پارلیمنٹ کو سلام
دہشت نگار اور سیاہ کار اکٹھے ہو کر پارلیمانی نظام پر حملہ آور ہوئے مگر پارلیمنٹ پکا مورچہ مستحکم ثابت ہوا۔
میرا ارادہ آج ڈینگی کے خلاف میاں شہباز شریف کی کامیابی کے بارے لکھنے کا تھا مگر بیچ میں پارلیمنٹ کو سلام پیش کر دیا گیا ہے تو راہوار قلم قابو میں نہیں رہا، ڈینگی والا مسئلہ پھر سہی! مگر ضروری ہے۔
یہ سلام بھی ایک نرالی کہانی ہے، ساڑھے چار سال تک پارلیمنٹ نے جوں توں گزار لیے، کیا یہ لوہے کا چنا ثابت ہوئی، نہیں، اس نے اپنے کردار سے اپنا لوہا منوایا، اس کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے۔ یہ پارلیمنٹ ہی تھی جس میں صدر زرداری نے پہلے خطاب میں اسے یاد دلایا کہ وہ آئین کی روح کو بحال کرے، اس کا کیا مطلب تھا کہ مجھ سے اختیار چھین لو، میں پارلیمنٹ کے سامنے اپنے غیر آئینی اختیارات سرنڈر کرتا ہوں، اگلے سال پھر صدر نے اپنا سابقہ ایجنڈہ یاد دلایا۔ پھر ایک معجزہ ہوا، ن لیگ جو پی پی پی کے ساتھ چلنے کو تیار نہ تھی، اس نے بھی اٹھارویں ترمیم پر انگوٹھا ثبت کیا اور پورے ایوان نے اس ترمیم کو کامل اتفاق رائے سے منظور کیا، بعد میں اور بھی ترمیمیں ہوئیں مگر اٹھارویں ترمیم ایک اہم سنگ میل تھی، پارلیمنٹ نے اپنا موڈ اور اپنی طاقت سب پر عیاں کر دی تھی، اس کے بعد بھی اگر کسی نے پارلیمنٹ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ جاری رکھی تو یہ اس کی بھول تھی، نہ ڈگری کیس، نہ دہری شہریت، نہ میمو گیٹ، نہ ٹینٹ آفس، کوئی کھیل بھی آگے نہ بڑھ سکا۔
پارلیمنٹ اپنی دھن میں مست رہی، اس نے وار پر وار سہا، اپنے سینے پر سہا، اس نے چوں تک نہ کی۔ نجومی طوطے فال نکالتے رہے، ہر دو تین ہفتے بعد کی تاریخیں دی گئیں کہ یہ سسٹم آج گیا کہ کل گیا۔ اس پارلیمنٹ کو غیر اسلامی قرار د ے کر سوات پر قبضہ جما لیا گیا، جاہلان اور باطلان کی یلغار کے سامنے بھی پارلیمنٹ پر کوئی کپکپی طاری نہ ہو سکی۔ دہشت نگار اور سیاہ کار اکٹھے ہو کر پارلیمانی نظام پر حملہ آور ہوئے مگر پارلیمنٹ پکا مورچہ مستحکم ثابت ہوا۔ امریکی اور نیٹو فورسز نے پارلیمنٹ پر پکی بنیادوں پر ہلہ بولا مگر یہ قلعہ ان سے بھی سر نہ ہو سکا، پارلیمنٹ نے متحد ہو کر آواز بلند کی، بار بار امریکی کھیل سے چھٹکارا پانے کے لیے قراردادیں منظور کیں۔ اور پھر پارلیمنٹ کو اس وقت پہلی فتح حاصل ہوئی جب ایک امریکی اڈے شمسی بیس کا خاتمہ کر دیا گیا، یہاں سے ڈرون پرواز کرتے تھے اور ہمارے ہی بے گناہ لوگوں کو مارتے تھے، کئی ماہ تک نیٹو کی سپلائی بند کرانے کا سہرا بھی پارلیمنٹ کے سر ہے۔
اسی پارلیمنٹ نے اپنی فوج کو وہ طاقت فراہم کی جس کی مدد سے سوات میں آپریشن کو چند ماہ کے اندر پایہ تکمیل تک پہنچا دیا گیا، دنیا کی تاریخ میں بے گھر ہونے والوں کی اتنی قلیل مدت میں واپسی نہیں ہوئی، جتنی جلدی سوات اور مالاکنڈ کے مہاجرین اپنے گھروں کو لوٹے۔ اور جب ایبٹ آباد کا سانحہ ہوا، پاکستان کے اقتدار اعلیٰ کو روندا گیا تو پارلیمنٹ کی چیخیں نکل گئیں، اس کی فریاد نے دلوں کو دہلا دیا اور قوم ایک نعرے پر اکٹھی ہو گئی کہ امریکا کو پاکستان کے اندر جارحیت کی اجازت نہیں دی جا سکتی، سلالہ چیک پوسٹ پر امریکی فوج نے پاکستان کے جوانوں کا خون کیا تو پارلیمنٹ کی سوگواری دیکھنے کے لائق تھی۔ یہ پارلیمنٹ جیسی بھی تھی، اس نے قومی امنگوں کا ساتھ دیا، قوم کی آواز کو بلند کیا۔
