اک نظر ادھر بھی
وطن عزیز کن مسائل میں گھرا ہوا ہے، ان کی شدت کتنی ہے اور ان کے حل کے لیے کیا ترجیحات ہونا چاہئیں
وطن عزیز کن مسائل میں گھرا ہوا ہے، ان کی شدت کتنی ہے اور ان کے حل کے لیے کیا ترجیحات ہونا چاہئیں؟ محسوس یہ ہوتا ہے کہ حکمران اشرافیہ (سیاسی اور غیر سیاسی دونوں) کو نہ تو ان معاملات کا واضح ادراک ہے اور نہ ہی ان میں کوئی دلچسپی ہے۔
یہی کچھ معاملہ ذرایع ابلاغ کا ہے، جو اصل عوامی ایشوز سے چشم پوشی کرتے ہوئے، اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتیں ان نان ایشوز کا پروپیگنڈا کرنے پر صرف کر رہے ہیں، جن سے عوامی سطح پر سوائے ہیجان پھیلنے کے کچھ اور حاصل نہیں ہو رہا۔ یہ کھیل کئی دہائیوں سے تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔ البتہ سب اپنے اپنے حصے کے مفادات ضرور حاصل کر رہے ہیں۔ جب کہ عوام حسرت بھری نگاہوں سے ادھر ادھر تک رہے ہیں۔
اس وقت کئی مسائل ایسے ہیں، جن کے حل کے لیے کسی راکٹ ٹیکنالوجی کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ معمولی سے سیاسی عزم کے ساتھ فوری اقدامات کے ذریعے معاملے کو باآسانی حل کیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک اہم مسئلہ مردم شماری کے فوری انعقاد کا ہے، جس کی وجہ سے وسائل کی تقسیم جیسے اہم اور حساس معاملات محض اندازوں کی بنیادوں پر طے کیے جا رہے ہیں۔ انتخابی حلقہ بندیاں اور قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں نشستوں کی تعداد وغیرہ کا معاملہ کھٹائی میں پڑا ہوا ہے۔ دوسرا اہم مرحلہ صنعتی شہروں کے اکنامک سروے کا ہوتا ہے۔
تلخ حقیقت یہ ہے کہ 1951ء میں پہلی اور آخری بار صرف کراچی کا اکنامک سروے ہوا۔ اس کے بعد اس کی زحمت گوارا نہیں کی گئی۔ پچھلے کئی اظہاریوں میں مردم شماری کی اہمیت پر روشنی ڈالنے کے علاوہ حکمرانوں کو یہ مشورہ دیا تھا کہ اگر فوج ضرب عضب میں مصروف ہے اور مطلوبہ تعداد میں اہلکار مہیا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے، تو اس اہم ذمے داری کو Out Source کیا جا سکتا ہے، جس سے وہ شکوک و شبہات بھی ختم ہو سکتے ہیں، جو ریاستی اداروں کے بارے میں مختلف سیاسی جماعتوں اور دیگر شراکت داروں میں پائے جاتے ہیں۔
دوسرا اہم ترین معاملہ مقامی حکومتوں کے قیام اور اختیارات کی تفویض کا ہے۔ گزشتہ برس دسمبر میں مقامی حکومتوں کے انتخابات کے تمام مراحل مکمل ہو چکے ہیں۔ لیکن سندھ اور پنجاب میں ان اداروں کو اختیارات تفویض کیے جانے میں پس و پیش سے کام لیا جا رہا ہے۔ مقامی حکومتی نظام کے قیام سے نچلی سطح کے ترقیاتی منصوبے اور عوام کے چھوٹے موٹے فوری نوعیت کے مسائل کا حل ممکن ہوتا ہے، مگر سندھ میں حکمران اشرافیہ کی پوری توجہ ایم کیو ایم کے حصے بخرے کر کے ایک نیا گروپ تشکیل دینے پر مرکوز ہے جب کہ ذرایع ابلاغ ایک طرف سنی سنائی کا بتنگڑ بنا کر ایم کیو ایم کا میڈیا ٹرائل کرنے میں مصروف ہے، جب کہ دوسری طرف حقوق نسواں بل پر مسلکی جماعتوں کے شور و غوغا کو اچھالا جا رہا ہے۔
