Loving And Caring

مرد اور عورت۔ اس کائنات کے دو اہم کردار۔ سوال ہے کہ ان میں تعلق کی نوعیت کیا ہوگی

03332257239@hotmail.com

مرد اور عورت۔ اس کائنات کے دو اہم کردار۔ سوال ہے کہ ان میں تعلق کی نوعیت کیا ہوگی؟ یہ اتنا نازک سوال ہے کہ بڑے سے بڑا دانشور بھی اس کا صحیح جواب نہیں دے سکتا۔ ماں بیٹا، بھائی بہن، باپ بیٹی خونی رشتے ہیں جب کہ میاں بیوی، سسر بہو اور دیور بھابی ایسے رشتے ہیں جو ایک شادی کے نتیجے میں قائم ہوتے ہیں۔ جدید دنیا نے بھی کچھ ایسے تعلق کو جنم دیا ہے جو ملازمت کے حوالے سے قائم ہوتے ہیں۔ باس سیکریٹری، ڈاکٹر نرس، پائلٹ ایئرہوسٹس۔ سوال وہیں آکر رکتا ہے کہ مرد اور عورت کے تعلق کی نوعیت کیا ہوگی؟ کیسے معاملات ہوں کہ کوئی کسی پر زیادتی نہ کرے۔

''حقوق نسواں قانون'' جاری کرکے میاں شہباز شریف نے سیاسی محاذ پر ایک پتھر پھینکا۔ وہ دیکھنا چاہتے تھے کہ لہریں کیا کہتی ہیں۔ مذہبی پارٹیوں نے اس کی مخالفت کی اور حکومت کو دس دن کا الٹی میٹم دیا کہ وہ اسے واپس لے لے، ورنہ 77 سے بڑی تحریک اٹھے گی۔ میاں برادران نے مولانا فضل الرحمن سے ملاقات کی اور قانون میں ترمیم کے لیے کمیٹی بنا دی۔ نواز شریف پہلے لکیر کے اس طرف تھے جو مذہبی پارٹیوں کا حلقہ کہلاتا ہے، اب وہ لکیر کے دوسری طرف کیوں ہیں؟ یہ بڑا دلچسپ سوال ہے۔ اگر اس سوال سے پہلے دو سوالوں پر گفتگو نہ کی جائے تو کالم میں ایک خلا رہ جائے گا۔ قانون نسواں کیا ہے؟ عورتوں پر معاشرے میں مظالم کی کیفیت کیا ہے؟ ایک خاتون نے قانون کا طالب علم سمجھ کر اپنے اوپر ہونے والے ظلم کی کہانی سنائی۔

اتوار کا دن تھا اور دس بجے کا وقت۔ فون کی گھنٹی بجی تو دوسری طرف ایک خاتون تھیں۔ ان سے آدھ گھنٹے بعد فون کرنے کی درخواست کی۔ شادی کو پندرہ سال ہوچکے ہوں اور پانچ بچے ہوں تو عورت بڑی حد تک پابند ہوجاتی ہے۔ اگر عورت کا میکا دوسرے شہر بلکہ دوسرے صوبے میں ہو تو مظلومیت کی شدت مزید بڑھ جاتی ہے۔ اگر بھائی اور خاندان والے تگڑے نہ ہوں تو عورت تین طرف سے اپنے آپ کو قید سمجھتی ہے۔ اگر عورت سمجھے کہ اس کے والد کے سامنے مظلومیت کی داستان سنائی تو وہ کانپنے لگیں گے تو پھر وہ کہاں جائے؟

یہ تو کہانی ہوئی ایک شادی شدہ خاتون کے میکے کی۔ سسرال میں دیور، بھابھیاں اور نندیں بھی اگر ایک مرد کی حوصلہ افزائی کریں تو یہ پہلی دیوار ہوتی ہے جس میں عورت چنوائی جاتی ہے۔ اگر باپ خود بیٹے سے کہے کہ عورت کی پٹائی ہونی چاہیے اور ایک پیالا خون روزانہ نکالنا چاہیے تو وہ کہاں جائے؟ ظالم کا ہاتھ روک سکنے والا بزرگوار خود اپنی بیوی پر ظلم کی داستان روا رکھنے کی تاریخ رکھتا ہو تو یہ دوسری دیوار ہوتی ہے جو اس پر چنوائی جاتی ہے۔

