شرائط پر چھوڑ کر گیا ۔ ہماری جماعت میں جمہوریت ہو گی ، ڈکٹیٹر شپ نہیں ہو گی بلکہ پارٹی میں نظم و ضبط ہو گا ۔جماعتوں میں ڈکٹیٹر شپ ہوتی ہے وہ زوال کا شکار ہو جاتی ہیں۔
ایم کیو ایم صرف ون مین شو ہے ۔ یہاں فیصلے فرد واحد الطاف حسین کرتے ہیں اور ایم کیو ایم میں تمام خرابیوں اور اسکی تباہی کے ذمہ دار وہی ہے۔ اگر وہ صحیح فیصلہ کرتے تو آج ایم کیو ایم کو ایسے حالات دیکھنے نہیں پڑتے ۔ ایم کیو ایم پیپلز پارٹی کے دور میں5 مرتبہ حکومت میں آئی اور باہر گئی ۔ حکومت سازی کا فیصلہ الطاف حسین کرتے تھے ۔ ایم کیو ایم کراچی کے 85 فیصد مینڈیٹ کا دعویٰ کرتی ہے۔ عوام نے الطاف حسین کو قائد بنایا ،ایم کیو ایم کو ووٹ دیا لیکن ایم کیو ایم نے کراچی کے عوام کو بے یارومددگار چھوڑ دیا ۔ پیپلز پارٹی کے ساتھ حکومت میں رہنے والے بتائیں کیوں ایم کیو ایم نے کراچی کے مسائل کے حل کے لیے کام نہیں کیے؟۔
میرے سٹی ناظم کی مدت ختم ہونے کے بعد بھی ایم کیو ایم حکومت میں رہی لیکن مقامی حکومتوں کے اختیارات کے حوالے سے ایم کیو ایم نے کوئی کام نہیں کیا ۔ اگر آج بلدیاتی نمائندوں کے پاس اختیارات نہیں ہیں تو اس کی ذمے دار بھی ایم کیو ایم ہے کیونکہ جب پیپلز پارٹی بلدیاتی حکومتوں کے اختیارات میں کمی کر رہی تھی اور سندھ اسمبلی سے جو قانون سازی کرائی جا رہی تھی ۔اس قانون سازی میں بھی ایم کیو ایم نے بھرپور ساتھ دیا۔
آج اختیارات کا رونا کیوں رویا جا رہا ہے؟ ۔ آج ہم کراچی میں آئے ہیں تو کچھ لوگوں کو صفائی یاد آ گئی ہے ۔ کراچی میں ایک دن میں کچرے کے ڈھیر نہیں لگے، یہ 7,8 سال کا کچرا ہے جو ایم کیو ایم کی عدم توجہی کے سبب کراچی میں جمع ہوا۔چلو اچھا ہے کہ ایم کیو ایم والوں کو عوام کی یاد تو آگئی ۔ دیر آید درست آید ۔ مگر عوامی مینڈیٹ رکھنے والوں کو عقل آجائے تو یہ اچھا عمل ہے ۔ شکر ہے کہ ایم کیو ایم کو عوام کی یاد تو آگئی۔
آج ہماری قوم کے بچوں پر '' را'' کا ایجنٹ ہونے کا الزام لگایا جا رہا ہے ۔ ٹارگٹ کلرز اور دہشت گرد ا نھیں کس نے بنایا ہے ؟، اس کا جواب الطاف حسین اور ایم کیو ایم کو دینا ہو گا ۔ مہاجر پڑھی لکھی قوم ہے، ان کی شناخت علم و تہذیب تھی لیکن آج ان کی شناخت کلر اور را کے ایجنٹ ہونے کے حوالے سے ہوتی ہے ۔ خدارا ریاست سوچے کہ ان لوگوں کو دہشت گرد کس نے بنایا ہے ۔ ان لوگوں کی معافی کے لیے کوئی لائحہ عمل یا پیکیج کا اعلان کیا جائے تاکہ بھٹکے ہوئے لوگ راہ راست پر آجائیں ۔ مہاجر قوم محب وطن ہے ۔جس طرح دیگر قومیں پاکستان کے لیے جان نچھاور کر سکتی ہیں ، ہم بانیان پاکستان کی اولادیں ہیں ۔ ہماری رگوں میں محب وطن لوگوں کا خون گردش کر رہا ہے۔
