میموری بٹ سے ’چھیڑ چھاڑ‘ میں کام یابی

کمپیوٹر کی مختلف شکلوں میں توانائی یعنی بجلی کا استعمال کم سے کم کرنے کے لیے سائنس دانوں کی کوششیں جاری ہیں۔

کمپیوٹر کی مختلف شکلوں میں توانائی یعنی بجلی کا استعمال کم سے کم کرنے کے لیے سائنس دانوں کی کوششیں جاری ہیں۔ فوٹو: فائل

DI KHAN:
کمپیوٹر کی مختلف شکلوں میں توانائی یعنی بجلی کا استعمال کم سے کم کرنے کے لیے سائنس دانوں کی کوششیں جاری ہیں۔ ذرا تصور کیجیے، ایک تجارتی ادارہ اگر کمپیوٹرز پر خرچ ہونے والی بجلی کی مد میں ماہانہ دس لاکھ روپے ادا کررہا ہو اور اگلے ہی ماہ بجلی کئی گنا گھٹ جائے تو یہ اس کے لیے کتنا نفع بخش ہوگا۔

اب ذرا تصور کیجیے اگر کمپیوٹر برائے نام بجلی سے چلنے لگیں تو دنیا بھر میں توانائی کی کتنی بچت ہوگی۔ اگر یہ تصور حقیقت میں ڈھل جائے تو کرۂ ارض سے توانائی کا بحران ختم ہوجائے گا، کیوں کہ کمپیوٹر، ڈیٹاسینٹرز، اسمارٹ فونز اور اسی نوع کے دوسرے کمپیوٹنگ آلات بھاری مقدار میں توانائی خرچ کرتے ہیں۔

پہلی بار محققین عملی مظاہرے کے ذریعے ثابت کرنے میں کام یاب ہوئے ہیں کہ ایک ایسی چِپ کی تخلیق ممکن ہے جو طبیعیات کے قوانین کے مطابق برائے نام توانائی پر کام کرسکے۔ برکلے میں قائم کیلیفورنیا یونیورسٹی کے انجنیئرز نے تجربات سے ثابت کیا ہے کہ مقناطیسی چپس حرحرکیات (تھرموڈائنامکس) کے اصولوں کے تحت کم ترین توانائی پر کام کرسکتی ہیں۔ ماہرین نے یہ تجربہ 'مقناطیسی کمپیوٹنگ' کا استعمال کرتے ہوئے کیا۔ مقناطیسی کمپیوٹنگ، کمپیوٹنگ کی نئی قسم ہے جس میں روایتی ٹرانسسٹرز کے بجائے مقناطیسی سلاخیں استعمال کی جاتی ہیں، جو 0 اور 1کے درمیان ' سفر' کرنے کے لیے الیکٹرانز کی حرکت پر انحصار کرتی ہیں۔

روایتی کمپیوٹنگ میں دونوں سطحوں ( 0 اور 1 ) کے درمیان ' سفر' کرنے کے لیے زیادہ مقدار میں توانائی درکار ہوتی ہے۔ تاہم مقناطیسی کمپیوٹنگ میں مقناطیسی بِٹس کے درمیان ان کی سمت کے ذریعے فرق کیا جاسکتا ہے اور اس کے لیے برائے نام توانائی کی ضرورت ہوتی ہے۔

برکلے یونیورسٹی میں الیکٹریکل انجنیئرنگ اور کمپیوٹر سائنسز کے پروفیسر جیفری بوکر کہتے ہیں، کمپیوٹر ڈیزائن کرتے ہوئے جو سب سے بڑا چیلنج درپیش ہوتا ہے وہ ان میں توانائی کی کھپت کو کم سے کم رکھنا ہے۔ کئی عشروں سے ماہرین کی توجہ پروسیسر کی رفتار بڑھانے کے لیے چپس پر زیادہ سے زیادہ ٹرانسسٹر نصب کرنے پر رہی ہے۔ تھوڑے عرصے سے یہ رجحان تبدیل ہوا ہے اور اب سائنس داں توانائی کی بچت پر توجہ دے رہے ہیں۔


اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے پروفیسر جیفری کا کہنا تھا کہ ٹرانسسٹرز کو تیز رفتار بنانے کے لیے بھی توانائی کی بہت زیادہ مقدار درکار تھی۔ زیادہ مقدار میں توانائی یعنی بجلی فراہم کرنے پر چپس گرم ہوکر پگھل جاتی تھیں۔ چناں چہ سائنس داں اور انجنیئرز پروسیسر کی رفتار میں مزید اضافے کی کوششیں ترک کرکے اس (پروسیسر) میں بجلی کی کھپت کو کم سے کم سطح پر لانے کی سعی کرنے پر مجبور ہوگئے۔

پروفیسر جیفری اور ان کے ساتھیوں پر مشتمل ٹیم نے مقناطیسی بٹس پر تجربات کرتے ہوئے اس قانون کی توثیق کی جو Landauer limit کہلاتا ہے۔ یہ قانون 1961ء میں آئی بی ایم سے وابستہ رولف لینڈوئر نے وضع کیا تھا۔ اس قانون کے مطابق ہر بِٹ کام کرنے کے لیے کم از کم مطلق توانائی خرچ کرتی ہے۔ یہ دریافت حرحرکیات کے دوسرے قانون پر مبنی ہے جو کہتا ہے کہ جب کوئی طبعی نظام اپنی ہیئت تبدیل کرتا ہے، یعنی بلند ارتکاز سے کم ارتکاز کی طرف آتا ہے تو یہ غیرمنظم ہوتا چلا جاتا ہے۔ یہ بے ترتیبی انقطاع توانائی ( انٹروپی) کہلاتی ہے۔

لینڈوئر کے فارمولے کی مدد سے کمپیوٹر آپریشن کے لیے درکار کم سے کم توانائی کی مقدار کا تخمینہ لگایا جاتا ہے۔ توانائی کی مقدار کا انحصار کمپیوٹر کے درجۂ حرارت پر ہوتا ہے۔ کمرے کے درجۂ حرارت پر درکار حرات تقریباً تین زیپٹو جول ہوتی ہے۔ یہ مقدار توانائی کی اس مقدار کے سوویں حصے کے مساوی ہوتی ہے جو ایک ایٹم سے روشنی کے ایک فوٹان کے اخراج پر خارج ہوتی ہے۔

سائنس دانوں نے ایک مقناطیسی بٹ کو حرکت میں لانے کے لیے درکار توانائی کی مقدار کی پیمائش کے لے لیزر پر مشتمل ایک خاص تیکنیک استعمال کی۔ اس سے انھیں پتا چلا کہ کمرے کے درجۂ حرارت پر مقناطیسی بٹ کو حرکت میں لانے کے لیے 15 ملی الیکٹران وولٹ توانائی صرف ہوئی۔ یہ مقدار تین زیپٹو جول کے مساوی ہے۔

یہ پہلا موقع تھا جب میموری بٹ کے ساتھ کام یاب 'چھیڑ چھاڑ' کی گئی ہو۔ قبل ازیں 2011ء میں انہی سائنس دانوں نے ایک تحقیق کے بعد کہا تھا کہ نظری طور پر میموری بٹ کو 'چھیڑا' جاسکتا ہے، عملی طور پر ایسا کرنا ممکن نہیں۔ تاہم اب وہی ماہرین اپنی سابق تحقیق کی نفی کرتے ہوئے مقناطیسی کمپیوٹنگ کی جانب پیش رفت کرنے میں کام یاب ہوگئے ہیں۔

محققین کے مطابق ان کی تحقیق کو عملی رُوپ اختیار کرنے میں خاصا عرصہ لگ سکتا ہے، مگر مقناطیسی کمپیوٹنگ عام ہوجانے کے بعد کمپیوٹرز برائے نام توانائی استعمال کریں گے اور یہ تبدیلی انقلابی ہوگی۔
Load Next Story