ادارہ جاتی اختیار
پاکستان کی65 برس کی تاریخ جمہوری اداروں کی تشکیل، ترقی اور تنزلی کی ملی جلی تصویر پیش کرتی ہے۔
گزشتہ دنوں چیف جسٹس اور آرمی چیف کی مختلف مواقعے پر کی جانے والی تقاریر اور ان کی مختلف انداز میں کی جانے والی تفہیم نے پورے ملک میں خاصا ہیجان پیدا کیا۔
جب کہ حکومت اور عدلیہ کے درمیان تنائو کی کیفیت گزشتہ چار برس سے جاری ہے۔ پاکستان جیسے معاشرے میں، جہاں قبائلیت اور جاگیردارانہ فکری رجحانات کی جڑیں مضبوط ہوں، آئینی حدود اور اختیارات سے تجاوز عام سی بات ہوتی ہے۔ لہٰذا اس قسم کے تنائو اور تصادم کی کیفیت کا جنم لینا فطری بات ہے۔ یہی سبب ہے کہ ایسے معاشروں میں آئینی حدود کی تشریح اور تعین ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ پاکستان میں گزشتہ 65 برسوں سے چونکہ ایک ریاستی ادارہ تمام اختیارات کا حامل چلا آ رہا تھا، اس لیے ادارہ جاتی اختیارات میں توازن پیدا نہیں ہو سکا، جس کی وجہ سے آج پورا ملک ہیجانی کیفیت سے دوچار ہے۔
لیکن ان تمام خرابیوں اور نقائص کے باوجود دو عوامل ایسے ہیں، جو پاکستان کے مستقبل کے حوالے سے خاصے امید افزاء نظر آتے ہیں۔ اول یہ کہ پاکستانی عوام نے ہمیشہ امن و انصاف پر مبنی معاشرے کی تشکیل کی خواہش میں سیاسی عمل کو فروغ دینے کی کوشش کی۔ وہ ایک طرف تمام قومیتوں اور لسانی اکائیوں کے لیے مساوی حقوق اور روزگار کے حصول اور مہنگائی کے خاتمے کے لیے مضطرب نظر آتے ہیں، تو دوسری طرف آئین کی پاسداری، بااختیار عدلیہ، آزادانہ اور شفاف انتخابات کے انعقاد کے بھی خواہشمند ہیں۔ لہٰذا سیاسی عمل فوجی آمریتوں کے تسلسل اور اشرافیہ کی محلاتی سازشوں سمیت تمام رکاوٹوں کو عبور کرتا ہوا، آگے کی جانب بڑھا ہے۔ حالانکہ اسٹیبلشمنٹ نے سیاسی عمل کو نقصان پہنچانے کی خاطر مقبول سیاسی جماعتوں کی کردار کشی کر کے ان کا راستہ روکنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ یہی سبب ہے کہ پاکستان کی65 برس کی تاریخ جمہوری اداروں کی تشکیل، ترقی اور تنزلی کی ملی جلی تصویر پیش کرتی ہے۔
دوئم، اپنی تمام تر کمزوریوں اور کوتاہیوں کے باوجود پاکستانی سول سوسائٹی نے جمہوریت کے فروغ اور اداروں کے استحکام کے لیے روز اول سے ہی اہم کردار ادا کیا ہے۔1948میں بنگالی کو قومی زبان بنانے کی تحریک سے1953 کی طلبہ تحریک تک، ون یونٹ مخالف تحریک سے ایوب خان کی آمریت کے خلاف چلنے والی تحریک تک اور پھر ایم آر ڈی کی تحریک سے عدلیہ بحالی تحریک تک سول سوسائٹی عوام کو فکری طور پر موبلائز کرنے میں پیچھے نہیں رہی۔ اس پورے عمل میں ذرایع ابلاغ نے کلیدی کردار ادا کیا۔ صحافیوں نے جمہوریت اور جمہوری اداروں کے فروغ کی خاطر قید و بند اور جسمانی تشدد کے علاوہ اپنی جانوں کا نذرانہ بھی پیش کر کے آزادی اظہار کی تحریک کو مہمیز لگائی۔
