نہ حکمراں دلیر اور نہ کمانڈو بہادر
یہ بات پندرہ روز قبل 27 ستمبر1999ء کو کورکمانڈرز کی میٹنگ طے ہو چکی تھی
سابق آرمی چیف جنرل پرویز مشرف پہلے سے طے شدہ ایک منصوبے کے تحت 12 اکتوبر 1999ء کو اقتدار میں آئے تھے یہ اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی۔ اُس وقت کے وزیرِاعظم میاں نواز شریف اگر اُن کے سری لنکا کے دورے کے دوران نیا آرمی چیف لانے کا فیصلہ نہ بھی کرتے تو بھی وہ واپس آنے کے بعد میاں صاحب کا ہر حال میں دھڑن تختہ کر دیتے۔
یہ بات پندرہ روز قبل 27 ستمبر1999ء کو کورکمانڈرز کی میٹنگ طے ہو چکی تھی اور جس سے میاں نواز شریف کو کوئٹہ کے کورکمانڈر لیفٹیننٹ جنرل طارق پرویز نے پرائم منسٹر ہاؤس میں جا کر آگاہ کر دیا تھا اور جنھیں اِس جرم کی پاداش میں بعد ازاں پرویز مشرف کی جانب سے کورٹ مارشل کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ خود پرویز مشرف نے سری لنکا جانے سے پہلے حفظِ ماتقدم کے طور پر اپنے قریبی ساتھیوں کو اِس سلسلے میں اعتماد میں لیتے ہوئے اپنی غیر موجودگی میں متوقع حالات سے نمٹنے کے لیے مکمل اختیارات اور احکامات بھی دے دیے تھے۔
یہی وجہ ہے کہ میاں نواز شریف کو اقتدار سے بیدخل کرنے کے لیے 12 اکتوبر نہ کسی آرمی چیف کے آڈر کی ضرورت تھی اور نہ اُن کی ملک کے اندر موجودگی۔ بالا ہی بالا سارا کام ماتحت افسروں نے کر ڈالا۔ ملک میں اب تک لگائے گئے سارے مارشل لاؤں میں یہ ایک پہلا اور منفرد مارشل لاء تھا جو کسی آرمی چیف کے باضابطہ آڈر کے بغیر ہی لگا دیا گیا۔ یہ طیارے کو فضاؤں میں ہی ٹھہرائے جانے، سات منٹ کا ایندھن رہ جانے اور بھارت لے جانے والی باتیں محض ڈرامہ تھیں۔ ہاں البتہ طیارے کو نواب شاہ ائیرپورٹ لے جانے کا آڈر ضرور دیا گیا تھا جو عدم تعمیل کی وجہ سے کارگرنہ ہو سکا۔
میاں صاحب اور پرویز مشرف کے درمیان اختلافات کی اصل وجہ کارگل کی وہ جنگ ہے جو جنرل پرویز مشرف نے حکومت کو اعتماد میں لیے بغیر ہی اپنے طور پر ہی شروع کر دی تھی۔ اٹل بہاری باجپائی کی لاہور آمد اور اِسی دوران کارگل پر چڑھائی نے میاں صاحب کو بڑی مشکل میں ڈال دیا تھا۔ ہماری جانب سے اِس بلااشتعال کارروائی پر ساری دنیا بھارت کے ساتھ ہم آواز بن چکی تھی۔ سبھی ہمیں ہی موردِالزام ٹہرا رہے تھے۔ ہمارا سچا دوست چین بھی ہمارا ساتھ نہیں دے رہا تھا۔ اُس کی نظر میں بھی قصور ہمارا ہی تھا کیونکہ پہل ہم نے کی تھی۔
12 اکتوبر1999ء کے بعد جو کچھ ہوا وہ تاریخ کا ایک افسوسناک باب ہے۔ نو سال تک پرویز مشرف بلا روک ٹوک اور بلا شرکتِ غیرے اِس ملک وقوم کے حکمران بنے رہے۔ وہ جو چاہتے کرگزرتے۔ اُن کے اقتدارکی قوت کے مظاہرے ہم سب نے بہت دیکھے۔ جن دوستوں اور ساتھیوں کی مدد سے وہ برسراقتدار آئے تھے اُنہیں پہلی فرصت میں سائیڈلائن کر دیا گیا۔
