افراط زر مہنگائی اور بیروزگاری
افراط زر کی حقیقی شرح سرکاری اعداد و شمار سے کہیں زیادہ ہے
NEW YORK:
افراط زر کی حقیقی شرح سرکاری اعداد و شمار سے کہیں زیادہ ہے۔ محنت کش عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں۔ بنیادی ضروریات زندگی اور خوراک آبادی کی اکثریت کی پہنچ سے دور ہو چکی ہیں۔ روز بروز بڑھتی مہنگائی نے محنت کش عوام کا جینا محال کر دیا ہے۔ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں مسلسل ہوشربا اضافہ جاری ہے۔
قیمتوں میں اضافے اور مہنگائی میں اضافے کی بنیادی وجوہات کچھ یوں ہیں۔ خسارے کو پورا کرنے کے لیے بالواسطہ ٹیکسوں کا مسلسل نفاذ ہو رہا ہے۔ یہ خسارہ قرضوں کی ادائیگی، فوجی اخراجات اور ریاستی شاہ خرچیوں کے باعث مسلسل بڑھ رہا ہے۔ ان بالواسطہ ٹیکسوں کے نفاذ کے اثرات ایندھن، توانائی اور دوسرے بنیادی شعبوں پر پڑ رہے ہیں، جس کے نتیجے میں اجناس اور ضروریات زندگی کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ کرنسی نوٹوں کی اشاعت میں غیر معمولی اضافہ کر کے بجٹ کے خسارے کو مصنوعی طور پر پورا کیا جا رہا ہے، جس سے مہنگائی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
تجارتی خسارے میں مسلسل اضافہ، درآمدات اور برآمدات کی حالیہ شرح کے باعث حاوی عالمی کرنسیوں کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی بھی افراط زر کا باعث بن رہی ہے۔ سابقہ قرضوں کی ادائیگی کے لیے نئی شرائط کے تحت قرضوں کے حصول اور عوام دشمن معاشی پالیسیوں نے ملکی معیشت کو اور بھی ہلکان کر دیا ہے۔ مروجہ نظام میں یہ بوجھ مزید بڑھ کر سماج اور معیشت کا خون نچوڑتا رہے گا۔ ملٹی نیشنل کمپنیاں اور ملکی سرمایہ دار اپنے منافعوں کی شرح میں اضافے کے لیے مصنوعی طور پر اپنی پیداوار کی قیمتوں میں اضافہ کرتے ہیں۔
پاکستانی ریاست ملکی اور غیر ملکی سرمایہ داروں کی من مانی کو روکنے میں ناکام ہو چکی ہے۔ جب عالمی منڈی میں قیمتیں بڑھتی ہیں تو فوراً اس کا بوجھ محنت کش عوام پر منتقل کر دیا جاتا ہے، جب کہ قیمتوں میں کمی پر یہ فائدہ عوام کو منتقل نہیں کیا جاتا۔ اس طرح منافعوں کے حصول کی سرمایہ دارانہ ہوس کے باعث آبادی کی اکثریت بنیادی ضروریات زندگی خریدنے کی سکت اور صلاحیت سے محروم ہو چکی ہے۔ اس صورتحال میں موجودہ سرمایہ دارانہ نظام کی حدود کے اندر قیمتوں میں کمی کے وعدے ایک سراب سے زیادہ کی حیثیت نہیں رکھتے اور محنت کش عوام کے ساتھ سراسر ایک دھو کا ہے۔
حکومتی اور ریاستی اخراجات میں کمی یا کٹوتی (قرضوں کی ادائیگی اور فوجی اخراجات سے قطع نظر) معیشت کو بحران سے نہیں نکال سکتی۔ قیمتوں میں اضافے کی ایک اور وجہ وسیع پیمانے پر ہونے والی بدعنوانی ہے۔ مقامی صنعت اور سرمایہ کار اتنے کمزور ہیں کہ اگر وہ بجلی اور توانائی کے بل اور ٹیکس ادا کریں تو خود کو نقصان ہو گا۔ بلوں اور ٹیکسوں کی چوری کے ذریعے ریاست کے ساتھ دھوکا دہی چھوڑ دیں اور مزدوروں کی تنخواہوں میں مناسب اضافہ کر دیں تو ان کا اپنا وجود خطرے میں پڑ جائے گا۔ اس چوری اور دھوکا دہی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ انھیں عالمی اجارہ داریوں کی معاشی، تکنیکی اور مالیاتی برتری کا سامنا ہے۔