الطاف حسین قومی اداروں کے خلاف تقریریں کرتے ہیں ۔ ہم ریاست سے محبت کرنے والے لوگ ہیں اور مہاجر قوم تمام قومی اداروں کا احترام کرتی ہے ۔ الطاف حسین صرف لاشوں پر سیاست کرنا جانتے ہیں، انھیں مہاجر قوم کی کوئی فکر نہیں ہے ۔اگر انھیں فکر ہوتی تو آج قوم کے بچے اسیر یا لاپتہ نہیں ہوتے ۔ کراچی کے مسائل پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے رومانس کا نتیجہ ہے ۔ اگر ایم کیو ایم سنجیدہ ہوتی تو آج بلدیاتی نمائندے بے اختیار نہیں ہوتے۔
میرا پاکستان آنے کے بعد کسی سے کوئی رابطہ نہیں۔میرا پرویز مشرف سے پہلے رابطہ تھا نہ ہی اب کوئی رابطہ ہے ۔ ہم اپنی جماعت کو ملک بھر میں پھیلائیں گے ۔ شہر شہر جلسہ کریں گے ۔ ہماری جماعت کے منشور پر کام جاری ہے ۔ ہمارا نعرہ یہ ہے کہ مقامی حکومتوں کا نظام مضبوط ہو۔ پاکستان کے مسائل کا حل مقامی حکومتوں کے نظام سے وابستہ ہے اور مقامی حکومتوں کے نظام کے لیے کسی قانون سازی کی ضرورت نہیں ہے ۔
ہم ایم کیو ایم کے کسی رہنما یا کارکن پر دباؤ نہیں ڈال رہے ہیں ۔ جو لوگ ہماری جماعت میں شمولیت اختیار کر رہے ہیں وہ اپنے ضمیر کی آواز کے مطابق ہمارے ساتھ شامل ہو رہے ہیں ۔ بہت جلد بہت سارے لوگ ہمارے ساتھ ہوں گے اور بڑی بڑی وکٹیں گریں گی ۔ خوشی عوام کو ہو گی اور پریشانی ہمارے مخالفین ہو گی ۔ ہم کسی جماعت کے دفتر پر قبضہ نہیں کریں گے اور نہ ہی زبردستی کسی کو اپنے ساتھ ملائیں گے۔
الطاف حسین کے را سے تعلقات اور فنڈنگ کے حوالے سے میں نے اپنا موقف بیان کر دیا ہے ۔ میں کسی کمیشن میں پیش ہونے کا ارادہ نہیں رکھتا ، حکومت کے پاس جو ثبوت ہیں ، وہ اس حوالے سے کارروائی کرے ۔میں کسی سے نہیں ڈرتا، زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے ۔ ہم کمرے میں بیٹھ کر سیاست نہیں کریں گے بلکہ عوام میں جائیں گے ۔
ریاست فوری طور بھٹکے ہوئے لوگوں کے لیے پالیسی کا اعلان کرے تاکہ نوجوان راہ راست پر آکر وطن کی خدمت میں اپنا کردار ادا کر سکیں ۔ ایف آئی اے نے مجھے طلب کیا تو میں قانونی مشاورت کے بعد اس حوالے سے اپنا جواب دوں گا ۔
انیس قائم خانی (سابق مرکزی رہنما ایم کیو ایم)
کوئی بھی بچہ ماں کے پیٹ سے دہشت گرد نہیں ہوتا، حالات اور واقعات لوگوں کو غلط راہ پر لگا دیتے ہیں ۔ ایم کیو ایم کے کارکنان پیدائشی دہشت گرد نہیں ہیں ۔ انھیں جن لوگوں نے ٹارگٹ کلر یا جرائم پیشہ بنایا ہے ، ان لوگوں کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے ۔ اگر کچھ ناسمجھ نوجوان راہ حق سے بھٹک کر گمراہ ہو گئے ہیں تو ریاست کو اس پہلو کی نشاندہی کرنی چاہیے کہ وہ کیا وجوہ تھیں جن کی وجہ سے یہ لوگ مجرم بنے اور ان پر را کا ایجنٹ ہونے کا الزام لگایا گیا۔
اردو بولنے والے اسی دھرتی کے لوگ ہیں ، ان کا جینا مرنا پاکستان کے ساتھ ہے ۔ ہم سندھ کے باسی ہیں اور محبت کا پیغام پھیلانا چاہتے ہیں ۔ ریاست جب بلوچستان کے جنگجوؤں کو عام معافی دے سکتی ہے اور انھیں اچھا انسان بنانے کے لیے پیکیج کا اعلان کر سکتی ہے تو میں ریاست سے درخواست کرتا ہوں کہ کراچی کے نوجوان اسی ریاست کا حصہ ہیں ۔ خدارا ان کی اصلاح کے لیے بھی کوئی پیکیج اور عام معافی کا اعلان کیا جائے تاکہ یہ نوجوان بھی قومی دھارے میں آجائیں اور اس وطن کی خدمت کر سکیں۔