ستمبر 2013ء سے جب کراچی میں امن و امان کی بہتری کے لیے رینجرز آپریشن کا آغاز ہوا ہے، ہم تسلسل کے ساتھ اس کے طریقہ کار پر تحفظات کا اظہار کرتے چلے آ رہے ہیں، مگر نقارخانے میں طوطی کی آواز کسے سنائی دیتی ہے۔ ہم نے بارہا یہ لکھا اور کہا کہ کراچی کے مسئلے کا حل رینجرز کی تعیناتی اور اس کے قیام میں مسلسل اضافہ نہیں ہے، اور نہ ہی شہر کی نمایندہ جماعت کے اندر دھڑے پیدا کر کے ان کی سرپرستی سے ممکن ہے۔ بلکہ کراچی کا مسئلہ ایک بااختیار مقامی حکومتی نظام کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
ایک ایسا نظام جس میں پولیس سمیت ضلعی انتظام کے محکمے میئر کے تابع ہوں۔ یہ معاملہ صرف کراچی کا نہیں ہے، بلکہ ان تمام شہروں کا ہے، جن کی آبادی دس لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ دیگر شہروں میں بدانتظامی کی سنگینی اس لیے نظر نہیں آ رہی، کیونکہ یہ تمام شہر ابھی تک کراچی کی طرح کثیرالعقیدہ، کثیراللسانی اور کثیرالثقافتی نہیں ہیں۔ مگر آبادی کا بڑھتا ہوا دباؤ کسی بھی وقت امن و امان کی صورتحال کو مخدوش کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔ اس لیے جلد یا بدیر کراچی کے ساتھ ان شہروں میں بھی پیش بندی کے طور پر ایک مکمل بااختیار شہری حکومتی نظام متعارف کرانا پڑے گا۔ اس کے علاوہ کوئی اور راستہ نظر نہیں آ رہا۔
ہمارے خیال میں سب سے پہلے تو اس بلدیاتی نظام کو فوری طور پر فعال کیا جائے، جس کے تحت پورے ملک میں گزشتہ برس انتخابات ہو چکے ہیں۔ لیکن ایک ایسے مکمل بااختیار مقامی حکومتی نظام کا متعارف کرایا جانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے، جو ریاستی انتظام میں تیسری سطح یعنی Third tier ہو اور پورے ملک میں یکساں ہو۔ اس مقصد کے لیے بہتر یہ ہو گا کہ وفاقی حکومت ایک کمیشن تشکیل دے، جس میں تمام صوبوں کے وزرائے بلدیات اور سیکریٹری بلدیات کے علاوہ مقامی حکومتی نظام پر کام کرنے والی تنظیموں کے نمایندے شامل ہوں۔ یہ کمیشن ایک مضبوط، مستحکم، پائیدار اور بااختیار مقامی حکومتی نظام کا بلیو پرنٹ تیار کرے، جسے پہلے پارلیمان اور پھر صوبائی اسمبلیوں سے منظوری کے بعد نافذکیا جانا چاہیے۔
پھر عرض ہے کہ ضلع کو حکومتی نظام کی تیسری سطح (Third tier) بنائے بغیر اب یہ معاملہ منطقی بنیادوں پر حل نہیں ہو سکے گا۔ منتخب ضلعی میئر کو ضلع کی سطح پر کم و بیش ویسے ہی سیاسی، انتظامی اور مالیاتی اختیارات حاصل ہونا چاہئیں، جو صوبے کی سطح پر وزیراعلیٰ کو حاصل ہوتے ہیں۔ اگر وفاقی اور صوبائی حکومتیں ابھی سے اس مسئلے پر سنجیدگی کے ساتھ کام کا آغاز کر دیں، تو کوئی سبب نہیں کہ اگلے بلدیاتی انتخابات تک ایک قابل عمل مقامی حکومتی نظام کا ڈھانچہ تیار نہ ہو سکے۔ اس وقت تک موجودہ بلدیاتی نظام بھی اپنی مدت مکمل کر چکا ہو گا۔