اسی صورتحال میں وہ اپنے منافعوں کی بلند شرح کو برقرار رکھنے کے لیے بدعنوانی اور چوری کا سہارا لیتے ہیں، جس سے مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے۔ عالمی سامراجی مالیاتی اداروں آئی ایم ایف، عالمی بینک اور سامراجی حکومتوں کے دباؤ کی وجہ سے کمزور پاکستانی ریاست عالمی کمپنیوں کو قیمتوں میں بے جا اضافہ کرنے سے روکنے میں قاصر ہے۔ موجودہ سرمایہ دارانہ نظام کے اندر رہتے ہوئے اور مذکورہ معاشی کیفیات کی موجودگی میں قیمتوں میں کمی اور اشیائے ضرورت کی محنت کش عوام کو سستے داموں فراہمی ممکن نہیں۔
معیشت کی خرابی کو دور کرنے اور تباہی سے روکنے کے لیے ٹھوس اور انقلابی اقدامات اٹھانا ہوں گے۔ جن کے نتیجے میں عوام کو قیمتوں میں اضافے کی اذیت، افراط زر اور محرومیوں سے نجات ملے گی۔ محنت کش عوام کو سستے داموں اشیائے ضروریہ کی فراہمی کے لیے کوآپریٹو اسٹور قائم کیے جائیں، جن کا انتظام محنت کش عوام کی مقامی منتخب جمہوری کمیٹیوں کے سپرد کرنا ہو گا، جس سے مقامی سطح پر روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔
قیمتوں پر کنٹرول اور استحکام کے لیے محنت کش عوام کی منتخب جمہوری کمیٹیاں قائم کی جائیں جو اس بات کو یقینی بنائیں کہ تاجر اور کاروباری افراد ناجائز منافع خوری کے لیے قیمتوں میں اضافہ نہ کر سکیں۔ یہ کمیٹیاں مزدور تنظیموں کے نمایندوں پر مشتمل ہوں۔ اشیا کی تقسیم اور پرچون کی تمام سطحوں پر بدعنوانی اور منافع خوری کے خلاف سخت کنٹرول کو یقینی بنانا ہو گا۔ اشیا کی لین دین کے دوران تاجروں کے منافعوں کو بتدریج کم کرنا ہو گا۔ سماج کے سب سے محروم اور پسماندہ حصوں کے لیے خاص طور پہ بنیادی اشیائے ضرورت کی سستے داموں فراہمی کے لیے رعایت فراہم کرنی ہو گی۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں بے روزگاری کی شرح آٹھ فیصد ہے لیکن حقیقی صورتحال اس کے برعکس ہے۔ غیر سرکاری ماہرین معیشت کے مطابق یہ شرح پندرہ سے بیس فیصد ہے، جب کہ ملک کے پسماندہ اضلاع میں شرح تیس فیصد سے پچاس فیصد تک ہے۔ ملک میں بے روزگاروں کی ایک مستقل فوج موجود ہے، جن میں ہر سال بیس لاکھ نوجوانوں کا اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہے جہاں آبادی کا ستر فیصد نوجوانوں پر مشتمل ہے، جو اگلے چند سال میں محنت کی منڈی میں داخل ہوںِ گے، مگر ان کے پاس روزگار کے مواقع نہیں ہوں گے۔
سرمایہ دارانہ معیشت ان تمام نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ بے روزگاری کی موجودہ شرح پر قابو پانے کے لیے اور مستقبل میں روزگار کی فراہمی کے لیے جس قدر صنعتی ترقی درکار ہے، وہ سرمایہ داری نظام کے اندر ممکن نہیں۔ جس ملک میں صنعتیں بند ہو رہی ہوں اور نئے شروع ہونے والے ہر سو میں سے ستر کاروبار پہلے چھ ماہ میں بند ہو جاتے ہوں، اس نظام میں رہتے ہوئے بے روزگاری کا خاتمہ محض ایک دھوکا اور سراب ہے۔ بے روزگاری کا مکمل خاتمہ صرف اور صرف منصوبہ بند معیشت اور مزدور جمہوریت کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