ایم کیو ایم جن اسیر لاپتہ کارکنان اور جیلوں میں قید نوجوانوں کو اپنا کارکن تسلیم نہیں کرتی ہے ، میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ ان نوجوانوں نے ایم کیو ایم کے لیے اپنا تن من دھن قربان کیا ،یہ نوجوان لاوارث نہیں ہیں ۔ آج ان کے اہل خانہ بے یارومددگار گھوم رہے ہیں ۔ یہ تمام نوجوان ہمارے دلوں کا حصہ ہیں ۔ ہم انھیں اپنا ساتھی مانتے ہیں اور دعوت دیتے ہیں کہ وہ ہمارے قافلے میں شامل ہو جائیں ۔ ہم ان کی آواز بنیں گے اور ان کے لیے قانونی جنگ لڑیں گے ۔ بڑی تعداد میں لاپتہ اور قید کارکنان کے اہل خانہ ہم سے رابطہ کر رہے ہیں۔ ہم ان کی قانونی مدد کریں گے اور اس کے لیے لیگل ٹیم بنائی جائے گی۔
ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے قافلے میں شامل ہونے والے لوگ وطن کی محبت اور بھائی چارگی کے پیغام کو عام کریں اور اس قافلے کا مقصد یہ ہے کہ ہم ایسی نوجوان قیادت کو آگے لانا چاہتے ہیں جو وطن دوست ہو ، پڑھی لکھی ہو تاکہ وہ ملک کی باگ ڈور کو سنبھال سکے ۔ ہم مضبوط طریقے سے تنظیمی ڈھانچے کا اعلان کریں گے اور نوجوان قیادت کو آگے لائیں گے۔
اپریل میں ہونے والے جلسے کی تیاریاں شروع کر دی گئی ہیں ،ہمارے پاس وسائل نہیں ہیں لیکن عوام کی محبتیں ہیں۔ یہ جلسہ تاریخی جلسہ ہو گا اور اس جلسے سے محبت کے پیغام کو پشاور اور ملک کے کونے کونے تک پہنچائیں گے ۔جو لوگ ہمارے ساتھ رابطہ کر رہے ہیں ، ہم نہیں جانتے کہ وہ کس علاقے سے تعلق رکھتے ہیں ۔ ان کا مذہب یا قوم کیا ہے اور کس جماعت سے ان کا تعلق ہے۔ بس جب سے ہم پاکستان آئے ہیں ، لوگوں کا رابطہ ہم سے شروع ہو گیا ہے۔ یہ قافلے کی ابتدا ہے، منزل دور نہیں۔ اگر نیت اچھی ہو تو نتائج حاصل ہو جاتے ہیں۔
ہم کسی کے دفتر یا مرکز پر قبضہ نہیں کریں گے ۔ ہمیں کسی اسٹیبلشمنٹ یا حکومت کی حمایت حاصل نہیں ہے۔ ہماری طاقت عوام ہے اور عوامی طاقت کے بل بوتے پر ہم اپنی رابطہ مہم شروع کرنے جا رہے ہیں۔ جلد ہی کراچی کے تمام علاقوں کا دورہ کریں گے اور عوام سے ملاقاتیں کریں گے ۔کراچی میں جو لوگ غلط انداز میں دیواروں پر وال چاکنگ کر رہے ہیں، ان سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے۔ میں اپیل کرتا ہوں کہ دیواروں پر چاکنگ نہ کی جائے کیونکہ دیواروں پر چاکنگ سے فتح حاصل نہیں ہوتی۔ فتح عوام کی حمایت سے حاصل ہوتی ہے۔ ہمارا مقصد عوام کی حمایت حاصل کرنا ہے، اس مقصد میں ہمیں کامیابی حاصل ہو رہی ہے۔
ضمنی انتخاب ہماری منزل نہیں ہے، پہلے ہم اپنے تنظیمی نیٹ ورک کو مضبوط کر لیں ۔ پھر آئندہ انتخابات میں حصہ لینے کا سوچیں گے ۔ہماری تنظیم میں فرد واحد فیصلہ نہیں کرے گا ۔ تمام فیصلے مشاورت سے کیے جائیں گے ۔ ہمارا وژن عوام کی خدمت ہے، ہماری تنظیم میں زکوۃ ، فطرہ اور کھالیں جمع کرنے کی کوئی پالیسی نہیں ہو گی اور نہ ہی ہم چندہ لیں گے ۔ہماری جماعت کے نام اور منشور کا اعلان جلد کیا جائے گا اور جلد عوامی سیکریٹریٹ قائم کر دیا جائے گا۔