یہ پہلی پارلیمنٹ ہے جس نے کسی فوجی آمر کے غیر آئینی اقدامات کو تحفظ نہیں دیا، ورنہ اب تک ہر پارلیمنٹ اس نیکی میں پیش پیش رہی ہے۔ پاکستان کی پینسٹھ سالہ تاریخ میں پچھلی پارلیمنٹ نے اپنی آئینی ٹرم پوری کی اور فوجی آمر نے طعنہ دیا کہ صرف مارشل لا کی چھتری میں پارلیمنٹ اپنی ٹرم مکمل کر سکتی ہے، مگر آج اس پارلیمنٹ کو کوئی چھتری میسر نہیں، یہ کڑی دھوپ، شدید ژالہ باری اور بائولے طوفانوں کے سامنے بھی قدم جمائے کھڑی ہے۔ آج ایک ادارے کے سربراہ نے اسے سلام پیش کیا ہے، کل دوسرے ادارے بھی اسے سلامی دیں گے اور خوش دلی سے دیں گے۔ اس پارلیمنٹ کو جب قربانی کے لیے مجبور کیا گیا تو اس نے اڑی نہیں کی، اس نے اپنا وہ وزیر اعظم گھر بھیجنا منظور کر لیا جسے پورے ایوان نے اتفاق رائے سے منتخب کیا تھا، جو امن اور محبت کا سفیر بنا رہا، جس نے مفاہمت کا درس دیا۔ جس نے پارلیمنٹ کے وقار پر آنچ نہیں آنے دی۔ تاریخ اس پارلیمنٹ کی مثالیں پیش کیا کرے گی۔
قوموں کی زندگی میں ایسے مرحلے آتے ہیں جب ان کے ادارے بنتے اور بگڑتے ہیں اور پھر اس جنگ و جدل میں ان کے درمیان قابل عمل اور خوشگوار تعلقات کار تشکیل پاتے ہیں۔ پاکستان بھی اسی مرحلے سے گزر رہا ہے، کسی آمر کے ہوتے ہوئے کوئی ادارہ اکڑفوں نہیں دکھاتا مگر جونہی جمہوریت بحال ہوتی ہے تو اختیارات کی کشمکش کا آغاز ہو جاتا ہے، اس وقت پارلیمنٹ کا کمال یہ ہے کہ اس نے صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا ہے، کوئی محاذ آرائی مول نہیں لی، ہر ایک نے اس کی ناک مروڑنے کی کوشش کی، اس نے کوئی چوں تک نہ کی مگر اپنا وجود برقرار رکھا۔
یہ بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ آئی ایس آئی جیسے طاقت ور ادارے کا سربراہ اس کے سامنے وضاحتوں کے لیے پیش ہوا، اس نے پارلیمنٹ کو اپنا استعفیٰ بھی پیش کیا مگر پارلیمنٹ نے بڑے دل اور کمال حوصلے کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ استعفیٰ قبول نہیں کیا۔ شاید یہ پہلی پارلیمنٹ ہے جس کے وزیر نے جیل کی ہوا کھائی، جس کے ایک رکن کے اس وقت وارنٹ جاری کیے گئے جب وہ وزرات عظمیٰ کے اعلیٰ ترین منصب کے لیے کاغذات داخل کر رہے تھے، جس کے متعدد ارکان کو ڈگری کیس یا دہری شہریت پر فارغ کیا گیا اور تھوک کے حساب سے ضمنی الیکشن کرانے پڑے، پارلیمنٹ کے کسی موقعے پر پائوں نہیں اکھڑے۔ اس پارلیمنٹ کے ایک ایک رکن کو سلام پیش کیا جانا چاہیے کہ ہر ایک نے جمہوری اور پارلیمانی استحکام کے لیے اپنا کردار ادا کیا۔