ایک منتخب وزیرِاعظم کوکئی مہینوں تک نامعلوم مقام پر رکھا گیا اور پھر طیارہ سازش کیس تیار کر کے اٹک کے قلعے میں قید تنہائی گزارنے کے لیے چھوڑ دیا گیا۔ فوری فیصلہ کر کے چودہ سال قید کی سزا بھی سنا دی گئی۔ جسے بعد ازاں ایک دوست ملک کی درخواست پر راتوں رات جلاوطن کر دیا جاتا ہے۔ پھر زمانہ اور وقت بدلنے لگتا ہے۔ حالات و واقعات کی بے ثباتی اپنا رنگ دکھانا اور تاریخ اپنی تلخیاں آشکار کرنا شروع کرتی ہے۔ عروج کو زوال کا گہن لگنے لگتا ہے۔
قوت و جبروت کی گرفت کمزور پڑنا شروع ہوتی ہے۔ اور پھر وہ جنرل 2008ء میں مواخذے کے خوف سے ایک بے بس و لاچار شخص کی صورت میں طوعاً و کرہاً استعفیٰ دیکر بیرون ملک چلا جاتا ہے۔2013ء کے انتخابات سے قبل سوشل میڈیا پر اپنی مقبولیت کے سحر میں وہ یہ سمجھ کر واپس آتا ہے کہ اِس ملک کے عوام اُسے ایک بار پھر سر پر بٹھائیں گے۔ وہ یہ بھول جاتا ہے کہ ہر ڈکٹیٹر اور آمر کو صرف ایک بار اقتدار نصیب ہوتا ہے۔ پھر ہوا وہی جس کااندیشہ تھا۔
اسلام آباد کے ایوانِ اقتدار میں زرداری کے بعد اب وہی شخص تخت نشیں تھا جسے اُس نے ایک قیدی بنا کر اور ہتھکڑیاں ڈال کر بے عزت و بے آبرو کیا تھا۔ قدرت نے اُس شخص کو ایک بار بھی وزیرِ اعظم کے منصب پر بٹھا دیا تھا۔ اب کٹہرے میں وہ نہیں خود پرویز مشرف تھا۔ اکبر بگٹی قتل، لال مسجد اور جامعہ حفصہ پر چڑھائی اور آئین و دستور کو توڑنے جیسے کئی سنگین الزامات اُس کا محاسبہ کر رہے تھے۔ وہ پریشانی اور سراسیمگی کی حالت میں عدالتوں میں پیشی سے بچنے کی خاطر اسپتالوں کے چکر لگاتا رہا۔کبھی دل کا عارضہ تو کبھی کمر کے مہروں کی تکلیف پھر ایک روز اِسی کو بنیاد بنا کروہ بیرون ِ ملک علاج کروانے کے بہانے یہاں سے پھر نکل جاتا ہے ۔
اسلام آباد کے حکمرانوں کو شاید یہ نہ معلوم تھا کہ اِس مملکتِ خداد اد میں ابھی تک کسی طاقتور بااثر شخص کا احتساب نہیں ہو پایا ہے۔ کسی میں اتنی جرأت نہیں کہ وہ کسی سابق جنرل کو سزا تو کیا معمولی سی زک بھی پہنچا سکے۔ اپنی حکومت کے خلاف 2014ء میں ہونے والے تاریخی دھرنے کی بعد میاں صاحب کو بہت جلد یہ احساس ہو گیا کہ اُنہوں نے پرویز مشرف کو قانون کی گرفت میں لانے کی کوشش کر کے بہت بڑی غلطی کی ہے۔
اِس کے بعد موصوف نے پرویز مشرف کو سزا دلانے کے اپنے تمام عزائم اور ارادوں کو پسِ پشت ڈال کر معاملات کو عدالتوں کے سپرد کر دیا۔ اِدھر ہماری عدلیہ بھی ابھی اتنی طاقتور خود مختار اور آزاد نہیں ہوئی ہے کہ جس کا کہ 2007ء کے بعد تصور اور خیال کیا جا رہا تھا۔ وہ بھی تاریخوں پر تاریخ دی جا رہی تھی۔ ملزم پیشی سے قبل ہی بیمار ہو کر اسپتال پہنچ جاتا تھا اور ڈاکٹر اُسے پیشی سے استثناء کے لیے میڈیکل سرٹیفکیٹ جاری کر دیتے۔ تین سالوں سے یہی ہوتا رہا اور یوں یہ حقیقت سب پر عیاں ہو گئی کہ آئین اور قانون کا اطلاق صرف کمزور اور مجبور لوگوں پر ہی ممکن ہے۔
