خریداری میں تیزی سے روئی کی قیمتوں میں 100 روپے من کا اضافہ

2014-15 میں پاکستان میں کپاس کی پیداوارملکی تاریخ کی سب سے زیادہ 1کروڑ48لاکھ بیلز پیدا ہوئی تھیں۔

2014-15 میں پاکستان میں کپاس کی پیداوارملکی تاریخ کی سب سے زیادہ 1کروڑ48لاکھ بیلز پیدا ہوئی تھیں۔ فوٹو: اے پی پی/فائل

چین کی سال 2016-17 میں اپنے کپاس کے کاشتکاروں کے لیے غیرمتوقع طورپرزائد مالیت کی سبسڈی فراہم کرنے کے اعلان سے گزشتہ ہفتے کے اختتامی دن رونما ہونے والی مندی نے بین الاقوامی کاٹن مارکیٹس کواپنی لپیٹ میں لے لیا تاہم اس کے برعکس پاکستان کے بیشترکاٹن بیلٹس میں شدید بارشوں کی وجہ سے کاشت میں ممکنہ تاخیر اور سوتی دھاگے کی قیتموں میں اضافے کے علاوہ مقامی ٹیکسٹائل ملوں کی بڑھتی ہوئی خریداری سرگرمیوں کے باعث مقامی کاٹن مارکیٹس میں تیزی رہی۔

چیئرمین پاکستان کاٹن جنرزفورم احسان الحق نے ''ایکسپریس'' کو بتایا کہ چین کی جانب سے کاٹن ایئر2016-17 کے لیے کپاس کی امدادی قیمت 18 ہزار 600 یوآن فی ٹن مختص کی گئی ہے جوکہ توقع سے کافی زیادہ سمجھی جارہی ہے جس سے توقع ہے کہ چین میں 2016-17 کے دوران کپاس کی کاشت میں کافی تیزی کارجحان سامنے آئے گا جس سے دنیامیں کپاس کی مجموعی پیداوارمیں بھی خاطرخواہ اضافے کے امکان کے پیش نظرگزشتہ کاروباری ہفتے کے آخری روزنیویارک کاٹن ایکسچینج میں روئی کی قیمتوں میں غیرمعمولی مندی کارجحان سامنے آیا۔

انہوں نے بتایاکہ چین میں 2015-16 کے لیے کپاس کی امدادی قیمت 19 ہزار 100یوآن فی ٹن جبکہ 2014-15 کے دوران 19 ہزار 800 یوآن فی ٹن مختص کی گئی تھی اوررواں سال دنیابھرمیں کپاس کی قیمتوںمیںغیرمعمولی مندی کے رجحان کے باعث چین میں کپاس کی امدادی قیمت 18 ہزار یوآن فی ٹن متوقع کی جارہی تھی۔


انہوں نے بتایاکہ گزشتہ ہفتے کے دوران نیویارک کاٹن ایکسچینج میں حاضرڈلیوری روئی کے سودے 1.40سینٹ فی پاؤنڈ اضافے کے ساتھ 66.40 سینٹ، مئی ڈلیوری روئی کے سودے 0.01سینٹ پاؤنڈاضافے کے ساتھ 57.16سینٹ تک مستحکم رہے جبکہ چین اوربھارت میں بھی روئی کی قیمتیں معمولی تیزی کے ساتھ بالترتیب 10ہزار915یوآن فی ٹن اور32 ہزار 186 روپے فی کینڈی تک مستحکم رہیں جبکہ کراچی کاٹن ایسوسی ایشن میں روئی کے سپاٹ ریٹ 100روپے فی من اضافے کے ساتھ 5ہزار300روپے فی من تک پہنچ گئے اوراوپن مارکیٹ میںبھی تیزی کارجحان سامنے آنے سے روئی کی قیمتیں 100روپے فی من اضافے کے ساتھ 5ہزار 500 روپے فی من تک پہنچ گئیں۔

احسان الحق نے بتایاکہ گزشتہ ہفتے کے دوران کراچی کاٹن ایسوسی ایشن کے زیراہتمام کراچی میں 2015-16 کے دوران پاکستان میں کپاس کی مجموعی ملکی پیداوارمیں ریکارڈکمی کی وجوہات تلاش کرنے اور2016-17 کے دوران کپاس کی مجموعی ملکی پیداوار بڑھانے بارے سفارشات مرتب کرنے کے لیے ایک کاٹن کانفرنس کاانعقاد کیا گیا جس میں پاکستان بھرسے زرعی اداروں کے سربراہوں اورکاٹن ایکسپرٹس نے شرکت کی اورسب نے اپنی اپنی تجاویز کانفرنس میں پیش کیں لیکن حیران کن طورپر2015-16کے دوران پاکستان میں کپاس کی پیداوار میں غیرمعمولی کمی کی بڑی وجہ جوکہ موسمیاتی تبدیلیاں ہیں، کے بارے کسی بھی مندوب نے اظہارخیال نہ کیااورنہ ہی کاشتکاروں کے لئے یہ تجویز پیش کی گئی کہ منفی موسمی اثرات سے بچنے کے لئے کپاس کی کاشت فروری/مارچ کے بجائے مارچ کے چوتھے ہفتے یااپریل کے پہلے ہفتے سے شروع کی جائے تاکہ پچھلے چندسال کے دوران فروی/مارچ میں درجہ حرارت میں ہونے والی غیرمعمولی کمی کے باعث کپاس کے بیج کا اگاؤ متاثرنہ ہوسکے جبکہ اگست/ستمبرکے دوران درجہ حرارت میںہونے والے غیرمعمولی اضافے کے باعث کپاس کی فصل کو سفید مکھی اوروائرس کے شدیدحملے سے بچایا جاسکے۔

ذرائع کے مطابق اس کانفرنس میں بعض نان پروفیشنل کاٹن ایکسپرٹس رواں سال کپاس کی پیداوارمیں کمی کی بڑی وجہ ناقص بیج کوقراردیتے رہے لیکن ان کے پاس اس سوال کاکوئی جواب نہیںتھاکہ رواں سال کپاس کی پیداوارمیں غیرمعمولی کمی صرف پنجاب میںہی کیوں سامنے آئی جبکہ صوبہ سندھ میں کپاس کی پیداوارپچھلے سال کے مقابلے میں معمولی کم ہے جبکہ دونوں صوبوں میں کپاس کاایک ہی معیار کا بیج کاشت کیاجارہاہے اوراسی بیج کی کاشت کی وجہ سے 2014-15 میں پاکستان میں کپاس کی پیداوارملکی تاریخ کی سب سے زیادہ 1کروڑ48لاکھ بیلز پیدا ہوئی تھیں۔

انہوں نے بتایاکہ پنجاب کے بڑے کاٹن زونز رحیم یارخان اوربہاولپور میں نئی شوگرملزکے قیام اوران کی پیداواری صلاحیت میں اضافے پر پابندی کے باوجود بڑے دھڑلے سے نئی شوگر ملز کا قیام عمل میں لایاجارہاہے اورسندھ پنجاب بارڈرپرتین نئی شوگرملزکے قیام کے بعدرواں سال ضلع بہاولپورمیں ایک بڑی شوگرمل کے قیام کے بعداب ضلع رحیم یارخان میں تین مزید نئی شوگرملزکے قیام کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے جس سے کپاس کی فصل کوغیرمعمولی نقصان پہنچنے کاخدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔
Load Next Story