وقت کی دستک
ڈاکٹر نزہت عباسی کی مقطع پر مضبوط گرفت ان کی قادر الکلامی کو سامنے لاتی ہے۔
شہپرِ فکر کھول کر نزہت
کرلی پرواز کی جسارت، بس
ڈاکٹر نزہت عباسی کا مسئلہ یہ ہے کہ انہوں نے، اردو کے افسانوی ادب میں نسائی لب و لہجہ کے عنوان سے اپنا تحقیقی اور تنقیدی مقالہ کتابی شکل میں پہلے پیش کر دیا اور اپنے نئے شعری مجموعہ ''وقت کی دستک'' میں شہپرِ فکر کو نسائیت سے آزاد کرتے ہوئے خود کوآزاد اور خود مختار شاعر کے طور پر پیش کیا۔
لیکن ان کا نقاد ان کی بات نہیں مانتا ہے وہ انہیں شہپرِ فکر کھولنے کی اجازت دینے پر تیار نہیں ہے۔ وہ ان کی شاعری کو نسائیت میں ہی مقید رکھنا چاہتا ہے۔ پدر سری اس معاشرے میں ان کی اپنی تشخیص نے ان پر نسائی لب ولہجہ منطبق کرا دیا ہے۔وقت کی دستک کا مطالعہ کرتے ہوئے ابتدائی 64 صفحات میں بڑے بڑے ناموں نے ڈاکٹر نزہت عباسی کی شاعری کے بارے میں یہی تاثر پیش کیا ہے۔
ڈاکٹر نزہت عباسی روایتی شاعرہ ہیں یا جدید؟ ڈاکٹر نزہت عباسی نسائی لہجے کی شاعرہ ہیں یا نہیں؟ اس کا فیصلہ ان میزان برداروں پر چھوڑتا ہوں جو بزعمِ خویش بال کی کھال اتار کر تنقید کا حق ادا کرتے ہیں۔میں تو ڈاکٹر نزہت عباسی کے فن اور فنی معیار کو ایک نئے انداز میں پرکھنا چاہتا ہوں۔ اردو غزل کے مطالعے نے مجھے ایک نیا اور عجیب سا احساس عطا کیا ہے، میں محسوس کرتا ہوں کہ غزل کا مقطع باقی اشعار میں ممتاز اور معتبر ہوتا ہے، میں تو اس حد تک سوچتا ہوں کہ ایک شاعر نے اپنی غزلوں میں جو مضامین زیادہ علمی یقین، فنی رچاؤ اور تخلیقی حسن سے پھیلائے ہوتے ہیں، وہ سمٹ کر بہت حد تک اس کی غزلوں کے مقطعوں میں سما جاتے ہیں۔ یوں مقطعہ فن کار کی ساری غزلوں کی صدائے بازگشت بن کر لطیف فضاؤں میں پھیل جاتا ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ غزل کا مقطع جاندار ہوتا ہے یا اسے جاندار ہونا چاہیئے، میں مقطع کی قوت سے غزل کی قوت کا ادراک کرتا ہوں۔ مقطع پر میرے اس قدر اعتماد اور اعتبار یا مقطع سے اس درجہ توقعات کا میرے پاس پورا جواز موجود ہے۔
پہلی بات یہ کہ مقطع آخری شعر ہوتا ہے مطلع سے مقطع تک کے تخلیقی عمل میں فکر و فن کی تدریج اور تصعید ہوتی رہتی ہے۔ چند شعر کہنے کے بعد شاعر جو کچھ آخر میں کہتا ہے، اس میں زیادہ فنی پختگی اور نسبتاََ زیادہ تخلیقی رچاؤ ہونا چاہیئے اور اکثر با صلاحیت قلم کاروں کے ہاں ایسا ہی ہوتا ہے۔
دوسری بات جب بھی شاعر کا مقطع ہڑھا جائے گا اس کی فنی شخصیت بھی شعر پڑھنے اور سننے والوں کے سامنے رہے گی۔ یہی وجہ ہے کہ باخبر شاعروں نے ہمیشہ مقطع کو ارادی طور پر حسین اور مکمل بنانے کی کوشش کی ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ ایسے شاعروں کے مقطع ان کے دیگر شعروں کی نسبت زیادہ معروف اور زبان زدِ عام ہوئے۔
عہدِ حاضر کے دو اہم شاعروں کہ زبان زدِ عام مقطعے ملاحظہ فرمائیے،
ایک مدت سے میری ماں سوئی نہیں تابش
میں نے ایک بار کہا تھا مجھے ڈر لگتا ہے
اب خالد احمد کا مقطع دیکھئیے،
خالد احمد تیری نسبت سے ہے خالد احمد
تو نے پاتال کی قسمت میں بھی رفعت لکھی
