ایل این جی درآمد گیس فراہمی سے ٹیکسٹائل میں نئی سرمایہ کاری کے امکانات پیدا ہوگئے
گیس کی فراہمی سے بندصنعتیں آپریشنل ہونےاورکم استعداد والےیونٹ اپنی پوری استعداد کےمطابق پروڈکشن دے سکیں گے، طارق سعود
آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن (اپٹما) کے مرکزی چیئرمین طارق سعود نے کہا ہے کہ آر ایل این جی کی صورت میں پنجاب میں واقع ٹیکسٹائل انڈسٹری کو گیس کی بلاتعطل فراہمی سے صنعتوں کے لیے گیس کے بحران میں کمی ہوگی جس سے اس سیکٹر میں نئی سرمایہ کاری کے امکانات پیداہوگئے ہیں جس سے بند صنعتیں دوبارہ آپریشنل ہوسکیں گی اور کم استعداد پر چلنے والے یونٹ اپنی پوری استعداد کے مطابق پروڈکشن کرسکیں گے۔
طارق سعود نے صنعتوں کو آر ایل این جی کی صورت میں گیس کی بلاتعطل فراہمی کے اس فیصلے پر وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف، وفاقی وزیر خزانہ اسحق ڈار، وفاقی وزیر پٹرولیم شاہد خاقان عباسی اور وزیر اعظم کے خصوصی معاون ہارون اختر کا شکریہ اداکیا ہے۔ ایک بیان میں طارق سعود کا کہنا تھا کہ بڑھتی ہوئی پیداوار ی لاگت اور لیکیوڈٹی کی صورتحال بہترنہ ہونے سے اس وقت ٹیکسٹائل انڈسٹری کو بحرانی کیفیت کا سامناہے۔ انہوں نے کہا کہ اس مشکل صورتحال کے باوجود انڈسٹری پر جی آئی ڈی سی کے نفاذ نے انڈسٹری کے لیے مشکلات میں مزید اضافہ کردیا۔
ان کاکہنا تھا کہ اس صورتحال کی وجہ سے پاکستانی انڈسٹری عالمی مارکیٹ میں دیگر ممالک سے مسابقت کے قابل نہیں رہی ہے۔ ان کا کہناتھا کہ عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمتوں میں کمی ہونے کے بعد پاکستان میں انڈسٹری پر جی آئی ڈی سی کے نفاذ کا کوئی جواز نہیں تھا۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ ملک میں پوری ٹیکسٹائل انڈسٹری پر عائد جی آئی ڈی سی کو فوری طور پر ختم کیا جائے۔
چیئرمین اپٹما کا کہناتھا کہ پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کی بحالی کے لیے لانگ ٹرم فنانسنگ سہولت میں ایک فیصد کی کمی کردی جائے اوربشمول بینکنگ اسپریڈاس کی شرح 5فی صد سے کم کرکے اسے زیادہ سے زیادہ 4فی صد پر لایا جائے جبکہ ایکسپورٹ وی فنانس سہولت کی شرح میں0.5 فیصد کی کمی کرکے اس کو 3.5 فیصد سے کم کرکے3 فیصد کیا جائے۔
انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ لانگ ٹرم فنانسنگ میں1.5ارب روپے کی حد کو ختم کیا جائے۔ انہوں نے ایکسپورٹس پرتمام ٹیکسز کو زیروریٹنگ کرنے اور ڈی ایل ٹی ایل کی صورت میں 5 فیصد کی شرح سے یارن، فیبرکس، میڈ اپ اور گارمنٹس کو ریبیٹ فراہم کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔ انہوں نے بتایا کہ مین میڈ فائبر، یارن اور پولیسٹر کے فائبر اور دیگر کی درآمد میں نمایاں اضافہ ہوگیا ہے، مالی سال 2012-13 میں چیپٹر 55 کے تحت یارن کی درآمد 47736 ٹن تھی جبکہ مالی سال 2014-15 میں یہ درآمد 72337 ٹن ہوگئی، چیپٹر 55 کے تحت فیبرک کی درآمد 180169مربع میٹر تھی جو بڑھ کر561963مربع میٹر ہوگئی۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ کسٹم ٹیرف کے چیپٹر55کے تحت درآمدہونے والی یارن اور فیبرک پر 15 فی صد ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کی جائے اور پولیسٹر سمیت مین میڈ فیبرک کی درآمد پر ڈیوٹی کی شرح کو زیرو کیا جائے تاکہ مقامی یارن تیارکرنیوالے عالمی مارکیٹ میں بھارت، انڈونیشیا، چین اور دیگر ممالک کی مصنوعات کا مقابلہ کرسکیں۔ انہوں نے اپٹما کی تجاویز سے اتفاق کرنے پر وزیر اعظم نواز شریف کاشکریہ اداکرتے ہوئے تجویز دی کی ٹیکسٹائل سیکٹر کیلیے سیلز ٹیکس کو زیرو ریٹنگ کی سہولت دی جائے۔