تیسرا بڑا چیلنج موسمیاتی تغیرات کا ہے۔ یہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں جنم لے رہا ہے۔ اس کے اثرات براہ راست عام آدمی پر مرتب ہو رہے ہیں۔ ایک طرف بارشوں کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے، جو موسمیاتی فصلوں کو نقصان پہنچانے کا سبب بن رہی ہیں، دوسرے درجہ حرارت میں اضافہ کی وجہ سے گلیشیئر پگھل رہے ہیں، جو میدانی علاقوں میں شدید سیلابوں کا باعث بن رہے ہیں۔ ایک طرف درجہ حرارت میں اضافہ کی وجہ سے زمین کی زرخیزی متاثر ہو رہی ہے، جب کہ دوسری طرف سیلابوں کے نتیجے میں بھی کھڑی فصلیں تباہ ہو رہی ہیں اور ذخیرہ کیا گیا اناج ضایع ہو رہا ہے۔
ان دونوں صورتوں میں غذائی قلت کا شدید بحران منہ کھولے کھڑا ہے۔ جب کہ درجہ حرارت میں اضافہ مختلف خطرناک بیماریوں میں اضافے اور براہ راست Heat stroke سے اموات کا سبب بن رہا ہے۔ اس حوالے سے آنے والے ماہ و سال خاصے پیچیدہ ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ اس لیے اس چیلنج پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ دنیا کے کئی ممالک نے اس حوالے سے جو اقدامات کیے ہیں، ان کا مطالعہ کر کے ان پر عمل کی حکمت عملی تیار کی جا سکتی ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت اور ریاستی ادارے فروعیات میں الجھنے کے بجائے جنم لیتے نئے چیلنجوں کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ انھیں یہ سمجھنا ہو گا کہ آج کی دنیا سرد جنگ کے زمانے کی دنیا سے قطعی مختلف ہے، اس لیے اس کے چیلنجز اور اہداف بھی بالکل مختلف ہیں۔ لہٰذا یہ سمجھنا ضروری ہے کہ وہی اقدامات کامیابی سے ہمکنار ہوں گے، جو ان چیلنجز کا ادراک کرنے کے بعد کیے جائیں گے۔ دنیا میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے حوالے سے شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ:
موسم گل ہے، ذرا گھر سے نکل کر دیکھو
باغ روشن ہیں، ہواؤں میں دیے جلتے ہیں
آج دنیا کا ہر چھوٹا بڑا ملک اپنے عوام کی خوشحالی کے لیے ترقی کی نئی راہیں تلاش کرنے کی جستجو میں محو ہے، مگر ہمارے یہاں حکمران سراب کے پیچھے دوڑ رہے ہیں۔ قومی سیاسی جماعتیں فکری ابہام اور کوتاہ بینی میں مبتلا ہیں۔ مسلکوں کے نام پر قائم جماعتیں خود کو دینی قرار دے کر ایک طرف عوام کو دھوکا دے رہی ہیں، جب کہ دوسری طرف انھیں فروعی مسائل میں الجھا کر پتھروں کے زمانے میں دھکیلنے کے درپے ہیں۔
ریاستی ادارے آئین میں متعین اپنی ذمے داریوں سے ماورا ہو کر سیاسی عمل میں مداخلت کو اپنا حق سمجھ رہے ہیں۔ اس صورتحال نے پورے ریاستی ڈھانچے کو بے ہنگم قسم کے کنفیوژن کا شکار کر دیا ہے۔ اس لیے حکمرانوں سے یہی التماس کی جا سکتی ہے کہ وہ فروعیات میں وقت ضایع کرنے کے بجائے ملک کو درپیش ان حقیقی مسائل کے حل پر اپنی توجہ مرکوز کریں، جو وقت گزرنے کے ساتھ بحرانی شکل اختیار کرتے ہوئے ایک بڑا چیلنج بنتے جا رہے ہیں۔