آئین کے آرٹیکل6 پر حقیقی معنوں میں نہ کبھی عمل ہوا ہے اور نہ کبھی ہو سکتا ہے۔ آئین کو معطل یا توڑنے والے پر ملک سے غداری کرنے کا مقدمہ چلانے اور موت کی سزا مختص کرنے کا مشورہ نجانے ہمارے کس دانشور نے دیا تھا جب کہ سب کو معلوم ہے کہ آئین توڑنے والا کوئی عام اور معمولی آدمی نہیں ہوتا۔ وہ اتنا بااختیار اور طاقتور ہوتا ہے تبھی سب کچھ جانتے ہوئے بھی یہ کام کرگزرتا ہے۔ پرویز مشرف کے باہر چلے جانے سے ایک بات تو یہ ثابت ہو گئی کہ وہ شخص جو خود کو چاہے کتنا بڑا بہادر اور نڈرکمانڈو کہتاہو، عدالتوں میں اپنے خلاف مقدمات کی پیروی کرنے سے ڈرتا اور بھاگتا رہا۔ اور بالآخر موقعہ غنیمت پا کر اِن مقدمات سے جان چھڑا کر بیماری کو بہانہ بنا کر سمندر پار نکل جاتا ہے۔
سیاستدانوں اور سول حکمرانوں کے پاس تو یہ سہولت بھی نہیں ہوا کرتی۔ وہ اگر کسی غیر جمہوری طالع آزما کی قید میں آ جائیں تو اُنہیں جیل ہی سے عدالتوں کی پیشیاں نمٹانا پڑتی ہیں۔ وہ کسی بیماری یا عارضہ کو وجہ اور سبب بنا کر پیشی سے انکار بھی نہیں کر سکتے۔ اُنہیں تو جیل کا عملہ ہتھکڑیاں پہنا کر روزانہ عدالت میں لا کھڑا کرتا ہے۔ اور وہ حکمران بن کر بھی اتنے دلیر اور بااختیار نہیں ہوتے کہ کسی بڑے طاقتور اور بااثر شخص کو سزا تو کیا دلاتے، عدالتوں میں حاضری پر بھی مجبور نہیں کر سکتے۔ یہی ہمارے جیسے نام نہاد ترقی پذیر خود ساختہ لبرل جمہوری معاشرے کا المیہ ہے۔
یہ بات پندرہ روز قبل 27 ستمبر1999ء کو کورکمانڈرز کی میٹنگ طے ہو چکی تھی اور جس سے میاں نواز شریف کو کوئٹہ کے کورکمانڈر لیفٹیننٹ جنرل طارق پرویز نے پرائم منسٹر ہاؤس میں جا کر آگاہ کر دیا تھا اور جنھیں اِس جرم کی پاداش میں بعد ازاں پرویز مشرف کی جانب سے کورٹ مارشل کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ خود پرویز مشرف نے سری لنکا جانے سے پہلے حفظِ ماتقدم کے طور پر اپنے قریبی ساتھیوں کو اِس سلسلے میں اعتماد میں لیتے ہوئے اپنی غیر موجودگی میں متوقع حالات سے نمٹنے کے لیے مکمل اختیارات اور احکامات بھی دے دیے تھے۔
یہی وجہ ہے کہ میاں نواز شریف کو اقتدار سے بیدخل کرنے کے لیے 12 اکتوبر نہ کسی آرمی چیف کے آڈر کی ضرورت تھی اور نہ اُن کی ملک کے اندر موجودگی۔ بالا ہی بالا سارا کام ماتحت افسروں نے کر ڈالا۔ ملک میں اب تک لگائے گئے سارے مارشل لاؤں میں یہ ایک پہلا اور منفرد مارشل لاء تھا جو کسی آرمی چیف کے باضابطہ آڈر کے بغیر ہی لگا دیا گیا۔ یہ طیارے کو فضاؤں میں ہی ٹھہرائے جانے، سات منٹ کا ایندھن رہ جانے اور بھارت لے جانے والی باتیں محض ڈرامہ تھیں۔ ہاں البتہ طیارے کو نواب شاہ ائیرپورٹ لے جانے کا آڈر ضرور دیا گیا تھا جو عدم تعمیل کی وجہ سے کارگرنہ ہو سکا۔