منصوبہ بند معیشت وہ بنیادی مادی حالات اور وسائل فراہم کرے گی جن کی بنیاد پر وہ معاشی پالیسیاں اپنائی جائیں گی جو بے روزگاری کا خاتمہ کر سکیں گی۔ نئی صنعتوں کے قیام اور تیز رفتار معاشی ترقی کے ذریعے روزگار کے وافر مواقع پیدا کرنا ہوں گے تا کہ بے روزگاروں کی فوج کو روزگار فراہم کیا جا سکے۔ ریٹائرمنٹ کی عمر پچپن سال کی جانی ہو گی، بڑھاپے کی مراعات اور موزوں پنشن دینی پڑے گی۔ ریٹائرمنٹ کے بعد دوبارہ تعیناتی پر مکمل پابندی عاید کرنی ہو گی۔
بیس سال سے زائد عمر کے تمام بے روزگاروں کو بے روزگاری الاؤنس دینا ہو گا تا کہ روزگار کی فراہمی تک وہ بے روزگاری اور غربت کی لعنت سے بچے رہیں۔ زرعی شعبے کی ازسر نو تعمیر اور تنظیم اور جاگیرداری نظام کے مکمل خاتمے، زمینوں کی تقسیم اور رضاکارانہ بنیادوں پر اجتماعی کاشت کاری کے ذریعے روزگار کے لاکھوں نئے مواقع پیدا کرنے ہوں گے، بچوں کی مشقت کا مکمل خاتمہ اور جبری مشقت کی تمام شکلوں اور قسموں پر مکمل پابندی کے ذریعے روزگار کے نئے مواقعے پیدا کرنے ہوں گے۔ تعلیم اور تربیت کی مفت فراہمی کو یقینی بنانا ہو گا۔ ان اقدامات کے ذریعے ایک حد تک افراط زر اور بے روزگاری پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
افراط زر کی حقیقی شرح سرکاری اعداد و شمار سے کہیں زیادہ ہے۔ محنت کش عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں۔ بنیادی ضروریات زندگی اور خوراک آبادی کی اکثریت کی پہنچ سے دور ہو چکی ہیں۔ روز بروز بڑھتی مہنگائی نے محنت کش عوام کا جینا محال کر دیا ہے۔ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں مسلسل ہوشربا اضافہ جاری ہے۔
قیمتوں میں اضافے اور مہنگائی میں اضافے کی بنیادی وجوہات کچھ یوں ہیں۔ خسارے کو پورا کرنے کے لیے بالواسطہ ٹیکسوں کا مسلسل نفاذ ہو رہا ہے۔ یہ خسارہ قرضوں کی ادائیگی، فوجی اخراجات اور ریاستی شاہ خرچیوں کے باعث مسلسل بڑھ رہا ہے۔ ان بالواسطہ ٹیکسوں کے نفاذ کے اثرات ایندھن، توانائی اور دوسرے بنیادی شعبوں پر پڑ رہے ہیں، جس کے نتیجے میں اجناس اور ضروریات زندگی کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ کرنسی نوٹوں کی اشاعت میں غیر معمولی اضافہ کر کے بجٹ کے خسارے کو مصنوعی طور پر پورا کیا جا رہا ہے، جس سے مہنگائی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
تجارتی خسارے میں مسلسل اضافہ، درآمدات اور برآمدات کی حالیہ شرح کے باعث حاوی عالمی کرنسیوں کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی بھی افراط زر کا باعث بن رہی ہے۔ سابقہ قرضوں کی ادائیگی کے لیے نئی شرائط کے تحت قرضوں کے حصول اور عوام دشمن معاشی پالیسیوں نے ملکی معیشت کو اور بھی ہلکان کر دیا ہے۔ مروجہ نظام میں یہ بوجھ مزید بڑھ کر سماج اور معیشت کا خون نچوڑتا رہے گا۔ ملٹی نیشنل کمپنیاں اور ملکی سرمایہ دار اپنے منافعوں کی شرح میں اضافے کے لیے مصنوعی طور پر اپنی پیداوار کی قیمتوں میں اضافہ کرتے ہیں۔