لیکن موجودہ دور کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ بیسویں صدی کی آخری دو دہائیوں کے دوران گلوبلائزیشن کا مظہر طاقتور انداز میں سامنے آیا۔ اس کے دو رخ تھے۔ ایک ٹیلی کمیونیکیشن، انفارمیشن اور سیٹلائٹ ٹیکنالوجی کی ناقابل یقین ترقی، جس نے عام گھروں تک رسائی حاصل کر لی۔ دوسرے سرمایے کی آزادانہ گردش، جس نے کارپوریٹ سیکٹر کو اس قدر مضبوط بنا دیا کہ وہ ریاستی پالیسی سازی پر اثر انداز ہونے لگا۔ ان دونوں عوامل کے دبائو کے نتیجے میں حکومت پاکستان نجی شعبے کو ریڈیو اور ٹیلی ویژن نشریات شروع کرنے کی اجازت دینے پر مجبور ہوئی۔ دنیا بھر کی معلومات تک رسائی، ''ہر خبر پر نظر'' اور عالمی حالات کے تقابلی جائزے نے عام آدمی کے سیاسی اور سماجی شعور میں کئی گنا اضافہ کیا۔
اس شعور کا اندازہ 2007میں عدلیہ کی بحالی کی تحریک سے لگایا جا سکتا ہے، جب لوگ جوق درجوق چیف جسٹس کے جلوسوں میں شریک ہوئے اور اس تحریک کو کامیابی سے ہمکنار کیا۔ عدلیہ بحالی تحریک سول سوسائٹی اور میڈیا کی تحریک تھی، جس میں سیاسی جماعتیں بعد میں شریک ہوئیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ سیاسی جماعتیں اس وقت تک اس تحریک کے پوٹینشیل اور اس کے نتائج کے بارے میں واضح نہیں تھیں۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس تحریک نے پاکستان میں تمام شراکت داروں کو اپنی سابقہ روش تبدیل کرنے پر مجبور کیا ہے۔ پاکستان میں طاقت کے مراکز چونکہ ان قوتوں کے ہاتھوں میں رہے ہیں، جو حکمرانی کے اصول و ضوابط سے یا تو واقف نہیں تھے یا دانستہ ان سے صرف نظر کر رہے تھے۔ ان قوتوں نے اپنے مخصوص مفادات کی خاطر ملک میں ادارہ جاتی توازن پیدا کرنے کے بجائے عدم توازن کو ترجیح دی۔ یہی قوتیں آج بھی حکمرانی کے ڈھانچے میں تبدیلیوں کے خلاف مزاحمت کر رہی ہیں۔
اس پہلو پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ آزادی کے وقت پاکستان اور بھارت کو برطانوی حکومت سے انڈیا ایکٹ1935 کی شکل میں آئینی مسودہ، تعزیری اور دیوانی قوانین کا مکمل سیٹ اور وسیع البنیاد انتظامی ڈھانچہ ورثے میں ملا تھا۔ بھارت نے اس ورثے سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور سب سے پہلی ترجیح آئین سازی کو دی۔ اس کے بعد انگریزوں سے ملنے والے گورننس سسٹم میں مرحلہ وار تبدیلیاں کیں اور اسے آہستہ آہستہ ایک آزاد مملکت کی ضروریات سے ہم آہنگ کیا۔ بھارت میں 1960 کے عشرے میں عدلیہ ایک اہم ریاستی ستون کے طور پر ابھر کر سامنے آ چکی تھی۔ اسی دوران بھارتی الیکشن کمیشن بھی ایک آزاد اور خود مختار ادارے کے طور پر اپنی حیثیت تسلیم کرا چکا تھا۔