ابھی بہت بڑے بڑے لوگ ہم سے رابطے میں ہیں ۔ جلد اہم وکٹیں گرنے والی ہیں، ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے ۔ ہماری جماعت میں جو لوگ شامل ہونا چاہتے ہیں ، انہیں دعوت عام ہے ۔ بعض شامل ہونے والے لوگوں سے درخواست ہے کہ ان کی ایک سوچ ہونی چاہیے ۔ وہ سوچ وطن سے محبت ہو ۔ جن لوگوں کو عوامی مینڈیٹ حاصل تھا ، انھوں نے اس شہر کو لاوارث بنا دیا ہے ۔ کراچی کے لوگ اس شہر کے وارث ہیں ۔ اس شہر کو اون کرتے ہیں اور ہم کراچی کا مقدمہ بھرپور انداز میں لڑیں گے ۔ ہمارا حکومت سے کوئی رابطہ ہے نہ ہی حکومت سے رابطہ کریں گے۔
میں پاکستان کے لوگوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ اس ملک کی خدمت اور ترقی کے لیے اپنا کردار ادا کریں کیونکہ اس وطن نے ہمیں جو مقام دیا ہے ، اس وطن کی قدر اور حفاظت کرنا ہمارے فرائض میں ہونا چاہیے ۔ میرے اوپر سانحہ بلدیہ کے حوالے سے جو الزامات لگائے گئے ہیں ، وہ غلط ہیں اور میں ہر الزام کا قانونی دفاع کروں گا۔
شہر کا ہر فرد ان سے اختلافات رکھنے کے باوجود اُن کی سٹی گورنمنٹ کے زمانے میں خدمات کا دل سے معترف ہے۔ اپنے دور ِ نظامت میں مصطفیٰ کمال مسلسل میڈیا کی خبروں کا بھی حصہ بنتے رہے تاہم گذشتہ دو تین سال سے وہ ایم کیوایم سے کنارہ کشی اختیار کرکے ملک ہی چھوڑ گئے تھے۔۔ اور اب رواں سال مارچ کے اوائل میں اُن کی اچانک کراچی آمد نے قومی سیاست کا رخ ہی بدل دیا، وہ ایم کیو ایم کے ایک اور اہم رہنما انیس احمد قائمخانی کے ساتھ کراچی پہنچے اور انھوں نے اپنی پہلی پُرہجوم پریس کانفرنس میں ایم کیوایم سے علیحدگی کا اعلان کیا اور قائد متحدہ الطاف حسین پر سنگین الزامات عائد کیے۔ اس پریس کانفرنس کے بعد ایم کیو ایم کے کئی رہنماؤں نے اُن کا ساتھ دینے کا اعلان کیا ہے۔ مصطفیٰ کمال نے اپنی پارٹی بنانے کا بھی اعلان کیا ہے تاہم اس کا نام تاحال نہیں رکھا گیا۔
کچھ ہی دنوں میں مصطفیٰ کمال اور انیس قائمخانی کے قافلے میں ارکان سندھ اسمبلی اور سابق صوبائی وزرا ڈاکٹر صغیر احمد اور رضا ہارون بھی شامل ہوگئے جبکہ رکن سندھ اسمبلی افتخار عالم نے بھی اُن کا ساتھ دینے کا اعلان کیا۔ ڈاکٹر صغیر اور افتخار عالم نے سندھ اسمبلی کی رکنیت سے بھی استعفیٰ دیدیا، ان کے علاوہ ایم کیو ایم کے ایک رہنما وسیم آفتاب نے بھی سابق ناظم کراچی کا ساتھ دینے کا اعلان کیا ہے۔ مصطفیٰ کمال کی جماعت میں شامل ہونے والوں کا سلسلہ جاری ہے اور جب یہ تحریر قارئین پڑھ رہے ہوں گے تو مزید شخصیات بھی مصطفیٰ کمال سے ہاتھ ملاچکی ہوں گی۔