یہی کچھ معاملہ ذرایع ابلاغ کا ہے، جو اصل عوامی ایشوز سے چشم پوشی کرتے ہوئے، اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتیں ان نان ایشوز کا پروپیگنڈا کرنے پر صرف کر رہے ہیں، جن سے عوامی سطح پر سوائے ہیجان پھیلنے کے کچھ اور حاصل نہیں ہو رہا۔ یہ کھیل کئی دہائیوں سے تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔ البتہ سب اپنے اپنے حصے کے مفادات ضرور حاصل کر رہے ہیں۔ جب کہ عوام حسرت بھری نگاہوں سے ادھر ادھر تک رہے ہیں۔
اس وقت کئی مسائل ایسے ہیں، جن کے حل کے لیے کسی راکٹ ٹیکنالوجی کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ معمولی سے سیاسی عزم کے ساتھ فوری اقدامات کے ذریعے معاملے کو باآسانی حل کیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک اہم مسئلہ مردم شماری کے فوری انعقاد کا ہے، جس کی وجہ سے وسائل کی تقسیم جیسے اہم اور حساس معاملات محض اندازوں کی بنیادوں پر طے کیے جا رہے ہیں۔ انتخابی حلقہ بندیاں اور قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں نشستوں کی تعداد وغیرہ کا معاملہ کھٹائی میں پڑا ہوا ہے۔ دوسرا اہم مرحلہ صنعتی شہروں کے اکنامک سروے کا ہوتا ہے۔
تلخ حقیقت یہ ہے کہ 1951ء میں پہلی اور آخری بار صرف کراچی کا اکنامک سروے ہوا۔ اس کے بعد اس کی زحمت گوارا نہیں کی گئی۔ پچھلے کئی اظہاریوں میں مردم شماری کی اہمیت پر روشنی ڈالنے کے علاوہ حکمرانوں کو یہ مشورہ دیا تھا کہ اگر فوج ضرب عضب میں مصروف ہے اور مطلوبہ تعداد میں اہلکار مہیا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے، تو اس اہم ذمے داری کو Out Source کیا جا سکتا ہے، جس سے وہ شکوک و شبہات بھی ختم ہو سکتے ہیں، جو ریاستی اداروں کے بارے میں مختلف سیاسی جماعتوں اور دیگر شراکت داروں میں پائے جاتے ہیں۔
دوسرا اہم ترین معاملہ مقامی حکومتوں کے قیام اور اختیارات کی تفویض کا ہے۔ گزشتہ برس دسمبر میں مقامی حکومتوں کے انتخابات کے تمام مراحل مکمل ہو چکے ہیں۔ لیکن سندھ اور پنجاب میں ان اداروں کو اختیارات تفویض کیے جانے میں پس و پیش سے کام لیا جا رہا ہے۔ مقامی حکومتی نظام کے قیام سے نچلی سطح کے ترقیاتی منصوبے اور عوام کے چھوٹے موٹے فوری نوعیت کے مسائل کا حل ممکن ہوتا ہے، مگر سندھ میں حکمران اشرافیہ کی پوری توجہ ایم کیو ایم کے حصے بخرے کر کے ایک نیا گروپ تشکیل دینے پر مرکوز ہے جب کہ ذرایع ابلاغ ایک طرف سنی سنائی کا بتنگڑ بنا کر ایم کیو ایم کا میڈیا ٹرائل کرنے میں مصروف ہے، جب کہ دوسری طرف حقوق نسواں بل پر مسلکی جماعتوں کے شور و غوغا کو اچھالا جا رہا ہے۔