لیکن پاکستان میں ترجیحات کا تعین نہیں کیا گیا، بلکہ کئی برس تک آئین سازی سے گریز کی وجہ سے ملک کو ایڈہاک بنیادوں پر چلانے کی روایت عام ہوئی۔ اس صورتحال کے نتیجے میں نہ تو جمہوری ادارے پروان چڑھ پائے اور نہ ہی اداروں کی آئینی حدود کا تعین ہو سکا۔ پاکستان میں اس رجحان کے دو نتائج نکلے۔ اول عدلیہ انتظامیہ کا ذیلی ادارہ بن کر رہ گئی اور وہ آزادانہ فیصلہ سازی سے گریز پر مجبور ہوئی۔ دوئم مسلسل فوجی آمریتوں نے طاقت کا توازن بگاڑ دیا اور فوج ریاستی منصوبہ سازی پر حاوی آ گئی۔ جس کی وجہ سے حکمرانوں اور بعض ریاستی اداروں میں احتساب اور جوابدہی سے ماوراء ہونے کا تصور پیدا ہوا۔ یہ رجحان صرف فوج کے اعلیٰ افسران تک ہی محدود نہیں رہا، بلکہ سول بیوروکریسی اور سیاسی قیادتیں بھی اسی زعم میں مبتلا ہو گئیں۔ اب اکثر مواقعے پر عدلیہ بھی اسی کا شکار نظر آتی ہے۔ جس کی وجہ سے ادارہ جاتی حیثیت اور اختیارات کے تعین میں دشواریاں پیدا ہو رہی ہیں۔
سب سے پہلے تو یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ ملک میں صرف آئین کو بالادستی حاصل ہے۔ پارلیمان کا اصل کا قانون سازی اور حکومت سازی کرنا ہے۔ عدلیہ کی بنیادی ذمے داری آئین کی حدود کے اندر رہتے ہوئے انصاف کی فراہمی ہے۔ عدلیہ از خود کسی قانون کی تشریح کرنے کا اختیار نہیں رکھتی، بلکہ اسے صرف ان قوانین کی تشریح کرنا ہوتی ہے، جو کسی سبب نزاعی صورت اختیار کر رہے ہوں۔ انتظامیہ گو کہ پارلیمان کو جوابدہ ہوتی ہے، لیکن اپنے کسی عمل کے نتیجے میں عدالت کا سامنا یا اس سے رجوع کرنے کی پابند ہوتی ہے۔ انتظامیہ عدالتی فیصلوں کو تسلیم کرنے اور ان پر عملدرآمد کی بھی پابند ہوتی ہے۔ جمہوری معاشرے میں فوج ریاستی ادارہ نہیں بلکہ دیگر ریاستی شعبہ جات اور محکموں کی طرح ایک اہم شعبہ ہے۔ اسے بھی دیگر انتظامی شعبہ جات کی طرح احتساب اور جوابدہی کے عمل سے گزرنا ہوتا ہے۔ جس طرح ہر محکمے کے اہلکاروں کو اپنے کسی عمل کی وجہ سے اندرونی احتساب کے عمل سے گذرنے کے علاوہ عدالتی کارروائی کا سامنا کرنا ہوتا ہے، اسی طرح فوج کے اعلیٰ سے ادنیٰ اہلکاروں کو اپنے اقدامات کے لیے اندرونی احتساب کے علاوہ عدالتی کاروائی کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے۔
پاکستان اس وقت آئینی تشریحات اور ادارہ جاتی اختیارات میں توازن لائے جانے کے عمل سے گزر رہا ہے۔ 65 برس سے اقتدار و اختیار میں جو عدم توازن چلا آ رہا تھا، چونکہ اب اس کے ٹوٹنے کا وقت آ پہنچا ہے، اس لیے پورا ملک فی الوقت ایک ہیجانی کیفیت سے دوچار ہے۔ یہ صورتحال جلد تبدیل ہو سکتی ہے، بشرطیکہ سیاسی جماعتیں، مقتدر اشرافیہ اور دیگر شراکت دار صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے معاملات و مسائل کو مزید الجھانے سے گریز کا راستہ اختیار کریں۔ ملکوں اور قوموں پر ایسے نازک لمحات آتے رہتے ہیں، لیکن قیادتوں کی بصیرت اور عزم انھیں اس دلدل سے نکالنے میں مدد دیتے ہیں۔ پاکستان میں ایک بار تمام اداروں کی حدود اور اختیارات کا تعین ہو جانے کے بعد معاملات از خود بہتری کی طرف بڑھ سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں ذرایع ابلاغ اور سول سوسائٹی کو ایک بار پھر اپنا کردار انتہائی سنجیدگی اور بردباری سے ادا کرنا ہو گا۔ ہمیں یہ بھی ذہن میں رکھنا ہو گا کہ اس ملک کا مستقبل اور قومی سلامتی صرف اور صرف جمہوری نظم حکمرانی سے مشروط ہے۔ اس لیے جمہوریت کے سوا ہر قسم کا ایڈونچر اس ملک کا شیرازہ بکھیر دے گا۔
