نوازشریف نے مشرف کو باہر بھیج کر احسان کا بدلہ احسان سے چکایا افتخار چوہدری

پرویز مشرف کو باہر بھیجنا حکومت کی صریحاً غلطی ہے اور یہ آئین کے خلاف ہے، سابق چیف جسٹس

پرویز مشرف کو باہر بھیجنا حکومت کی صریحاً غلطی ہے اور یہ آئین کے خلاف ہے، سابق چیف جسٹس، فوٹو؛ فائل

سابق چیف جسٹس پاکستان افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے کہ حکومت نے پرویز مشرف کے احسان کا بدلہ احسان سے چکایا اور انہیں باہر بھیج کر صریحاً آئین کی خلاف ورزی کی جس پر ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔

ایکسپریس نیوز کے پروگرام ''جی فار غریدہ'' میں میزبان غریدہ فاروقی کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے سابق چیف جسٹس پاکستان جسٹس (ر) افتخار محمد چوہدری نے کہا کہ عدالت نے حکم دیا کہ مشرف کو باہر نہ جانے دیا جائے جس کےبعد ان کا نام ای سی ایل میں ڈالا گیا جب کہ مشرف کو ٹرائل کے دوران بہت مواقع دیئے گئے۔ انہوں نےکہا کہ کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ مشرف کو عدالت نے باہر بھیجا، حکومت نے انہیں اپنی مرضی سے باہر جانے کی اجازت دی، نوازشریف اور ان کی وزارت داخلہ پرویز مشرف کو باہر بھیجا ہے، جب مشرف کی ای سی ایل سے نام باہر نکالنے کی درخواست حکومت کے پاس آئی تو حکومت کو دیکھنا چاہیے تھا کہ پرویز مشرف کو 31 مارچ کو خصوصی عدالت میں پیش ہونا ہے اس لیے اس کورٹ سے اجازت لینا ضروری تھی۔

افتخار چوہدری نے کہا کہ پرویز مشرف کو باہر بھیجا حکومت کی صریحاً غلطی ہے، حکومت نے آئین کے خلاف کام کیا ہے اور مشرف نے انہیں باہر بھیج کر آئین کی خلاف ورزی کی ہے ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے، کوئی بھی شخص آرٹیکل 6 کے مقدمے میں نامزد ہو تو وہ باہر نہیں جاسکتا۔ انوہں نے کہا کہ نوازشریف کو ایسی کیا جلدی تھی، یہ خود بھی این آر او کرکے باہر گئے اور مشرف کو بھی این آر او کے تحت بھیجا گیا، مشرف کے معاملے پر حکومت کے پاس کوئی آپشن نہیں تھا، مشرف نے نوازشریف پر احسان کیا تو وہ سعودی عرب گئے اور اب حکومت نے بھی احسان کا بدلہ احسان سے چکایا ہے۔


سابق چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اب کس کے پاس گارنٹی ہے کہ پرویز مشرف واپس آئیں گے، میں چیف جسٹس ہوتا تو مشرف کو جانے نہیں دیتا، میں بھی وہی آرڈر جاری کرتا جو موجودہ بینچ نے کیا کیونکہ اس آرڈر میں عدالت نے مشرف کو باہر جانے کی اجازت نہیں دی۔ انہوں نے کہا کہ پرویز مشرف کے بیرون ملک جانے کے پیچھے کوئی خفیہ طاقت نہیں کیونکہ اس معاملے پر کوئی ثبوت موجود نہیں اس لیے کوئی رائے بھی نہیں دی جاسکتی۔ ان کا کہنا تھا کہ مشرف کے ساتھ میری کوئی ذاتی بات نہیں، جھگڑا صرف دو باتوں پر تھا، ایک طرف وہ لوگ تھے جو آئین کی پاسداری چاہتے تھے اور ایک طرف وہ لوگ تھے جو آئین کی پاسداری نہیں چاہتے تھے لیکن ہمیں اللہ نے توفیق دی اور ہم نے آئین کی پاسداری کے لیے کام کیا۔

افتخار چوہدری نے کہا کہ ہم نے اپنے آئین و قانون کو مضبوط نہیں کیا اس لیے اب وزیراعظم کو فیصلہ کرنا پڑے گا کہ وہ مشرف کے معاملے پر کتنے سر کچلیں گے جب کہ اگر مشرف خود سے واپس نہ آئے تو قانون میں بہت گنجائش ہے، مشرف کو قانون کے تحت واپس آنا پڑے گا کیونکہ قانون سے کوئی بڑا نہیں اور جنہوں نے مشرف کو باہر بھجوایا ان پر بھی انہیں واپس لانے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے ملک میں جدوجہد کے بعد آئین کی پاسداری بحال کرائی اور اسی وجہ سے آج ملک میں جمہوریت موجود ہے، اگر میں جمہوری حکومت کا سربراہ ہوتا تو آئین و قانون کی پاسداری کرتا اور کسی کے ساتھ کوئی رعایت نہیں برتتا۔

ایک سوال کے جواب میں سابق چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ملک میں آرٹیکل 6 کی ضرورت ہے کیونکہ جب تک ہمارا جمہوری پودا تناور درخت نہیں بنتا اس آرٹیکل کی ضرورت رہے گی۔ انہوں نے کہا کہ عدالتی حکم کے باوجود حکومت نے جو کچھ کیا اس سے نہیں لگتا کہ ملک میں آئین کی قانون کی پاسداری ہے بلکہ یہ آئین و قانون کی خلاف ورزی کی گئی ہے، ایسا نہیں ہوتا کہ ایک آرڈر کو سامنے لاکر راتوں رات کسی کو باہر بھیج دیا جائے۔ افتخار چوہدری کا کہنا تھا کہ ملک میں سب سے بڑا مسئلہ کرپشن ہے اگر بے رحمانہ احتساب کیا جائے تو ملک 5 سال میں تبدیل ہوجائے گا۔

افتخار چوہدری نے کہا کہ اپنے دور میں کوشش کی کہ ہر غریب اور چھابڑی والے کی دہلیز تک بھی انصاف پہنچے، آئین کے تحت سختی سے از خود نوٹس لیے جس کے باعث بہت سے کام بھی ہوئے۔
Load Next Story