میں نے اسی تناظر میں ڈاکٹر نزہت عباسی کے مجموعہ ''وقت کی دستک'' سے ایک مقطع لے کر تبصرہ کا آغاز کیا ہے۔ شاعر کو خوبصورت مقطع تخلیق کرنے کا فائدہ براہِ راست پہنچتا ہے کہ لوگوں کو دوسروں سے پوچھنا نہیں پڑتا کہ یہ حسین اور مکمل شعر کس کا ہے؟ مقطع اور اچھا مقطع شاعر کی تخلیقی توانائیوں کا منہ بولتا ثبوت ہوتا ہے۔ اسی بنا پر میں سمجھتا ہوں کہ غزل کا ہر شعر صرف شعر ہوتا ہے لیکن مقطع شعر تر ہوتا ہے۔ غزل اگر گیان دھیان ہے تو مقطع نروان ہے۔ اسی اہمیت کی بنا پر میں نے وقت کی دستک کی غزلوں کو ان کے مقطوں کے روپ سے پہچانا ہے، میں نے ڈاکٹر نزہت عباسی کی غزلوں کے دھنک رنگ مقطوں کی سفید روشنی میں تلاش کئے ہیں۔ نزہت عباسی نے اپنی ساری غزلوں میں جو کچھ کہا اور جس طرح کہا، مجھے مقطوں میں مجسم نظر آتا ہے۔
غزل کے قد آور شاعروں نے مقطعوں سے جو جو کام لئے ہیں، ڈاکٹر نزہت عباسی کے مقطعوں میں ان کی انفرادیت اور ان کا تشخص قائم ہے۔ ان کے مقطعوں میں ان کی ذات بھی ہے، تخلیقی نظریات بھی، زندگی کے تصورات بھی، ان کےعقائد بھی اور ان کی خواہشات بھی۔ میں نے ان مقطعوں کا مطالعہ نزہت عباسی کی ساری شاعری کی کلید بنا کر کیا ہے۔
اردو ادب میں شاعروں نے مقطع کو اپنے شعری رویے اور فنی عقیدے کے اظہار کا وسیلہ بنایا ہے۔
داغ ہی کے دم سے تھا لطفِ سخن
خوش بیانی کا مزا جاتا رہا
آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں
غالب صرر خامہ نوائے سروش ہے
درد تو کرتا ہے معنی کے تئیں صورت پذیر
دسترس رکھتے تھے کب بہزاد و مانی اس قدر
نزول ہوتا ہے دل پہ روشنی کا عدم
کہ آسمان سے جیسے کتاب اترتی ہے
ڈاکٹر نزہت عباسی کے مقطعوں میں شعر و شاعری کے معیار اور فنِ لطیف کے مقصد کا ذکر تو آتا ہے، لیکن شاعرانہ تعلی والی بات نظر نہیں آتی۔ ڈاکٹر نزہت عباسی نے اپنے فنی مرتبے یا شعری عقیدے کی آتش بازی سے فضا کو گلنار کرنے کی بجائے شعر کی قندیل میں مقصدیت کی مدہم مدہم کرنوں کو تخلیقی فضا میں اچھالا ہے۔
جو آنکھوں میں رہیں نزہت،وہی تو خواب ہیں اچھے
جنہیں تعبیر مل جائے وہ سپنے مار دیتے ہیں
سلجھاتے سلجھاتے نزہت جیون سارا بیت گیا ،بس
ایسا الجھا ایک سرا، سلجھا بھی تو الجھا سب
عہدِ نو کی نزہت ہم بنیاد رکھیں
فکرِ نو اب شامل ہو فن پاروں میں
یہ تغیر نہیں تعمیر کا باعث نزہت
مجھ کو،اغیار کی تخریب بئی لگتی ہے
ہم نے خود کو بھلا دیا نزہت
اک اسے بھولنے کی کوشش میں
شاعر کا مشاہدہ عام لوگوں کی نسبت زیادہ گہرائی لئے ہوئے ہوتا ہے وہ زندگی کو دور بینی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ وہ اپنے مشاہدے اور تجربے کا نچوڑ دوسروں پر ظاہر کرنا چاہتا ہے۔
غالب برا نہ مان جو واعظ برا کہے
ایسا بھی کوئی ہے کہ سب اچھا کہیں جسے
ڈاکٹر نزہت عباسی ان قلمکاروں میں سے ہیں جن کی شاعری محض تخیل کے خلا میں نہیں پلتی، جن کی سوچ آسمانی نہیں بلکہ زمینی مقصد سے پیوند قبول کرتی ہے۔نزہت عباسی نے ادبی سطح اور تخلیقی معیار قائم رکھنے کی کوشش کی ہے جو ان کی شاعری میں جا بجا نظر آتی ہے۔
ہیں ریزہ ریزہ سارے عکس نزہت
شکستہ آئنوں میں جی رہے ہیں
بلا کا دل میں ہے طوفان نزہت
سو دل کے بادباں کو کھولتی ہوں
سمائیں جن میں سبھی راز کن فکاں نزہت
زمینِ شعر کی ان وسعتوں کی بات کرو
ڈاکٹر نزہت عباسی کی مقطع پر مضبوط گرفت ان کی قادر الکلامی کو سامنے لاتی ہے تو دوسری جانب وقت کی دستک واقعی وقت کی دستک ہے جو ماضی حال اور مستقبل کا بھرپور احاطہ کئے ہوئے ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھblog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