پاکستانی ریاست ملکی اور غیر ملکی سرمایہ داروں کی من مانی کو روکنے میں ناکام ہو چکی ہے۔ جب عالمی منڈی میں قیمتیں بڑھتی ہیں تو فوراً اس کا بوجھ محنت کش عوام پر منتقل کر دیا جاتا ہے، جب کہ قیمتوں میں کمی پر یہ فائدہ عوام کو منتقل نہیں کیا جاتا۔ اس طرح منافعوں کے حصول کی سرمایہ دارانہ ہوس کے باعث آبادی کی اکثریت بنیادی ضروریات زندگی خریدنے کی سکت اور صلاحیت سے محروم ہو چکی ہے۔ اس صورتحال میں موجودہ سرمایہ دارانہ نظام کی حدود کے اندر قیمتوں میں کمی کے وعدے ایک سراب سے زیادہ کی حیثیت نہیں رکھتے اور محنت کش عوام کے ساتھ سراسر ایک دھو کا ہے۔
حکومتی اور ریاستی اخراجات میں کمی یا کٹوتی (قرضوں کی ادائیگی اور فوجی اخراجات سے قطع نظر) معیشت کو بحران سے نہیں نکال سکتی۔ قیمتوں میں اضافے کی ایک اور وجہ وسیع پیمانے پر ہونے والی بدعنوانی ہے۔ مقامی صنعت اور سرمایہ کار اتنے کمزور ہیں کہ اگر وہ بجلی اور توانائی کے بل اور ٹیکس ادا کریں تو خود کو نقصان ہو گا۔ بلوں اور ٹیکسوں کی چوری کے ذریعے ریاست کے ساتھ دھوکا دہی چھوڑ دیں اور مزدوروں کی تنخواہوں میں مناسب اضافہ کر دیں تو ان کا اپنا وجود خطرے میں پڑ جائے گا۔ اس چوری اور دھوکا دہی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ انھیں عالمی اجارہ داریوں کی معاشی، تکنیکی اور مالیاتی برتری کا سامنا ہے۔
اسی صورتحال میں وہ اپنے منافعوں کی بلند شرح کو برقرار رکھنے کے لیے بدعنوانی اور چوری کا سہارا لیتے ہیں، جس سے مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے۔ عالمی سامراجی مالیاتی اداروں آئی ایم ایف، عالمی بینک اور سامراجی حکومتوں کے دباؤ کی وجہ سے کمزور پاکستانی ریاست عالمی کمپنیوں کو قیمتوں میں بے جا اضافہ کرنے سے روکنے میں قاصر ہے۔ موجودہ سرمایہ دارانہ نظام کے اندر رہتے ہوئے اور مذکورہ معاشی کیفیات کی موجودگی میں قیمتوں میں کمی اور اشیائے ضرورت کی محنت کش عوام کو سستے داموں فراہمی ممکن نہیں۔
معیشت کی خرابی کو دور کرنے اور تباہی سے روکنے کے لیے ٹھوس اور انقلابی اقدامات اٹھانا ہوں گے۔ جن کے نتیجے میں عوام کو قیمتوں میں اضافے کی اذیت، افراط زر اور محرومیوں سے نجات ملے گی۔ محنت کش عوام کو سستے داموں اشیائے ضروریہ کی فراہمی کے لیے کوآپریٹو اسٹور قائم کیے جائیں، جن کا انتظام محنت کش عوام کی مقامی منتخب جمہوری کمیٹیوں کے سپرد کرنا ہو گا، جس سے مقامی سطح پر روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔
قیمتوں پر کنٹرول اور استحکام کے لیے محنت کش عوام کی منتخب جمہوری کمیٹیاں قائم کی جائیں جو اس بات کو یقینی بنائیں کہ تاجر اور کاروباری افراد ناجائز منافع خوری کے لیے قیمتوں میں اضافہ نہ کر سکیں۔ یہ کمیٹیاں مزدور تنظیموں کے نمایندوں پر مشتمل ہوں۔ اشیا کی تقسیم اور پرچون کی تمام سطحوں پر بدعنوانی اور منافع خوری کے خلاف سخت کنٹرول کو یقینی بنانا ہو گا۔ اشیا کی لین دین کے دوران تاجروں کے منافعوں کو بتدریج کم کرنا ہو گا۔ سماج کے سب سے محروم اور پسماندہ حصوں کے لیے خاص طور پہ بنیادی اشیائے ضرورت کی سستے داموں فراہمی کے لیے رعایت فراہم کرنی ہو گی۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں بے روزگاری کی شرح آٹھ فیصد ہے لیکن حقیقی صورتحال اس کے برعکس ہے۔ غیر سرکاری ماہرین معیشت کے مطابق یہ شرح پندرہ سے بیس فیصد ہے، جب کہ ملک کے پسماندہ اضلاع میں شرح تیس فیصد سے پچاس فیصد تک ہے۔ ملک میں بے روزگاروں کی ایک مستقل فوج موجود ہے، جن میں ہر سال بیس لاکھ نوجوانوں کا اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہے جہاں آبادی کا ستر فیصد نوجوانوں پر مشتمل ہے، جو اگلے چند سال میں محنت کی منڈی میں داخل ہوںِ گے، مگر ان کے پاس روزگار کے مواقع نہیں ہوں گے۔
سرمایہ دارانہ معیشت ان تمام نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ بے روزگاری کی موجودہ شرح پر قابو پانے کے لیے اور مستقبل میں روزگار کی فراہمی کے لیے جس قدر صنعتی ترقی درکار ہے، وہ سرمایہ داری نظام کے اندر ممکن نہیں۔ جس ملک میں صنعتیں بند ہو رہی ہوں اور نئے شروع ہونے والے ہر سو میں سے ستر کاروبار پہلے چھ ماہ میں بند ہو جاتے ہوں، اس نظام میں رہتے ہوئے بے روزگاری کا خاتمہ محض ایک دھوکا اور سراب ہے۔ بے روزگاری کا مکمل خاتمہ صرف اور صرف منصوبہ بند معیشت اور مزدور جمہوریت کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
منصوبہ بند معیشت وہ بنیادی مادی حالات اور وسائل فراہم کرے گی جن کی بنیاد پر وہ معاشی پالیسیاں اپنائی جائیں گی جو بے روزگاری کا خاتمہ کر سکیں گی۔ نئی صنعتوں کے قیام اور تیز رفتار معاشی ترقی کے ذریعے روزگار کے وافر مواقع پیدا کرنا ہوں گے تا کہ بے روزگاروں کی فوج کو روزگار فراہم کیا جا سکے۔ ریٹائرمنٹ کی عمر پچپن سال کی جانی ہو گی، بڑھاپے کی مراعات اور موزوں پنشن دینی پڑے گی۔ ریٹائرمنٹ کے بعد دوبارہ تعیناتی پر مکمل پابندی عاید کرنی ہو گی۔
بیس سال سے زائد عمر کے تمام بے روزگاروں کو بے روزگاری الاؤنس دینا ہو گا تا کہ روزگار کی فراہمی تک وہ بے روزگاری اور غربت کی لعنت سے بچے رہیں۔ زرعی شعبے کی ازسر نو تعمیر اور تنظیم اور جاگیرداری نظام کے مکمل خاتمے، زمینوں کی تقسیم اور رضاکارانہ بنیادوں پر اجتماعی کاشت کاری کے ذریعے روزگار کے لاکھوں نئے مواقع پیدا کرنے ہوں گے، بچوں کی مشقت کا مکمل خاتمہ اور جبری مشقت کی تمام شکلوں اور قسموں پر مکمل پابندی کے ذریعے روزگار کے نئے مواقعے پیدا کرنے ہوں گے۔ تعلیم اور تربیت کی مفت فراہمی کو یقینی بنانا ہو گا۔ ان اقدامات کے ذریعے ایک حد تک افراط زر اور بے روزگاری پر قابو پایا جا سکتا ہے۔