ستمبر 2013ء سے جب کراچی میں امن و امان کی بہتری کے لیے رینجرز آپریشن کا آغاز ہوا ہے، ہم تسلسل کے ساتھ اس کے طریقہ کار پر تحفظات کا اظہار کرتے چلے آ رہے ہیں، مگر نقارخانے میں طوطی کی آواز کسے سنائی دیتی ہے۔ ہم نے بارہا یہ لکھا اور کہا کہ کراچی کے مسئلے کا حل رینجرز کی تعیناتی اور اس کے قیام میں مسلسل اضافہ نہیں ہے، اور نہ ہی شہر کی نمایندہ جماعت کے اندر دھڑے پیدا کر کے ان کی سرپرستی سے ممکن ہے۔ بلکہ کراچی کا مسئلہ ایک بااختیار مقامی حکومتی نظام کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
ایک ایسا نظام جس میں پولیس سمیت ضلعی انتظام کے محکمے میئر کے تابع ہوں۔ یہ معاملہ صرف کراچی کا نہیں ہے، بلکہ ان تمام شہروں کا ہے، جن کی آبادی دس لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ دیگر شہروں میں بدانتظامی کی سنگینی اس لیے نظر نہیں آ رہی، کیونکہ یہ تمام شہر ابھی تک کراچی کی طرح کثیرالعقیدہ، کثیراللسانی اور کثیرالثقافتی نہیں ہیں۔ مگر آبادی کا بڑھتا ہوا دباؤ کسی بھی وقت امن و امان کی صورتحال کو مخدوش کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔ اس لیے جلد یا بدیر کراچی کے ساتھ ان شہروں میں بھی پیش بندی کے طور پر ایک مکمل بااختیار شہری حکومتی نظام متعارف کرانا پڑے گا۔ اس کے علاوہ کوئی اور راستہ نظر نہیں آ رہا۔
ہمارے خیال میں سب سے پہلے تو اس بلدیاتی نظام کو فوری طور پر فعال کیا جائے، جس کے تحت پورے ملک میں گزشتہ برس انتخابات ہو چکے ہیں۔ لیکن ایک ایسے مکمل بااختیار مقامی حکومتی نظام کا متعارف کرایا جانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے، جو ریاستی انتظام میں تیسری سطح یعنی Third tier ہو اور پورے ملک میں یکساں ہو۔ اس مقصد کے لیے بہتر یہ ہو گا کہ وفاقی حکومت ایک کمیشن تشکیل دے، جس میں تمام صوبوں کے وزرائے بلدیات اور سیکریٹری بلدیات کے علاوہ مقامی حکومتی نظام پر کام کرنے والی تنظیموں کے نمایندے شامل ہوں۔ یہ کمیشن ایک مضبوط، مستحکم، پائیدار اور بااختیار مقامی حکومتی نظام کا بلیو پرنٹ تیار کرے، جسے پہلے پارلیمان اور پھر صوبائی اسمبلیوں سے منظوری کے بعد نافذکیا جانا چاہیے۔
پھر عرض ہے کہ ضلع کو حکومتی نظام کی تیسری سطح (Third tier) بنائے بغیر اب یہ معاملہ منطقی بنیادوں پر حل نہیں ہو سکے گا۔ منتخب ضلعی میئر کو ضلع کی سطح پر کم و بیش ویسے ہی سیاسی، انتظامی اور مالیاتی اختیارات حاصل ہونا چاہئیں، جو صوبے کی سطح پر وزیراعلیٰ کو حاصل ہوتے ہیں۔ اگر وفاقی اور صوبائی حکومتیں ابھی سے اس مسئلے پر سنجیدگی کے ساتھ کام کا آغاز کر دیں، تو کوئی سبب نہیں کہ اگلے بلدیاتی انتخابات تک ایک قابل عمل مقامی حکومتی نظام کا ڈھانچہ تیار نہ ہو سکے۔ اس وقت تک موجودہ بلدیاتی نظام بھی اپنی مدت مکمل کر چکا ہو گا۔
