غداری کیس مشرف کو محفوظ راستہ دیکر اہم شخصیات سابق افسران کو بچایا گیا
سابق صدرکے22دسمبر2015کوریکارڈکرائے گئے بیان کے بعدحکومت کیلیے مقدمہ آگے بڑھانا مشکل ہوگیاتھا۔
حکومت نے سابق صدرپرویز مشرف کو محفوظ راستہ دے کر اہم شخصیات اور سابق افسران کو بچالیا، سنگین غداری کیس میں ملزم پرویزمشرف کے 161 کے بیان کے بعد حکومت کیلیے مقدمہ آگے بڑھانا مشکل ہوگیا تھا۔
انتہائی باخبرذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ سابق صدرپرویزمشرف نے22 دسمبر2015کوایف آئی کوبیان ریکارڈ کراتے ہوئے ایمرجنسی کے نفاذکواجتماعی فعل قراردیتے ہوئے اس کے لیے سابق وزیراعظم شوکت عزیز، سابق چیف جسٹس عبد الحمیدڈوگر، سابق وزیر قانون زاہد حامد، اس وقت کی کابینہ، مسلح افواج کے سربراہان، وائس چیف آف آرمی اسٹاف، چاروں صوبوں کے گورنروںاوراعلیٰ بیوروکریٹس کوذمہ دار ٹھہرایاتھا۔ اپنے بیان میں سابق صدرنے کہا تھاکہ انھوں نے بطورآرمی چیف ایمرجنسی کے نفاذ کے پروانے پرصرف دستخط کیے، اس قدام کے سفارش کنندگان اور اطلاق کرنے والے اورلوگ ہیں۔
سابق صدرنے19 صفحات کے بیان کے صفحہ 5 پردیگرافرادکوبھی اپنے ساتھ نامزدکرتے ہوئے کہاکہ وزیراعظم کی تحریری سفارش کے بعدانھوں نے اس بارے میں اس وقت کے مسلح افواج کے سربراہان، وائس آرمی چیف، کورکمانڈرز، گورنروں اور حکمراں جماعت کی قیادت سے باقاعدہ مشارت کی تھی اوران کے مشورے کے بعدایمرجنسی نافذکی گئی تھی۔
ٹکا اقبال خان کیس پی ایل ڈی2008کے پیراگراف نمبر15 صفحہ 203 سے 233 تک سپریم کورٹ کے فیصلے میں اس کا احاطہ کیاگیا ہے اور اگرحکومت کے ریکارڈ میں وزیر اعظم کا خط اوروزارت قانون کی سمری موجود نہیں تو سپریم کورٹ کے فیصلے میں اس کی تصدیق کی گئی ہے اور ریکارڈ بھی وہیں سے حاصل کیاجاسکتا ہے۔ یہ بات قابل ذکرہے کہ حکومت کادعویٰ ہے کہ ایمرجنسی لگانے کے حوالے سے صدرمملکت کوسمری بھیجنے کا کوئی ریکارڈ یاو زیراعظم ہاؤس کاکوئی خط ریکارڈ میں موجود نہیں ہے۔
اپنے بیان کے صفحہ نمبر18 میں سابق صدر نے مزید کہا کہ سابق گورنرپنجاب لیفٹیننٹ جنرل رٹائرڈخالد مقبول نے اعتراف کیاہے کہ ایمر جنسی کے معاملے پران سے مشارت ہوئی تھی، اگر3نومبر2007 کی ایمر جنسی غلط تھی تو 27نومبر کوجنرل کیانی آرمی چیف بنے وہ اسے اٹھالیتے کیونکہ ایمرجنسی کانفاذ بطورآرمی چیف کیا گیا تھا لیکن یہ ایمر جنسی15 دسمبر2007تک جاری رہی۔ ان کے بیان کے مطابق اگروہ ذمہ دار ہیںتوبطورآرمی چیف جنرل کیانی بھی ذمہ دارہیں۔ ذرائع کے مطابق سابق صدر کے اس بیان کے بعد ایف آئی اے نے مزیدتفتیش روک دی تھی کیونکہ تفتیش کی زدمیں موجودہ حکومت میں شامل کچھ افراد، سیاستدان اور رٹائرڈ اعلیٰ فوجی عہدے داربھی آرہے تھے۔
ذرائع نے بتایاکہ جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کی سربراہی میں3 رکنی بینچ نے جسٹس ڈوگر، شوکت عزیزاور زاہد حامد سے تفتیش کرانے کے اسپیشل کورٹ کے حکم کوتوغیر قانونی قراردیاتھا لیکن حکومت کومزیدتفتیش کرنے سے نہیںروکاتھا اور قراردیا تھاکہ حکومت کسی کو نامزد کیے بغیر مزیدتفتیش کرنے کی مجاز ہے۔ ذرائع کے مطابق غداری کیس میںموجودہ حکومت میںشامل کچھ افراداور رٹائرڈ اعلیٰ عہدے داران کو بچانے کے لیے گزشتہ کچھ ماہ سے راستہ تلاش کیاجارہاتھا اور مرکزی ملزم کومحفوظ راستہ دے کرسب کوبچالیاہے کیونکہ اسپیشل کورٹ نے ملزم کو 342کابیان ریکارڈکرانے کے لیے رواںماہ کی31 تاریخ کوطلب کیاہے اورعدالت کے روبروبیان قلم بندکرانے کے بعدحکومت مزیدتفتیش کی پابند ہوتی۔
