اے وطن کی ہوا
76 برس پہلے 23 مارچ کے غروب ہوتے ہوئے سورج نے ایک ایسے خواب کو طلوع ہوتے ہوئے دیکھا تھا
مرے وطن مری ہستی کا منتہا تو ہے
مرے خیال کی ندرت تری جبیں تک ہے
میں مشت خاک سہی تیرے کارواں کی ہوں
مرے فلک کی بلندی تری زمیں تک ہے
میں تیری خاک کی آواز بن کے اٹھا ہوں
مری زباں میں اثر دے کہ میری موج صدا
دل و نظر میں تمنا کے پھول مہکائے
مری صدا' مرے اہل وطن کی بن جائے
میں سیل شوق کا آغاز بن کے اٹھا ہوں
مرے وطن میں تری خواہشوں کا سایا ہوں
میں ایک شاعر گمنام ہوں مرے بس میں
مرا وجود تھا سو آج لے کے آیا ہوں
مرے لہو کی سلامی قبول کر لینا
یہ جنس خام سہی' رزقِ پائے باد سہی
مگر یہ دیکھ کہ کس آرزو سے لایا ہوں!!
76 برس پہلے 23 مارچ کے غروب ہوتے ہوئے سورج نے ایک ایسے خواب کو طلوع ہوتے ہوئے دیکھا تھا جس کی تعبیر صرف سات برس کی دوری پر تھی اس شام پیش کی جانے والی قرار داد پاکستان کا مقصد برصغیر کے مسلم اکثریت والے علاقوں پر مشتمل ایک نئے ملک کا قیام تھا کہ انگریز کی متوقع مراجعت کے بعد انھیں اپنا مستقبل مختلف النوع خطرات اور اندیشوں میں گھرا ہوا نظر آ رہا تھا کیونکہ کانگریسی قیادت سمیت ہندوؤں کے مختلف سیاسی گروپ اپنی عددی اکثریت کی بنا پر کوئی ایسا نظام قائم کرنا چاہ رہے تھے جہاں تمام اقلیتیں ان کے رحم و کرم پر ہوں اور اس ضمن میں وہ اپنے عزائم کا عملی اظہار 1937ء کے انتخابات کے بعد صوبائی سطح پر بننے والی کانگریسی حکومتوں کے مختصر دور اقتدار میں کھل کر کر بھی چکے تھے۔
ان سات برسوں میں تقسیم سے کم کسی سمجھوتے یا طریق کار تک پہنچنے کی بہت سی کوششیں کی گئیں لیکن کسی نہ کسی وجہ سے ہر ایک کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا آج جو چند معترضین اور نئی نسل کے مایوس نوجوان مولانا ابوالکلام آزاد، ہندو قیادت یا انگریز کی طرف سے دیے گئے مختلف فارمولوں کے حوالے سے نظریہ پاکستان اور قیام پاکستان کے بارے میں منفی خیالات کا اظہار کرتے ہیں اور اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ ایک ملک کی شکل میں برصغیر کے مسلمان آج سے بہتر رہتے ان کو یہ بتانے اور سمجھانے کی ضرورت ہے کہ اگر ہم اور ہمارے سینئرز پاکستان کو ٹھیک طرح سے قومی امنگوں کے مطابق چلا نہیں سکے تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں نکلتا کہ یہ بنا ہی ٹھیک نہیں تھا جو لوگ بارہویں سے اٹھارویں صدی تک کے متحدہ ہندوستان کی باتیں کرتے ہیں وہ شاید تاریخ کے اس اصول کو نظر انداز کر جاتے ہیں کہ حالات اور وقت بدلنے سے بہت سی چیزیں بعض اوقات یکسر بدل جاتی ہیں ۔