مصطفیٰ کمال اور ان کے ساتھیوں کا کراچی کی سیاست میں اب یہ نیا کردار کیسا ہوگا؟، وہ لوگوں کو کس طرح اپنی جانب مائل کریں گے؟، ایم کیو ایم کا ووٹ بینک توڑنے کے لیے اُن کی حکمت عملی کیا ہوگی؟ اور کون کون سی شخصیات اُن کا ساتھ دینے کے لیے آرہی ہیں؟، یہ اور ایسے ہی بہت سے سوالات کے جواب جاننے کیلیے گذشتہ دنوں مصطفیٰ کمال اور انیس قائمخانی سے ''ایکسپریس فورم ''میں خصوصی گفتگو کی گئی۔ واضح رہے کہ یہ انٹرویو مصطفیٰ کمال اور انیس قائمخانی کا کسی بھی اخبار کے لیے پہلا فورم انٹرویو ہے۔ مصطفیٰ کمال اور انیس قائمخانی نے ''ایکسپریس فورم '' میں جو گفتگو کی اُس کی تفصیلات نذر قارئین ہیں۔
سید مصطفیٰ کمال (سابق سٹی ناظم)
ہمارا کسی سے جھگڑا نہیں ہے، ہم دلوں کو توڑنے نہیں بلکہ دلوں کو جوڑنے آئے ہیں ۔ ہمارا مقصد امن و محبت کے پیغام کو عام کرنا ہے، ہم یہ پیغام پورے پاکستان میں پھیلائیں گے ۔ ہمارے لیے جگہ یا مقام کی کوئی قید نہیں ہے ۔ ہم کسی بھی علاقے میں بیٹھ کر اپنا تنظیمی نیٹ ورک چلا سکتے ہیں۔ لوگ دشواریوں کے باوجود ہمارے پاس آ رہے ہیں، ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے ہمارے پیغام کو قبول کیا ہے ۔ اپریل کے مہینے میں کراچی میں باغ قائد اعظم میں تاریخی جلسہ کریں گے اور اس کے بعد پارٹی کی تنظیم نو کریں گے، پارٹی کی تنظیم سازی کے لیے مشاورت کر رہے ہیں۔ جلد پارٹی کے سیٹ اپ کا اعلان کیا جائے گا۔
مصطفیٰ کمال نے کہا کہ میں ایم کیو ایم کے ساتھ 28 برس سے زائد وابستہ رہا ہوں ۔ رکن سندھ اسمبلی رہا، صوبائی وزیر بنا، سٹی ناظم بنا اور پھر سینیٹر منتخب ہوا ۔ مجھے ایم کیو ایم نے نہیں نکالا، میں ایم کیو ایم اپنی شرائط پر چھوڑ کر گیا ۔ ہماری جماعت میں جمہوریت ہو گی ، ڈکٹیٹر شپ نہیں ہو گی بلکہ پارٹی میں نظم و ضبط ہو گا ۔جماعتوں میں ڈکٹیٹر شپ ہوتی ہے وہ زوال کا شکار ہو جاتی ہیں۔
ایم کیو ایم صرف ون مین شو ہے ۔ یہاں فیصلے فرد واحد الطاف حسین کرتے ہیں اور ایم کیو ایم میں تمام خرابیوں اور اسکی تباہی کے ذمہ دار وہی ہے۔ اگر وہ صحیح فیصلہ کرتے تو آج ایم کیو ایم کو ایسے حالات دیکھنے نہیں پڑتے ۔ ایم کیو ایم پیپلز پارٹی کے دور میں5 مرتبہ حکومت میں آئی اور باہر گئی ۔ حکومت سازی کا فیصلہ الطاف حسین کرتے تھے ۔ ایم کیو ایم کراچی کے 85 فیصد مینڈیٹ کا دعویٰ کرتی ہے۔ عوام نے الطاف حسین کو قائد بنایا ،ایم کیو ایم کو ووٹ دیا لیکن ایم کیو ایم نے کراچی کے عوام کو بے یارومددگار چھوڑ دیا ۔ پیپلز پارٹی کے ساتھ حکومت میں رہنے والے بتائیں کیوں ایم کیو ایم نے کراچی کے مسائل کے حل کے لیے کام نہیں کیے؟۔
میرے سٹی ناظم کی مدت ختم ہونے کے بعد بھی ایم کیو ایم حکومت میں رہی لیکن مقامی حکومتوں کے اختیارات کے حوالے سے ایم کیو ایم نے کوئی کام نہیں کیا ۔ اگر آج بلدیاتی نمائندوں کے پاس اختیارات نہیں ہیں تو اس کی ذمے دار بھی ایم کیو ایم ہے کیونکہ جب پیپلز پارٹی بلدیاتی حکومتوں کے اختیارات میں کمی کر رہی تھی اور سندھ اسمبلی سے جو قانون سازی کرائی جا رہی تھی ۔اس قانون سازی میں بھی ایم کیو ایم نے بھرپور ساتھ دیا۔