کیا شوہر بے روزگار ہے؟ جواب ملا کہ نہیں، وہ ایک سرکاری ادارے میں مناسب تنخواہ پاتے ہیں۔ اگر معاشی مسئلہ ہو تو یہ 95 فیصد جھگڑوں کی بنیاد بنتا ہے۔ تین فیصد بیماری اور دو فیصد بے وقوفی۔ اگر کوئی جسمانی بیماری نہیں ہے تو پھر ذہنی بیماری یا بے وقوفی رہ جاتی ہے۔ سسرال میں دو دیواریں چنوائے جانے کی ہم بات کرچکے ہیں۔ تیسری دیوار خود بخود قائم ہوتی ہے کہ بچے چھوٹے ہوتے ہیں۔ یوں کیا ظالم شوہر کے روبرو عورت کی جوانی اس انتظار میں پٹائی سہتے گزرے کہ کب بچے بڑے ہوں گے اور کب وہ اپنے باپ کا ہاتھ پکڑیں گے؟

اگر اولاد بھی باپ کی طرف ہو اور وہ بھی صدیوں سے کمزور عورت پر مردانگی دکھاتے معاشرے کا حصہ بن جائے تو عورت کہاں جائے؟ پھر بھی ایک ہلکی سی امید ہوتی ہے کہ آج ہی تو بچے چھوٹے ہیں۔ چوتھی دیوار عورت نے خود اپنے گرد تعمیر کی ہے۔ جب خاتون سے کہا کہ اگر آپ بچوں کو چھوڑ کر اپنے والدین کے پاس پنجاب چلی جائیں تو؟ یہ ایسا مقام آجاتا جب ممتا کے ہاتھوں مجبور ماں اپنے بچوں کو اپنے سے الگ کرنے پر تیار نہیں ہوتی۔ ان خاتون نے بتایا کہ ''ایک مرتبہ میں اپنے بچوں کو لے کر میکے چلی گئی۔ میری نندوں نے کہا کہ اچھا ہے ان کا خرچہ بڑھے گا۔'' یہ چار دیواریں ہیں جن میں ایک اکبر نہیں بلکہ لاکھوں اکبر روزانہ لاکھوں انار کلیوں کو دیواروں میں چنوا رہے ہیں۔


خاتون کہتی ہیں کہ میرے چہرے اور ہاتھوں پر زخموں کے نشان سب گھر والوں کو دکھائی دیتے ہیں۔ کیا شوہر کو ان پر شرمندگی ہوتی ہے؟ خاتون نے کہا کہ اس کی آنکھوں میں فخریہ چمک آجاتی ہے۔ کبھی آپ نے انھیں قرآنی آیات و احادیث سنائی ہیں جن میں عورت سے اچھے سلوک کی ہدایت دی گئی ہے؟ خاتون نے کہا کہ کئی مرتبہ دکھائی ہیں اور ٹی وی پر آنے والے پروگراموں کا حوالہ بھی دیا ہے۔ وہ ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیتے ہیں۔

اب ایسا نازک مقام آگیا جس پر لاچاری کے سوا کوئی جواب نہ تھا۔ خاتون سے شیلٹر ہوم کا کہا تو جواب آیا کہ اس سے بدنامی ہوگی۔ میں اپنے پانچ بچوں کو لے کر کہاں کہاں ماری پھرتی رہوں گی۔ آخری سوال پر لاچارگی نہیں بلکہ بے چارگی کی انتہا تھی۔ خاتون نے پوچھا کہ کوئی قانونی تحفظ؟ بیوی اپنے ناپسندیدہ شوہر سے خلع لے سکتی ہے۔ اس کے علاوہ اور کیا ہوسکتا ہے۔ اب اگر کوئی عورت گھر نہ توڑنا چاہے اور غربت کی وجہ سے میکے بھی نہ جاسکے تو پھر وہ کیا کرے؟ یہ ہیں وہ سوالات جن کا جواب کسی کے پاس نہیں۔

