ملک میں طاقت کے مراکز تبدیل نہیں ہونگے چیف جسٹس
آئین کی عزت سب پر واجب ہے،عدلیہ اپنے فرض سے ذرا پیچھے نہیں ہٹےگی،آمرکے اقدامات کی توثیق نہ کرنے پر پارلیمنٹ کو سلام.
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا ہے کہ اب ملک میں طاقت کے مراکز تبدیل نہیں ہوں گے۔
کوئی غیرآئینی کام ہوگا تو وہ پاکستانی عوام کے مزاج کے خلاف ہوگا۔ عدلیہ اور پارلیمنٹ آئین کے تابع ہیں، اب کوئی بھی ماورائے آئین اقدام نہیں ہوگا۔ ایبٹ آباد میں ہائیکورٹ بار کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کل کی عدلیہ اور آج کی عدلیہ میں بہت فرق ہے۔آئین کی عزت سب پر واجب ہے۔ عدلیہ اپنے فرض کی ادائیگی کے سلسلے میں ذرا بھی پیچھے نہیں ہٹے گی۔ اعلیٰ عدلیہ خاص طور پر سپریم کورٹ آئین کی طرف سے تفویض شدہ ذمہ داری سے متعلق پوری طرح آگاہ ہیں۔ جج اپنی تربیت اور حلف کے تحت مجبور ہیں کہ وہ آ ئین کو تحفظ فراہم کریں۔ آئین کے سوا ہمارا کسی چیز پر یقین نہیں۔
جب آرٹیکل 5 پڑھ لیا جاتا ہے تو اس پر عمل لازمی ہوجاتا ہے۔ سسٹم آئین اور قانون کے مطابق چلنا چاہیے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ موجودہ پارلیمنٹ کو سلام پیش کرتا ہوں ، موجودہ پارلیمنٹ نے18ویں ترمیم سے8ویں اور17ویں ترمیم کوختم کردیا۔ ملک میں58ٹو بی کے ذریعے4حکومتیں ختم کی گئیں۔ اسی طرح کل کی عدلیہ اور آج کی عدلیہ میں بھی بہت فرق ہے، اس ملک میں ہمارے ساتھ زیادتی ہوتی رہی، 3 نومبر 2007 کو عدلیہ پر شب خون مارا گیا تھا۔ ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں کیا کچھ نہیں ہوتا۔ تہلکہ کیس سامنے آنے کے بعد بھی حکومت ختم نہیں ہوئی۔ پارلیمنٹ جمہوری حکومت کے5سال پورے کرنے والی ہے جو نیک شگون ہے۔ حکومت آئینی طور پر عوام کو سستا انصاف فراہم کرنے کی پابند ہے۔ عدلیہ کی مضبوطی کے لیے 3جولائی فیصلے کے تحت 100ججوں کی قربانی دی ہے۔
3نومبر 2007سے پہلے کسی نے بھی آئین کی پامالی پر مزاحمت نہیں کی تھی لیکن اب کوئی بھی شب خون مارنے کا نہیں سوچ سکتا۔ پارلیمنٹ نے18ویں ترمیم منظورکرکے مارشل لا کا راستہ روک دیا ۔ جوڈیشل پالیسی کے خاطر خواہ فائدے ہوئے ہیں مگر مسئلہ یہ ہے کہ پورے ملک میں عدالتی نظام ڈسٹرکٹ ججوںکی کمی کا شکار ہے۔ ججوں کی تعداد بڑھانے کے لیے حکومت کوکراچی اجلاس کے بعد ایک خط لکھا تھا جو 6 ماہ تک صرف وزارت قانون تک پہنچا ہے۔ اب میں نے خط کے ذریعے وزیراعظم سے گزارش کی ہے کہ اس خط کو وزارت قانون سے منگوا کر ضروری احکامات صادرکریں۔ سپریم کورٹ اور چاروں صوبوںکی ہائیکورٹس کے100سے زائد ججوں کی قربانی کا فیصلہ اس لیے دیا گیا کہ کوئی بھی آئین اور قانون سے ماورا نہیں ہے جس کے بعد اب عدلیہ صحیح رخ پر چل رہی ہے۔
اب اگر ہم ہوں یا نہ ہوں یہ ادارہ(عدلیہ) آئین اور قانون کے مطابق فیصلے کرتا رہے گا۔ مشہور شخصیت کیتھ بی کلارڈ نے ایک دفعہ پاکستان کے بارے میں یوں مشاہدہ کیا ''آئین پاکستان کے تخفظ کے لیے کوئی بھی وہاں قربانی دینے کو تیار نہیں''۔ لیکن اب مجھے فخر ہے کہ وکلا وہ لوگ ہیں جنہوں نے تاریخ کے ایسے اوراق جن میں یہ تحریر تھا کو پھاڑ کے پھینک دیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ وکلا ہمیشہ قانون اور آئین کی حکمرانی کیلئے متحد رہیںگے۔ چیف جسٹس نے دوبار یہ کہا کہ عدلیہ اپنے فرض کی ادائیگی کے سلسلے میں ذرا بھی پیچھے نہیں ہٹے گی۔
