ڈاکٹری صرف اچھے رشتے کے لیے

حقوق نسواں کو قوانین سے زیادہ مثبت سوچ کی ضرورت ہے

حقوق نسواں کو قوانین سے زیادہ مثبت سوچ کی ضرورت ہے۔ فوٹو: فائل

حال ہی میں پنجاب اسمبلی نے خواتین کے تحفظ کا بل منظور کیا ہے، یقیناً یہ خوش آیند ہے اور امید کی جاتی ہے کہ اس کے ذریعے خواتین کو جسمانی تشدد سے تحفظ ملے گا، لیکن خواتین کا تحفظ، فقط کسی بل کے منظور کرنے سے نہیں کیا جا سکتا، بلکہ اس کے لیے ایسے دور رَس اقدام کرنا ہوں گے، جس سے تشدد کی نوبت ہی نہ آئے۔ اس کے لیے جس چیز پر ہمارے ارباب اختیار کو سوچ بچار کی ضرورت ہے، وہ خواتین کی اعلیٰ تعلیم کا حق ہے۔

گو کہ بنیادی تعلیم کے حق میں سب ہی یک زبان ہیں، سوائے چند انتہاپسند عناصر کے۔ البتہ جس مسئلے پر کبھی غور نہیں کیا گیا وہ لڑکیوں کی اعلیٰ تعلیم کا حق ہے، یا اعلی تعلیم کی صورت میں اپنی مہارت سے قوم کو مستفید نہ کرنے کا مسئلہ ہے۔ ان مسائل کی اہم وجہ شوہر اور سسرالیوں کا رویہ ہے۔ شادی کے بعد سسرالی لڑکی کو اپنے احکام کا پابند بناتے ہیں اور کچھ ہمارا معاشرتی و سماجی ماحول اس طرح کا ہے کہ لڑکی ہر چیز سے کنارہ کشی اختیار کر کے گھر بیٹھے رہنے کو ترجیح دیتی ہے۔ یہ ایک ایسا عمل ہے، جس کی وجہ سے ترقی کی راہیں مسدود ہو رہی ہیں۔ آج میڈیکل کالجوں میں زیادہ تر لڑکیاں داخلہ لیتی ہیں، قوم کا پیسہ انہی دختران ملت پر صَرف ہو رہا ہے، لیکن وہاں سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد ان لڑکیوں کی اکثریت گھر میں برتن مانجھتی اور دیگر امور خانہ درای میں منہمک نظر آتی ہے۔

اس سلسلے میں اکثر و بیش تر مختلف اندازے بھی پیش کیے جاتے رہے ہیں، جس میں یہ بات مشترک ہوتی ہے کہ ایسی لڑکیوں کی اکثریت ڈاکٹر بننے کے بعد اسے بطور پیشہ جاری نہیں رکھ پاتی۔ شاید اس مسئلے کو ابھی تک اتنی اہمیت نہیں دی جا رہی جتنا کہ دینی چاہیے۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ لڑکیوں کی بھی ایک تعداد صرف اس لیے ڈاکٹر بننے کو ترجیح دیتی ہیں، تاکہ ان کے اچھے رشتے آئیں، اور اس کے بعد گھر سنبھال کر بیٹھ جائیں۔

اگر ان خواتین کے متعلق ایک محتاط رائے قائم کی جائے، تو ایک شمارے میں شائع ہونے والے مضمون کے مطابق ڈاؤ یونیورسٹی کراچی کے پرو وائس چانسلر اور سندھ میڈیکل کالج کے صدر ڈاکٹر عمر فاروق کہتے ہیں کہ ایک اندازے کے مطابق 50 فی صد خواتین طب کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد کام نہیں کرتیں، خاص طور پر اگر ان کی شادیاں ہو جائیں۔ شادی کے بعد بھی اس شعبے میں رہنے والی، بچوں کی ولادت کے بعد اس شعبے کو خیرآباد کہہ دیتی ہیں۔


ایک عام شہری کی حیثیت سے میرا یہ سوال پوچھنے کا حق ہے کہ سرکار ہمارے ٹیکس کے لاکھوں روپے ان لڑکیوں کی تعلیم پر خرچ کرتی ہے، تو قوم کو فائدہ کیا ہو رہا ہے؟ اور قوم کا کتنا پیسہ فقط لڑکیوں کے ''اچھے رشتوں'' میں خرچ ہوا ہے؟ آج ایک بڑا مسئلہ سرکاری اسپتالوں میں ڈاکٹروں کی کمی ہے۔ یہ خواتین صحیح معنوں میں اپنی صلاحیتوں اور تعلیم کو بروئے کار لائیں، تو ہمارے صحت سے متعلق مسائل حل ہو سکتے ہیں۔

یہ تو محض ایک مثال تھی، یہی مثالیں آپ کو دیگر شعبہ ہائے زندگی میں بھی دکھائی دیں گی۔ ایسی ہی ایک طالبہ ایک نام وَر یونیورسٹی سے انجنیئرنگ میں ماسٹرز کر چکی ہیں اور یونیورسٹی نے اس ہونہار طالبہ کو پی ایچ ڈی کے لیے تعلیمی وظیفہ بھی دیا، لیکن یہی لڑکی شادی کے بعد اب گھر بیٹھ گئی ہے۔ اس سائنس دان لڑکی سے ہمارا ملک استفادہ کر سکتا تھا، لیکن یہ گھر پر وہی سب کام کر کے اپنی صلاحیتوں کو دبا لے گی، جو ایک ان پڑھ لڑکی بھی کر سکتی ہے۔ کیا یہ ہمارا ایک سنگین المیہ نہیں؟

جہاں ہم تحفظ نسواں کی بات کرتے ہیں۔۔۔ بنیادی تعلیم کی بات کرتے ہیں، وہاں معاشرے کی سوچ اور رفتار کو بدلنے کے اقدام کیوں نہیں کرتے؟ آخر کب تک حوّا کی بیٹی معاشرتی بوجھ تلے اپنی صلاحیتوں کا گلا گھونٹتی رہے گی؟ ایک لڑکی بھی اتنی مفید شہری ہو سکتی ہے جتنا کہ کوئی لڑکا۔ بے شک ایک عورت کو بچوں کی تربیت پر توجہ دینی چاہیے، لیکن ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ تربیت برتن مانجھ کر کیسے ہوتی ہے؟ کیا ماں کے اندر خدمت کا جذبہ اس کے بچوں پر مثبت اثر نہیں ڈالے گا؟

ضرورت اس امر کی ہے کہ سب سے پہلے لڑکیاں اپنی سوچ کو بدلیں، جب تک وہ خود مثبت نہیں سوچیں گی، تبدیلی نہیں آ سکتی۔ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں اور صرف اس لیے تعلیم حاصل نہ کریں کہ اچھے رشتے ملیں گے، بلکہ اپنے اہداف بلند رکھیں۔ مرد حضرات بھی اپنی بہنوں، بیٹیوں اور بیویوں کے لیے وسعت پیدا کریں اور ان کو بھی اوّل درجے کا شہری تسلیم کریں، جن کو جینے کا اتنا ہی حق ہے، جتنا ایک مرد کو ہے۔ ان کے جذبوں کی قدر کریں اور ان کے اہداف کا بھی اسی طرح احترام کریں، جس طرح کسی لڑکے کے خوابوں کا کیا جاتا ہے۔ ان کے مقاصد کی راہ میں رکاوٹ نہ بنیں، بلکہ ہر لحاظ سے ان کا سہارا بنیں۔ شاید اس طرح سے ہمارا معاشرہ کام یابی و ترقی کے منازل طے کرے گا۔
Load Next Story