آج اختیارات کا رونا کیوں رویا جا رہا ہے؟ ۔ آج ہم کراچی میں آئے ہیں تو کچھ لوگوں کو صفائی یاد آ گئی ہے ۔ کراچی میں ایک دن میں کچرے کے ڈھیر نہیں لگے، یہ 7,8 سال کا کچرا ہے جو ایم کیو ایم کی عدم توجہی کے سبب کراچی میں جمع ہوا۔چلو اچھا ہے کہ ایم کیو ایم والوں کو عوام کی یاد تو آگئی ۔ دیر آید درست آید ۔ مگر عوامی مینڈیٹ رکھنے والوں کو عقل آجائے تو یہ اچھا عمل ہے ۔ شکر ہے کہ ایم کیو ایم کو عوام کی یاد تو آگئی۔
آج ہماری قوم کے بچوں پر '' را'' کا ایجنٹ ہونے کا الزام لگایا جا رہا ہے ۔ ٹارگٹ کلرز اور دہشت گرد ا نھیں کس نے بنایا ہے ؟، اس کا جواب الطاف حسین اور ایم کیو ایم کو دینا ہو گا ۔ مہاجر پڑھی لکھی قوم ہے، ان کی شناخت علم و تہذیب تھی لیکن آج ان کی شناخت کلر اور را کے ایجنٹ ہونے کے حوالے سے ہوتی ہے ۔ خدارا ریاست سوچے کہ ان لوگوں کو دہشت گرد کس نے بنایا ہے ۔ ان لوگوں کی معافی کے لیے کوئی لائحہ عمل یا پیکیج کا اعلان کیا جائے تاکہ بھٹکے ہوئے لوگ راہ راست پر آجائیں ۔ مہاجر قوم محب وطن ہے ۔جس طرح دیگر قومیں پاکستان کے لیے جان نچھاور کر سکتی ہیں ، ہم بانیان پاکستان کی اولادیں ہیں ۔ ہماری رگوں میں محب وطن لوگوں کا خون گردش کر رہا ہے۔
الطاف حسین قومی اداروں کے خلاف تقریریں کرتے ہیں ۔ ہم ریاست سے محبت کرنے والے لوگ ہیں اور مہاجر قوم تمام قومی اداروں کا احترام کرتی ہے ۔ الطاف حسین صرف لاشوں پر سیاست کرنا جانتے ہیں، انھیں مہاجر قوم کی کوئی فکر نہیں ہے ۔اگر انھیں فکر ہوتی تو آج قوم کے بچے اسیر یا لاپتہ نہیں ہوتے ۔ کراچی کے مسائل پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے رومانس کا نتیجہ ہے ۔ اگر ایم کیو ایم سنجیدہ ہوتی تو آج بلدیاتی نمائندے بے اختیار نہیں ہوتے۔
میرا پاکستان آنے کے بعد کسی سے کوئی رابطہ نہیں۔میرا پرویز مشرف سے پہلے رابطہ تھا نہ ہی اب کوئی رابطہ ہے ۔ ہم اپنی جماعت کو ملک بھر میں پھیلائیں گے ۔ شہر شہر جلسہ کریں گے ۔ ہماری جماعت کے منشور پر کام جاری ہے ۔ ہمارا نعرہ یہ ہے کہ مقامی حکومتوں کا نظام مضبوط ہو۔ پاکستان کے مسائل کا حل مقامی حکومتوں کے نظام سے وابستہ ہے اور مقامی حکومتوں کے نظام کے لیے کسی قانون سازی کی ضرورت نہیں ہے ۔
ہم ایم کیو ایم کے کسی رہنما یا کارکن پر دباؤ نہیں ڈال رہے ہیں ۔ جو لوگ ہماری جماعت میں شمولیت اختیار کر رہے ہیں وہ اپنے ضمیر کی آواز کے مطابق ہمارے ساتھ شامل ہو رہے ہیں ۔ بہت جلد بہت سارے لوگ ہمارے ساتھ ہوں گے اور بڑی بڑی وکٹیں گریں گی ۔ خوشی عوام کو ہو گی اور پریشانی ہمارے مخالفین ہو گی ۔ ہم کسی جماعت کے دفتر پر قبضہ نہیں کریں گے اور نہ ہی زبردستی کسی کو اپنے ساتھ ملائیں گے۔
