جمہوریت ہی کامیاب رہے گی
کسی بھی ’’فرد یا ادارے‘‘ کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ ملکی مفاد کا ’’حتمی تعین‘‘ کرسکے۔
سپریم کورٹ نے اصغر خان کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا ہے جس میں قرار دیا گیا ہے کہ سابق آرمی چیف مرزا اسلم بیگ اور ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسد درانی سیاستدانوں میں رقوم تقسیم کرکے فوج کی بدنامی کا باعث بنے۔
رجسٹرار سپریم کورٹ نے پریس کانفرنس میں تفصیلی فیصلہ جاری کرتے ہوئے ایئرمارشل (ر) اصغر خان کہ اس دعوے کو درست قرار دیا کہ 1990 کے الیکشن میں دھاندلی ہوئی اور پیپلزپارٹی کو ہرانے کے لیے اسلامی جمہوری اتحاد میں شامل سیاسی رہنمائوں اور دیگر افراد میں رقوم تقسیم کی گئیں۔ تقسیم کی گئی رقم منافع سمیت وصول کرکے قومی خزانے میں جمع کرائی جائے۔ اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے آئین کی خلاف ورزی کی اور دھاندلی کے ذریعے سیاسی عمل کو آلودہ کیا۔ تاہم اس عمل میں فوج کا بطور ادارہ کوئی کردار نہیں تھا۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پیسے لینے اور دینے کا معاملہ تسلیم شدہ حقیقت ہے۔
بعض حلقوں نے یہ تاثر دیا کہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے نے فوج اور عدلیہ کے درمیان تنائو کی صورت پیدا کردی ہے۔ان حلقوں نے یہ تاثر آرمی چیف کے اس خطاب سے لیا جو انھوں نے جی ایچ کیو میں اعلیٰ فوجی افسران سے کیا جس میں انھوں نے کہا کہ بحیثیت قوم ہم انتہائی نازک دور سے گزر رہے ہیں۔ ''ہم سب اپنی غلطیوں کا ناقدانہ جائزہ لے رہے ہیں اور اس کوشش میں ہیں کہ مستقبل کے لیے ایک صحیح راستے کا انتخاب کرسکیں۔'' مسلسل بحث و مباحثہ اس عمل کا فطری حصہ ہے لیکن کسی بھی ''فرد یا ادارے'' کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ ملکی مفاد کا ''حتمی تعین'' کرسکے۔ یہ صرف ''اتفاق رائے'' سے ہی ممکن ہے اور ''سب پاکستانیوں'' کو رائے دینے کا حق حاصل ہے۔ آئین میں اس کا طریقہ کار واضح ہے۔
آرمی چیف نے کہا کہ ہمارے کندھوں پر ایک انتہائی اہم ذمے داری ہے۔ اداروں کو کمزور کرنا یا آئین سے تجاوز کرنا ہمیں صیح راستے سے ہٹا دے گا۔ یہ ہم سب کی ذمے داری ہے کہ ہم صحیح بنیادیں استوار کریں اور ''دانستہ'' کوئی ایسا کام نہ کریں جو شاید ''بظاہراً'' تو صحیح لگتا ہو لیکن ''مستقبل'' میں اس کے ''منفی نتائج'' نکلنے کے امکانات زیادہ ہوں۔ عوام کی حمایت مسلح افراد کی طاقت کا منبع ہے۔اس کے بغیر قومی سلامتی کا تصور بے معنی ہے۔ اس لیے کوئی بھی دانستہ یا نا دانستہ کوشش جو مسلح افواج اور عوام کے درمیان دراڑ ڈالنے کا باعث بنے وسیع تر قومی مفاد کے خلاف ہے۔ ساتھ ہی ساتھ افواج کی قیادت اور سپاہ کے مابین ''اعتماد کا رشتہ'' بھی انتہائی اہم ہے کوئی بھی کوشش جو اس رشتے کو تقسیم کرنے کا باعث بنے برداشت نہیں کی جاسکتی۔