اپوزیشن نے فرینڈلی ہونے کا طعنہ برداشت کیا مگر پارلیمنٹ پر حرف نہیں آنے دیا۔ ق لیگ اور پی پی پی نے برسوں پرانے جھگڑے فراموش کر دیے مگر پارلیمنٹ کا وجود برقرار رکھا۔ اس عمل میں ان دونوں پارٹیوں کو کس کے طعنے نہیں سننے پڑے۔ پارلیمنٹ کو جب سلام پیش کیا جا رہا ہے تو سلامی کے بائیس گولے فوج کے صبر و تحمل کے لیے بھی داغے جانے چاہیئں۔ موجودہ آرمی چیف نے ابتدا ہی میں کہہ دیا تھا کہ وہ جمہوریت کی حفاظت کریں گے اور پھر انھوں نے اپنے کہے پر عمل کر دکھایا۔ سنگین سے سنگین حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بھی انھوں نے پارلیمنٹ کی بساط نہیں لپیٹی۔ فوج کو رگیدنے میں بھی وہی عناصر پیش پیش ہیں جو پارلیمنٹ کا بستر بوریا گول کرنے کے لیے کوشاں رہے، ہمارا میڈیا نیا نیا آزاد ہوا ہے، اس کا جوش و جذبہ دیکھنے کے لائق ہے، آزادی اور ذمے داری کے درمیان تمیز ابھی اس نے سیکھنی ہے۔
اس نے چومکھی لڑائی لڑی اور اپنے تئیں کشتوں کے پشتے لگا دیے مگر اس کے مقابل جو بھی تھا، وہ سخت جاں نکلا، میڈیا اپنی تمام تر خواہش اور کوشش کے باوجود اپنے ارادوں کی تکمیل نہ کر سکا۔ وقت کے ساتھ اس کی آزادی بھی بڑھے گی مگر احساس ذمے دار ی بھی بڑھ جائے گا۔ جب عدلیہ کی طرف سے پارلیمنٹ کو سلام پیش کر دیا جائے تو پھر میڈیا کو اپنی تنہائی کاٹ کھانے کو دوڑے گی اور اسے اپنے فطری حلیفوں کی طرف ہاتھ بڑھانا پڑے گا۔
میں سوچتا ہوں کہ اگر کائرہ صاحب کے دو کالموں نے مسئلہ حل کرنا تھا تو وہ پہلے دن ہی قلم چلا لیتے، یہ چار سال تک تو تماشہ نہ لگا رہتا۔ میرا قلم بھی بصد عجز و نیاز عزت مآب پارلیمنٹ کے سامنے جھکا ہوا ہے۔ پارلیمنٹ اداروں کی ماں ہے، خدا کرے اس کے تقدس پر کبھی حرف نہ آئے اور یہ سدا پھلے پھولے، پارلیمنٹ کو سلام!!
یہ سلام بھی ایک نرالی کہانی ہے، ساڑھے چار سال تک پارلیمنٹ نے جوں توں گزار لیے، کیا یہ لوہے کا چنا ثابت ہوئی، نہیں، اس نے اپنے کردار سے اپنا لوہا منوایا، اس کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے۔ یہ پارلیمنٹ ہی تھی جس میں صدر زرداری نے پہلے خطاب میں اسے یاد دلایا کہ وہ آئین کی روح کو بحال کرے، اس کا کیا مطلب تھا کہ مجھ سے اختیار چھین لو، میں پارلیمنٹ کے سامنے اپنے غیر آئینی اختیارات سرنڈر کرتا ہوں، اگلے سال پھر صدر نے اپنا سابقہ ایجنڈہ یاد دلایا۔ پھر ایک معجزہ ہوا، ن لیگ جو پی پی پی کے ساتھ چلنے کو تیار نہ تھی، اس نے بھی اٹھارویں ترمیم پر انگوٹھا ثبت کیا اور پورے ایوان نے اس ترمیم کو کامل اتفاق رائے سے منظور کیا، بعد میں اور بھی ترمیمیں ہوئیں مگر اٹھارویں ترمیم ایک اہم سنگ میل تھی، پارلیمنٹ نے اپنا موڈ اور اپنی طاقت سب پر عیاں کر دی تھی، اس کے بعد بھی اگر کسی نے پارلیمنٹ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ جاری رکھی تو یہ اس کی بھول تھی، نہ ڈگری کیس، نہ دہری شہریت، نہ میمو گیٹ، نہ ٹینٹ آفس، کوئی کھیل بھی آگے نہ بڑھ سکا۔