الطاف حسین کے را سے تعلقات اور فنڈنگ کے حوالے سے میں نے اپنا موقف بیان کر دیا ہے ۔ میں کسی کمیشن میں پیش ہونے کا ارادہ نہیں رکھتا ، حکومت کے پاس جو ثبوت ہیں ، وہ اس حوالے سے کارروائی کرے ۔میں کسی سے نہیں ڈرتا، زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے ۔ ہم کمرے میں بیٹھ کر سیاست نہیں کریں گے بلکہ عوام میں جائیں گے ۔
ریاست فوری طور بھٹکے ہوئے لوگوں کے لیے پالیسی کا اعلان کرے تاکہ نوجوان راہ راست پر آکر وطن کی خدمت میں اپنا کردار ادا کر سکیں ۔ ایف آئی اے نے مجھے طلب کیا تو میں قانونی مشاورت کے بعد اس حوالے سے اپنا جواب دوں گا ۔
انیس قائم خانی (سابق مرکزی رہنما ایم کیو ایم)
کوئی بھی بچہ ماں کے پیٹ سے دہشت گرد نہیں ہوتا، حالات اور واقعات لوگوں کو غلط راہ پر لگا دیتے ہیں ۔ ایم کیو ایم کے کارکنان پیدائشی دہشت گرد نہیں ہیں ۔ انھیں جن لوگوں نے ٹارگٹ کلر یا جرائم پیشہ بنایا ہے ، ان لوگوں کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے ۔ اگر کچھ ناسمجھ نوجوان راہ حق سے بھٹک کر گمراہ ہو گئے ہیں تو ریاست کو اس پہلو کی نشاندہی کرنی چاہیے کہ وہ کیا وجوہ تھیں جن کی وجہ سے یہ لوگ مجرم بنے اور ان پر را کا ایجنٹ ہونے کا الزام لگایا گیا۔
اردو بولنے والے اسی دھرتی کے لوگ ہیں ، ان کا جینا مرنا پاکستان کے ساتھ ہے ۔ ہم سندھ کے باسی ہیں اور محبت کا پیغام پھیلانا چاہتے ہیں ۔ ریاست جب بلوچستان کے جنگجوؤں کو عام معافی دے سکتی ہے اور انھیں اچھا انسان بنانے کے لیے پیکیج کا اعلان کر سکتی ہے تو میں ریاست سے درخواست کرتا ہوں کہ کراچی کے نوجوان اسی ریاست کا حصہ ہیں ۔ خدارا ان کی اصلاح کے لیے بھی کوئی پیکیج اور عام معافی کا اعلان کیا جائے تاکہ یہ نوجوان بھی قومی دھارے میں آجائیں اور اس وطن کی خدمت کر سکیں۔
ایم کیو ایم جن اسیر لاپتہ کارکنان اور جیلوں میں قید نوجوانوں کو اپنا کارکن تسلیم نہیں کرتی ہے ، میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ ان نوجوانوں نے ایم کیو ایم کے لیے اپنا تن من دھن قربان کیا ،یہ نوجوان لاوارث نہیں ہیں ۔ آج ان کے اہل خانہ بے یارومددگار گھوم رہے ہیں ۔ یہ تمام نوجوان ہمارے دلوں کا حصہ ہیں ۔ ہم انھیں اپنا ساتھی مانتے ہیں اور دعوت دیتے ہیں کہ وہ ہمارے قافلے میں شامل ہو جائیں ۔ ہم ان کی آواز بنیں گے اور ان کے لیے قانونی جنگ لڑیں گے ۔ بڑی تعداد میں لاپتہ اور قید کارکنان کے اہل خانہ ہم سے رابطہ کر رہے ہیں۔ ہم ان کی قانونی مدد کریں گے اور اس کے لیے لیگل ٹیم بنائی جائے گی۔
ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے قافلے میں شامل ہونے والے لوگ وطن کی محبت اور بھائی چارگی کے پیغام کو عام کریں اور اس قافلے کا مقصد یہ ہے کہ ہم ایسی نوجوان قیادت کو آگے لانا چاہتے ہیں جو وطن دوست ہو ، پڑھی لکھی ہو تاکہ وہ ملک کی باگ ڈور کو سنبھال سکے ۔ ہم مضبوط طریقے سے تنظیمی ڈھانچے کا اعلان کریں گے اور نوجوان قیادت کو آگے لائیں گے۔