میاں صاحب اور پرویز مشرف کے درمیان اختلافات کی اصل وجہ کارگل کی وہ جنگ ہے جو جنرل پرویز مشرف نے حکومت کو اعتماد میں لیے بغیر ہی اپنے طور پر ہی شروع کر دی تھی۔ اٹل بہاری باجپائی کی لاہور آمد اور اِسی دوران کارگل پر چڑھائی نے میاں صاحب کو بڑی مشکل میں ڈال دیا تھا۔ ہماری جانب سے اِس بلااشتعال کارروائی پر ساری دنیا بھارت کے ساتھ ہم آواز بن چکی تھی۔ سبھی ہمیں ہی موردِالزام ٹہرا رہے تھے۔ ہمارا سچا دوست چین بھی ہمارا ساتھ نہیں دے رہا تھا۔ اُس کی نظر میں بھی قصور ہمارا ہی تھا کیونکہ پہل ہم نے کی تھی۔
12 اکتوبر1999ء کے بعد جو کچھ ہوا وہ تاریخ کا ایک افسوسناک باب ہے۔ نو سال تک پرویز مشرف بلا روک ٹوک اور بلا شرکتِ غیرے اِس ملک وقوم کے حکمران بنے رہے۔ وہ جو چاہتے کرگزرتے۔ اُن کے اقتدارکی قوت کے مظاہرے ہم سب نے بہت دیکھے۔ جن دوستوں اور ساتھیوں کی مدد سے وہ برسراقتدار آئے تھے اُنہیں پہلی فرصت میں سائیڈلائن کر دیا گیا۔
ایک منتخب وزیرِاعظم کوکئی مہینوں تک نامعلوم مقام پر رکھا گیا اور پھر طیارہ سازش کیس تیار کر کے اٹک کے قلعے میں قید تنہائی گزارنے کے لیے چھوڑ دیا گیا۔ فوری فیصلہ کر کے چودہ سال قید کی سزا بھی سنا دی گئی۔ جسے بعد ازاں ایک دوست ملک کی درخواست پر راتوں رات جلاوطن کر دیا جاتا ہے۔ پھر زمانہ اور وقت بدلنے لگتا ہے۔ حالات و واقعات کی بے ثباتی اپنا رنگ دکھانا اور تاریخ اپنی تلخیاں آشکار کرنا شروع کرتی ہے۔ عروج کو زوال کا گہن لگنے لگتا ہے۔
قوت و جبروت کی گرفت کمزور پڑنا شروع ہوتی ہے۔ اور پھر وہ جنرل 2008ء میں مواخذے کے خوف سے ایک بے بس و لاچار شخص کی صورت میں طوعاً و کرہاً استعفیٰ دیکر بیرون ملک چلا جاتا ہے۔2013ء کے انتخابات سے قبل سوشل میڈیا پر اپنی مقبولیت کے سحر میں وہ یہ سمجھ کر واپس آتا ہے کہ اِس ملک کے عوام اُسے ایک بار پھر سر پر بٹھائیں گے۔ وہ یہ بھول جاتا ہے کہ ہر ڈکٹیٹر اور آمر کو صرف ایک بار اقتدار نصیب ہوتا ہے۔ پھر ہوا وہی جس کااندیشہ تھا۔
اسلام آباد کے ایوانِ اقتدار میں زرداری کے بعد اب وہی شخص تخت نشیں تھا جسے اُس نے ایک قیدی بنا کر اور ہتھکڑیاں ڈال کر بے عزت و بے آبرو کیا تھا۔ قدرت نے اُس شخص کو ایک بار بھی وزیرِ اعظم کے منصب پر بٹھا دیا تھا۔ اب کٹہرے میں وہ نہیں خود پرویز مشرف تھا۔ اکبر بگٹی قتل، لال مسجد اور جامعہ حفصہ پر چڑھائی اور آئین و دستور کو توڑنے جیسے کئی سنگین الزامات اُس کا محاسبہ کر رہے تھے۔ وہ پریشانی اور سراسیمگی کی حالت میں عدالتوں میں پیشی سے بچنے کی خاطر اسپتالوں کے چکر لگاتا رہا۔کبھی دل کا عارضہ تو کبھی کمر کے مہروں کی تکلیف پھر ایک روز اِسی کو بنیاد بنا کروہ بیرون ِ ملک علاج کروانے کے بہانے یہاں سے پھر نکل جاتا ہے ۔