پارلیمنٹ اپنی دھن میں مست رہی، اس نے وار پر وار سہا، اپنے سینے پر سہا، اس نے چوں تک نہ کی۔ نجومی طوطے فال نکالتے رہے، ہر دو تین ہفتے بعد کی تاریخیں دی گئیں کہ یہ سسٹم آج گیا کہ کل گیا۔ اس پارلیمنٹ کو غیر اسلامی قرار د ے کر سوات پر قبضہ جما لیا گیا، جاہلان اور باطلان کی یلغار کے سامنے بھی پارلیمنٹ پر کوئی کپکپی طاری نہ ہو سکی۔ دہشت نگار اور سیاہ کار اکٹھے ہو کر پارلیمانی نظام پر حملہ آور ہوئے مگر پارلیمنٹ پکا مورچہ مستحکم ثابت ہوا۔ امریکی اور نیٹو فورسز نے پارلیمنٹ پر پکی بنیادوں پر ہلہ بولا مگر یہ قلعہ ان سے بھی سر نہ ہو سکا، پارلیمنٹ نے متحد ہو کر آواز بلند کی، بار بار امریکی کھیل سے چھٹکارا پانے کے لیے قراردادیں منظور کیں۔ اور پھر پارلیمنٹ کو اس وقت پہلی فتح حاصل ہوئی جب ایک امریکی اڈے شمسی بیس کا خاتمہ کر دیا گیا، یہاں سے ڈرون پرواز کرتے تھے اور ہمارے ہی بے گناہ لوگوں کو مارتے تھے، کئی ماہ تک نیٹو کی سپلائی بند کرانے کا سہرا بھی پارلیمنٹ کے سر ہے۔
اسی پارلیمنٹ نے اپنی فوج کو وہ طاقت فراہم کی جس کی مدد سے سوات میں آپریشن کو چند ماہ کے اندر پایہ تکمیل تک پہنچا دیا گیا، دنیا کی تاریخ میں بے گھر ہونے والوں کی اتنی قلیل مدت میں واپسی نہیں ہوئی، جتنی جلدی سوات اور مالاکنڈ کے مہاجرین اپنے گھروں کو لوٹے۔ اور جب ایبٹ آباد کا سانحہ ہوا، پاکستان کے اقتدار اعلیٰ کو روندا گیا تو پارلیمنٹ کی چیخیں نکل گئیں، اس کی فریاد نے دلوں کو دہلا دیا اور قوم ایک نعرے پر اکٹھی ہو گئی کہ امریکا کو پاکستان کے اندر جارحیت کی اجازت نہیں دی جا سکتی، سلالہ چیک پوسٹ پر امریکی فوج نے پاکستان کے جوانوں کا خون کیا تو پارلیمنٹ کی سوگواری دیکھنے کے لائق تھی۔ یہ پارلیمنٹ جیسی بھی تھی، اس نے قومی امنگوں کا ساتھ دیا، قوم کی آواز کو بلند کیا۔
یہ پہلی پارلیمنٹ ہے جس نے کسی فوجی آمر کے غیر آئینی اقدامات کو تحفظ نہیں دیا، ورنہ اب تک ہر پارلیمنٹ اس نیکی میں پیش پیش رہی ہے۔ پاکستان کی پینسٹھ سالہ تاریخ میں پچھلی پارلیمنٹ نے اپنی آئینی ٹرم پوری کی اور فوجی آمر نے طعنہ دیا کہ صرف مارشل لا کی چھتری میں پارلیمنٹ اپنی ٹرم مکمل کر سکتی ہے، مگر آج اس پارلیمنٹ کو کوئی چھتری میسر نہیں، یہ کڑی دھوپ، شدید ژالہ باری اور بائولے طوفانوں کے سامنے بھی قدم جمائے کھڑی ہے۔ آج ایک ادارے کے سربراہ نے اسے سلام پیش کیا ہے، کل دوسرے ادارے بھی اسے سلامی دیں گے اور خوش دلی سے دیں گے۔ اس پارلیمنٹ کو جب قربانی کے لیے مجبور کیا گیا تو اس نے اڑی نہیں کی، اس نے اپنا وہ وزیر اعظم گھر بھیجنا منظور کر لیا جسے پورے ایوان نے اتفاق رائے سے منتخب کیا تھا، جو امن اور محبت کا سفیر بنا رہا، جس نے مفاہمت کا درس دیا۔ جس نے پارلیمنٹ کے وقار پر آنچ نہیں آنے دی۔ تاریخ اس پارلیمنٹ کی مثالیں پیش کیا کرے گی۔