انگریز کی Divides & Rule پالیسی نے وقت کے ساتھ ساتھ گھروں اور دلوں میں ایسی دیواریں کھڑی کر دی تھیں کہ اب اپنے اپنے چولہے علیحدہ کر لینا ہی زیادہ بہتر اور مناسب تھا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ دونوں ملکوں کی حکومتوں کی غلط پالیسیوں، چند غیر متوقع مسائل اور بعض بیرونی عناصر کی مفادات پسندی کی وجہ سے ایسی صورت حال بنتی چلی گئی کہ ہم اچھے ہمسائے نہ بن سکے لیکن یہ کوئی دائمی صورت حال نہیں اب بھی اگر انصاف' اعتماد اور برابری کی سطح پر بات چیت کی جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ مستقبل قریب میں ہم کینیڈا اور امریکا کی طرح مثالی ہمسائے بن کر زندگیاں نہ گزار سکیں۔
میرے نزدیک 23 مارچ کی تکریم کا بہترین انداز اور طریقہ یہ ہو گا کہ کم از کم اس دن ہم اپنی ناکامیوں اور غلطیوں کا ماتم کرنے اور ایک دوسرے پر الزام تراشی کرنے کے بجائے ایک بار ایک ساتھ بیٹھ کر اس خوب صورت خواب کی امکانی دنیا کے رنگوں سے اپنی آنکھوں اور دلوں کو روشن اور منور کریں جو ہمارے بڑوں نے نہ صرف دیکھا تھا بلکہ ان رنگوں میں ان کے خون کا رنگ بھی شامل ہے' جان و مال کی آن بے شمار قربانیوں کی بھی توقیر کریں جنہوں نے ہمارے کل کے لیے اپنا آج وار دیا تھا' ان کامیابیوں کو بھی گننے اور سمجھنے کی کوشش کریں جو تمام مسائل کے باوجود ہم نے بطور قوم زندگی کے ہر شعبے میں حاصل کیں۔
ان جذبوں کو پھر سے تازہ کریں جنہوں نے پہلے قیام پاکستان اور پھر جنگ ستمبر کے دنوں میں ہمیں ایک ہجوم سے قافلے کی شکل عطا کی' اپنے لوگوں کی تعلیم' صحت' عزت نفس اور خوش حالی کے لیے خود بھی کام کریں اور اپنے حکمرانوں کو بھی مجبور کریں کہ وہ اپنی ترجیحات کو اس خواب کی روشنی میں مرتب اور متعین کریں یقین کامل ہے کہ اگر ہم اس راستے پر چل پڑیں گے تو وہ سب اندھیرے ماضی کی ایک موہوم یاد بن کر معدوم ہوتے چلے جائیں گے جنہوں نے آج ہمیں چاروں طرف سے گھیرا ہوا ہے آج کا دن ہمارے اس سفر کا روز آغاز ہے سو ہم لوٹ کر اسی کی فضا میں چلتے ہیں اور اس دعا کے ساتھ اس دن کا استقبال کرتے ہیں کہ
اے وطن کی ہوا
آج کا دن ترا روز آغاز ہے
اے ہماری مسافت کے آغاز و انجام سے آشنا
منزلوں کی جبینوں سے پردہ اٹھا
لوریوں اور نعروں کی تفریق سے بے خبر
جب ابھی ننھے منے سے معصوم بچے تھے ہم
اس زمانے کی خوشبو کا نغمہ سنا
پھر وہ ماں سا مقدس محبت بھرا نرم چہرہ دکھا
اے وطن کی ہوا۔ اے وطن کی ہوا
مرے خیال کی ندرت تری جبیں تک ہے
میں مشت خاک سہی تیرے کارواں کی ہوں
مرے فلک کی بلندی تری زمیں تک ہے
میں تیری خاک کی آواز بن کے اٹھا ہوں
مری زباں میں اثر دے کہ میری موج صدا
دل و نظر میں تمنا کے پھول مہکائے
مری صدا' مرے اہل وطن کی بن جائے
میں سیل شوق کا آغاز بن کے اٹھا ہوں
مرے وطن میں تری خواہشوں کا سایا ہوں
میں ایک شاعر گمنام ہوں مرے بس میں
مرا وجود تھا سو آج لے کے آیا ہوں
مرے لہو کی سلامی قبول کر لینا
یہ جنس خام سہی' رزقِ پائے باد سہی
مگر یہ دیکھ کہ کس آرزو سے لایا ہوں!!