جب کہ حکومت اور عدلیہ کے درمیان تنائو کی کیفیت گزشتہ چار برس سے جاری ہے۔ پاکستان جیسے معاشرے میں، جہاں قبائلیت اور جاگیردارانہ فکری رجحانات کی جڑیں مضبوط ہوں، آئینی حدود اور اختیارات سے تجاوز عام سی بات ہوتی ہے۔ لہٰذا اس قسم کے تنائو اور تصادم کی کیفیت کا جنم لینا فطری بات ہے۔ یہی سبب ہے کہ ایسے معاشروں میں آئینی حدود کی تشریح اور تعین ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ پاکستان میں گزشتہ 65 برسوں سے چونکہ ایک ریاستی ادارہ تمام اختیارات کا حامل چلا آ رہا تھا، اس لیے ادارہ جاتی اختیارات میں توازن پیدا نہیں ہو سکا، جس کی وجہ سے آج پورا ملک ہیجانی کیفیت سے دوچار ہے۔
لیکن ان تمام خرابیوں اور نقائص کے باوجود دو عوامل ایسے ہیں، جو پاکستان کے مستقبل کے حوالے سے خاصے امید افزاء نظر آتے ہیں۔ اول یہ کہ پاکستانی عوام نے ہمیشہ امن و انصاف پر مبنی معاشرے کی تشکیل کی خواہش میں سیاسی عمل کو فروغ دینے کی کوشش کی۔ وہ ایک طرف تمام قومیتوں اور لسانی اکائیوں کے لیے مساوی حقوق اور روزگار کے حصول اور مہنگائی کے خاتمے کے لیے مضطرب نظر آتے ہیں، تو دوسری طرف آئین کی پاسداری، بااختیار عدلیہ، آزادانہ اور شفاف انتخابات کے انعقاد کے بھی خواہشمند ہیں۔ لہٰذا سیاسی عمل فوجی آمریتوں کے تسلسل اور اشرافیہ کی محلاتی سازشوں سمیت تمام رکاوٹوں کو عبور کرتا ہوا، آگے کی جانب بڑھا ہے۔ حالانکہ اسٹیبلشمنٹ نے سیاسی عمل کو نقصان پہنچانے کی خاطر مقبول سیاسی جماعتوں کی کردار کشی کر کے ان کا راستہ روکنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ یہی سبب ہے کہ پاکستان کی65 برس کی تاریخ جمہوری اداروں کی تشکیل، ترقی اور تنزلی کی ملی جلی تصویر پیش کرتی ہے۔
دوئم، اپنی تمام تر کمزوریوں اور کوتاہیوں کے باوجود پاکستانی سول سوسائٹی نے جمہوریت کے فروغ اور اداروں کے استحکام کے لیے روز اول سے ہی اہم کردار ادا کیا ہے۔1948میں بنگالی کو قومی زبان بنانے کی تحریک سے1953 کی طلبہ تحریک تک، ون یونٹ مخالف تحریک سے ایوب خان کی آمریت کے خلاف چلنے والی تحریک تک اور پھر ایم آر ڈی کی تحریک سے عدلیہ بحالی تحریک تک سول سوسائٹی عوام کو فکری طور پر موبلائز کرنے میں پیچھے نہیں رہی۔ اس پورے عمل میں ذرایع ابلاغ نے کلیدی کردار ادا کیا۔ صحافیوں نے جمہوریت اور جمہوری اداروں کے فروغ کی خاطر قید و بند اور جسمانی تشدد کے علاوہ اپنی جانوں کا نذرانہ بھی پیش کر کے آزادی اظہار کی تحریک کو مہمیز لگائی۔
