نیا امریکی وزیر خارجہ کون پاکستانی سفارتی حلقوں میں دلچسپی بڑھ گئی
یہ حقیقت ہے کہ ہلیری کلنٹن کی جگہ لینا بہت مشکل ہے لیکن جان کیری بھی کافی قابل امیدوار ہیں، تجزیہ کاروں کے تاثرات.
برطانوی میڈیانے دعویٰ کیاہے کہ پاکستان کے سفارتی حلقوں میں اس معاملے پرگہری دلچسپی ہے کہ امریکا میں ہلیری کلنٹن کی جگہ وزیرخارجہ کا عہدہ کون سنبھالے گا؟
ادھرتجزیہ کاروں کے مطابق ہلیری کلنٹن کی جگہ لینا بہت مشکل ہے لیکن جان کیری کافی قابل امیدوار ہیں جب لاہور میں ریمنڈ ڈیوس کا معاملہ اٹھا توجان کیری کوپاکستان میں لگی آگ کو بجھانے کے لیے بھیجا تھا،امریکاکو پاکستان سے اپنی توقعات کم کرنی ہوں گی۔ہفتے کوبرطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق واشنگٹن میں مقیم بعض پاکستانی صحافیوں کے مطابق ہلیری کلنٹن پاکستان کو سمجھتی ہیںاورانھوں نے دونوں ممالک کے درمیان کشیدہ تعلقات کے وقت معاملات کو قابو میں رکھنے کے لیے بہت اہم کردار ادا کیا۔ ہلیری کلنٹن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھوں نے سفارتی تعلقات میں اپنائیت کا پہلو شامل کیا،کئی تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ کلنٹن کا پہلا فرض سابق صدر جارج بش کے دور میں امریکا کی خراب شبیہ کو سدھارنا تھا جسے انھوں نے بخوبی نبھایا، وہ نقصان کے ازالے کیلیے ایک اور سال اس عہدے پرفائز رہیں گی۔
تھنک ٹینک ولسن سینٹر کے پاکستان کے ماہر مائیکل کوگلمن اس سے متفق نہیں ہیں،کوئی بھی امریکی وزیرِ خارجہ چار سال پورے کرنے کے بعد مدت بڑھاتا نہیں اس کے علاوہ عالمی سطح پر بھی اوباما انتظامیہ کی وہ سب سے مقبول اہلکار تھیں، ان کی نگاہیں شاید اگلے انتخابات میں صدرکے عہدے پر ہیں، وزیرِ خارجہ کے عہدے کے لیے کئی نام گردش کر رہے ہیں جن میں اقوامِ متحدہ کیلیے امریکی سفیر سوزن رائس بھی شامل ہیں لیکن وہ بھی لیبیا کے معاملے کا شکار نظرآتی لگ رہی ہیں۔ مائیکل کوگلمن کے مطابق خارجہ پالیسی پر مہارت اور ڈیموکریٹک جماعت سے تعلق کی وجہ سے جان کیری کا نام سرِ فہرست ہے۔
اس سوال پر کہ جو بھی وزیرِ خارجہ ہوں گے، ان سے پاکستان کو کوئی تبدیلیوں کی توقع رکھنی چاہیے؟ تجزیہ نگار کہتے ہیں نہیں ، تھنک ٹینک انسٹیٹیوٹ آف پیس اسٹذیز کے جنوبی ایشیا کے ماہرمعید یوسف کہتے ہیں کہ کام ویسے ہی چلتا رہے گا لیکن پاکستان اور خطے میں کئی تبدیلیاں آرہی ہیں جس سے تعلقات میں شاید فرق پڑے۔ پہلے تو پاکستانی انتخابات ہیں اور پھر2014 میں افغانستان سے امریکی فوجیوں کا انخلا ہے۔ معید یوسف نے کہا کہ اس تاریخ سے پہلے امریکا اور پاکستان کو اپنی پالیسیوں میں ہم آہنگی لانی ہو گی اگر افغانستان میں حالات خراب ہوتے ہیں تو پاکستان عالمی سطح پر اکیلا رہ جائے گا کیونکہ سارا قصور اسی پر ٹھہرایا جائے گا۔ لیکن مائیکل کوگلمن کہتے ہیں کہ اگرچہ دونوں ممالک اتفاق نہیں کرتے، ان کا مفاد ایک نہیں ہے۔
جس سے آئندہ دو برس میں تنا پیدا ہو سکتا ہے، امریکا کو پاکستان سے اپنی توقعات کم کرنی ہوں گی رویہ نرم کرنا ہو گا۔ میرے خیال میں آئندہ چار سال میں دونوں ممالک کے درمیان تعاون محدود ہو جائے گا، انھوں نے کہا کہ واشنگٹن میں سب جانتے ہیں کہ طالبان کے ساتھ صلح کے عمل میں افغان حکومت کی قیادت ضروری ہے۔ لیکن اس بات کا بھی احساس ہے کہ پاکستان کا کلیدی کردار ہے کیونکہ اس کا اہم لوگوں پراثر ہے۔ دیکھنا یہ ہو گا کہ دونوں ممالک ایک دوسرے میں اعتمادکس حد تک بحال کرسکیں گے۔