ایسا صرف پاکستان کا ہی نہیں بلکہ تمام دنیا کا دستور ہے۔ ماضی میں ''ہم سب'' نے غلطیاں کیں ہیں۔ بہتر ہوگا کہ ہم فیصلے قانون پر چھوڑ دیں۔ چونکہ ہم سب قانون کی عملداری چاہتے ہیں۔ اس لیے ہمیں یہ بنیادی اصول نہیں بھولنا چاہیے کہ ملزم صرف اسی صورت ہی مجرم قرار پاتا ہے جب جرم ثابت ہوجائے۔ ہمیں یہ حق حاصل نہیں کہ ہم اپنے طور پر کسی کو بھی چاہے وہ سویلین ہو یا فوجی مجرم ٹھہرادیں اور پھر اس کے ذریعے پورے ادارے کو مورد الزام ٹھہرانا شروع کردیں۔ آج پاکستان میں سب ادارے کچھ کرنے کا عزم رکھتے ہیں لیکن اس کوشش میں تیزی کے کچھ اچھے اور کچھ منفی نتائج بھی مرتب ہوسکتے ہیں۔ کسی شخص کو مجرم قرار دے کر ادارے کو الزام دینا درست نہیں۔ مسلح افواج اور عوام میں دراڑیں ڈالنے کی کوشش وسیع تر قومی مفاد کے منافی ہے۔
آرمی چیف کے بیان کا ہمیں پرجوش خیر مقدم کرنا چاہیے جب وہ فرماتے ہیں کہ کوئی فرد یا ادارہ ''تنہا'' قومی مفاد کا تعین نہیں کرسکتا۔ اس سے پہلے اکیلی فوج ہی ماضی میں قومی مفاد کا تعین کیا کرتی تھی۔ اب فوج قومی مفاد پر اپنی اجارہ داری سے دستبردار ہوتے ہوئے عدلیہ سمیت تمام قومی اداروں کو شریک کرنا چاہتی ہے تو ہمیں اس موقعے کا کھلے دل سے خیر مقدم کرنا چاہیے جس کے لیے ہمیں 65 سال تک انتظار کرنا پڑا۔ تاریخ کا یہ انوکھا لمحہ کیسے آیا اور کس قدر خاموشی اور تیزی سے آیا۔ ہمیں اپنے خطے اور عالمی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے ''سمجھنا'' ہے، اگر ہم نے سمجھنے میں ''ذرا'' سی بھی غلطی کی تو بقول آرمی چیف ہماری یہ ''تیزی'' ہمیں منہ کے بل گرادے گی۔
ہماری فوج کی سوچ میں موجودہ تبدیلی کی جڑیں بھی ماضی میں پنہاں ہیں جس کا آغاز 1985 سے ہوتا ہے جب ضیاء الحق آمریت کی جگہ پاکستان میں کنٹرولڈ ڈیموکریسی جونیجو حکومت کی شکل میں متعارف کرائی گئی ۔ یہ فلپائن جنوبی کوریا اور ترکی کی کنٹرولڈ ڈیموکریسی کا تسلسل تھا جہاں آمریت سے محدود جمہوریت کی طرف جانے کا تجربہ ہورہا تھا۔ 80 کی دہائی میں پاکستان میں نہ صرف اس وقت محدود جمہوریت کا تجربہ ہوا بلکہ آگے بڑھا۔مشرف کے تلخ تجربے کے بعد میاں نواز شریف نے سول حکومت کو مکمل اقتدار اعلیٰ کی منتقلی کا مطالبہ شروع کردیا۔ اقتدار اعلیٰ کی منتقلی کا مطالبہ پیپلزپارٹی بھی کرتی رہی ہے۔یوں دونوں سیاسی قوتوں کا موقف ایک ہوگیا۔
سمجھنے اور ذہن نشین کرنے کی بات یہ ہے کہ جمہوریت راتوں رات طاقتور نہیں ہوئی بلکہ وہ خطے اور عالمی حالات کے تقاضوں کے نتیجے میں طاقت ور ہوئی ہے۔ اگر کوئی اس موقعے کو سنہری موقع سمجھ کر ''ایڈونچر'' کرے گا تو وہ کامیاب نہیں ہو گا۔ جنرل کیانی نے بحیثیت آرمی چیف عدلیہ سمیت دوسرے تمام اداروں کو اہم قومی مفاد میں شریک کرنے کا جو عندیہ دیا ہے، وہ ایک ''تاریخی لمحہ اور پیشرفت ہے۔اس کے مستقبل میں جمہوریت پر اچھے اثرات مرتب ہوں گے۔اب یہ طے ہے کہ اس ملک میں جمہوریت ہی چلے گی۔ کالم کی گنجائش ختم ہوگئی ہے اس لیے باقی آیندہ۔
...جیسا کہ میں نے اس سال جون میں پیش گوئی کی تھی کہ اس سال اگست سے آرمی چیف کے لیے مشکل اور پریشان کن وقت کا آغاز ہوجائے گا۔ ویسا ہی ہوا۔ اب ان مشکل حالات میں اس مہینے کے تیسرے اور چوتھے ہفتے سے مزید اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔
...سپریم کورٹ کے اصغر خان کیس کے فیصلے پر عمل درآمد کے حوالے سے نومبر کا آخر اہم وقت ہے۔
سیل فون:0346-4527997
رجسٹرار سپریم کورٹ نے پریس کانفرنس میں تفصیلی فیصلہ جاری کرتے ہوئے ایئرمارشل (ر) اصغر خان کہ اس دعوے کو درست قرار دیا کہ 1990 کے الیکشن میں دھاندلی ہوئی اور پیپلزپارٹی کو ہرانے کے لیے اسلامی جمہوری اتحاد میں شامل سیاسی رہنمائوں اور دیگر افراد میں رقوم تقسیم کی گئیں۔ تقسیم کی گئی رقم منافع سمیت وصول کرکے قومی خزانے میں جمع کرائی جائے۔ اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے آئین کی خلاف ورزی کی اور دھاندلی کے ذریعے سیاسی عمل کو آلودہ کیا۔ تاہم اس عمل میں فوج کا بطور ادارہ کوئی کردار نہیں تھا۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پیسے لینے اور دینے کا معاملہ تسلیم شدہ حقیقت ہے۔
بعض حلقوں نے یہ تاثر دیا کہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے نے فوج اور عدلیہ کے درمیان تنائو کی صورت پیدا کردی ہے۔ان حلقوں نے یہ تاثر آرمی چیف کے اس خطاب سے لیا جو انھوں نے جی ایچ کیو میں اعلیٰ فوجی افسران سے کیا جس میں انھوں نے کہا کہ بحیثیت قوم ہم انتہائی نازک دور سے گزر رہے ہیں۔ ''ہم سب اپنی غلطیوں کا ناقدانہ جائزہ لے رہے ہیں اور اس کوشش میں ہیں کہ مستقبل کے لیے ایک صحیح راستے کا انتخاب کرسکیں۔'' مسلسل بحث و مباحثہ اس عمل کا فطری حصہ ہے لیکن کسی بھی ''فرد یا ادارے'' کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ ملکی مفاد کا ''حتمی تعین'' کرسکے۔ یہ صرف ''اتفاق رائے'' سے ہی ممکن ہے اور ''سب پاکستانیوں'' کو رائے دینے کا حق حاصل ہے۔ آئین میں اس کا طریقہ کار واضح ہے۔
آرمی چیف نے کہا کہ ہمارے کندھوں پر ایک انتہائی اہم ذمے داری ہے۔ اداروں کو کمزور کرنا یا آئین سے تجاوز کرنا ہمیں صیح راستے سے ہٹا دے گا۔ یہ ہم سب کی ذمے داری ہے کہ ہم صحیح بنیادیں استوار کریں اور ''دانستہ'' کوئی ایسا کام نہ کریں جو شاید ''بظاہراً'' تو صحیح لگتا ہو لیکن ''مستقبل'' میں اس کے ''منفی نتائج'' نکلنے کے امکانات زیادہ ہوں۔ عوام کی حمایت مسلح افراد کی طاقت کا منبع ہے۔اس کے بغیر قومی سلامتی کا تصور بے معنی ہے۔ اس لیے کوئی بھی دانستہ یا نا دانستہ کوشش جو مسلح افواج اور عوام کے درمیان دراڑ ڈالنے کا باعث بنے وسیع تر قومی مفاد کے خلاف ہے۔ ساتھ ہی ساتھ افواج کی قیادت اور سپاہ کے مابین ''اعتماد کا رشتہ'' بھی انتہائی اہم ہے کوئی بھی کوشش جو اس رشتے کو تقسیم کرنے کا باعث بنے برداشت نہیں کی جاسکتی۔