لیکن موجودہ دور کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ بیسویں صدی کی آخری دو دہائیوں کے دوران گلوبلائزیشن کا مظہر طاقتور انداز میں سامنے آیا۔ اس کے دو رخ تھے۔ ایک ٹیلی کمیونیکیشن، انفارمیشن اور سیٹلائٹ ٹیکنالوجی کی ناقابل یقین ترقی، جس نے عام گھروں تک رسائی حاصل کر لی۔ دوسرے سرمایے کی آزادانہ گردش، جس نے کارپوریٹ سیکٹر کو اس قدر مضبوط بنا دیا کہ وہ ریاستی پالیسی سازی پر اثر انداز ہونے لگا۔ ان دونوں عوامل کے دبائو کے نتیجے میں حکومت پاکستان نجی شعبے کو ریڈیو اور ٹیلی ویژن نشریات شروع کرنے کی اجازت دینے پر مجبور ہوئی۔ دنیا بھر کی معلومات تک رسائی، ''ہر خبر پر نظر'' اور عالمی حالات کے تقابلی جائزے نے عام آدمی کے سیاسی اور سماجی شعور میں کئی گنا اضافہ کیا۔
اس شعور کا اندازہ 2007میں عدلیہ کی بحالی کی تحریک سے لگایا جا سکتا ہے، جب لوگ جوق درجوق چیف جسٹس کے جلوسوں میں شریک ہوئے اور اس تحریک کو کامیابی سے ہمکنار کیا۔ عدلیہ بحالی تحریک سول سوسائٹی اور میڈیا کی تحریک تھی، جس میں سیاسی جماعتیں بعد میں شریک ہوئیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ سیاسی جماعتیں اس وقت تک اس تحریک کے پوٹینشیل اور اس کے نتائج کے بارے میں واضح نہیں تھیں۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس تحریک نے پاکستان میں تمام شراکت داروں کو اپنی سابقہ روش تبدیل کرنے پر مجبور کیا ہے۔ پاکستان میں طاقت کے مراکز چونکہ ان قوتوں کے ہاتھوں میں رہے ہیں، جو حکمرانی کے اصول و ضوابط سے یا تو واقف نہیں تھے یا دانستہ ان سے صرف نظر کر رہے تھے۔ ان قوتوں نے اپنے مخصوص مفادات کی خاطر ملک میں ادارہ جاتی توازن پیدا کرنے کے بجائے عدم توازن کو ترجیح دی۔ یہی قوتیں آج بھی حکمرانی کے ڈھانچے میں تبدیلیوں کے خلاف مزاحمت کر رہی ہیں۔
اس پہلو پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ آزادی کے وقت پاکستان اور بھارت کو برطانوی حکومت سے انڈیا ایکٹ1935 کی شکل میں آئینی مسودہ، تعزیری اور دیوانی قوانین کا مکمل سیٹ اور وسیع البنیاد انتظامی ڈھانچہ ورثے میں ملا تھا۔ بھارت نے اس ورثے سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور سب سے پہلی ترجیح آئین سازی کو دی۔ اس کے بعد انگریزوں سے ملنے والے گورننس سسٹم میں مرحلہ وار تبدیلیاں کیں اور اسے آہستہ آہستہ ایک آزاد مملکت کی ضروریات سے ہم آہنگ کیا۔ بھارت میں 1960 کے عشرے میں عدلیہ ایک اہم ریاستی ستون کے طور پر ابھر کر سامنے آ چکی تھی۔ اسی دوران بھارتی الیکشن کمیشن بھی ایک آزاد اور خود مختار ادارے کے طور پر اپنی حیثیت تسلیم کرا چکا تھا۔
لیکن پاکستان میں ترجیحات کا تعین نہیں کیا گیا، بلکہ کئی برس تک آئین سازی سے گریز کی وجہ سے ملک کو ایڈہاک بنیادوں پر چلانے کی روایت عام ہوئی۔ اس صورتحال کے نتیجے میں نہ تو جمہوری ادارے پروان چڑھ پائے اور نہ ہی اداروں کی آئینی حدود کا تعین ہو سکا۔ پاکستان میں اس رجحان کے دو نتائج نکلے۔ اول عدلیہ انتظامیہ کا ذیلی ادارہ بن کر رہ گئی اور وہ آزادانہ فیصلہ سازی سے گریز پر مجبور ہوئی۔ دوئم مسلسل فوجی آمریتوں نے طاقت کا توازن بگاڑ دیا اور فوج ریاستی منصوبہ سازی پر حاوی آ گئی۔ جس کی وجہ سے حکمرانوں اور بعض ریاستی اداروں میں احتساب اور جوابدہی سے ماوراء ہونے کا تصور پیدا ہوا۔ یہ رجحان صرف فوج کے اعلیٰ افسران تک ہی محدود نہیں رہا، بلکہ سول بیوروکریسی اور سیاسی قیادتیں بھی اسی زعم میں مبتلا ہو گئیں۔ اب اکثر مواقعے پر عدلیہ بھی اسی کا شکار نظر آتی ہے۔ جس کی وجہ سے ادارہ جاتی حیثیت اور اختیارات کے تعین میں دشواریاں پیدا ہو رہی ہیں۔