ادھرتجزیہ کاروں کے مطابق ہلیری کلنٹن کی جگہ لینا بہت مشکل ہے لیکن جان کیری کافی قابل امیدوار ہیں جب لاہور میں ریمنڈ ڈیوس کا معاملہ اٹھا توجان کیری کوپاکستان میں لگی آگ کو بجھانے کے لیے بھیجا تھا،امریکاکو پاکستان سے اپنی توقعات کم کرنی ہوں گی۔ہفتے کوبرطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق واشنگٹن میں مقیم بعض پاکستانی صحافیوں کے مطابق ہلیری کلنٹن پاکستان کو سمجھتی ہیںاورانھوں نے دونوں ممالک کے درمیان کشیدہ تعلقات کے وقت معاملات کو قابو میں رکھنے کے لیے بہت اہم کردار ادا کیا۔ ہلیری کلنٹن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھوں نے سفارتی تعلقات میں اپنائیت کا پہلو شامل کیا،کئی تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ کلنٹن کا پہلا فرض سابق صدر جارج بش کے دور میں امریکا کی خراب شبیہ کو سدھارنا تھا جسے انھوں نے بخوبی نبھایا، وہ نقصان کے ازالے کیلیے ایک اور سال اس عہدے پرفائز رہیں گی۔
تھنک ٹینک ولسن سینٹر کے پاکستان کے ماہر مائیکل کوگلمن اس سے متفق نہیں ہیں،کوئی بھی امریکی وزیرِ خارجہ چار سال پورے کرنے کے بعد مدت بڑھاتا نہیں اس کے علاوہ عالمی سطح پر بھی اوباما انتظامیہ کی وہ سب سے مقبول اہلکار تھیں، ان کی نگاہیں شاید اگلے انتخابات میں صدرکے عہدے پر ہیں، وزیرِ خارجہ کے عہدے کے لیے کئی نام گردش کر رہے ہیں جن میں اقوامِ متحدہ کیلیے امریکی سفیر سوزن رائس بھی شامل ہیں لیکن وہ بھی لیبیا کے معاملے کا شکار نظرآتی لگ رہی ہیں۔ مائیکل کوگلمن کے مطابق خارجہ پالیسی پر مہارت اور ڈیموکریٹک جماعت سے تعلق کی وجہ سے جان کیری کا نام سرِ فہرست ہے۔
اس سوال پر کہ جو بھی وزیرِ خارجہ ہوں گے، ان سے پاکستان کو کوئی تبدیلیوں کی توقع رکھنی چاہیے؟ تجزیہ نگار کہتے ہیں نہیں ، تھنک ٹینک انسٹیٹیوٹ آف پیس اسٹذیز کے جنوبی ایشیا کے ماہرمعید یوسف کہتے ہیں کہ کام ویسے ہی چلتا رہے گا لیکن پاکستان اور خطے میں کئی تبدیلیاں آرہی ہیں جس سے تعلقات میں شاید فرق پڑے۔ پہلے تو پاکستانی انتخابات ہیں اور پھر2014 میں افغانستان سے امریکی فوجیوں کا انخلا ہے۔ معید یوسف نے کہا کہ اس تاریخ سے پہلے امریکا اور پاکستان کو اپنی پالیسیوں میں ہم آہنگی لانی ہو گی اگر افغانستان میں حالات خراب ہوتے ہیں تو پاکستان عالمی سطح پر اکیلا رہ جائے گا کیونکہ سارا قصور اسی پر ٹھہرایا جائے گا۔ لیکن مائیکل کوگلمن کہتے ہیں کہ اگرچہ دونوں ممالک اتفاق نہیں کرتے، ان کا مفاد ایک نہیں ہے۔
جس سے آئندہ دو برس میں تنا پیدا ہو سکتا ہے، امریکا کو پاکستان سے اپنی توقعات کم کرنی ہوں گی رویہ نرم کرنا ہو گا۔ میرے خیال میں آئندہ چار سال میں دونوں ممالک کے درمیان تعاون محدود ہو جائے گا، انھوں نے کہا کہ واشنگٹن میں سب جانتے ہیں کہ طالبان کے ساتھ صلح کے عمل میں افغان حکومت کی قیادت ضروری ہے۔ لیکن اس بات کا بھی احساس ہے کہ پاکستان کا کلیدی کردار ہے کیونکہ اس کا اہم لوگوں پراثر ہے۔ دیکھنا یہ ہو گا کہ دونوں ممالک ایک دوسرے میں اعتمادکس حد تک بحال کرسکیں گے۔