ایسا صرف پاکستان کا ہی نہیں بلکہ تمام دنیا کا دستور ہے۔ ماضی میں ''ہم سب'' نے غلطیاں کیں ہیں۔ بہتر ہوگا کہ ہم فیصلے قانون پر چھوڑ دیں۔ چونکہ ہم سب قانون کی عملداری چاہتے ہیں۔ اس لیے ہمیں یہ بنیادی اصول نہیں بھولنا چاہیے کہ ملزم صرف اسی صورت ہی مجرم قرار پاتا ہے جب جرم ثابت ہوجائے۔ ہمیں یہ حق حاصل نہیں کہ ہم اپنے طور پر کسی کو بھی چاہے وہ سویلین ہو یا فوجی مجرم ٹھہرادیں اور پھر اس کے ذریعے پورے ادارے کو مورد الزام ٹھہرانا شروع کردیں۔ آج پاکستان میں سب ادارے کچھ کرنے کا عزم رکھتے ہیں لیکن اس کوشش میں تیزی کے کچھ اچھے اور کچھ منفی نتائج بھی مرتب ہوسکتے ہیں۔ کسی شخص کو مجرم قرار دے کر ادارے کو الزام دینا درست نہیں۔ مسلح افواج اور عوام میں دراڑیں ڈالنے کی کوشش وسیع تر قومی مفاد کے منافی ہے۔
آرمی چیف کے بیان کا ہمیں پرجوش خیر مقدم کرنا چاہیے جب وہ فرماتے ہیں کہ کوئی فرد یا ادارہ ''تنہا'' قومی مفاد کا تعین نہیں کرسکتا۔ اس سے پہلے اکیلی فوج ہی ماضی میں قومی مفاد کا تعین کیا کرتی تھی۔ اب فوج قومی مفاد پر اپنی اجارہ داری سے دستبردار ہوتے ہوئے عدلیہ سمیت تمام قومی اداروں کو شریک کرنا چاہتی ہے تو ہمیں اس موقعے کا کھلے دل سے خیر مقدم کرنا چاہیے جس کے لیے ہمیں 65 سال تک انتظار کرنا پڑا۔ تاریخ کا یہ انوکھا لمحہ کیسے آیا اور کس قدر خاموشی اور تیزی سے آیا۔ ہمیں اپنے خطے اور عالمی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے ''سمجھنا'' ہے، اگر ہم نے سمجھنے میں ''ذرا'' سی بھی غلطی کی تو بقول آرمی چیف ہماری یہ ''تیزی'' ہمیں منہ کے بل گرادے گی۔
ہماری فوج کی سوچ میں موجودہ تبدیلی کی جڑیں بھی ماضی میں پنہاں ہیں جس کا آغاز 1985 سے ہوتا ہے جب ضیاء الحق آمریت کی جگہ پاکستان میں کنٹرولڈ ڈیموکریسی جونیجو حکومت کی شکل میں متعارف کرائی گئی ۔ یہ فلپائن جنوبی کوریا اور ترکی کی کنٹرولڈ ڈیموکریسی کا تسلسل تھا جہاں آمریت سے محدود جمہوریت کی طرف جانے کا تجربہ ہورہا تھا۔ 80 کی دہائی میں پاکستان میں نہ صرف اس وقت محدود جمہوریت کا تجربہ ہوا بلکہ آگے بڑھا۔مشرف کے تلخ تجربے کے بعد میاں نواز شریف نے سول حکومت کو مکمل اقتدار اعلیٰ کی منتقلی کا مطالبہ شروع کردیا۔ اقتدار اعلیٰ کی منتقلی کا مطالبہ پیپلزپارٹی بھی کرتی رہی ہے۔یوں دونوں سیاسی قوتوں کا موقف ایک ہوگیا۔
سمجھنے اور ذہن نشین کرنے کی بات یہ ہے کہ جمہوریت راتوں رات طاقتور نہیں ہوئی بلکہ وہ خطے اور عالمی حالات کے تقاضوں کے نتیجے میں طاقت ور ہوئی ہے۔ اگر کوئی اس موقعے کو سنہری موقع سمجھ کر ''ایڈونچر'' کرے گا تو وہ کامیاب نہیں ہو گا۔ جنرل کیانی نے بحیثیت آرمی چیف عدلیہ سمیت دوسرے تمام اداروں کو اہم قومی مفاد میں شریک کرنے کا جو عندیہ دیا ہے، وہ ایک ''تاریخی لمحہ اور پیشرفت ہے۔اس کے مستقبل میں جمہوریت پر اچھے اثرات مرتب ہوں گے۔اب یہ طے ہے کہ اس ملک میں جمہوریت ہی چلے گی۔ کالم کی گنجائش ختم ہوگئی ہے اس لیے باقی آیندہ۔
...جیسا کہ میں نے اس سال جون میں پیش گوئی کی تھی کہ اس سال اگست سے آرمی چیف کے لیے مشکل اور پریشان کن وقت کا آغاز ہوجائے گا۔ ویسا ہی ہوا۔ اب ان مشکل حالات میں اس مہینے کے تیسرے اور چوتھے ہفتے سے مزید اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔
...سپریم کورٹ کے اصغر خان کیس کے فیصلے پر عمل درآمد کے حوالے سے نومبر کا آخر اہم وقت ہے۔
سیل فون:0346-4527997