کوئی غیرآئینی کام ہوگا تو وہ پاکستانی عوام کے مزاج کے خلاف ہوگا۔ عدلیہ اور پارلیمنٹ آئین کے تابع ہیں، اب کوئی بھی ماورائے آئین اقدام نہیں ہوگا۔ ایبٹ آباد میں ہائیکورٹ بار کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کل کی عدلیہ اور آج کی عدلیہ میں بہت فرق ہے۔آئین کی عزت سب پر واجب ہے۔ عدلیہ اپنے فرض کی ادائیگی کے سلسلے میں ذرا بھی پیچھے نہیں ہٹے گی۔ اعلیٰ عدلیہ خاص طور پر سپریم کورٹ آئین کی طرف سے تفویض شدہ ذمہ داری سے متعلق پوری طرح آگاہ ہیں۔ جج اپنی تربیت اور حلف کے تحت مجبور ہیں کہ وہ آ ئین کو تحفظ فراہم کریں۔ آئین کے سوا ہمارا کسی چیز پر یقین نہیں۔
جب آرٹیکل 5 پڑھ لیا جاتا ہے تو اس پر عمل لازمی ہوجاتا ہے۔ سسٹم آئین اور قانون کے مطابق چلنا چاہیے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ موجودہ پارلیمنٹ کو سلام پیش کرتا ہوں ، موجودہ پارلیمنٹ نے18ویں ترمیم سے8ویں اور17ویں ترمیم کوختم کردیا۔ ملک میں58ٹو بی کے ذریعے4حکومتیں ختم کی گئیں۔ اسی طرح کل کی عدلیہ اور آج کی عدلیہ میں بھی بہت فرق ہے، اس ملک میں ہمارے ساتھ زیادتی ہوتی رہی، 3 نومبر 2007 کو عدلیہ پر شب خون مارا گیا تھا۔ ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں کیا کچھ نہیں ہوتا۔ تہلکہ کیس سامنے آنے کے بعد بھی حکومت ختم نہیں ہوئی۔ پارلیمنٹ جمہوری حکومت کے5سال پورے کرنے والی ہے جو نیک شگون ہے۔ حکومت آئینی طور پر عوام کو سستا انصاف فراہم کرنے کی پابند ہے۔ عدلیہ کی مضبوطی کے لیے 3جولائی فیصلے کے تحت 100ججوں کی قربانی دی ہے۔
3نومبر 2007سے پہلے کسی نے بھی آئین کی پامالی پر مزاحمت نہیں کی تھی لیکن اب کوئی بھی شب خون مارنے کا نہیں سوچ سکتا۔ پارلیمنٹ نے18ویں ترمیم منظورکرکے مارشل لا کا راستہ روک دیا ۔ جوڈیشل پالیسی کے خاطر خواہ فائدے ہوئے ہیں مگر مسئلہ یہ ہے کہ پورے ملک میں عدالتی نظام ڈسٹرکٹ ججوںکی کمی کا شکار ہے۔ ججوں کی تعداد بڑھانے کے لیے حکومت کوکراچی اجلاس کے بعد ایک خط لکھا تھا جو 6 ماہ تک صرف وزارت قانون تک پہنچا ہے۔ اب میں نے خط کے ذریعے وزیراعظم سے گزارش کی ہے کہ اس خط کو وزارت قانون سے منگوا کر ضروری احکامات صادرکریں۔ سپریم کورٹ اور چاروں صوبوںکی ہائیکورٹس کے100سے زائد ججوں کی قربانی کا فیصلہ اس لیے دیا گیا کہ کوئی بھی آئین اور قانون سے ماورا نہیں ہے جس کے بعد اب عدلیہ صحیح رخ پر چل رہی ہے۔
اب اگر ہم ہوں یا نہ ہوں یہ ادارہ(عدلیہ) آئین اور قانون کے مطابق فیصلے کرتا رہے گا۔ مشہور شخصیت کیتھ بی کلارڈ نے ایک دفعہ پاکستان کے بارے میں یوں مشاہدہ کیا ''آئین پاکستان کے تخفظ کے لیے کوئی بھی وہاں قربانی دینے کو تیار نہیں''۔ لیکن اب مجھے فخر ہے کہ وکلا وہ لوگ ہیں جنہوں نے تاریخ کے ایسے اوراق جن میں یہ تحریر تھا کو پھاڑ کے پھینک دیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ وکلا ہمیشہ قانون اور آئین کی حکمرانی کیلئے متحد رہیںگے۔ چیف جسٹس نے دوبار یہ کہا کہ عدلیہ اپنے فرض کی ادائیگی کے سلسلے میں ذرا بھی پیچھے نہیں ہٹے گی۔