انتہائی باخبرذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ سابق صدرپرویزمشرف نے22 دسمبر2015کوایف آئی کوبیان ریکارڈ کراتے ہوئے ایمرجنسی کے نفاذکواجتماعی فعل قراردیتے ہوئے اس کے لیے سابق وزیراعظم شوکت عزیز، سابق چیف جسٹس عبد الحمیدڈوگر، سابق وزیر قانون زاہد حامد، اس وقت کی کابینہ، مسلح افواج کے سربراہان، وائس چیف آف آرمی اسٹاف، چاروں صوبوں کے گورنروںاوراعلیٰ بیوروکریٹس کوذمہ دار ٹھہرایاتھا۔ اپنے بیان میں سابق صدرنے کہا تھاکہ انھوں نے بطورآرمی چیف ایمرجنسی کے نفاذ کے پروانے پرصرف دستخط کیے، اس قدام کے سفارش کنندگان اور اطلاق کرنے والے اورلوگ ہیں۔
سابق صدرنے19 صفحات کے بیان کے صفحہ 5 پردیگرافرادکوبھی اپنے ساتھ نامزدکرتے ہوئے کہاکہ وزیراعظم کی تحریری سفارش کے بعدانھوں نے اس بارے میں اس وقت کے مسلح افواج کے سربراہان، وائس آرمی چیف، کورکمانڈرز، گورنروں اور حکمراں جماعت کی قیادت سے باقاعدہ مشارت کی تھی اوران کے مشورے کے بعدایمرجنسی نافذکی گئی تھی۔
ٹکا اقبال خان کیس پی ایل ڈی2008کے پیراگراف نمبر15 صفحہ 203 سے 233 تک سپریم کورٹ کے فیصلے میں اس کا احاطہ کیاگیا ہے اور اگرحکومت کے ریکارڈ میں وزیر اعظم کا خط اوروزارت قانون کی سمری موجود نہیں تو سپریم کورٹ کے فیصلے میں اس کی تصدیق کی گئی ہے اور ریکارڈ بھی وہیں سے حاصل کیاجاسکتا ہے۔ یہ بات قابل ذکرہے کہ حکومت کادعویٰ ہے کہ ایمرجنسی لگانے کے حوالے سے صدرمملکت کوسمری بھیجنے کا کوئی ریکارڈ یاو زیراعظم ہاؤس کاکوئی خط ریکارڈ میں موجود نہیں ہے۔
اپنے بیان کے صفحہ نمبر18 میں سابق صدر نے مزید کہا کہ سابق گورنرپنجاب لیفٹیننٹ جنرل رٹائرڈخالد مقبول نے اعتراف کیاہے کہ ایمر جنسی کے معاملے پران سے مشارت ہوئی تھی، اگر3نومبر2007 کی ایمر جنسی غلط تھی تو 27نومبر کوجنرل کیانی آرمی چیف بنے وہ اسے اٹھالیتے کیونکہ ایمرجنسی کانفاذ بطورآرمی چیف کیا گیا تھا لیکن یہ ایمر جنسی15 دسمبر2007تک جاری رہی۔ ان کے بیان کے مطابق اگروہ ذمہ دار ہیںتوبطورآرمی چیف جنرل کیانی بھی ذمہ دارہیں۔ ذرائع کے مطابق سابق صدر کے اس بیان کے بعد ایف آئی اے نے مزیدتفتیش روک دی تھی کیونکہ تفتیش کی زدمیں موجودہ حکومت میں شامل کچھ افراد، سیاستدان اور رٹائرڈ اعلیٰ فوجی عہدے داربھی آرہے تھے۔
ذرائع نے بتایاکہ جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کی سربراہی میں3 رکنی بینچ نے جسٹس ڈوگر، شوکت عزیزاور زاہد حامد سے تفتیش کرانے کے اسپیشل کورٹ کے حکم کوتوغیر قانونی قراردیاتھا لیکن حکومت کومزیدتفتیش کرنے سے نہیںروکاتھا اور قراردیا تھاکہ حکومت کسی کو نامزد کیے بغیر مزیدتفتیش کرنے کی مجاز ہے۔ ذرائع کے مطابق غداری کیس میںموجودہ حکومت میںشامل کچھ افراداور رٹائرڈ اعلیٰ عہدے داران کو بچانے کے لیے گزشتہ کچھ ماہ سے راستہ تلاش کیاجارہاتھا اور مرکزی ملزم کومحفوظ راستہ دے کرسب کوبچالیاہے کیونکہ اسپیشل کورٹ نے ملزم کو 342کابیان ریکارڈکرانے کے لیے رواںماہ کی31 تاریخ کوطلب کیاہے اورعدالت کے روبروبیان قلم بندکرانے کے بعدحکومت مزیدتفتیش کی پابند ہوتی۔