76 برس پہلے 23 مارچ کے غروب ہوتے ہوئے سورج نے ایک ایسے خواب کو طلوع ہوتے ہوئے دیکھا تھا جس کی تعبیر صرف سات برس کی دوری پر تھی اس شام پیش کی جانے والی قرار داد پاکستان کا مقصد برصغیر کے مسلم اکثریت والے علاقوں پر مشتمل ایک نئے ملک کا قیام تھا کہ انگریز کی متوقع مراجعت کے بعد انھیں اپنا مستقبل مختلف النوع خطرات اور اندیشوں میں گھرا ہوا نظر آ رہا تھا کیونکہ کانگریسی قیادت سمیت ہندوؤں کے مختلف سیاسی گروپ اپنی عددی اکثریت کی بنا پر کوئی ایسا نظام قائم کرنا چاہ رہے تھے جہاں تمام اقلیتیں ان کے رحم و کرم پر ہوں اور اس ضمن میں وہ اپنے عزائم کا عملی اظہار 1937ء کے انتخابات کے بعد صوبائی سطح پر بننے والی کانگریسی حکومتوں کے مختصر دور اقتدار میں کھل کر کر بھی چکے تھے۔
ان سات برسوں میں تقسیم سے کم کسی سمجھوتے یا طریق کار تک پہنچنے کی بہت سی کوششیں کی گئیں لیکن کسی نہ کسی وجہ سے ہر ایک کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا آج جو چند معترضین اور نئی نسل کے مایوس نوجوان مولانا ابوالکلام آزاد، ہندو قیادت یا انگریز کی طرف سے دیے گئے مختلف فارمولوں کے حوالے سے نظریہ پاکستان اور قیام پاکستان کے بارے میں منفی خیالات کا اظہار کرتے ہیں اور اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ ایک ملک کی شکل میں برصغیر کے مسلمان آج سے بہتر رہتے ان کو یہ بتانے اور سمجھانے کی ضرورت ہے کہ اگر ہم اور ہمارے سینئرز پاکستان کو ٹھیک طرح سے قومی امنگوں کے مطابق چلا نہیں سکے تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں نکلتا کہ یہ بنا ہی ٹھیک نہیں تھا جو لوگ بارہویں سے اٹھارویں صدی تک کے متحدہ ہندوستان کی باتیں کرتے ہیں وہ شاید تاریخ کے اس اصول کو نظر انداز کر جاتے ہیں کہ حالات اور وقت بدلنے سے بہت سی چیزیں بعض اوقات یکسر بدل جاتی ہیں ۔
انگریز کی Divides & Rule پالیسی نے وقت کے ساتھ ساتھ گھروں اور دلوں میں ایسی دیواریں کھڑی کر دی تھیں کہ اب اپنے اپنے چولہے علیحدہ کر لینا ہی زیادہ بہتر اور مناسب تھا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ دونوں ملکوں کی حکومتوں کی غلط پالیسیوں، چند غیر متوقع مسائل اور بعض بیرونی عناصر کی مفادات پسندی کی وجہ سے ایسی صورت حال بنتی چلی گئی کہ ہم اچھے ہمسائے نہ بن سکے لیکن یہ کوئی دائمی صورت حال نہیں اب بھی اگر انصاف' اعتماد اور برابری کی سطح پر بات چیت کی جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ مستقبل قریب میں ہم کینیڈا اور امریکا کی طرح مثالی ہمسائے بن کر زندگیاں نہ گزار سکیں۔
میرے نزدیک 23 مارچ کی تکریم کا بہترین انداز اور طریقہ یہ ہو گا کہ کم از کم اس دن ہم اپنی ناکامیوں اور غلطیوں کا ماتم کرنے اور ایک دوسرے پر الزام تراشی کرنے کے بجائے ایک بار ایک ساتھ بیٹھ کر اس خوب صورت خواب کی امکانی دنیا کے رنگوں سے اپنی آنکھوں اور دلوں کو روشن اور منور کریں جو ہمارے بڑوں نے نہ صرف دیکھا تھا بلکہ ان رنگوں میں ان کے خون کا رنگ بھی شامل ہے' جان و مال کی آن بے شمار قربانیوں کی بھی توقیر کریں جنہوں نے ہمارے کل کے لیے اپنا آج وار دیا تھا' ان کامیابیوں کو بھی گننے اور سمجھنے کی کوشش کریں جو تمام مسائل کے باوجود ہم نے بطور قوم زندگی کے ہر شعبے میں حاصل کیں۔
ان جذبوں کو پھر سے تازہ کریں جنہوں نے پہلے قیام پاکستان اور پھر جنگ ستمبر کے دنوں میں ہمیں ایک ہجوم سے قافلے کی شکل عطا کی' اپنے لوگوں کی تعلیم' صحت' عزت نفس اور خوش حالی کے لیے خود بھی کام کریں اور اپنے حکمرانوں کو بھی مجبور کریں کہ وہ اپنی ترجیحات کو اس خواب کی روشنی میں مرتب اور متعین کریں یقین کامل ہے کہ اگر ہم اس راستے پر چل پڑیں گے تو وہ سب اندھیرے ماضی کی ایک موہوم یاد بن کر معدوم ہوتے چلے جائیں گے جنہوں نے آج ہمیں چاروں طرف سے گھیرا ہوا ہے آج کا دن ہمارے اس سفر کا روز آغاز ہے سو ہم لوٹ کر اسی کی فضا میں چلتے ہیں اور اس دعا کے ساتھ اس دن کا استقبال کرتے ہیں کہ
اے وطن کی ہوا
آج کا دن ترا روز آغاز ہے
اے ہماری مسافت کے آغاز و انجام سے آشنا
منزلوں کی جبینوں سے پردہ اٹھا
لوریوں اور نعروں کی تفریق سے بے خبر
جب ابھی ننھے منے سے معصوم بچے تھے ہم
اس زمانے کی خوشبو کا نغمہ سنا
پھر وہ ماں سا مقدس محبت بھرا نرم چہرہ دکھا
اے وطن کی ہوا۔ اے وطن کی ہوا