انہوں نے وزیراعظم سے مطالبہ کیا کہ نئے مالی سال کے آغاز کا انتظار کیے بغیر اس سہولت کو یکم اپریل سے نافذ العمل کیا جائے کیونکہ پوری ٹیکسٹائل انڈسٹری کو لیکیوڈٹی کے مسائل کا سامناہے، جنوری میں ٹیکسٹائل انڈسٹری کی برآمدات میں 10 فیصد سے زائد کمی ہوگئی ہے اور لیکیوڈٹی کے مسائل کی وجہ سے انڈسٹری کی 30 فیصد پیداواری استعداد بندہوچکی ہے۔ انہوں نے وزیر اعظم اور ملک کے اکنامک منیجرز سے مطالبہ کہا کہ وہ انڈسٹری کے نقطہ نظر کی حمایت میں آگے آئیں۔
طارق سعود نے صنعتوں کو آر ایل این جی کی صورت میں گیس کی بلاتعطل فراہمی کے اس فیصلے پر وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف، وفاقی وزیر خزانہ اسحق ڈار، وفاقی وزیر پٹرولیم شاہد خاقان عباسی اور وزیر اعظم کے خصوصی معاون ہارون اختر کا شکریہ اداکیا ہے۔ ایک بیان میں طارق سعود کا کہنا تھا کہ بڑھتی ہوئی پیداوار ی لاگت اور لیکیوڈٹی کی صورتحال بہترنہ ہونے سے اس وقت ٹیکسٹائل انڈسٹری کو بحرانی کیفیت کا سامناہے۔ انہوں نے کہا کہ اس مشکل صورتحال کے باوجود انڈسٹری پر جی آئی ڈی سی کے نفاذ نے انڈسٹری کے لیے مشکلات میں مزید اضافہ کردیا۔
ان کاکہنا تھا کہ اس صورتحال کی وجہ سے پاکستانی انڈسٹری عالمی مارکیٹ میں دیگر ممالک سے مسابقت کے قابل نہیں رہی ہے۔ ان کا کہناتھا کہ عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمتوں میں کمی ہونے کے بعد پاکستان میں انڈسٹری پر جی آئی ڈی سی کے نفاذ کا کوئی جواز نہیں تھا۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ ملک میں پوری ٹیکسٹائل انڈسٹری پر عائد جی آئی ڈی سی کو فوری طور پر ختم کیا جائے۔
چیئرمین اپٹما کا کہناتھا کہ پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کی بحالی کے لیے لانگ ٹرم فنانسنگ سہولت میں ایک فیصد کی کمی کردی جائے اوربشمول بینکنگ اسپریڈاس کی شرح 5فی صد سے کم کرکے اسے زیادہ سے زیادہ 4فی صد پر لایا جائے جبکہ ایکسپورٹ وی فنانس سہولت کی شرح میں0.5 فیصد کی کمی کرکے اس کو 3.5 فیصد سے کم کرکے3 فیصد کیا جائے۔
انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ لانگ ٹرم فنانسنگ میں1.5ارب روپے کی حد کو ختم کیا جائے۔ انہوں نے ایکسپورٹس پرتمام ٹیکسز کو زیروریٹنگ کرنے اور ڈی ایل ٹی ایل کی صورت میں 5 فیصد کی شرح سے یارن، فیبرکس، میڈ اپ اور گارمنٹس کو ریبیٹ فراہم کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔ انہوں نے بتایا کہ مین میڈ فائبر، یارن اور پولیسٹر کے فائبر اور دیگر کی درآمد میں نمایاں اضافہ ہوگیا ہے، مالی سال 2012-13 میں چیپٹر 55 کے تحت یارن کی درآمد 47736 ٹن تھی جبکہ مالی سال 2014-15 میں یہ درآمد 72337 ٹن ہوگئی، چیپٹر 55 کے تحت فیبرک کی درآمد 180169مربع میٹر تھی جو بڑھ کر561963مربع میٹر ہوگئی۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ کسٹم ٹیرف کے چیپٹر55کے تحت درآمدہونے والی یارن اور فیبرک پر 15 فی صد ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کی جائے اور پولیسٹر سمیت مین میڈ فیبرک کی درآمد پر ڈیوٹی کی شرح کو زیرو کیا جائے تاکہ مقامی یارن تیارکرنیوالے عالمی مارکیٹ میں بھارت، انڈونیشیا، چین اور دیگر ممالک کی مصنوعات کا مقابلہ کرسکیں۔ انہوں نے اپٹما کی تجاویز سے اتفاق کرنے پر وزیر اعظم نواز شریف کاشکریہ اداکرتے ہوئے تجویز دی کی ٹیکسٹائل سیکٹر کیلیے سیلز ٹیکس کو زیرو ریٹنگ کی سہولت دی جائے۔
انہوں نے وزیراعظم سے مطالبہ کیا کہ نئے مالی سال کے آغاز کا انتظار کیے بغیر اس سہولت کو یکم اپریل سے نافذ العمل کیا جائے کیونکہ پوری ٹیکسٹائل انڈسٹری کو لیکیوڈٹی کے مسائل کا سامناہے، جنوری میں ٹیکسٹائل انڈسٹری کی برآمدات میں 10 فیصد سے زائد کمی ہوگئی ہے اور لیکیوڈٹی کے مسائل کی وجہ سے انڈسٹری کی 30 فیصد پیداواری استعداد بندہوچکی ہے۔ انہوں نے وزیر اعظم اور ملک کے اکنامک منیجرز سے مطالبہ کہا کہ وہ انڈسٹری کے نقطہ نظر کی حمایت میں آگے آئیں۔