عورت پر ظلم ہوتا ہے اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ اس حوالے سے بدمعاشوں کی بدمعاشی کو لگام دینے کے لیے قانون سازی ہونی چاہیے، اس پر بھی سب متفق ہیں۔ اب کیا ہونا چاہیے؟ یہ ایک اہم سوال ہے۔ پنجاب حکومت نے جلدبازی میں قانون سازی کرکے ایک اچھے عمل کو متنازعہ بنادیا۔ شوہر کی گرفتاری اور کڑے پہنانے والی بات نے اختلاف کی گرد میں مظلوموں کو مزید مظلوم بنادیا ہے۔

فیملی قوانین میں جب عورت عدالت تک آجاتی ہے تب بھی مقدمہ دائر ہونے اور جواب دعویٰ کے بعد میاں بیوی کو جج صاحب یا صاحبہ سمجھاتے ہیں۔ چیمبر میں فریقین کے علاوہ کوئی نہیں ہوتا۔ اسے PRE-TRIAL کہتے ہیں۔ اب خلع فوراً مل جاتی ہے، ورنہ پہلے گواہیوں کے بعد ایک مرتبہ پھر سمجھانے کی کوشش کی جاتی تھی، جسے POST TRIAL کہتے تھے۔ موجودہ قانون میں عورت کی شکایت پر شوہر کو سمجھانے بجھانے یا شرمندہ کرنے یا مصلحت سے اس کا دماغ درست کرنے کا کوئی فورم نہیں۔ امید ہے کہ لوہے کے کڑے کے بجائے پھولوں کے کڑے سے نکمے شوہر کی اصلاح کی قانون سازی سے ہماری بہنوں بیٹیوں کے آنسو پونچھنے کا راستہ نکالا جائے گا۔ مذہبی پارٹیوں اور میاں برادران میں اختلافات نے شدت کیوں اختیار کی؟

نواز شریف اب لکیر کے دوسری طرف ہیں۔ اب انھیں دائیں بازو کے بجائے لبرل کہلوانا زیادہ پسند ہے۔ مرحوم میاں شریف مذہبی رجحان کے حامل شخص تھے۔ اس کے بعد جنرل ضیا الحق کی اسلام پسندی نے نواز شریف کو لکیر کے اس طرف رہنے پر مائل کیا۔ نئی صدی میں پاکستان کے تیسری دفعہ وزیراعظم بننے پر مسلم لیگ (ن) کا نیا چہرہ سامنے آیا ہے۔

ظاہر بات ہے کہ دائیں بازو کے لوگ اسے ناپسند کریں گے تو لبرل اور سیکولر طبقہ خوش ہوگا۔ شرمین عبید چنائے کی پذیرائی اس کی واضح مثال ہے۔ بھارتی پنجاب سے آنے والے وفد کو کہنا کہ ہماری خوراک، لباس، زبان، شکلیں ایک جیسی ہیں اور اس سے قبل ''یوم اقبال'' کی تعطیل کو ختم کردینا، یہ تمام باتیں ظاہر کرتی ہیں کہ مسلم لیگ ن کی قیادت پاکستان کو دوسرے انداز سے چلانا چاہتی ہے۔ حکومت پنجاب کی قانون سازی اور علما کی اس پر ناراضگی کے حوالے سے ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنا ہوگی کہ بدمزگی کا سبب کیا ہے؟

مرد اور عورت کے حوالے سے مشرق اور مغرب کے خیالات مختلف ہیں۔ وہاں کرب کی نوعیت کچھ اور ہے تو یہاں ظلم کا انداز مختلف ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ طے کیا جائے کہ ریاست کے علاوہ مرد اور عورت کو کیا کرنا چاہیے۔ حکومت پاکستان اپنی خواتین کو باعزت اور بااعتماد بنانے کے لیے قانون سازی کرے۔ ہر شادی شدہ خاتون اپنے گھر کو مرکز نگاہ سمجھے اور اس کا کوئی خفیہ ایجنڈا نہ ہو۔ ہم اس مرد کو اچھا اور قابل عزت جانیں جو ہر خاتون کا احترام کرے اور اپنے گھر کی خواتین کے لیے ہو Loving And Caring۔
Load Next Story