اسلام آباد کے حکمرانوں کو شاید یہ نہ معلوم تھا کہ اِس مملکتِ خداد اد میں ابھی تک کسی طاقتور بااثر شخص کا احتساب نہیں ہو پایا ہے۔ کسی میں اتنی جرأت نہیں کہ وہ کسی سابق جنرل کو سزا تو کیا معمولی سی زک بھی پہنچا سکے۔ اپنی حکومت کے خلاف 2014ء میں ہونے والے تاریخی دھرنے کی بعد میاں صاحب کو بہت جلد یہ احساس ہو گیا کہ اُنہوں نے پرویز مشرف کو قانون کی گرفت میں لانے کی کوشش کر کے بہت بڑی غلطی کی ہے۔
اِس کے بعد موصوف نے پرویز مشرف کو سزا دلانے کے اپنے تمام عزائم اور ارادوں کو پسِ پشت ڈال کر معاملات کو عدالتوں کے سپرد کر دیا۔ اِدھر ہماری عدلیہ بھی ابھی اتنی طاقتور خود مختار اور آزاد نہیں ہوئی ہے کہ جس کا کہ 2007ء کے بعد تصور اور خیال کیا جا رہا تھا۔ وہ بھی تاریخوں پر تاریخ دی جا رہی تھی۔ ملزم پیشی سے قبل ہی بیمار ہو کر اسپتال پہنچ جاتا تھا اور ڈاکٹر اُسے پیشی سے استثناء کے لیے میڈیکل سرٹیفکیٹ جاری کر دیتے۔ تین سالوں سے یہی ہوتا رہا اور یوں یہ حقیقت سب پر عیاں ہو گئی کہ آئین اور قانون کا اطلاق صرف کمزور اور مجبور لوگوں پر ہی ممکن ہے۔
آئین کے آرٹیکل6 پر حقیقی معنوں میں نہ کبھی عمل ہوا ہے اور نہ کبھی ہو سکتا ہے۔ آئین کو معطل یا توڑنے والے پر ملک سے غداری کرنے کا مقدمہ چلانے اور موت کی سزا مختص کرنے کا مشورہ نجانے ہمارے کس دانشور نے دیا تھا جب کہ سب کو معلوم ہے کہ آئین توڑنے والا کوئی عام اور معمولی آدمی نہیں ہوتا۔ وہ اتنا بااختیار اور طاقتور ہوتا ہے تبھی سب کچھ جانتے ہوئے بھی یہ کام کرگزرتا ہے۔ پرویز مشرف کے باہر چلے جانے سے ایک بات تو یہ ثابت ہو گئی کہ وہ شخص جو خود کو چاہے کتنا بڑا بہادر اور نڈرکمانڈو کہتاہو، عدالتوں میں اپنے خلاف مقدمات کی پیروی کرنے سے ڈرتا اور بھاگتا رہا۔ اور بالآخر موقعہ غنیمت پا کر اِن مقدمات سے جان چھڑا کر بیماری کو بہانہ بنا کر سمندر پار نکل جاتا ہے۔
سیاستدانوں اور سول حکمرانوں کے پاس تو یہ سہولت بھی نہیں ہوا کرتی۔ وہ اگر کسی غیر جمہوری طالع آزما کی قید میں آ جائیں تو اُنہیں جیل ہی سے عدالتوں کی پیشیاں نمٹانا پڑتی ہیں۔ وہ کسی بیماری یا عارضہ کو وجہ اور سبب بنا کر پیشی سے انکار بھی نہیں کر سکتے۔ اُنہیں تو جیل کا عملہ ہتھکڑیاں پہنا کر روزانہ عدالت میں لا کھڑا کرتا ہے۔ اور وہ حکمران بن کر بھی اتنے دلیر اور بااختیار نہیں ہوتے کہ کسی بڑے طاقتور اور بااثر شخص کو سزا تو کیا دلاتے، عدالتوں میں حاضری پر بھی مجبور نہیں کر سکتے۔ یہی ہمارے جیسے نام نہاد ترقی پذیر خود ساختہ لبرل جمہوری معاشرے کا المیہ ہے۔