تیسرا بڑا چیلنج موسمیاتی تغیرات کا ہے۔ یہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں جنم لے رہا ہے۔ اس کے اثرات براہ راست عام آدمی پر مرتب ہو رہے ہیں۔ ایک طرف بارشوں کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے، جو موسمیاتی فصلوں کو نقصان پہنچانے کا سبب بن رہی ہیں، دوسرے درجہ حرارت میں اضافہ کی وجہ سے گلیشیئر پگھل رہے ہیں، جو میدانی علاقوں میں شدید سیلابوں کا باعث بن رہے ہیں۔ ایک طرف درجہ حرارت میں اضافہ کی وجہ سے زمین کی زرخیزی متاثر ہو رہی ہے، جب کہ دوسری طرف سیلابوں کے نتیجے میں بھی کھڑی فصلیں تباہ ہو رہی ہیں اور ذخیرہ کیا گیا اناج ضایع ہو رہا ہے۔
ان دونوں صورتوں میں غذائی قلت کا شدید بحران منہ کھولے کھڑا ہے۔ جب کہ درجہ حرارت میں اضافہ مختلف خطرناک بیماریوں میں اضافے اور براہ راست Heat stroke سے اموات کا سبب بن رہا ہے۔ اس حوالے سے آنے والے ماہ و سال خاصے پیچیدہ ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ اس لیے اس چیلنج پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ دنیا کے کئی ممالک نے اس حوالے سے جو اقدامات کیے ہیں، ان کا مطالعہ کر کے ان پر عمل کی حکمت عملی تیار کی جا سکتی ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت اور ریاستی ادارے فروعیات میں الجھنے کے بجائے جنم لیتے نئے چیلنجوں کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ انھیں یہ سمجھنا ہو گا کہ آج کی دنیا سرد جنگ کے زمانے کی دنیا سے قطعی مختلف ہے، اس لیے اس کے چیلنجز اور اہداف بھی بالکل مختلف ہیں۔ لہٰذا یہ سمجھنا ضروری ہے کہ وہی اقدامات کامیابی سے ہمکنار ہوں گے، جو ان چیلنجز کا ادراک کرنے کے بعد کیے جائیں گے۔ دنیا میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے حوالے سے شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ:
موسم گل ہے، ذرا گھر سے نکل کر دیکھو
باغ روشن ہیں، ہواؤں میں دیے جلتے ہیں
آج دنیا کا ہر چھوٹا بڑا ملک اپنے عوام کی خوشحالی کے لیے ترقی کی نئی راہیں تلاش کرنے کی جستجو میں محو ہے، مگر ہمارے یہاں حکمران سراب کے پیچھے دوڑ رہے ہیں۔ قومی سیاسی جماعتیں فکری ابہام اور کوتاہ بینی میں مبتلا ہیں۔ مسلکوں کے نام پر قائم جماعتیں خود کو دینی قرار دے کر ایک طرف عوام کو دھوکا دے رہی ہیں، جب کہ دوسری طرف انھیں فروعی مسائل میں الجھا کر پتھروں کے زمانے میں دھکیلنے کے درپے ہیں۔
ریاستی ادارے آئین میں متعین اپنی ذمے داریوں سے ماورا ہو کر سیاسی عمل میں مداخلت کو اپنا حق سمجھ رہے ہیں۔ اس صورتحال نے پورے ریاستی ڈھانچے کو بے ہنگم قسم کے کنفیوژن کا شکار کر دیا ہے۔ اس لیے حکمرانوں سے یہی التماس کی جا سکتی ہے کہ وہ فروعیات میں وقت ضایع کرنے کے بجائے ملک کو درپیش ان حقیقی مسائل کے حل پر اپنی توجہ مرکوز کریں، جو وقت گزرنے کے ساتھ بحرانی شکل اختیار کرتے ہوئے ایک بڑا چیلنج بنتے جا رہے ہیں۔