قوموں کی زندگی میں ایسے مرحلے آتے ہیں جب ان کے ادارے بنتے اور بگڑتے ہیں اور پھر اس جنگ و جدل میں ان کے درمیان قابل عمل اور خوشگوار تعلقات کار تشکیل پاتے ہیں۔ پاکستان بھی اسی مرحلے سے گزر رہا ہے، کسی آمر کے ہوتے ہوئے کوئی ادارہ اکڑفوں نہیں دکھاتا مگر جونہی جمہوریت بحال ہوتی ہے تو اختیارات کی کشمکش کا آغاز ہو جاتا ہے، اس وقت پارلیمنٹ کا کمال یہ ہے کہ اس نے صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا ہے، کوئی محاذ آرائی مول نہیں لی، ہر ایک نے اس کی ناک مروڑنے کی کوشش کی، اس نے کوئی چوں تک نہ کی مگر اپنا وجود برقرار رکھا۔
یہ بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ آئی ایس آئی جیسے طاقت ور ادارے کا سربراہ اس کے سامنے وضاحتوں کے لیے پیش ہوا، اس نے پارلیمنٹ کو اپنا استعفیٰ بھی پیش کیا مگر پارلیمنٹ نے بڑے دل اور کمال حوصلے کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ استعفیٰ قبول نہیں کیا۔ شاید یہ پہلی پارلیمنٹ ہے جس کے وزیر نے جیل کی ہوا کھائی، جس کے ایک رکن کے اس وقت وارنٹ جاری کیے گئے جب وہ وزرات عظمیٰ کے اعلیٰ ترین منصب کے لیے کاغذات داخل کر رہے تھے، جس کے متعدد ارکان کو ڈگری کیس یا دہری شہریت پر فارغ کیا گیا اور تھوک کے حساب سے ضمنی الیکشن کرانے پڑے، پارلیمنٹ کے کسی موقعے پر پائوں نہیں اکھڑے۔ اس پارلیمنٹ کے ایک ایک رکن کو سلام پیش کیا جانا چاہیے کہ ہر ایک نے جمہوری اور پارلیمانی استحکام کے لیے اپنا کردار ادا کیا۔
اپوزیشن نے فرینڈلی ہونے کا طعنہ برداشت کیا مگر پارلیمنٹ پر حرف نہیں آنے دیا۔ ق لیگ اور پی پی پی نے برسوں پرانے جھگڑے فراموش کر دیے مگر پارلیمنٹ کا وجود برقرار رکھا۔ اس عمل میں ان دونوں پارٹیوں کو کس کے طعنے نہیں سننے پڑے۔ پارلیمنٹ کو جب سلام پیش کیا جا رہا ہے تو سلامی کے بائیس گولے فوج کے صبر و تحمل کے لیے بھی داغے جانے چاہیئں۔ موجودہ آرمی چیف نے ابتدا ہی میں کہہ دیا تھا کہ وہ جمہوریت کی حفاظت کریں گے اور پھر انھوں نے اپنے کہے پر عمل کر دکھایا۔ سنگین سے سنگین حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بھی انھوں نے پارلیمنٹ کی بساط نہیں لپیٹی۔ فوج کو رگیدنے میں بھی وہی عناصر پیش پیش ہیں جو پارلیمنٹ کا بستر بوریا گول کرنے کے لیے کوشاں رہے، ہمارا میڈیا نیا نیا آزاد ہوا ہے، اس کا جوش و جذبہ دیکھنے کے لائق ہے، آزادی اور ذمے داری کے درمیان تمیز ابھی اس نے سیکھنی ہے۔
اس نے چومکھی لڑائی لڑی اور اپنے تئیں کشتوں کے پشتے لگا دیے مگر اس کے مقابل جو بھی تھا، وہ سخت جاں نکلا، میڈیا اپنی تمام تر خواہش اور کوشش کے باوجود اپنے ارادوں کی تکمیل نہ کر سکا۔ وقت کے ساتھ اس کی آزادی بھی بڑھے گی مگر احساس ذمے دار ی بھی بڑھ جائے گا۔ جب عدلیہ کی طرف سے پارلیمنٹ کو سلام پیش کر دیا جائے تو پھر میڈیا کو اپنی تنہائی کاٹ کھانے کو دوڑے گی اور اسے اپنے فطری حلیفوں کی طرف ہاتھ بڑھانا پڑے گا۔
میں سوچتا ہوں کہ اگر کائرہ صاحب کے دو کالموں نے مسئلہ حل کرنا تھا تو وہ پہلے دن ہی قلم چلا لیتے، یہ چار سال تک تو تماشہ نہ لگا رہتا۔ میرا قلم بھی بصد عجز و نیاز عزت مآب پارلیمنٹ کے سامنے جھکا ہوا ہے۔ پارلیمنٹ اداروں کی ماں ہے، خدا کرے اس کے تقدس پر کبھی حرف نہ آئے اور یہ سدا پھلے پھولے، پارلیمنٹ کو سلام!!