اپریل میں ہونے والے جلسے کی تیاریاں شروع کر دی گئی ہیں ،ہمارے پاس وسائل نہیں ہیں لیکن عوام کی محبتیں ہیں۔ یہ جلسہ تاریخی جلسہ ہو گا اور اس جلسے سے محبت کے پیغام کو پشاور اور ملک کے کونے کونے تک پہنچائیں گے ۔جو لوگ ہمارے ساتھ رابطہ کر رہے ہیں ، ہم نہیں جانتے کہ وہ کس علاقے سے تعلق رکھتے ہیں ۔ ان کا مذہب یا قوم کیا ہے اور کس جماعت سے ان کا تعلق ہے۔ بس جب سے ہم پاکستان آئے ہیں ، لوگوں کا رابطہ ہم سے شروع ہو گیا ہے۔ یہ قافلے کی ابتدا ہے، منزل دور نہیں۔ اگر نیت اچھی ہو تو نتائج حاصل ہو جاتے ہیں۔
ہم کسی کے دفتر یا مرکز پر قبضہ نہیں کریں گے ۔ ہمیں کسی اسٹیبلشمنٹ یا حکومت کی حمایت حاصل نہیں ہے۔ ہماری طاقت عوام ہے اور عوامی طاقت کے بل بوتے پر ہم اپنی رابطہ مہم شروع کرنے جا رہے ہیں۔ جلد ہی کراچی کے تمام علاقوں کا دورہ کریں گے اور عوام سے ملاقاتیں کریں گے ۔کراچی میں جو لوگ غلط انداز میں دیواروں پر وال چاکنگ کر رہے ہیں، ان سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے۔ میں اپیل کرتا ہوں کہ دیواروں پر چاکنگ نہ کی جائے کیونکہ دیواروں پر چاکنگ سے فتح حاصل نہیں ہوتی۔ فتح عوام کی حمایت سے حاصل ہوتی ہے۔ ہمارا مقصد عوام کی حمایت حاصل کرنا ہے، اس مقصد میں ہمیں کامیابی حاصل ہو رہی ہے۔
ضمنی انتخاب ہماری منزل نہیں ہے، پہلے ہم اپنے تنظیمی نیٹ ورک کو مضبوط کر لیں ۔ پھر آئندہ انتخابات میں حصہ لینے کا سوچیں گے ۔ہماری تنظیم میں فرد واحد فیصلہ نہیں کرے گا ۔ تمام فیصلے مشاورت سے کیے جائیں گے ۔ ہمارا وژن عوام کی خدمت ہے، ہماری تنظیم میں زکوۃ ، فطرہ اور کھالیں جمع کرنے کی کوئی پالیسی نہیں ہو گی اور نہ ہی ہم چندہ لیں گے ۔ہماری جماعت کے نام اور منشور کا اعلان جلد کیا جائے گا اور جلد عوامی سیکریٹریٹ قائم کر دیا جائے گا۔
ابھی بہت بڑے بڑے لوگ ہم سے رابطے میں ہیں ۔ جلد اہم وکٹیں گرنے والی ہیں، ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے ۔ ہماری جماعت میں جو لوگ شامل ہونا چاہتے ہیں ، انہیں دعوت عام ہے ۔ بعض شامل ہونے والے لوگوں سے درخواست ہے کہ ان کی ایک سوچ ہونی چاہیے ۔ وہ سوچ وطن سے محبت ہو ۔ جن لوگوں کو عوامی مینڈیٹ حاصل تھا ، انھوں نے اس شہر کو لاوارث بنا دیا ہے ۔ کراچی کے لوگ اس شہر کے وارث ہیں ۔ اس شہر کو اون کرتے ہیں اور ہم کراچی کا مقدمہ بھرپور انداز میں لڑیں گے ۔ ہمارا حکومت سے کوئی رابطہ ہے نہ ہی حکومت سے رابطہ کریں گے۔
میں پاکستان کے لوگوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ اس ملک کی خدمت اور ترقی کے لیے اپنا کردار ادا کریں کیونکہ اس وطن نے ہمیں جو مقام دیا ہے ، اس وطن کی قدر اور حفاظت کرنا ہمارے فرائض میں ہونا چاہیے ۔ میرے اوپر سانحہ بلدیہ کے حوالے سے جو الزامات لگائے گئے ہیں ، وہ غلط ہیں اور میں ہر الزام کا قانونی دفاع کروں گا۔