سب سے پہلے تو یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ ملک میں صرف آئین کو بالادستی حاصل ہے۔ پارلیمان کا اصل کا قانون سازی اور حکومت سازی کرنا ہے۔ عدلیہ کی بنیادی ذمے داری آئین کی حدود کے اندر رہتے ہوئے انصاف کی فراہمی ہے۔ عدلیہ از خود کسی قانون کی تشریح کرنے کا اختیار نہیں رکھتی، بلکہ اسے صرف ان قوانین کی تشریح کرنا ہوتی ہے، جو کسی سبب نزاعی صورت اختیار کر رہے ہوں۔ انتظامیہ گو کہ پارلیمان کو جوابدہ ہوتی ہے، لیکن اپنے کسی عمل کے نتیجے میں عدالت کا سامنا یا اس سے رجوع کرنے کی پابند ہوتی ہے۔ انتظامیہ عدالتی فیصلوں کو تسلیم کرنے اور ان پر عملدرآمد کی بھی پابند ہوتی ہے۔ جمہوری معاشرے میں فوج ریاستی ادارہ نہیں بلکہ دیگر ریاستی شعبہ جات اور محکموں کی طرح ایک اہم شعبہ ہے۔ اسے بھی دیگر انتظامی شعبہ جات کی طرح احتساب اور جوابدہی کے عمل سے گزرنا ہوتا ہے۔ جس طرح ہر محکمے کے اہلکاروں کو اپنے کسی عمل کی وجہ سے اندرونی احتساب کے عمل سے گذرنے کے علاوہ عدالتی کارروائی کا سامنا کرنا ہوتا ہے، اسی طرح فوج کے اعلیٰ سے ادنیٰ اہلکاروں کو اپنے اقدامات کے لیے اندرونی احتساب کے علاوہ عدالتی کاروائی کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے۔
پاکستان اس وقت آئینی تشریحات اور ادارہ جاتی اختیارات میں توازن لائے جانے کے عمل سے گزر رہا ہے۔ 65 برس سے اقتدار و اختیار میں جو عدم توازن چلا آ رہا تھا، چونکہ اب اس کے ٹوٹنے کا وقت آ پہنچا ہے، اس لیے پورا ملک فی الوقت ایک ہیجانی کیفیت سے دوچار ہے۔ یہ صورتحال جلد تبدیل ہو سکتی ہے، بشرطیکہ سیاسی جماعتیں، مقتدر اشرافیہ اور دیگر شراکت دار صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے معاملات و مسائل کو مزید الجھانے سے گریز کا راستہ اختیار کریں۔ ملکوں اور قوموں پر ایسے نازک لمحات آتے رہتے ہیں، لیکن قیادتوں کی بصیرت اور عزم انھیں اس دلدل سے نکالنے میں مدد دیتے ہیں۔ پاکستان میں ایک بار تمام اداروں کی حدود اور اختیارات کا تعین ہو جانے کے بعد معاملات از خود بہتری کی طرف بڑھ سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں ذرایع ابلاغ اور سول سوسائٹی کو ایک بار پھر اپنا کردار انتہائی سنجیدگی اور بردباری سے ادا کرنا ہو گا۔ ہمیں یہ بھی ذہن میں رکھنا ہو گا کہ اس ملک کا مستقبل اور قومی سلامتی صرف اور صرف جمہوری نظم حکمرانی سے مشروط ہے۔ اس لیے جمہوریت کے سوا ہر قسم کا ایڈونچر اس ملک کا شیرازہ بکھیر دے گا۔